حالی مجھ میں وہ تابِ ضبطِ شکایت کہاں ہے اب

حسان خان

لائبریرین
مجھ میں وہ تابِ ضبطِ شکایت کہاں ہے اب
چھیڑو نہ تم کہ میرے بھی منہ میں زباں ہے اب
وہ دن گئے کہ حوصلۂ ضبطِ راز تھا
چہرے سے اپنے شورشِ پنہاں عیاں ہے اب
جس دل کو قیدِ ہستئ دنیا سے ننگ تھا
وہ دل اسیرِ حلقۂ زلفِ بتاں ہے اب
آنے لگا جب اُس کی تمنا میں کچھ مزا
کہتے ہیں لوگ جان کا اس میں زیاں ہے اب
لغزش نہ ہو بلا ہے حسینوں کا التفات
اے دل سنبھل وہ دشمنِ دیں مہرباں ہے اب
اک جرعۂ شراب نے سب کچھ بھلا دیا
ہم ہیں اور آستانۂ پیرِ مغاں ہے اب
ہے وقتِ نزع اور وہ آیا نہیں ہنوز
ہاں جذبِ دل مدد کہ دمِ امتحاں ہے اب
ہے دل غمِ جہاں سے سبکدوش ان دنوں
سر پڑتا سوجھتا کوئی بارِ گراں ہے اب
حالی تم اور ملازمتِ پیرِ مے فروش
وہ علمِ دیں کدھر ہے وہ تقویٰ کہاں ہے اب
(خواجہ الطاف حسین حالی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
حالی تم اور ملازمتِ پیرِ مے فروش
وہ علمِ دیں کدھر ہے وہ تقویٰ کہاں ہے اب
واہ! کیا اچھا انتخاب ہے۔ شکریہ حسان میاں!
 
Top