مجذوب مجذوب :میں کب چونکا کہ اس محفل میں ،جب رخصت کا ساماں تھا

سید زبیر

محفلین
میں کب چونکا کہ اس محفل میں ، جب رخصت کا ساماں تھا
یہ لب پر تھا کہ کیا میں بھی شریک بزم جاناں تھا
ازل میں سامنے عقل و جنوں دونوں کا ساماں تھا
جو میں ہوش و خرد لیتا 'تو کیا کوئی میں ناداں تھا
وہ غفلت کیش جب پرسان حال درد منداں تھا
تو مشکل تھا یہ کہنا درد تھا دل میں' کہ درماں تھا
اِدھر ٹکڑے تھا دامن اور اُدھر پرزے گریباں تھا
مگر مانند گل میں ان پھٹے جاموں بھی خنداں تھا
چمن میں خاک بر سر تھی صبا'گُل چاک داماں تھا
دل وحشت زدہ کو ہر جگہ وحشت کا ساماں تھا
خبر ہے چھپنے والے کچھ تصور کے تصرف کی
یہ وہ آنکھیں نہیں تو پہلے جن آنکھوں سے پنہاں تھا
کس کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہو کر
تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تخت سلیماں تھا
ذرا دیکھو تو یہ اُلٹی رسائی میری قسمت کی
وہ نکلا غیر کے دل سے جو میرے دل کا ارماں تھا
جو رخ بدلا ہے ساقی نے دگر گوں رنگ محفل ہے
وہ خنداں ہے جو گریاں تھا وہ گریاں ہے جو خنداں تھا
ہوئی تجویز وہ مٹی پئے خلق دل وحشی
کہ جس مٹی کے ہر ذرے میں مضمر اک بیابان تھا
بھلا مجذوب کچھ تو ہوش رکھتے ایسے موقع پر
غضب ہے میزباں بننا پڑا اُس کو جو مہماں تھا


مجذوب
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
خبر ہے چھپنے والے کچھ تصور کے تصرف کی
یہ وہ آنکھیں نہیں تو پہلے جن آنکھوں سے پنہاں تھا

واہ۔۔۔ کیا زبردست انتخاب ہے سرکار۔۔۔ عمدہ ترین
 
Top