السلام علیکم!
میں سمجھ رہا تھا کہ شاید اسکول کالج میں لڑکیوں میں سراہے جانا ہی شاعر ہو جانا ہے۔اس محفل پہ استاد لوگوں کی موجودگی دیکھ کر جی چاہا کہ چلیں تعریف نہ سہی تصحیح کے لیئے تنقید تو ملے گی پر یہاں تو کسی نے پچھلی شئیرنگ کو کسی خاطر نہیں لیا۔ شاعر سمجھ رہا تھا خود کو اس لیئے اپنی کاوشیں شریکِ محفل کرنے سے باز نہیں آؤں گا۔ اور اس بار پھر سے آپ کی خدمت میں۔

مجھے کچھ درد دے دو
خوشیاں بھی غموں سی لگتی ہیں
اب سانسیں میری جلتی ہیں
شاید یوں دل کو قرار دے
تڑپا کر مجھے جو مار دے
کہیں سے ایسا کرب لے دو
مجھے کچھ درد دے دو
یوں ہو کہ جیسے غم تیرا ہے
حیات جیسے جاں لیوا ہے
نَس نَس میں ایسا زہر بھر دے
مجھے ہوش سے بیگانہ کردے
کہیں سے ایسا کرب لے دو
مجھے کچھ درد دے دو
باتیں ساری گُھل جائیں بس
یادیں ساری دُھل جائیں بس
مٹا دے مجھے، بے نشاں کر دے
بہار کو جو خزاں کر دے
کہیں سے ایسا کرب لے دو
مجھے کچھ درد دے دو
امجد میانداد 31، اکتوبر 2003
 
Top