مجذوب مجذوب: وہ مستِ ناز آتا ہے ذرا ہشیار ہو جانا

وہ مستِ ناز آتا ہے ذرا ہشیار ہو جانا
یہیں دیکھا گیا ہے بے پئے سرشار ہو جانا
ہمارا شغل ہے راتوں کو رونا یادِ دلبر میں
ہماری نیند ہے محوِ خیالِ یار ہو جانا
تصور کی مرے گلکاریاں صیاد کیا جانے
قفس کا بھی گلوں کی یاد میں گلزار ہو جانا
لگاوٹ سے تری کیا دل کھلے معلوم ہے ہم کو
ذرا سی بات میں کھنچ کر ترا تلوار ہو جانا
عبث ہے جستجو بحرِمحبت کے کنارے کو
بس اس میں ڈوب مرنا ہی ہے اے دل پار ہو جانا
نہیں درکار مے ہم کوپیے جا تو ہی اے ساقی
ہمیں تو مست کرتا ہے ترا سرشار ہو جانا
خبر کیا تھی کہ اس انکار میں اقرار پنہاں ہے
مرا غش کھا کے گر پڑنا کہ بس دیدار ہو جانا

اقتباس: کشکولِ مجذوب از خواجہ عزیز الحسن مجذوبؒ​
 
Top