واجدحسین
معطل
تیسواں باب
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص تین چیزوں [ یعنی ] تکبر ، مال غنیمت میں خیانت اور قرض سے پاک مرا وہ جنت میں جائے گا ۔ ( ترمذی ۔ نسائی ۔ ابن ماجہ ۔ ابن حبان ۔ المستدرک )
مال غنیمت میں خیانت پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں ہم ان میں سے چند کو یہاں ذکر کرتے ہیں۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مال غنیمت میں خیانت کرنے والا مؤمن نہیں ہے اور اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہوتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی ایمان والا مال غنیمت میں خیانت نہیں کرتا ۔ ( مجمع الزوائد )
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ خیبر کے لیے نکلے اللہ تعالی نے ہمیں فتح عطاء فرمائی ہمیں مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں ملا بلکہ سامان ، کھانے کی اشیاء اور کپڑے ملے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غلام بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ غلام قبیلہ جزام کے رفاعہ نامی ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا جب ہم نے وادی میں پڑاؤ ڈالا تھا تووہ غلام اپنا سامان کھول رہا تھا کہ اسے ایک تیر لگا جو اس کی موت کا سبب بن گیا ۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ اس کے لیے شہادت مبارک ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر گز نہیں ۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے وہ چادر جو اس نے مال غنیمت میں سے تقسیم کرنے والے کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے لے لی تھی آگ بن کر اس پر بھڑک رہی ہے یہ سن کر لوگ سخت خوفزدہ ہو گئے اور ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لیکر حاضرہوا۔ اس نے کہا میں نے یہ خیبر کے دن لیے تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک تسمہ یا دو تسمے آگ کے ہیں ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
مصنف رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ وادی القریٰ میں قتل ہونے والے غلام کا نام مدعم ہے جبکہ بخاری کی ایک روایت میں اس طرح کا واقعہ "کَرۡ کَرَ ۃ " نامی شخص کی طرف منسوب ہے ۔ واللہ اعلم [ ممکن ہے کہ وہ دوسرا واقعہ ہو ]
٭ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ عصر کی نماز اداء فرمالیتے تو عبدالاشھل قبیلے کے لوگوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان کے ساتھ گفتگو فرماتے اور پھر مغرب کے لیے واپس لوٹ آتے تھے ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کے لیے جلدی جلدی [ مسجد نبوی کی طرف ] آرہے تھے کہ ہمارا گزر بقیع [ قبرستان ] سے ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اف ہے تجھ پر ، اف ہے تجھ پر ، اف ہے تجھ پر ۔ ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات میرے دل پر باری گزری میں آپ سے پیچھے ہو گیا اور میں نے گمان کیا کہ آپ مجھے فرما رہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا ہو گیا تمہیں چلتے کیوں نہیں ۔ میں نے عرض کیا آپ نے ابھی کچھ کہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا کہا ہے ؟ میں نے عرض کیا آپ نے مجھ پر اف فرمائی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ میں نے فلاں شخص کو کہا ہے میں نے اسے فلاں قبیلے میں زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے بھیجا تھا اس نے ایک چادر چرالی ۔ پس اسی چادر جیسی آگ کی زرہ اسے پہنا دی گئی ہے ۔ ( نسائی ۔ ابن حبان )
٭ حضرت ابو حازم بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت میں سے [ تقسیم سے پہلے ] ایک چادر لائی گئی اور عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ آپ کے لیے ہے تاکہ آپ دھوپ کے وقت اس سے سایہ حاصل کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمھارا نبی آگ کے سائے کے نیچے بیٹھے ۔ ( کتاب المراسیل لابی داؤد)
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے خیانت سے حاصل شدہ مال جہنم کا انگارہ ہے اور ایسا خزانہ آگ کا خزانہ ہے ۔ ( ابن عساکر )
علامہ ابن جریر نے لکھا ہے کہ نہاوند [ نامی علاقے ] میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سائب بن اقرع رضی اللہ عنہ کو نگران مالیات بناکر بھیجا اور ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالی مسلمانوں کو فتح عطاء فرما دے تو مال غنیمت ان میں تقسیم کر دینا اور خمس [ یعنی پانچواں حصہ الگ کر لینا ۔ حضرت سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مجاہدین میں مال غنیمت تقسیم کر رہاتھا کہ ایک کافر آیا اور اس نے کہا اگر آپ مجھے اور میرے گھر والوں کو امان دے دیں تو میں آپ کو یزد گرد کے خزانے کا پتہ بتادؤں گا اور یہ خزانہ آپ کا اور آپ کے امیر کا ہو جائے گا ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور وہ مجھے لے گیا اس نے مجھے موتیوں اور ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی دو بڑی ٹوکریاں دکھائیں میں نے انہیں اٹھوایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا ۔ انہوں نے کہا یہ بیت المال میں دے دو میں نے وہ بیت المال میں دے دیں اور جلدی سے کوفہ کی طرف لوٹا ابھی کوفہ پہنچا ہی تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاصد آگیااور اس نے میرے اونٹ کے بالکل پیچھے اپنا اونٹ بٹھایا اور کہا فوراً امیر المؤمنین سے ملو ، میں فوراً واپس گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے کیا ہوا مجھے اور ام السائب کے بیٹے کو میں نے عرض کیا کیا ہوا اے امیرالمؤمنین ؟ فرمانے لگے میں رات کو سویا تو دیکھا کہ فرشتے مجھے ان دو ٹوکریوں کی طرف گھسیٹ رہے ہیں اور ان ٹوکریوں سے آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں فرشتے کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کو ان آگ کی ٹوکریوں سے جلائیں گے، تو میں نے کہا کہ میں ان ٹوکریوں کو مسلمانوں میں تقسیم کر دوں گا ۔ اے سائب یہ دونوں ٹوکریاں لے جاؤ انہیں مسلمانوں کو دیئے جانے والے مال میں شامل کرلو ۔ سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں انہیں اٹھا کر لے گیا ۔ اور [تقسیم کے لیے ] کوفہ کی مسجد میں جاکر ڈال دیا ۔ ( ابن جریر فی تاریخہ)
جانوروں کے بولنے اور کپڑے [ یا کاغذ ] کے ہلنے میں حکمت یہ ہے کہ جس نے جو چیز بھی چرائی ہو گی اور اس میں خیانت کی ہو گی وہ چیز اپنی اپنی بولی میں اس کے سر پر شور کرے گی تاکہ خود اسے بھی تکلیف ہو اور لوگوں کے سامنے بھی وہ رسوا ہو جائے اور تمام انسانوں کو اس کی خیانت کا پتہ بھی چل جائے اور یہ سب کچھ محشر کے ہولناک دن ہوگا جس کی تکلیفیں ، گرمی اور پسینہ پہلے ہی اس شخص پر مسلط ہو گا ۔ ( واللہ اعلم )
٭ عطیہ بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کی [ جہاد کے دوران ] سواری مر گئی وہ حضرت مالک بن عبداللہ خثعمی رحمہ اللہ کے پاس آیا اس وقت ان کے سامنے مال غنیمت کا ایک ترکی گھوڑا بندھا ہوا تھا ۔ اس شخص نے کہا امیر صاحب مجھے یہ گھوڑا دیجئے حضرت مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اسے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ اس نے کہا میں آپ کو گھوڑا اٹھانے کے لیے تو نہیں کہہ رہا ۔ میں تو یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ مجھے دے دیجئے۔ حضرت مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ مال غنیمت کا ہے اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
[arabic]وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ[/arabic] ( سورہ آل عمران ۔ 161)
حالانکہ جو شخص خیانت کریگا وہ شخص اپنی خیانت کی ہوئی چیز کو قیامت کے دن حاضر کرے گا ۔
چنانچہ میں تو اسے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہاں اگر تم لشکر والوں سے پوچھ لو اور وہ تمہیں اپنا حصہ دے دیں تو میں بھی اپنا حصہ تمہیں دے دوں گا ۔ ( ابن عساکر)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت مالک بن عبداللہ مشہور صحابی ہیں اور جہاد میں زیادہ شرکت کرنے اور چالیس سال تک رومیوں کے ساتھ جہاد میں مجاہدین کی قیادت کرنے کی وجہ سے مالک السریا [ جنگوں کے مالک] کے لقب سے مشہور ہوئے ۔
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم [ اور آپ کے لشکر ] کے ہاتھ جب مال غنیمت لگتا تھا تو آپ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کردو چنانچہ لوگ مال غنیمت لاکر جمع کرا دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے خمس نکال کر باقی تقسیم فرما دیتے تھے ایک بار اعلان کے بعد ایک شخص بالوں کی ایک رسی لایا اور کہنے لگا یا رسول اللہ یہ میں نے مال غنیمت میں پائی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے بلال رضی اللہ عنہ کے تین مرتبہ آواز لگانے کو سنا تھا اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر تم اس وقت یہ رسی کیوں نہیں لائے تو وہ شخص معذرت کرنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب تم یہ رسی قیامت کے دن ہی لےکر آنا کیونکہ میں تو اب نہیں لوں گا ۔ ( ابوداؤد ۔ ابن حبان )
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت ایسا بھیانک جرم ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تک نصیب نہیں ہوگی بھلا اس سے بڑھ کر ہلاکت اور تباہی کیا ہو سکتی ہے کہ رحمۃ للعالمین کی رحمت اور شفقت سے انسان محروم ہو جائے۔
اے ہمارے پروردگار ۔ اے ارحم الراحمین ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم نہ فرما ۔ بے شک ہم کتنے بڑے مجرم ہی کیوں نہ ہوں ۔ [ آمین ]
٭ حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک کا غزوہ خیبر کے دن انتقال ہو گیا ۔ دوسرے حضرات نے اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا تم لوگ اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو۔ [ میں نہیں پڑھوں گا ] یہ سن کر چہروں کے رنگ اڑ گئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھارے اس ساتھی نے اللہ کے راستے میں نکل کر خیانت کی ہے ۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو اس میں یہودیوں کے کپڑے سینے والے تسموں میں سے ایک تسمہ موجود تھا جس کی قیمت دو درہم بھی نہیں تھی ۔ ( مسند احمد ۔ ابوداؤد ۔ نسائی ۔ ابن ماجہ )
[ اس مفہوم کی احادیث مختلف سندوں اور مختلف الفاظ کے ساتھ کثرت سے آئی ہیں اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ مال غنیمت میں سے حقیر سی خیانت بھی قیامت کے دن ذلت اور آگ کا باعث بن جائے گی ۔ العیاذ باللہ ]
٭ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوے میں غنیمت کے اونٹ کے پاس صحابہ کرام کو نماز پڑھائی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ کے کوہان کے بال اپنی دو انگلیوں کے درمیان پکڑ کر فرمایا یہ بھی تمھارے مال غنیمت میں سے ہیں اور اس میں میرا حصہ بھی تمھارے حصے جتنا ہے ۔ سوائے خمس کے اور وہ بھی تمھاری طرف ہی لوٹا دیا جاتا ہے مال غنیمت کے سوئی دھاگے کو بھی اور اس سے زیادہ اور اس سے کم کو بھی جمع کرایا کرو اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرو کیونکہ خیانت دنیا اور آخرت میں خیانت کرنے والوں کے لیے ذلت اور آگ کا سبب ہےاور اللہ کے راستے میں دور والوں اور قریب والوں سب سے جہاد کیا کرو اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو اور سفر حضر میں اللہ کی حدود کو قائم رکھا کرواور اللہ کے راستے میں جہاد کرو کیونکہ جہاد جنت کے دروازوں میں سے بڑا دروازہ ہے اس کے ذریعے اللہ تعالی تفکرات اور غم سے نجات عطاء فرماتے ہیں ۔ ( تفسیر ابن کثیر )
٭ حضرت عبداللہ بن شفیق رضی اللہ عنہ بلقین کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان فرمایا کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ غنیمت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور باقی چار حصے مجاہدین کے لیے ۔ میں نے عرض کیا کیا اس میں سے کسی چیز کا کوئی شخص دوسرے سے زیادہ مستحق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔یہاں تک کہ وہ تیر جو تم اپنے پہلو سے نکالو تم اس کے بھی اپنے دوسرے بھائی سے زیادہ حقدار نہیں ہو ۔ ( السنن الکبری اسنادہ قوی )
[یعنی اگر تمھیں دشمن کا تیر پہلو میں لگا پھر تم نے وہ تیر نکال لیا تو وہ بھی مال غنیمت میں جمع ہو گا اور سب میں برابر تقسیم ہوگا ۔ ]
مال غنیمت میں خیانت بہت بڑا گناہ ہے
اور اگر خائن مارا جائے تو شہید نہیں ہے
خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے غلول مال غنیمت میں خیانت کو کہتے ہیں وہ اس طرح کہ لشکر کا امیر یا کوئی مجاہد مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ لے لے اور اسے تقسیم والے تک نہ پہنچائے خواہ یہ مال تھوڑا ہو یا زیادہ بعض علماء کے نزدیک اسے غلول اس لیے کہتے ہیں کہ شریعت نے ہاتھوں کو ایسا کرنے سے باندھ دیا ہے ۔ مال غنیمت میں خیانت بہت بڑا گناہ اور بڑی سخت معصیت ہے ۔اور اگر خائن مارا جائے تو شہید نہیں ہے
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص تین چیزوں [ یعنی ] تکبر ، مال غنیمت میں خیانت اور قرض سے پاک مرا وہ جنت میں جائے گا ۔ ( ترمذی ۔ نسائی ۔ ابن ماجہ ۔ ابن حبان ۔ المستدرک )
مال غنیمت میں خیانت پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں ہم ان میں سے چند کو یہاں ذکر کرتے ہیں۔
( 1) خیانت والا مال دوزخ کی آگ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ خیبر کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا فلاں شہید ہوا ہے اور فلاں شہید ہوا ہے یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس سے گزرے اور کہا یہ شہید ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر گز نہیں میں نے اسے جہنم میں ایک ایسی چادر میں دیکھا ہے جو اس نے مال غنیمت سے چرائی تھی یا اس عبا میں دیکھا ہے جو اس نے مال غنیمت سے چرائی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خطاب لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں صرف ایمان والے داخل ہوں گے ۔ ( مسلم شریف )مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مال غنیمت میں خیانت کرنے والا مؤمن نہیں ہے اور اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہوتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی ایمان والا مال غنیمت میں خیانت نہیں کرتا ۔ ( مجمع الزوائد )
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ خیبر کے لیے نکلے اللہ تعالی نے ہمیں فتح عطاء فرمائی ہمیں مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں ملا بلکہ سامان ، کھانے کی اشیاء اور کپڑے ملے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غلام بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ غلام قبیلہ جزام کے رفاعہ نامی ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا جب ہم نے وادی میں پڑاؤ ڈالا تھا تووہ غلام اپنا سامان کھول رہا تھا کہ اسے ایک تیر لگا جو اس کی موت کا سبب بن گیا ۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ اس کے لیے شہادت مبارک ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر گز نہیں ۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے وہ چادر جو اس نے مال غنیمت میں سے تقسیم کرنے والے کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے لے لی تھی آگ بن کر اس پر بھڑک رہی ہے یہ سن کر لوگ سخت خوفزدہ ہو گئے اور ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لیکر حاضرہوا۔ اس نے کہا میں نے یہ خیبر کے دن لیے تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک تسمہ یا دو تسمے آگ کے ہیں ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
مصنف رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ وادی القریٰ میں قتل ہونے والے غلام کا نام مدعم ہے جبکہ بخاری کی ایک روایت میں اس طرح کا واقعہ "کَرۡ کَرَ ۃ " نامی شخص کی طرف منسوب ہے ۔ واللہ اعلم [ ممکن ہے کہ وہ دوسرا واقعہ ہو ]
٭ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ عصر کی نماز اداء فرمالیتے تو عبدالاشھل قبیلے کے لوگوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان کے ساتھ گفتگو فرماتے اور پھر مغرب کے لیے واپس لوٹ آتے تھے ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کے لیے جلدی جلدی [ مسجد نبوی کی طرف ] آرہے تھے کہ ہمارا گزر بقیع [ قبرستان ] سے ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اف ہے تجھ پر ، اف ہے تجھ پر ، اف ہے تجھ پر ۔ ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات میرے دل پر باری گزری میں آپ سے پیچھے ہو گیا اور میں نے گمان کیا کہ آپ مجھے فرما رہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا ہو گیا تمہیں چلتے کیوں نہیں ۔ میں نے عرض کیا آپ نے ابھی کچھ کہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا کہا ہے ؟ میں نے عرض کیا آپ نے مجھ پر اف فرمائی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ میں نے فلاں شخص کو کہا ہے میں نے اسے فلاں قبیلے میں زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے بھیجا تھا اس نے ایک چادر چرالی ۔ پس اسی چادر جیسی آگ کی زرہ اسے پہنا دی گئی ہے ۔ ( نسائی ۔ ابن حبان )
٭ حضرت ابو حازم بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت میں سے [ تقسیم سے پہلے ] ایک چادر لائی گئی اور عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ آپ کے لیے ہے تاکہ آپ دھوپ کے وقت اس سے سایہ حاصل کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمھارا نبی آگ کے سائے کے نیچے بیٹھے ۔ ( کتاب المراسیل لابی داؤد)
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے خیانت سے حاصل شدہ مال جہنم کا انگارہ ہے اور ایسا خزانہ آگ کا خزانہ ہے ۔ ( ابن عساکر )
علامہ ابن جریر نے لکھا ہے کہ نہاوند [ نامی علاقے ] میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سائب بن اقرع رضی اللہ عنہ کو نگران مالیات بناکر بھیجا اور ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالی مسلمانوں کو فتح عطاء فرما دے تو مال غنیمت ان میں تقسیم کر دینا اور خمس [ یعنی پانچواں حصہ الگ کر لینا ۔ حضرت سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مجاہدین میں مال غنیمت تقسیم کر رہاتھا کہ ایک کافر آیا اور اس نے کہا اگر آپ مجھے اور میرے گھر والوں کو امان دے دیں تو میں آپ کو یزد گرد کے خزانے کا پتہ بتادؤں گا اور یہ خزانہ آپ کا اور آپ کے امیر کا ہو جائے گا ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور وہ مجھے لے گیا اس نے مجھے موتیوں اور ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی دو بڑی ٹوکریاں دکھائیں میں نے انہیں اٹھوایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا ۔ انہوں نے کہا یہ بیت المال میں دے دو میں نے وہ بیت المال میں دے دیں اور جلدی سے کوفہ کی طرف لوٹا ابھی کوفہ پہنچا ہی تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاصد آگیااور اس نے میرے اونٹ کے بالکل پیچھے اپنا اونٹ بٹھایا اور کہا فوراً امیر المؤمنین سے ملو ، میں فوراً واپس گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے کیا ہوا مجھے اور ام السائب کے بیٹے کو میں نے عرض کیا کیا ہوا اے امیرالمؤمنین ؟ فرمانے لگے میں رات کو سویا تو دیکھا کہ فرشتے مجھے ان دو ٹوکریوں کی طرف گھسیٹ رہے ہیں اور ان ٹوکریوں سے آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں فرشتے کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کو ان آگ کی ٹوکریوں سے جلائیں گے، تو میں نے کہا کہ میں ان ٹوکریوں کو مسلمانوں میں تقسیم کر دوں گا ۔ اے سائب یہ دونوں ٹوکریاں لے جاؤ انہیں مسلمانوں کو دیئے جانے والے مال میں شامل کرلو ۔ سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں انہیں اٹھا کر لے گیا ۔ اور [تقسیم کے لیے ] کوفہ کی مسجد میں جاکر ڈال دیا ۔ ( ابن جریر فی تاریخہ)
( 2 ) خیانت کیا ہوا مال گردن کا سوار
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے خیانت کا تذکرہ فرمایا اور اسے بہت عظیم اور بد تر گناہ قرار دیا اور فرمایا کہ میں قیامت کے دن تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو جو آوازیں نکال رہی ہو ۔ [ یا ] اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو جس کی ہنہنانے کی آواز ہو [پھر وہ ] مجھے پکار کر کہے یا رسول اللہ میری مدد کیجئے ۔ میں کہوں گا کہ میں تو کچھ اختیار نہیں رکھتا میں تو تمہیں اللہ کے احکام پہنچا چکا ہوں [ اور کوئی اس حال میں نہ آئے کہ ] اسکی گردن پر اونٹ سوار ہو اور اسکے بلبلانے کی آواز ہو اور وہ کہے یا رسول اللہ میری مدد فرمایئے میں کہوں گا میں تو کچھ اختیار نہیں رکھتا میں تمہیں احکام پہنچا چکا ہوں ۔ کسی کی گردن پر بے آواز سونا اور چاندی مسلط ہوگا اور وہ کہے گا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد فرمایئے میں کہوں گا میں تو کچھ اختیار نہیں رکھتا میں تمہیں احکام پہنچا چکا ہوں ۔ اور کسی کی گردن پر کپڑے چیتھڑے ہل رہے ہوں گے اور کہے گا اے اللہ کے رسول میری مدد فرمایئے ۔ میں کہوں گا میں تو کچھ اختیار نہیں رکھتا میں تو احکام پہنچا چکا ہوں ۔ ( بخاری ۔ مسلم و اللفظ للبخاری)جانوروں کے بولنے اور کپڑے [ یا کاغذ ] کے ہلنے میں حکمت یہ ہے کہ جس نے جو چیز بھی چرائی ہو گی اور اس میں خیانت کی ہو گی وہ چیز اپنی اپنی بولی میں اس کے سر پر شور کرے گی تاکہ خود اسے بھی تکلیف ہو اور لوگوں کے سامنے بھی وہ رسوا ہو جائے اور تمام انسانوں کو اس کی خیانت کا پتہ بھی چل جائے اور یہ سب کچھ محشر کے ہولناک دن ہوگا جس کی تکلیفیں ، گرمی اور پسینہ پہلے ہی اس شخص پر مسلط ہو گا ۔ ( واللہ اعلم )
٭ عطیہ بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کی [ جہاد کے دوران ] سواری مر گئی وہ حضرت مالک بن عبداللہ خثعمی رحمہ اللہ کے پاس آیا اس وقت ان کے سامنے مال غنیمت کا ایک ترکی گھوڑا بندھا ہوا تھا ۔ اس شخص نے کہا امیر صاحب مجھے یہ گھوڑا دیجئے حضرت مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اسے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ اس نے کہا میں آپ کو گھوڑا اٹھانے کے لیے تو نہیں کہہ رہا ۔ میں تو یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ مجھے دے دیجئے۔ حضرت مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ مال غنیمت کا ہے اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
[arabic]وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ[/arabic] ( سورہ آل عمران ۔ 161)
حالانکہ جو شخص خیانت کریگا وہ شخص اپنی خیانت کی ہوئی چیز کو قیامت کے دن حاضر کرے گا ۔
چنانچہ میں تو اسے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہاں اگر تم لشکر والوں سے پوچھ لو اور وہ تمہیں اپنا حصہ دے دیں تو میں بھی اپنا حصہ تمہیں دے دوں گا ۔ ( ابن عساکر)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت مالک بن عبداللہ مشہور صحابی ہیں اور جہاد میں زیادہ شرکت کرنے اور چالیس سال تک رومیوں کے ساتھ جہاد میں مجاہدین کی قیادت کرنے کی وجہ سے مالک السریا [ جنگوں کے مالک] کے لقب سے مشہور ہوئے ۔
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم [ اور آپ کے لشکر ] کے ہاتھ جب مال غنیمت لگتا تھا تو آپ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کردو چنانچہ لوگ مال غنیمت لاکر جمع کرا دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے خمس نکال کر باقی تقسیم فرما دیتے تھے ایک بار اعلان کے بعد ایک شخص بالوں کی ایک رسی لایا اور کہنے لگا یا رسول اللہ یہ میں نے مال غنیمت میں پائی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے بلال رضی اللہ عنہ کے تین مرتبہ آواز لگانے کو سنا تھا اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر تم اس وقت یہ رسی کیوں نہیں لائے تو وہ شخص معذرت کرنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب تم یہ رسی قیامت کے دن ہی لےکر آنا کیونکہ میں تو اب نہیں لوں گا ۔ ( ابوداؤد ۔ ابن حبان )
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت ایسا بھیانک جرم ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تک نصیب نہیں ہوگی بھلا اس سے بڑھ کر ہلاکت اور تباہی کیا ہو سکتی ہے کہ رحمۃ للعالمین کی رحمت اور شفقت سے انسان محروم ہو جائے۔
اے ہمارے پروردگار ۔ اے ارحم الراحمین ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم نہ فرما ۔ بے شک ہم کتنے بڑے مجرم ہی کیوں نہ ہوں ۔ [ آمین ]
٭ حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک کا غزوہ خیبر کے دن انتقال ہو گیا ۔ دوسرے حضرات نے اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا تم لوگ اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو۔ [ میں نہیں پڑھوں گا ] یہ سن کر چہروں کے رنگ اڑ گئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھارے اس ساتھی نے اللہ کے راستے میں نکل کر خیانت کی ہے ۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو اس میں یہودیوں کے کپڑے سینے والے تسموں میں سے ایک تسمہ موجود تھا جس کی قیمت دو درہم بھی نہیں تھی ۔ ( مسند احمد ۔ ابوداؤد ۔ نسائی ۔ ابن ماجہ )
( 3 ) خائن کی پردہ پوشی کرنے والا بھی اسی جیسا ہے
٭ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھےکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے خیانت کرنے والے کو چھپایا وہ بھی اسی جیسا ہے۔ ( ابوداؤد )( 4 ) خیانت آگ ہے ذلت ہے اور عار ہے تھوڑی ہو یا زیادہ
٭ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غنیمت میں سے ایک بال اٹھا کر فرماتے تھے کہ اس میں خمس کے علاوہ میرا بھی اتنا حصہ ہے جتنا تمھارا اور خمس بھی تمھاری طرف ہی لوٹتا ہے [اے لوگو ] سوئی دھاگہ اور اس سے بھی کم درجے کی چیزیں [مال غنیمت تقسیم کرنے والے کے پاس ] جمع کرا دیا کرو اور خیانت سے بچو کیونکہ وہ عار ہے آگ ہے اور خائن کے لیے قیامت کے دن ذلت ہے ۔ ( مسند احمد ۔ بزار )[ اس مفہوم کی احادیث مختلف سندوں اور مختلف الفاظ کے ساتھ کثرت سے آئی ہیں اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ مال غنیمت میں سے حقیر سی خیانت بھی قیامت کے دن ذلت اور آگ کا باعث بن جائے گی ۔ العیاذ باللہ ]
٭ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوے میں غنیمت کے اونٹ کے پاس صحابہ کرام کو نماز پڑھائی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ کے کوہان کے بال اپنی دو انگلیوں کے درمیان پکڑ کر فرمایا یہ بھی تمھارے مال غنیمت میں سے ہیں اور اس میں میرا حصہ بھی تمھارے حصے جتنا ہے ۔ سوائے خمس کے اور وہ بھی تمھاری طرف ہی لوٹا دیا جاتا ہے مال غنیمت کے سوئی دھاگے کو بھی اور اس سے زیادہ اور اس سے کم کو بھی جمع کرایا کرو اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرو کیونکہ خیانت دنیا اور آخرت میں خیانت کرنے والوں کے لیے ذلت اور آگ کا سبب ہےاور اللہ کے راستے میں دور والوں اور قریب والوں سب سے جہاد کیا کرو اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو اور سفر حضر میں اللہ کی حدود کو قائم رکھا کرواور اللہ کے راستے میں جہاد کرو کیونکہ جہاد جنت کے دروازوں میں سے بڑا دروازہ ہے اس کے ذریعے اللہ تعالی تفکرات اور غم سے نجات عطاء فرماتے ہیں ۔ ( تفسیر ابن کثیر )
٭ حضرت عبداللہ بن شفیق رضی اللہ عنہ بلقین کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان فرمایا کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ غنیمت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور باقی چار حصے مجاہدین کے لیے ۔ میں نے عرض کیا کیا اس میں سے کسی چیز کا کوئی شخص دوسرے سے زیادہ مستحق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔یہاں تک کہ وہ تیر جو تم اپنے پہلو سے نکالو تم اس کے بھی اپنے دوسرے بھائی سے زیادہ حقدار نہیں ہو ۔ ( السنن الکبری اسنادہ قوی )
[یعنی اگر تمھیں دشمن کا تیر پہلو میں لگا پھر تم نے وہ تیر نکال لیا تو وہ بھی مال غنیمت میں جمع ہو گا اور سب میں برابر تقسیم ہوگا ۔ ]