کاشفی

محفلین
ماں
( سیدانجم کاظمی)

اپنے ہاتھوں سے خود اپنے درد کا درماں لکھا
دل کے کاغذ پر دُعاؤں کے برابر ماں لکھا

فرطِ غم سے دل کی دھڑکن جب بھی بےقابو ہوئی
لوحِ جاں پر زندگی نے مسکرا کر ماں لکھا

میں سراپا روشنی کا ایک حسیں مینا رہوں
دل کے اندر ماں‌ لکھا دل باہر ماں لکھا

حافظے کو مسئلہ درپیش تھا تجدید کا
ذہن کی دیوار پر میں نے مکرر ماں لکھا

دھوپ موسم مرا چہرا وہ آنچل کی ہوا
زندگی بھر میری آنکھوں نے یہ منظر ماں لکھا

میرا دامن بھر گیا ہے گوہرِ نایاب سے
جب بھی میں نے تجھ کو اے گہرے سمندر ماں لکھا

لکھ رہی تھی چاندنی جب ریت کے ذرات پر
چشمِ شبنم نے بھی پھولوں پہ اُتر کر ماں‌ لکھا

اُسی کے نام سے تھی ابتدائے خوش خطی
لفظ جتنے میں‌نے لکھے سب سے بہتر ماں لکھا

عرش سے بھیجی تھی رب نے پہلی ماں جو فرش پر
نورِ ممتا اُس سے پھیلا جس نے گھر گھر ماں لکھا

اپنی ماں سے تیرا قد مجھ کو بہت چھوٹا لگا
تجھ پہ آکر میں نے جب چاہت کے ممبر ماں لکھا

میں نے انجم اپنا پیکر یوں منور کر لیا
صبح دم سے چاندنی تک بس سراسر ماں لکھا
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نظم/مسلسل غزل ہے، شکریہ کاشفی۔ البتہ لکھنے میں شاید کئی اغلاط ہو گئی ہیں، کئی الفاظ چھوٹ گئے ہیں، ایسا لگتا ہے۔،۔
 
Top