مجذوب مجذوب: چمکنے لگا سربسرنورہوکر

چمکنے لگا سربسرنورہوکر
میں جل جانےوالانہیں طورہوکر
تری یادمیں خودسےبھی دورہوکر
میں بس رہ گیا نورہی نورہوکر
نہ پاس آؤاتنے چلودورہوکر
میں کچھ اور کہہ دوں نہ منصور ہوکر
سرِدارہوکرسرِطورہوکر
ترےپاس آیابڑی دورہوکر
نہ ترساؤہرگام پردورہوکر
کوئی ہاربیٹھےنہ مجبورہوکر
زباں چپ رہی گرچہ مجبورہوکر
رہابال بال اپنا منصورہوکر
تصورسلامت تحیرسلامت
میں بیٹھاہوں اپنی جگہ طورہوکر
بدلنے لگے کروٹیں اہل مرقد
ذرادور ہوکر ذرادورہوکر
یہ کس کے لیے جان دیتے چلاہوں
چلی آرہی ہے قضاحور ہوکر
عجب اک معمہ سا میں بن گیا ہوں
نہ مختارہوکر نہ مجبور ہو کر
چلاآرہا ہے کھنچا اک زمانہ
کشش اسقدر، اس قدر دور ہوکر
حدیں عشق کی کررہے ہیں وہ قائم
کبھی پاس آکر کبھی دور ہو کر
خوشامد، درآمد، تضرّع، تملّق
سبھی کچھ کیا دل سے مجبور ہو کر
کسی حال میں چین پاتا نہیں دل
نہ مغموم ہوکر نہ مسرور ہو کر
نہ جینے سے خوش ہوں نہ مرناروا ہے
یہ جینے میں جینا ہے مجبور ہوکر
اب اتنی رعایت تو اے آسماں ہو
نئے غم ملیں پچھلے غم دور ہو کر
میں مجذوب ہوں جذبِ الفت سلامت
بچو گے کہاں مجھ سے تم دور ہو کر

اقتباس: کشکولِ مجذوب از خواجہ عزیز الحسن مجذوبؒ
 
Top