مجرُوح سُلطانپوری :::::: اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں :::::: Majrooh Sultanpuri

طارق شاہ

محفلین


غزل
اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں
موج کو گیسُو، بھنوَر کو چشمِ جانانہ کہیں

دار پر چڑھ کر، لگا ئیں نعرۂ زُلفِ صَنم!
سب، ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دِیوانہ کہیں

یارِ نکتہ داں کدھر ہے، پھر چلیں اُس کے حضوُر
زندگی کو دِل کہیں اور دِل کو نذرانہ کہیں

تھامیں اُس بُت کی کلائی اور کہیں اُس کو جنوُں
چُوم لیں مُنہ اور اُسے انداز ِرِندانہ کہیں

پارۂ دِل ہے وطن کی سرزِمیں، مشکل یہ ہے
شہر کو وِیران ، یا اِس دِل کو وِیرانہ کہیں

اے رُخِ زیبا! بتا دے اور ابھی ہم کب تلک
تِیَرگی کو شمع، تنہائی کو پروانہ کہیں

آرزو ہی رہ گئی مجرُوحؔ ! کہتے ہم کبھی
اِک غزل ایسی، جِسے تصویرِ جانانہ کہیں


مجرُوؔح سُلطانپوری
 
Top