حسرت موہانی مجھ کو خبر نہیں کہ مِرا مرتبہ ہے کیا

طارق شاہ

محفلین
غزل
حسرت موہانی
مجھ کو خبر نہیں کہ مِرا مرتبہ ہے کیا
یہ تیرے التفات نے آخر کیا ہے کیا
ملتی کہاں گداز طبیعت کی لذتیں
رنجِ فراق یار بھی راحت فزا ہے کیا
حاظرہے جانِ زار جو چاہو مجھے ہلاک
معلوم بھی تو ہو کہ تمہاری رضا ہے کیا
ہُوں دردِ لادوائے محبت کا مبتلا
مجھ کو خبر نہیں کہ دوا کیا، دُعا ہے کیا
میری خطا پہ آپ کو لازم نہیں نظر
یہ دیکھئے مُناسبِ شانِ عطا ہے کیا
ہیں بہترین صلح پہ ظاہر کی رنجشیں
ناحق ہُوں میں ملول، وہ مجھ سے خفا ہے کیا؟
گرویدہ جس سے تو ہے، خبر بھی نہیں اُسے
پھر تیرے اضطراب کی حسرت بنا ہے کیا
حسرت موہانی
 

عاطف بٹ

محفلین
ہُوں دردِ لادوائے محبت کا مبتلا
مجھ کو خبر نہیں کہ دوا کیا، دُعا ہے کیا
گرویدہ جس سے تو ہے، خبر بھی نہیں اُسے
پھر تیرے اضطراب کی حسرت بنا ہے کیا

واہ، بہت خوب۔
سر، ایک خوبصورت غزل شیئر کرنے کے لئے بہت شکریہ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
گیلانی صاحبہ!
صحیح کہا آپ نے تغزّل اور افکار کی بستگی کمال پر ہے
اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں

باعثِ افتخار ہُوا پیش کرنا
بھر شاداں رہیں

بہت عمدہ غزل ہے۔ شریکِ بزم کرنے کا شکریہ طارق صاحب۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہاں "بستگی" آپ نے کس مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ ہو سکے تو مجھ کم علم کے علم میں اضافہ فرما دیں۔
 

طارق شاہ

محفلین
بہت عمدہ غزل ہے۔ شریکِ بزم کرنے کا شکریہ طارق صاحب۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہاں "بستگی" آپ نے کس مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ ہو سکے تو مجھ کم علم کے علم میں اضافہ فرما دیں۔
فرخ صاحب!
انتخاب غزل پر آپ کی پذیرائی اور اظہارِ خیال کے لئے منوں ہوں
خوشی ہوئی کہ منتخبہ غزل آپ کو پسند آئی
تشکّر
بہت خوش رہیں

بستگی (باندھی یا بندھا ) فارسی کے بستن ( باندھنا ) فعل سے ہی ہے اور اِسی معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے
افکار یعنی سوچ، فکرِ مجموعی یا خیال
بستگی افکار یا افکار کی بستگی = سوچ کو باندھنا، یہ شاعری میں
اسی طرح سے مستعمل ہے جیسے الفاظ کی بندش ، لفظوں کی نشست و برخاست وغیرہ

میرا یوں لکھنا :
مولانا کا لفظوں کی بندش سے، یا بستگی خُوب سے ،بلا کی روانی،غضب کی غنائیت سے اپنی فکر ، یا افکار کو
بالا غزل میں سمونے، پرونے کا اعتراف ہے

امید ہے اپنی بات واضح کرسکا ہوں
فرخ صاحب اس استفسار کے لئے بھی تشکّر۔
 

طارق شاہ

محفلین
ملتی کہاں گداز طبیعت کی لذتیں
رنجِ فراق یار بھی راحت فزا ہے کیا
سبحان اللہ.....
التباس صاحب!
ممنون ہوں اظہارِ خیال پر
بہت خوشی ہوئی کہ منتخبہ غزل سے بالا شعر آپ کے محسوسات کو چھو گیا
تشکّر
بہت شاد رہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ صاحب!
انتخاب غزل پر آپ کی پذیرائی اور اظہارِ خیال کے لئے منوں ہوں
خوشی ہوئی کہ منتخبہ غزل آپ کو پسند آئی
تشکّر
بہت خوش رہیں

بستگی (باندھی یا بندھا ) فارسی کے بستن ( باندھنا ) فعل سے ہی ہے اور اِسی معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے
افکار یعنی سوچ، فکرِ مجموعی یا خیال
بستگی افکار یا افکار کی بستگی = سوچ کو باندھنا، یہ شاعری میں
اسی طرح سے مستعمل ہے جیسے الفاظ کی بندش ، لفظوں کی نشست و برخاست وغیرہ

میرا یوں لکھنا :
مولانا کا لفظوں کی بندش سے، یا بستگی خُوب سے ،بلا کی روانی،غضب کی غنائیت سے اپنی فکر ، یا افکار کو
بالا غزل میں سمونے، پرونے کا اعتراف ہے

امید ہے اپنی بات واضح کرسکا ہوں
فرخ صاحب اس استفسار کے لئے بھی تشکّر۔

طارق صاحب، فارسی مجھے نہیں آتی ۔ لیکن اردو میں بستگی سے مراد کسی چیز کا بند ہونا ہوتا ہے۔ اور اگر یہ لفظ دل کے ساتھ آئے یعنی دل بستگی تو اس کا مطلب تفریح ہوتا ہے۔ حوالے کے لئے دیکھیے نور اللغات کا یہ لنک۔
http://archive.org/stream/nrullught01nayy#page/603/mode/2up
 

طارق شاہ

محفلین
طارق صاحب، فارسی مجھے نہیں آتی ۔ لیکن اردو میں بستگی سے مراد کسی چیز کا بند ہونا ہوتا ہے۔ اور اگر یہ لفظ دل کے ساتھ آئے یعنی دل بستگی تو اس کا مطلب تفریح ہوتا ہے۔ حوالے کے لئے دیکھیے نور اللغات کا یہ لنک۔
http://archive.org/stream/nrullught01nayy#page/603/mode/2up
فرخ صاحب!
جواب اورعکسِ نور الغات کے لئے متشکّر ہوں!
عکس نہ بھی ہوتا تو آپ کی بات کا یقین کرلیتا ۔

معنی کے بابت یہ کہ ایک لفظ کے کئی معنی بھی ہو سکتے ہیں ، اس کا دارومدار لفظ کی، جملے میں کس طرح یا بہ معنویت استعمال پر بھی ہے
اردو بنی ہی دیگر زبانوں سنسکرت یا ہندی ، فارسی اور عربی اور کچھ ترکی کے الفاظ بھی شامل کرلیجئے، اسی طرح
افکار کے معنی کوئی تردّد،غم، پریشانی کے زمرے میں لیتا ہے، اور اسی افکار کو ہم زریں افکار یا بلند افکار لکھتے ہیں
ویسے میں نے اسے کسی شعر میں نہیں باندھا یا لکھا، سو اس کی لغوی معنویت یا اختیاری سے، کوئی فرق پڑتا
پھر بھی آپ کے اس کنسرن کا اور معلوماتی تحریر کا ممنون ہوں
بہت تشکّر ایک بار پھر سے
بہت خوش رہیں
 

حسن نظامی

لائبریرین
کیا ضروری ہے کہ "نادر" و "غریب" کا استعمال کیا جائے ۔ یہ بھی تو کہاجا سکتا تھا کہ (خیال بہت عمدہ باندھا گیا ہے)
مجھے یہاں سمجھ نہیں آئی شاید کمپو غلطی ہے یا پھر میری نا سمجھی:
حاظرہے جانِ زار جو چاہو مجھے ہلاک
 

طارق شاہ

محفلین
کیا ضروری ہے کہ "نادر" و "غریب" کا استعمال کیا جائے ۔ یہ بھی تو کہاجا سکتا تھا کہ (خیال بہت عمدہ باندھا گیا ہے)
مجھے یہاں سمجھ نہیں آئی شاید کمپو غلطی ہے یا پھر میری نا سمجھی:
حاظرہے جانِ زار جو چاہو مجھے ہلاک
نظامی صاحب!
نادر ، غریب ، غضب، عجب یا اس طرح کے الفاظ "عمدہ " کی طرح ہی
طبعی محسوسات کو ظاہر کرنے کے زمرے میں آتے ہیں
یعنی اِس سے، معرض آئی کیفیّت کا اظہار ہی مطلب لیا جاتا ہے
"خیال بہت عمدہ باندھا گیا ہے"، بہت فصیح اور بلیغ جملہ ہے کہ یہ صنف متذکرہ کا مکمل احاطہ کرتا ہے

خیال اور فکر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ خیال آتا ہے، یا بصورت تصوّر معرضِ وجود ہوتا ہے
اور فکر کسی خیال یا تصوّر کی مد میں کی جاتی ہے ۔ یعنی فکر کے لئے خیال یا تصور کا ہونا ضروری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاظرہے جانِ زار جو چاہو مجھے ہلاک

بالا مصرع نظامی صاحب درست ہے یعنی کوئی ٹائپو نہیں اِس میں
نثر یوں ہے کہ:
جان زارحاضر ہے جو مجھے، ہلاک چاہو

(اگر آپ مجھے ہلاک چاہتے ہیں تو جانِ زار حاضر ہے )

زار، یہاں بمعنی نحیف، کمزور کے ہے ۔
جبکہ فارسی میں ہی یہ
بہ معانی نالاں اور نُما کے بھی آتا ہے اور بطور علامت 'مکاں' بھی مستعمل ہے

تشکّر
بہت خوش رہیں
 
Top