ساغر صدیقی مانگی ہے اس دیار میں دونوں جہاں کی بھیک - ساغر صدیقی

مانگی ہے اس دیار میں دونوں جہاں کی بھیک
لیکن ملی ہمیں دلِ نا کامراں کی بھیک

ایسے بھی راہِ زیست میں آئے کئی مقام
مانگی ہے پائے شوق نے عزمِ جواں کی بھیک

بے نُور ہو گئی ہیں ستاروں کی بستیاں
ساقی عطا ہو بادۂ شعلہ فشاں کی بھیک

اب اور کیا تغیرِ تقدیر چاہیئے
جھولی میں ڈال دی تِرے نام و نشاں کی بھیک

خود بِک گئے حیات کی نیلام گاہ میں
وہ بانٹتے تھے جو کبھی کون و مکاں کی بھیک

دو چار پتیوں پہ ہے رنجش بہار سے
سائل نے مانگ لی ہے کہاں گلستاں کی بھیک

اللہ، ان کے نقشِ کفِ پا کی خیر ہو
ذروں کو دے گئے جو مہ و کہکشاں کی بھیک

ساغؔر خوشا کہ گوہرِ امید پا لیا
قسمت سے ہات آئی غمِ دوستاں کی بھیک
ساغر صدیقی
 
Top