حفیظ ہوشیارپوری مجھے کس طرح یقیں ہو کہ بدل گیا زمانہ - حفیظ ہوشیارپوری

کاشفی

محفلین
غزل
(حفیظ ہوشیار پوری)
(مندرجہ ذیل اشعار مشفق محترم خان بہادر نواب احمد یار خاں صاحب دولتانہ کی ذات گرامی سے معنون کرتا ہوں کہ انہیں کا نام اس “قافیہ پیمائی “کا محرّک ہوا۔)
مجھے کس طرح یقیں ہو کہ بدل گیا زمانہ
وہی آہ صبحگاہی، وہی گریہء شبانہ
تب و تاب یک نفس تھا غمِ مستعارِ ہستی
غمِ عشق نے عطا کی مجھے عُمرِ جاودانہ
کوئی بات ہے ستمگر کہ میں جی رہا ہوں اب تک
تری یاد بن گئی ہے مری زیست کا بہانہ
میں ہوں اور زندگی سے گلہء گریز پائی
کہ ابھی دراز تر ہے مرے شوق کا ترانہ
جو اسیر رنگ و بو ہوں تو مرا قصور یارب!
مجھے تو نے کیوں دیا تھا یہ فریب آب و دانہ
تو جو قہر پر ہو مائل تو ڈبو دے موجِ ساحل
ترا لطف ہو جو شامل تو بھنور بھی آشیانہ
مرے نالوں سے غرض کیا تیری نغمہ خوانیوں کو
یہ صدائے بے نوائی، وہ نوائے دولتانہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔ ہو سکے تو یہ شعر دوبارہ دیکھ لیں۔
تو جو قہر پر ہو مائل تو ڈبو دے موجِ ساحل
ترا لطف ہو جو شامل تو بھنور بھی آشیانہ
 

کاشفی

محفلین
شکریہ خواجہ طلحہ صاحب!

شکریہ بہت بہت جناب سخنور صاحب!


HafizHoshiyarPuri.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے، سوائے آخری شعر کے سبھی اشعار دلبرانہ ہیں (کہ اسی قافیے کا حق مار کر شاعر نے دولتانہ قافیہ استعمال کیا ہے) :)

شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے۔
 
Top