مال غنیمت میں خیانت بہت بڑا گناہ ہے

تیسواں باب
مال غنیمت میں خیانت بہت بڑا گناہ ہے
اور اگر خائن مارا جائے تو شہید نہیں ہے
خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے غلول مال غنیمت میں خیانت کو کہتے ہیں وہ اس طرح کہ لشکر کا امیر یا کوئی مجاہد مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ لے لے اور اسے تقسیم والے تک نہ پہنچائے خواہ یہ مال تھوڑا ہو یا زیادہ بعض علماء کے نزدیک اسے غلول اس لیے کہتے ہیں کہ شریعت نے ہاتھوں کو ایسا کرنے سے باندھ دیا ہے ۔ مال غنیمت میں خیانت بہت بڑا گناہ اور بڑی سخت معصیت ہے ۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص تین چیزوں [ یعنی ] تکبر ، مال غنیمت میں خیانت اور قرض سے پاک مرا وہ جنت میں جائے گا ۔ ( ترمذی ۔ نسائی ۔ ابن ماجہ ۔ ابن حبان ۔ المستدرک )
مال غنیمت میں خیانت پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں ہم ان میں سے چند کو یہاں ذکر کرتے ہیں۔
( 1) خیانت والا مال دوزخ کی آگ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ خیبر کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا فلاں شہید ہوا ہے اور فلاں شہید ہوا ہے یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس سے گزرے اور کہا یہ شہید ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر گز نہیں میں نے اسے جہنم میں ایک ایسی چادر میں دیکھا ہے جو اس نے مال غنیمت سے چرائی تھی یا اس عبا میں دیکھا ہے جو اس نے مال غنیمت سے چرائی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خطاب لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں صرف ایمان والے داخل ہوں گے ۔ ( مسلم شریف )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مال غنیمت میں خیانت کرنے والا مؤمن نہیں ہے اور اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہوتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی ایمان والا مال غنیمت میں خیانت نہیں کرتا ۔ ( مجمع الزوائد )
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ خیبر کے لیے نکلے اللہ تعالی نے ہمیں فتح عطاء فرمائی ہمیں مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں ملا بلکہ سامان ، کھانے کی اشیاء اور کپڑے ملے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غلام بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ غلام قبیلہ جزام کے رفاعہ نامی ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا جب ہم نے وادی میں پڑاؤ ڈالا تھا تووہ غلام اپنا سامان کھول رہا تھا کہ اسے ایک تیر لگا جو اس کی موت کا سبب بن گیا ۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ اس کے لیے شہادت مبارک ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر گز نہیں ۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے وہ چادر جو اس نے مال غنیمت میں سے تقسیم کرنے والے کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے لے لی تھی آگ بن کر اس پر بھڑک رہی ہے یہ سن کر لوگ سخت خوفزدہ ہو گئے اور ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لیکر حاضرہوا۔ اس نے کہا میں نے یہ خیبر کے دن لیے تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک تسمہ یا دو تسمے آگ کے ہیں ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
مصنف رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ وادی القریٰ میں قتل ہونے والے غلام کا نام مدعم ہے جبکہ بخاری کی ایک روایت میں اس طرح کا واقعہ "کَرۡ کَرَ ۃ " نامی شخص کی طرف منسوب ہے ۔ واللہ اعلم [ ممکن ہے کہ وہ دوسرا واقعہ ہو ]
٭ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ عصر کی نماز اداء فرمالیتے تو عبدالاشھل قبیلے کے لوگوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان کے ساتھ گفتگو فرماتے اور پھر مغرب کے لیے واپس لوٹ آتے تھے ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کے لیے جلدی جلدی [ مسجد نبوی کی طرف ] آرہے تھے کہ ہمارا گزر بقیع [ قبرستان ] سے ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اف ہے تجھ پر ، اف ہے تجھ پر ، اف ہے تجھ پر ۔ ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات میرے دل پر باری گزری میں آپ سے پیچھے ہو گیا اور میں نے گمان کیا کہ آپ مجھے فرما رہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا ہو گیا تمہیں چلتے کیوں نہیں ۔ میں نے عرض کیا آپ نے ابھی کچھ کہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا کہا ہے ؟ میں نے عرض کیا آپ نے مجھ پر اف فرمائی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ میں نے فلاں شخص کو کہا ہے میں نے اسے فلاں قبیلے میں زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے بھیجا تھا اس نے ایک چادر چرالی ۔ پس اسی چادر جیسی آگ کی زرہ اسے پہنا دی گئی ہے ۔ ( نسائی ۔ ابن حبان )
٭ حضرت ابو حازم بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت میں سے [ تقسیم سے پہلے ] ایک چادر لائی گئی اور عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ آپ کے لیے ہے تاکہ آپ دھوپ کے وقت اس سے سایہ حاصل کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمھارا نبی آگ کے سائے کے نیچے بیٹھے ۔ ( کتاب المراسیل لابی داؤد)
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے خیانت سے حاصل شدہ مال جہنم کا انگارہ ہے اور ایسا خزانہ آگ کا خزانہ ہے ۔ ( ابن عساکر )
علامہ ابن جریر نے لکھا ہے کہ نہاوند [ نامی علاقے ] میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سائب بن اقرع رضی اللہ عنہ کو نگران مالیات بناکر بھیجا اور ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالی مسلمانوں کو فتح عطاء فرما دے تو مال غنیمت ان میں تقسیم کر دینا اور خمس [ یعنی پانچواں حصہ الگ کر لینا ۔ حضرت سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مجاہدین میں مال غنیمت تقسیم کر رہاتھا کہ ایک کافر آیا اور اس نے کہا اگر آپ مجھے اور میرے گھر والوں کو امان دے دیں تو میں آپ کو یزد گرد کے خزانے کا پتہ بتادؤں گا اور یہ خزانہ آپ کا اور آپ کے امیر کا ہو جائے گا ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور وہ مجھے لے گیا اس نے مجھے موتیوں اور ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی دو بڑی ٹوکریاں دکھائیں میں نے انہیں اٹھوایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا ۔ انہوں نے کہا یہ بیت المال میں دے دو میں نے وہ بیت المال میں دے دیں اور جلدی سے کوفہ کی طرف لوٹا ابھی کوفہ پہنچا ہی تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاصد آگیااور اس نے میرے اونٹ کے بالکل پیچھے اپنا اونٹ بٹھایا اور کہا فوراً امیر المؤمنین سے ملو ، میں فوراً واپس گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے کیا ہوا مجھے اور ام السائب کے بیٹے کو میں نے عرض کیا کیا ہوا اے امیرالمؤمنین ؟ فرمانے لگے میں رات کو سویا تو دیکھا کہ فرشتے مجھے ان دو ٹوکریوں کی طرف گھسیٹ رہے ہیں اور ان ٹوکریوں سے آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں فرشتے کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کو ان آگ کی ٹوکریوں سے جلائیں گے، تو میں نے کہا کہ میں ان ٹوکریوں کو مسلمانوں میں تقسیم کر دوں گا ۔ اے سائب یہ دونوں ٹوکریاں لے جاؤ انہیں مسلمانوں کو دیئے جانے والے مال میں شامل کرلو ۔ سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں انہیں اٹھا کر لے گیا ۔ اور [تقسیم کے لیے ] کوفہ کی مسجد میں جاکر ڈال دیا ۔ ( ابن جریر فی تاریخہ)
( 2 ) خیانت کیا ہوا مال گردن کا سوار
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے خیانت کا تذکرہ فرمایا اور اسے بہت عظیم اور بد تر گناہ قرار دیا اور فرمایا کہ میں قیامت کے دن تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو جو آوازیں نکال رہی ہو ۔ [ یا ] اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو جس کی ہنہنانے کی آواز ہو [پھر وہ ] مجھے پکار کر کہے یا رسول اللہ میری مدد کیجئے ۔ میں کہوں گا کہ میں تو کچھ اختیار نہیں رکھتا میں تو تمہیں اللہ کے احکام پہنچا چکا ہوں [ اور کوئی اس حال میں نہ آئے کہ ] اسکی گردن پر اونٹ سوار ہو اور اسکے بلبلانے کی آواز ہو اور وہ کہے یا رسول اللہ میری مدد فرمایئے میں کہوں گا میں تو کچھ اختیار نہیں رکھتا میں تمہیں احکام پہنچا چکا ہوں ۔ کسی کی گردن پر بے آواز سونا اور چاندی مسلط ہوگا اور وہ کہے گا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد فرمایئے میں کہوں گا میں تو کچھ اختیار نہیں رکھتا میں تمہیں احکام پہنچا چکا ہوں ۔ اور کسی کی گردن پر کپڑے چیتھڑے ہل رہے ہوں گے اور کہے گا اے اللہ کے رسول میری مدد فرمایئے ۔ میں کہوں گا میں تو کچھ اختیار نہیں رکھتا میں تو احکام پہنچا چکا ہوں ۔ ( بخاری ۔ مسلم و اللفظ للبخاری)
جانوروں کے بولنے اور کپڑے [ یا کاغذ ] کے ہلنے میں حکمت یہ ہے کہ جس نے جو چیز بھی چرائی ہو گی اور اس میں خیانت کی ہو گی وہ چیز اپنی اپنی بولی میں اس کے سر پر شور کرے گی تاکہ خود اسے بھی تکلیف ہو اور لوگوں کے سامنے بھی وہ رسوا ہو جائے اور تمام انسانوں کو اس کی خیانت کا پتہ بھی چل جائے اور یہ سب کچھ محشر کے ہولناک دن ہوگا جس کی تکلیفیں ، گرمی اور پسینہ پہلے ہی اس شخص پر مسلط ہو گا ۔ ( واللہ اعلم )
٭ عطیہ بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کی [ جہاد کے دوران ] سواری مر گئی وہ حضرت مالک بن عبداللہ خثعمی رحمہ اللہ کے پاس آیا اس وقت ان کے سامنے مال غنیمت کا ایک ترکی گھوڑا بندھا ہوا تھا ۔ اس شخص نے کہا امیر صاحب مجھے یہ گھوڑا دیجئے حضرت مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اسے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ اس نے کہا میں آپ کو گھوڑا اٹھانے کے لیے تو نہیں کہہ رہا ۔ میں تو یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ مجھے دے دیجئے۔ حضرت مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ مال غنیمت کا ہے اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
[arabic]وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ[/arabic] ( سورہ آل عمران ۔ 161)
حالانکہ جو شخص خیانت کریگا وہ شخص اپنی خیانت کی ہوئی چیز کو قیامت کے دن حاضر کرے گا ۔
چنانچہ میں تو اسے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہاں اگر تم لشکر والوں سے پوچھ لو اور وہ تمہیں اپنا حصہ دے دیں تو میں بھی اپنا حصہ تمہیں دے دوں گا ۔ ( ابن عساکر)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت مالک بن عبداللہ مشہور صحابی ہیں اور جہاد میں زیادہ شرکت کرنے اور چالیس سال تک رومیوں کے ساتھ جہاد میں مجاہدین کی قیادت کرنے کی وجہ سے مالک السریا [ جنگوں کے مالک] کے لقب سے مشہور ہوئے ۔
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم [ اور آپ کے لشکر ] کے ہاتھ جب مال غنیمت لگتا تھا تو آپ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کردو چنانچہ لوگ مال غنیمت لاکر جمع کرا دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے خمس نکال کر باقی تقسیم فرما دیتے تھے ایک بار اعلان کے بعد ایک شخص بالوں کی ایک رسی لایا اور کہنے لگا یا رسول اللہ یہ میں نے مال غنیمت میں پائی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے بلال رضی اللہ عنہ کے تین مرتبہ آواز لگانے کو سنا تھا اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر تم اس وقت یہ رسی کیوں نہیں لائے تو وہ شخص معذرت کرنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب تم یہ رسی قیامت کے دن ہی لےکر آنا کیونکہ میں تو اب نہیں لوں گا ۔ ( ابوداؤد ۔ ابن حبان )
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت ایسا بھیانک جرم ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تک نصیب نہیں ہوگی بھلا اس سے بڑھ کر ہلاکت اور تباہی کیا ہو سکتی ہے کہ رحمۃ للعالمین کی رحمت اور شفقت سے انسان محروم ہو جائے۔
اے ہمارے پروردگار ۔ اے ارحم الراحمین ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم نہ فرما ۔ بے شک ہم کتنے بڑے مجرم ہی کیوں نہ ہوں ۔ [ آمین ]
٭ حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک کا غزوہ خیبر کے دن انتقال ہو گیا ۔ دوسرے حضرات نے اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا تم لوگ اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو۔ [ میں نہیں پڑھوں گا ] یہ سن کر چہروں کے رنگ اڑ گئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھارے اس ساتھی نے اللہ کے راستے میں نکل کر خیانت کی ہے ۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو اس میں یہودیوں کے کپڑے سینے والے تسموں میں سے ایک تسمہ موجود تھا جس کی قیمت دو درہم بھی نہیں تھی ۔ ( مسند احمد ۔ ابوداؤد ۔ نسائی ۔ ابن ماجہ )
( 3 ) خائن کی پردہ پوشی کرنے والا بھی اسی جیسا ہے
٭ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھےکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے خیانت کرنے والے کو چھپایا وہ بھی اسی جیسا ہے۔ ( ابوداؤد )
( 4 ) خیانت آگ ہے ذلت ہے اور عار ہے تھوڑی ہو یا زیادہ
٭ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غنیمت میں سے ایک بال اٹھا کر فرماتے تھے کہ اس میں خمس کے علاوہ میرا بھی اتنا حصہ ہے جتنا تمھارا اور خمس بھی تمھاری طرف ہی لوٹتا ہے [اے لوگو ] سوئی دھاگہ اور اس سے بھی کم درجے کی چیزیں [مال غنیمت تقسیم کرنے والے کے پاس ] جمع کرا دیا کرو اور خیانت سے بچو کیونکہ وہ عار ہے آگ ہے اور خائن کے لیے قیامت کے دن ذلت ہے ۔ ( مسند احمد ۔ بزار )
[ اس مفہوم کی احادیث مختلف سندوں اور مختلف الفاظ کے ساتھ کثرت سے آئی ہیں اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ مال غنیمت میں سے حقیر سی خیانت بھی قیامت کے دن ذلت اور آگ کا باعث بن جائے گی ۔ العیاذ باللہ ]
٭ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوے میں غنیمت کے اونٹ کے پاس صحابہ کرام کو نماز پڑھائی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ کے کوہان کے بال اپنی دو انگلیوں کے درمیان پکڑ کر فرمایا یہ بھی تمھارے مال غنیمت میں سے ہیں اور اس میں میرا حصہ بھی تمھارے حصے جتنا ہے ۔ سوائے خمس کے اور وہ بھی تمھاری طرف ہی لوٹا دیا جاتا ہے مال غنیمت کے سوئی دھاگے کو بھی اور اس سے زیادہ اور اس سے کم کو بھی جمع کرایا کرو اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرو کیونکہ خیانت دنیا اور آخرت میں خیانت کرنے والوں کے لیے ذلت اور آگ کا سبب ہےاور اللہ کے راستے میں دور والوں اور قریب والوں سب سے جہاد کیا کرو اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو اور سفر حضر میں اللہ کی حدود کو قائم رکھا کرواور اللہ کے راستے میں جہاد کرو کیونکہ جہاد جنت کے دروازوں میں سے بڑا دروازہ ہے اس کے ذریعے اللہ تعالی تفکرات اور غم سے نجات عطاء فرماتے ہیں ۔ ( تفسیر ابن کثیر )
٭ حضرت عبداللہ بن شفیق رضی اللہ عنہ بلقین کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان فرمایا کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ غنیمت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور باقی چار حصے مجاہدین کے لیے ۔ میں نے عرض کیا کیا اس میں سے کسی چیز کا کوئی شخص دوسرے سے زیادہ مستحق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔یہاں تک کہ وہ تیر جو تم اپنے پہلو سے نکالو تم اس کے بھی اپنے دوسرے بھائی سے زیادہ حقدار نہیں ہو ۔ ( السنن الکبری اسنادہ قوی )
[یعنی اگر تمھیں دشمن کا تیر پہلو میں لگا پھر تم نے وہ تیر نکال لیا تو وہ بھی مال غنیمت میں جمع ہو گا اور سب میں برابر تقسیم ہوگا ۔ ]
 
فصل
جہاد میں مالی خیانت کرنے والے کو دو سزائیں ملتی ہیں ۔ ایک سزا دنیا میں اور ایک سزا آخرت میں ۔
آخرت کی سزائیں
جیسا کہ گزر چکا ے کہ خیانت کرنے والا دوزخ میں ڈالا جائے گا اور جو چیز اس نے خیانت کرکے لی ہوگی وہ قیامت کے دن یا تو آگ بنا کر اسے پہنا دی جائے گی یا اس پر لادی جائے گی اسی طرح وہ قیامت کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بھی محروم رہے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے صاف جواب دے دیں گے کہ تیرے لیے میں کچھ اختیار نہیں رکھتا اسی طرح اگر وہ جہاد میں مارا گیا تو وہ شہید بھی نہیں ہوگا کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر اس کی شہادت کی نفی فرمادی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کے بعد اس کی ناکامی میں کیا شبہہ رہ جاتا ہے ؟ [ ایسا شخص ظاہری طور پر مجاہد اور شہید ہے لیکن حقیقت میں نہ مجاہدہے اور نہ شہید جیسا کہ اگلی روایت سے معلوم ہوتا ہے ] ۔
جہاد میں نکلنے والوں کی دو قسمیں اور مجاہدین کی صفات​
٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جہاد میں نکلنے والے دو طرح کے ہیں۔
( 1 ) وہ لوگ جو جہاد میں نکل کر خود بھی کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی یاد دھانی کراتے ہیں اور زمین میں فساد نہیں پھیلاتے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور اپنے پسندیدہ قیمتی اموال جہاد میں خرچ کرتے ہیں اور وہ ان پر رشک کرتے ہیں جو اپنے مال اللہ کے راستے میں زیادہ خرچ کرتے ہیں یہ لوگ جب لڑائی میں ہوتے ہیں تو اس بات سے حیا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کے دل میں کوئی شک یا مسلمانوں کو رسوا کرنے والی کوئی بات دیکھے۔ جب انہیں خیانت کا موقع ملتا ہے تو ان کے دل اور ہاتھ خیانت سے پاک رہتے ہیں ۔شیطان ایسے لوگوں کو گمراہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ ان کے دلوں پر وار کر سکتا ہے ایسے ہی لوگوں کے ذریعے اللہ تعالی اپنے دین کو عزت عطاء فرماتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو تباہ کرتے ہیں ۔
( 2 ) دوسرے وہ لوگ ہیں جو جہاد میں نکل کر نہ خود کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو اس کی یاد دہانی کراتے ہیں اور اپنا مال بھی خوش دلی سے خرچ نہیں کرتے اور جو کچھ مجبوراً خرچ کرتے ہیں اسے بھی اپنے اوپر چٹی [ یعنی جرمانہ ] سمجھتے ہیں اور شیطان انہیں اس مال کے خرچ ہونے پر غم میں ڈال دیتا ہے لڑائی کے وقت یہ لوگ سب سے پیچھے اور سب سے زیادہ رسوا کرنے والوں میں ہوتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چھپ جاتے ہیں اور وہیں سے بیٹھ کر جنگ کا منظر دیکھتے ہیں پھر اگر اللہ تعالی مسلمانوں کو فتح دے دیتا ہے تو یہ سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والے [یعنی اپنے کارنامے بیان کرنے والے ] ہوتے ہیں اگر انہیں مال غنیمت میں خیانت کا موقع ملتا ہے تو اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں اور شیطان انہیں سمجھاتا ہے کہ یہ مال غنیمت ہے اگر انہیں وسعت ملتی ہے تو اکڑتے ہیں اگر انہیں تنگی کا سامنا ہوتا ہے تو شیطان انہیں لالچ میں مبتلا کر دیتا ہے ان لوگوں کو مجاہد کا کوئی اجر نہیں ملتا سوائے اس کے کہ ان کے جسم مجاہدین کے جسموں کے ساتھ اور ان کا چلنا مجاہدین کے چلنے کے ساتھ نظر آتا ہے جبکہ ان کی نیت اور اعمال مجاہدین سے بالکل مختلف ہوتے ہیں قیامت کے دن پہلے اللہ تعالی انہیں مجاہدین کے ساتھ جمع فرمائے گا پھر انہیں الگ کر دے گا ۔ ( کتاب الجہادالابن المبارک سندہ صحیح )
٭ ایک حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے کہ جس نے خیانت کرکے کوئی چیز لے لی تو اس چیز کو قیامت کے دن جہنم میں ڈالا جائے گا اور خیانت کرنے والے کو حکم دیا جائے گا کہ وہ آگ میں غوطہ لگا کر اس چیز کو نکال لائے۔ ( ابن عساکر )
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سات اونٹنیوں کے وزن کا ایک پتھر جہنم میں ڈالا جائے گا اور وہ ستر سال تک نیچے گرتا رہے گا ۔ اور خیانت سے حاصل شدہ کئے ہوئے مال کو بھی اس کے ساتھ ڈالا جائے گا اور پھر خیانت کرنے والے کو کہا جائے گا کہ وہ اسے اٹھا کر لائے یہی اللہ تعالی کے اس فرمان کا مطلب ہے :۔
ترجمہ : [ اور خیانت کرنے والوں کو قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز ( اللہ تعالی کے روبرو) لاحاضر کرنی ہو گی ] ( آل عمران ۔ 161 )
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : خیانت کرنے والوں پر یہ عذاب ہوگا کہ وہ چیزیں لائی جائیگی جو انہوں نے خیانت سے لی ہوگی اور اسے جہنم کے سمندر میں ڈالا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کہ غوطہ لگا کر اس چیز کو نکال لاؤ اور وہ چیز آگ کے سمندر کے تہہ تک پہنچ جائے گی اور اس کی تہہ کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا چنانچہ وہ لوگ اس میں جہاں تک اللہ تعالی نے چاہا غوطہ لگائیں گے پھر وہ سانس لینے کے لیے اپنے سر نکالیں گے تو ان میں سے ہر انسان کی طرف ستر ہزار فرشتے لوہے کے ہتھوڑے لیکر بڑھیں گے اور ان کے سروں پر ماریں گے اور ہمیشہ یہ لوگ اسی عذاب میں گرفتار رہیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مال غنیمت میں خیانت اللہ کی ناراضگی اور غصے کا موجب ہے جیسا کہ قرآن مجید میں : کمن بآء بسخط من اللہ ۔ ( آل عمران ۔ 162) [ وہ اس شخص کی طرح ( مرتکب خیانت ) ہو سکتا ہے جو اللہ تعالی کی ناخوشی میں گرفتار ہو ] سے مراد وہ لوگ ہیں جو خیانت کرتے ہیں خود سوچئے کہ اللہ کی ناراضگی سے بڑھ کر اور کیا سزا ہوسکتی ہے ۔
خیانت کی دنیوی سزائیں
خیانت کی دنیوی سزا یہ ہے کہ جس قوم میں بھی خیانت آجاتی ہے ان کےدلوں پر دشمنوں کا رعب چھا جاتا ہے اور فتح ان سے دور ہو جاتی ہے ۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ جس قوم میں خیانت آجاتی ہے ان کے دلوں پر اللہ تعالی [ دشمنوں کا ] رعب ڈال دیتا ہے اور جس قوم میں زنا پھیل جاتا ہے ان میں کثرت سے موت واقع ہوتی ہے اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اللہ تعالی ان کی روزی کو کم کر دیتا ہے اور جو قوم ناحق فیصلے کرتی ہے اس میں خون خرابہ عام ہوجاتا ہے اور جو لوگ عہد توڑتے ہیں ان پر اللہ تعالی دشمنوں کو مسلط فرما دیتا ہے ۔ ( موطا امام مالک موقوفاً۔ ابن ماجہ )
یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن ایسی باتیں اپنی رائے سے نہیں کہی جاسکتیں اس لیے یہ مرفوع روایت ہے اور حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی ایک مرفوع حدیث بھی طبرانی اور بیہقی نے روایت کی ہے ۔
٭ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میری امت خیانت نہیں کرے گی تو کبھی بھی دشمن اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے حضرت حبیب بن مسلمہ سے پوچھا کیا دشمن تمھارے مقابلے میں ایک بکری کے دودھ دوھنے کی مقدار جم کر لڑتا ہے انہوں نے کہا جی ہاں اور کبھی کبھار تین بکریوں کے دودھ دوھنے کی مقدار بھی ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا رب کعبہ کی قسم تم لوگ مال غنیمت میں خیانت کرنے لگے ہو۔ ( الطبرانی باسنادجید )
مصنف رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت حبیب الفہری شامی امام بخاری رحمہ اللہ کے بقول صحابی ہیں اور انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی ہے جبکہ واقدی نے ان کے سماع کا انکار کیا ہے ۔ رومیوں سے زیادہ جنگیں کرنے کی وجہ سے انہیں حبیب الروم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان کی شان میں حضرت حسان بن ثابت نے فرمایا : [ ترجمہ شعر ]
ان مجاہدین میں حبیب بھی ہیں جو موت کا شعلہ ہیں وہ ہمیشہ کمر کس کے ان کے آگے رہتے ہیں اور ان کے چہرے سے غضب ظاہر ہوتا ہے ۔
٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جہاد سے واپس آنے والوں سے پوچھتے تھے کیا دشمن تمھارے مقابلے میں جم کر لڑتا تھا اگر وہ کہتے کہ ہاں تو آپ فرماتے تم نے مال غنیمت میں خیانت کی ہوگی ۔ ( ابن عساکر منقط)
فصل
٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم کسی ایسے شخص کو پاؤ جس نے مال غنیمت میں خیانت کی ہو تواس کے سامان کو جلادو اور اس کی پٹائی کرو۔ ( ابوداؤد)
صالح بن محمد کہتے ہیں کہ ہم ولید بن ہشام کے ساتھ جہاد میں نکلے ہمارے ساتھ حضرت سالم بن عبداللہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز بھی تھے ایک شخص نے کچھ خیانت کی تو ولید رحمہ اللہ نے اس کا سامان جلانے اور اسے لوگوں میں گھمانے اور مال غنیمت میں سے اس کا حصہ ضبط کرنے کا حکم دیا ۔ ( ابوداؤد )
مال غنیمت میں خیانت کرنے والوں کو کیا سزا دی جائے گی اس میں ائمہ کرام کے مختلف اقوال ہیں ۔
[ زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس کے لیے تعزیر ہے یعنی مسلمانوں کا شرعی حکمران یہ فیصلہ کرے گا کہ اسے کیا سزا دی جائے اسی طرح خیانت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خیانت کیا ہوا مال واپس لوٹا دے لیکن اگر اس مال کے مالک ادھر اُدھر منتشر ہو چکے ہوں اور ان تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو اس مال کا پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرادے اور باقی صدقہ کر دے ۔ اس مسئلے کی مزید تفصیلات فقہ یا احکام جہاد کی کتابوں میں مذکور ہیں ] ۔
مسئلہ : مجاہدین کے لیے جائز ہے کہ وہ دوران جہاد دشمنوں سے چھینے ہوئے مال میں سے کھانے پینے کی اشیاء اپنی سواریوں کا چارہ اور ایمونیشن وغیرہ تقسیم سے پہلے بھی استعمال کر سکتے ہیں اسی طرح جلانے کے لیے لکڑیاں اور لگانے کے لیے تیل بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔
[ حضرات مجاہدین کے لیے یہ بات نہایت اہمیت کا حامل ہے ٹریننگ کے دوران ہی مجاہدین کو یہ بات اچھی طرح سے پڑھا اور سمجھا دینا چاہئے تاکہ اجتماعی اموال میں خیانت کے جرم عظیم سے وہ واقف ہو جائیں اور جہاد کے دوران وہ نفرت کی حد تک اس سے بچیں اسی طرح مجا ہد ین کے شعبہ ما لیا ت میں کا م کر نے وا لوں کو چا ہئے کہ اس باب کی احادیث کتبوں پر لکھ کر اپنے کمرے میں دیواروں پر لگا دیں تاکہ بار بار پڑھنے سے خود کو بھی یاد دھانی ہوتی رہے اور ہر آنے جانے والا بھی ان اہم احکام سے واقف ہو سکے ویسے تو ایک سچے مجاہد کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اجتماعی اموال میں خیانت کا تصور بھی کر سکے کیونکہ وہ تو اپنی جان اور مال اللہ تعالی کو دینے کے لیے میدانوں میں اترتا ہے تو اسے مال سے کیا عرض ؟ لیکن مسلسل یاد دھانی نہ ہونے کی وجہ سے اور زیادہ عرصہ محاذ جنگ سے دور رہنے کی وجہ سے بعض مجاہدین کو شیطان پھسلا دیتا ہے اور وہ اس تباہ کن گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دنیا کے چند حقیر ٹکوں کی خاطر جہاد جیسے عظیم الشان عمل کو تباہ کر دیتے ہیں ایسے ظالموں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو مسجد کی بیرونی چاردیواری میں داخل ہو کر نماز کے لیے جانے کی بجائے مسجد کے بیت الخلاء میں گھس کر پیشاب پینے لگے اور غلاظت کھانے لگےاور کوئی بدنصیب آدمی مسجد میں داخل ہو کر وہاں کی چٹائیوں یا گھڑی وغیرہ کو چرانے کی کوشش کرے ۔ باہر والے لوگ تو یہ دیکھ کر کہ یہ آدمی مسجد میں داخل ہوا ہے اسے نمازی سمجھیں گے لیکن حقیقت میں وہ نمازی نہیں بلکہ پیشاب پینے اور غلاظت کھانے والا اور چٹائیاں اور گھڑی چوری کرنے والا ہے اسی طرح مجاہدین کے ساتھ منسلک ہر فرد کو لوگ مجاہد سمجھتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ تو واقعی مجاہد ہوتے ہیں اور وہ اپنی جان اور مال دیکر اور تقوے کی ذریعے اپنی جان کو سنوار کر اللہ کے لیے پیش کرتے ہیں اور اپنے جہاد کا اجر سوائے اللہ کے کسی سے نہیں مانگتے یہ لوگ یقیناً کامیاب ہیں اور انہی کے لیےہزاروں لاکھوں بشارتیں اور خوشخبریاں ہیں جبکہ بعض لوگ ایسے ہیں جن کا جہاد میں آنے کا مقصد ہی دنیا کمانا ہوتا ہے اور وہ اللہ کے لیے نہ جان دینا چاہتے ہیں نہ مال ۔ وہ تو جہاد کے اس پاک راستے میں دنیا کی غلاظت کھانے کے لیے آتے ہیں اور اپنی بد قسمتی کی بقدر غلاظت کھا کر مر جاتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ابتداء میں خالص جہاد ہی کے لیے نکلتے ہیں مگر پھر جہاد کے کاموں کے لیے مالداروں اور دنیوی عہدیداروں کے ساتھ اٹھتے بیٹھنے کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں یا مجاہدین کی کسی ذمہ داری کو پاکر وہ اپنے اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں اور انہیں یہ خیال آتا ہے کہ میرے پاس اچھا مکان ، اچھی گاڑی اور اچھے کپڑے ہونے چاہئیں اور شیطان انہیں یہ سکھاتا ہے کہ تمھاری ان چیزوں سے مجاہدین کو فائدہ پہنچے گا چنانچہ وہ خیانت میں مبتلا ہو جاتے ہیں یاابتداء میں تو جان دینے کے لیے نکلتے ہیں مگر مال غنیمت کے ڈھیر دیکھ کر ان کی نیت خراب ہو جاتی ہے یا لوگوں کی واہ واہ اور تعریف انہیں دنیا پرست بنا دیتی ہے اور وہ خنزیر کی طرح حرام مال کھا کر اپنی دنیا آخرت تباہ کر لیتے ہیں۔
اے مجاہد بھائیو! یاد رکھو مال غنیمت میں خیانت اور اجتماعی اموال میں خیانت ایسا بدترین گناہ ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں چلنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا ۔
پھر تم اسے کیسے معاف کراؤ گے ۔ اگر تم نے دنیا کمانی ہے تو محنت مزدوری کرکے کماؤ۔ جہاد کے مال میں خیانت کرکے اپنے آپ کو اور مسلمانوں کو رسوا نہ کرو ، یاد رکھو یہ مال سور کی گوشت کی طرح اور گدھے کے خون کی طرح اور کتے کے پیشاب کی طرح حرام ہے ۔
اللہ کے لیے اپنے بیوی بچوں کو ایسی غلاظت نہ کھلاؤ ۔ اللہ تعالی کی طرف سے روزی مقرر ہے اگر تم نے حرام سے پرہیز کیا تو ان شاء اللہ تمہیں یہ روزی حلال اور باعزت ذریعے سے مل جائے گی ۔
مجاہدین کو چاہئے کہ اپنے مالی نظام کو لکھ کر علماء کرام کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ اسے شریعت کی روشنی میں پرکھ سکیں۔ اسی طرح ہر مد کی رقم اسی مد میں خرچ کیا کریں اور اپنا ذمے دار صرف اسے بنائیں جس کو دین کا علم ہو اور وہ اللہ سے ڈرتا ہو ۔ اور حرام اور مشتبہ چیزوں سے بچتا ہو ۔ اگر آپ نے ایسے لوگوں کو اپنا قائد نہ بنایا تو ممکن ہے کہ جاہل اور ناخدا ترس لوگ اپنی جہالت اور بے پروائی کی وجہ سے آپ کو بھی مالی خیانت میں مبتلا کردیں اور حرام مال کھلا دیں تو یہ بہت بڑی بد قسمتی کی بات ہو گی ۔
یاد رکھئے دنیا میں اسلامی نظام تبھی نافذ ہو سکے گا جب ہم اسے سب سے پہلے اپنے اوپر نافذکریں گےاور اسلام کے ایک ایک حکم کو اہمیت دیں گے ۔ آج بعض مجاہدین اپنے جہاد کے نشے میں آکر اسلام کے دیگر احکام کو حقیر سمجھتے ہیں یاد رکھئے ایسے لوگ مجاہد نہیں بلکہ محض جنگجو ہیں کیونکہ مجاہد تو اسلام کا محافظ ہوتا ہے اور وہ تو اسلام کے کسی حکم کی تحقیر برداشت ہی نہیں کر سکتا ۔ چہ جائیکہ وہ خود اسلام کے کسی حکم کو حقیر سمجھے۔
جہاد بلا شبہہ ایک عظیم الشان نعمت ہے اور بہت بڑی سعادت ہے اور اس نعمت اور سعادت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ دل ریاکاری سے اور ہاتھ خیانت سے محفوظ ہوں ۔ اللہ تعالی ہمیں حقیقی مجاہد بنائے اور ہمیں ریاکاری اور خیانت سے محفوظ فرمائے ۔ آمین ثم آمین ]
 
Top