یاس محبت نے ایمان کھویا تو کیا

عندلیب

محفلین
محبت نے ایمان کھویا تو کیا
پشیمانیوں میں ڈبویا تو کیا

حرارت ہے دل کی ابھی تک وہی
زمانے نے اتنا سمویا تو کیا

یہاں کیا دھرا ہے جو ہاتھ آئے گا
کلیجے میں پنجہ گڑویا تو کیا

سرِ بزم پیاسے ہی مرجائیے
کہ تلچھٹ سے دامن بھگویا تو کیا

تہہِ دل سے ہو کچھ تو اک بات ہے
ہنسا میں تو کیا اور رویا تو کیا

نہا لیتے گنگا، بکھیڑا تھا پاک !
گناہوں کو زمزم سے دھویا تو کیا

تمہیں بھی مزہ اس کا چکھنا پڑا
یگانہ کو ہاتھوں سے کھویا تو کیا
 

طارق شاہ

محفلین
محبت نے ایمان کھویا تو کیا
بہت خوب انتخاب، شکریہ شیئر کرنے پر :)
کچھ اشعار رہ گئے تھے سو میں نے مکمل لکھ دی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزلِ
یاس یگانہ

محبّت نے ایمان کھویا تو کیا
پشیمانیوں میں ڈبویا تو کیا

حرارت ہے دل کی ابھی تک وہی
زمانے نے اِتنا سمویا تو کیا

بنی ہے وہی موج، تختِ رَواں
مجھے ناخدا نے ڈبویا تو کیا

یہاں کیا دھرا ہے جو ہاتھ آئے گا
کلیجے میں پنجہ گڑویا تو کیا

امانت میں تیری خیانت نہ کی
مگر مفت کا بوجھ ڈھویا تو کیا

نہ میں وہ رہا اور نہ تُو وہ رہا
تجھے ہاتھ سے اب جو کھویا تو کیا

سرِ بزم پیاسے ہی مرجائیے
کہ تلچھٹ سے دامن بھگویا تو کیا

تہِ دل سے ہو کچھ تو اِک بات ہے
ہنسا میں تو کیا، اور رویا تو کیا

کہاں اُڑ گئی وہ جوانی کی نیند
اُچٹتی سی اِک نیند سویا تو کیا

پَٹم کیوں نہ ہو جائے مانگے کی آنکھ ؟
کہ عینک سے دھاگا پرویا تو کیا

تقرّب سے شیطاں کو کیا فائدہ
تِری پائنْتی کوئی سویا تو کیا

خدا بخش دے میں نہ بخشوں کبھی
یزید اپنی کرنی پہ رویا تو کیا

بہا لے گیا گھر بھی ابر کرم
جو بویا تو کیا اور نہ بویا تو کیا

نہا لیتے گنگا، بکھیڑا تھا پاک !
گناہوں کو زمزم سے دھویا تو کیا

تمھیں بھی مزہ اِس کا چکھنا پڑا
یگانہ کو ہاتھوں سے کھویا تو کیا

میرزا یاس یگانہ
 
Top