فارسی شاعری ماہ فرو مانَد از جمالِ محمد - سعدی شیرازی

حسان خان

لائبریرین
ماه فُرو مانَد از جمالِ محمد
سرو نباشد به اعتدالِ محمد
قدرِ فلک را کمال و منزلتی نیست
در نظرِ قدرِ با کمال محمد
وعدهٔ دیدارِ هر کسی به قیامت
لیلة‌الاسری شبِ وصالِ محمد
آدم و نوح و خلیل و موسی و عیسی
آمده مجموع در ظِلالِ محمد
عرصهٔ دنیا مجالِ همتِ او نیست
روزِ قیامت نِگر مجالِ محمد
شمس و قمر در زمینِ حشر نتابند
نور نتابد مگر جمالِ محمد
وآن همه پیرایه بست جنتِ فردوس
بو که قبولش کند بلالِ محمد
شاید اگر آفتاب و ماه نتابد
پیشِ دو ابرویِ چون هلالِ محمد
چشمِ مرا تا به خواب دید جمالش
خواب نمی‌گیرد از خیالِ محمد
سعدی اگر عاشقی کنی و جوانی
عشقِ محمد بس است و آلِ محمد
(سعدی شیرازی)


ترجمہ:
جمالِ رسول کے پیش میں ماہ عاجز و متحیّر رہ جاتا ہے؛ سرو کے پاس ویسا اعتدالِ قد و قامت نہیں ہے، جیسا رسول کے پاس ہے۔
رسول کے قدرِ باکمال کی نظر میں (یا اُس کے پیشِ نظر) قدرِ فلک کا کمال و منزلت ہیچ ہے۔
ہر شخص کا وعدۂ دیدار قیامت تک موقوف ہے؛ لیکن رسول کے لیے شبِ معراج ہی شبِ وصال بن گئی تھی۔
آدم، نوح، خلیل، موسیٰ اور عیسیٰ وغیرہ جملہ کے جملہ انبیاء رسول کے زیرِ سایہ آئے تھے۔
میدانِ دنیا اُن کی عالی ہمّتی و بلند طبعی و جود و کرم کی جولاں گاہ نہیں ہے؛ اُن کی جولاں گاہ [کی وسعت دیکھنی ہے تو] بروزِ قیامت دیکھو۔
زمینِ حشر میں شمس و قمر تابندہ نہیں ہوں گے، تا اینکہ جمال رسول تابندہ نہ ہو۔
اور جنتِ فردوس نے وہ سب زینت و آرائش اِس امید میں کی ہے کہ شاید رسول کا بلال اُس کو قبول کر لے۔
آفتاب و ماہ کے لیے مناسب ہے وہ رسول کے ہِلال جیسے دو ابروؤں کے پیش میں تابندہ نہ ہوں۔
جب سے میری چشم کو نیند میں اُن کا جمال نظر آیا ہے، اُسے [جمالِ] رسول کے خیال کے باعث نیند نہیں آتی۔
اے سعدی! اگر تم عاشقی کرتے ہو اور جوان ہو تو رسول و آلِ رسول کا عشق کافی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top