مجذوب مجذوب: گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلفِ عنبریں ساقی

گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلفِ عنبریں ساقی
ترے ہوتے فلک سے کیوں ہو شرمندہ زمیں ساقی
نگاہِ مست اور پھر اف چشمِ سرمگیں ساقی
مے دو آتشہ ہے یہ شرابِ آتشیں ساقی
ٹلوں گا میں نہ ہرگز لاکھ ہوتو خشمگیں ساقی
کہ جو مے سب سے بہتر ہے وہ ملتی ہے یہیں ساقی
یہ کس بھٹی کی دی تونے شرابِ آتشیں ساقی
کہ پیتے ہی رگوں میں بجلیاں سی بھر گئیں ساقی
دمِ آخر تو اٹھ جائے یہ چشمِ شرمگیں ساقی
نگاہِ مست ملتے ہی نگاہِ واپسیں ساقی
میں ہوں اب تک محروم گوہے وقتِ واپسیں ساقی
مری قسمت کی تیرے میکدہ میں کیا نہیں ساقی
مجھے سارے مزے جنت کے حاصل ہیں یہیں ساقی
کہ کوثر مے ہے غلماں مغبچے، تو حور عیں ساقی
دبانے پڑ رہے ہیں ولولے مستی کے رندوں کو
غضب ہے دیکھنا تیرا بچشمِ سرمگیں ساقی
جو تر دامن ہے تیرا پاک دامانوں سے بہتر ہے
گریباں چاک ہے اشکوں سے تر ہےآستیں ساقی
نظر میں جانچ لیتا ہے کہ کس کا ظرف کتنا ہے
دکھائے کوئی ایسا نکتہ رس اور دور بیں ساقی
 
انجمن بہارِ ادب لکھنؤ کا سالانہ آل انڈیا مشاعرہ۔ سٹیج سیکٹری سوز شاہ جہانپوری نے رات تقریباً ۲ بجے خواجہ صاحب کو دعوت کلام دی۔ ان کے ظاہر کو دیکھ کر لوگ ہنس دیے۔ لمبا قد، سرخ سفید رنگت، سفید داڑھی، سفید براق سا اچکن نما انگرکھا۔ آواز آئی۔ 'یہ مسجد نہیں ہے'۔ کسی ظریف الطبع نے نشستوں کے پچھلی طرف اذان دینا شروع کردی۔ ایک مسخرے نے ہانک لگائی۔ 'غلط جگہ آگئے حضرت!'۔ ان سب باتوں کو نظر انداز کر کے خواجہ صاحب نے اپنے مسحور کن ترنم اور والہانہ انداز سے ایک شعر پڑھا۔ ایکدم سناٹا ، مکرر کی صدائیں ۔ پھر جو داد کا طوفان اٹھا تو کان پڑی آواز سنائی نہ دی۔ داد کے ڈونگرے برسے۔ بے خودی میں غزل سرا۔ خدا خدا کرکے غزل ختم۔ ایک اور ایک اور کی صدائیں۔ اس ایک اور کا نتیجہ یہ نکلا کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ آخر کار خواجہ صاحب مسجد کو سدھارے اور محفل برخاست ہوئی۔ (اقتباس ، کشکول مجذوب از خواجہ عزیز الحسن مجذوبؒ)
 
دبانے پڑ رہے ہیں ولولے مستی کے رندوں کو
غضب ہے دیکھنا تیرا بچشمِ سرمگیں ساقی
جو تر دامن ہے تیرا پاک دامانوں سے بہتر ہے
گریباں چاک ہے اشکوں سے تر ہےآستیں ساقی

بہت خوب، کمال کے شعر ہیں
 
Top