محبت کو بھُلانا چاہیے تھا۔ عاطف سعید

شیزان

لائبریرین
محبت کو بُھلانا چاہیے تھا​
مجھے جی کر دکھانا چاہیے تھا​
مجھے تو ساتھ بھی اُس کا بہت تھا​
اُسے سارا زمانہ چاہیے تھا​
تم اُس کے بن ادُھورے ہو گئے ہو​
تمہیں اُس کو بتانا چاہیے تھا​
چراغاں ہو رہا تھا شہر بھر میں​
مجھے بھی دل جلانا چاہیے تھا​
سُنو یہ خامشی اچھی نہیں تھی​
ہمیں محشر اُٹھانا چاہیے تھا​
محبت کا تقاضا تھا اگر یہ​
مجھے ہر غم چھُپانا چاہیے تھا​
یہ ایسے ہار کیوں مانی تھی تم نے؟​
مقدر آزمانا چاہیے تھا​
یہ آنسُو ہیں علامت بزدلی کی​
دُکھوں میں مُسکرانا چاہیے تھا​
عاطف سعید
 

طارق شاہ

محفلین
شیزان صاحب​
غزل کی شراکت کے لئے تشکّر​
بہت خوش رہیں​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
سُنو یہ خامشی اچھی نہیں تھی
ہمیں محشر اُٹھانا چاہیے تھا
کچھ یوں درست ہوتا کہ:​
سُنو وہ خامشی اچھی نہیں تھی​
تمھیں محشر اُٹھانا چاہیے تھا​
یا​
ہماری خامشی اچھی نہیں تھی​
ہمیں محشر اُٹھانا چاہیے تھا​
 
Top