امیرالاسلام ہاشمی متشاعر

محمد امین

لائبریرین
میں کہ شاعر نہ سہی، صاحبِ دیوان تو ہوں
پھول اوروں کے سہی، مالکِ گلدان تو ہوں

گل ہیں چوری کے ہزاروں مرے گلدانوں میں
کتنے بے نام چھپے ہیں مرے دیوانوں میں

خوشہ چیں ہُوں سبھی خوشوں کو چنا ہے میں نے
لوگ سر دھنتے ہیں، شعروں کو دھنا ہے میں نے

نور کو اور علیٰ نور کیا کرتا ہوں
شعر کاری تو بدستور کیا کرتا ہوں

داؔغ و اقباؔل کا، فاؔنی کا، جگرؔ کا چشمہ
میں لگاتا ہوں ہر اک اہلِ نظر کا چشمہ

میرؔ کے شعروں میں تم بوجھو پہیلی میری
سیم تن آ کے کھجاتے ہیں ہتھیلی میری

بے دھڑک چڑھ گیا میں درؔد کے زینوں پہ کبھی
شعلے برسا دئیے آتشؔ کی زمینوں میں کبھی

ہر گڑے مردے کو اک پل میں اکھاڑا میں نے
چت کیا انشاؔ کو، ناسؔخ کو پچھاڑا میں نے

پھر سے تازہ کئی دیوانوں کا ایمان کیا
میں نے مومنؔ کو کئی بار مسلمان کیا

سارے استادوں کو انگلی پہ نچایا میں نے
بارہا داغؔ کو بے داغ بنایا میں نے

دیکھتے اب بھی ہیں حیرت سے مجھے جام و سبو
جوشؔ کے شعروں کو میں نے ہی کرایا ہے وضو

شعر کے واسطے شیروں سے لڑائی کی ہے
میں نے دربار پہ اکبر کے چڑھائی کی ہے

ٹھونک کر سینہ کرے چوری وہ رستم ہوں میں
کھینچتے ہیں جسے استاد وہ ٹم ٹم ہوں میں

ہر غزل پر تو نہیں آتی طبیعت میری
ہو جو اچھی تو بدل جاتی ہے نیت میری

میرؔ کو توڑا تو سوداؔ کو مروڑا میں نے
ذوقؔ کیا چیز ہے غالبؔ کو نہ چھوڑا میں نے

چند الفاظ کی بس ردّ و بدل ہوتی ہے
پھر وہ جس کی ہو غزل میری غزل ہوتی ہے

میری پھونکوں نے بجھائے ہیں کبھی حسرتؔ کے چراغ
میں نے بے فیض کیے فیضؔ کے مینا و ایاغ

لوگ کہتے ہیں میں کرتا ہوں ادب کے ٹکڑے
میں ہنس ہنس کے کیا کرتا ہوں سب کے ٹکڑے

جو کلائی بھی تھی پہنے ہوئے کنگن نہ بچی
جو مجھے بھا گیا اس شعر کی گردن نہ بچی

پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹا ہے
میرے کُنجشک نے شاہیں کا لہو چاٹا ہے

میں نے چھپ چھپ کے اڑائے ہیں اثرؔ کے ٹکڑے
میرے اشعار میں ہوتے ہیں جگرؔ کے ٹکڑے

دشتِ روماں میں سلمیٰ کا سہارا لے کر
ڈھونڈا اخترؔ کو چراغِ رخِ زیبا لے کر


امیر الاسلام ہاشمی۔
 
Top