مادرانِ جرائم

ایم اے راجا

محفلین
مادرانِ جرائم
جس طرح ہر چیز کے پیدا ہونے اور پھر پنپنے کے جواز ہوتے ہیں اسی طرح جرائم کے پیدا ہونے اور پنپنے کے بہت سے اسباب ہیں، ان اسباب میں سے چند چیدہ چیدہ اور بڑے اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ نا انصافی 2۔ بے روزگاری۔ 3۔ معاشرے میں تعلیم کا فقدان 4۔ کمزور اور غیر منظم پولیس نظام ۔
ہما را معاشرہ آج جرائم کی آمجگاہ اور فیکٹری بنا ہوا ہے، سو ہمیں جرائم کو ختم کرنے کے لیئے اسکی پیدائش کے اسباب کا سدِ باب کرنا ہو گا، کیونکہ کسی جھاڑی کو ختم کرنے کے لیئے اسے اوپر سے کاٹ دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اسکی جڑ کو اکھیڑ ڈالنا ضروری ہے، ہم جائزہ لیتے ہیں کے اوپر بیان کردہ موجدِ جرائم کس طرح جرائم کی افزائش کا سبب ہیں۔
نا انصافی: عدل اور انصاف بہترین معاشرے کے لیئے نہایت ضروری ہے، جس معاشرے سے عدل اور انصاف اٹھ جائے اس معاشرے میں طر ح طرح کی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں جن میں سے سب سے خطرناک برائی جرائم ہے جو کہ معاشرے کے لیئے زہرِ قاتل ثابت ہوتی ہے ، اگر ہم آس پاس ( اپنے ملک و معاشرے میں) نظر دوڑائیں تو بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں عدل و انصاف اور قانون کی بالا دستی کا شدید فقدان ہے، جب کوئی معاشرہ کسی کو انصاف فراہم نہ کر سکے تو ظلم سے متاثر شخص خود بدلہ لینے کی آگ میں جلنے لگتا ہے اور پھر وہ حصولِ انصاف کے لیئے خود میدان میں ہتھیار اٹھا کر نکل آ تا ہے اور اسکی دیکھا دیکھی بہت سے لوگ اس سے مل کر ایک گروہ کی شکل میں تبدیل ہو جاتے ہیں، وہ اپنے بدلے کی آگ بجھانے کے بعد واپس معاشرے کی طرف اس خوف سے نہیں آتا کہ اب اسے بدلہ لینے کے جرم میں سزا بھگتنا پڑے گی اسی خوف سے وہ جرائم کی دنیا میں پناہ لینے کے لیئے داخل ہو جاتا ہے اور وہاں اسے بہت سے مفاد پر ست پناہ دینے کے لیئے میسر آ جاتے ہیں اور وہ شخص اسی طرح گروہ اور گروہ اسی طرح گروہ در گروہ میں تبدیل ہو کر معاشرے کے لیئے ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور پھر معاشرہ جو کہ خود اس ناسور کا ذمہ دار ہے اسکو ختم کرنے کے لیئے اپنی توانائیاں صرف کرنے لگتا ہے اور حکومت کی تما تر توجہ اور وسائل اس گروہ اور اسکی کارروائیوں کو روکنے میں صرف ہونے لگتے ہیں۔
جب کسی معاشرے میں نا انصافی ، رشوت ستانی اور بے حسی کا دور دورہ ہو تو ہم اس معاشرے کے مظلوم سے یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ بغیر کسی کارروائی کے چپ ہو کر بیٹھ جائے گا، یا تو وہ خود بدلہ لینے کی دھن میں جرائم کی دنیا کا رخ کر لے گا یا پھر خود کشی کر لے گا۔ معاشرے سے نا انصافی، رشوت اور ظلم کا خاتمہ ہی ایسی تلوار ہے جو کہ جرائم کے گراف کو بہت نیچے لاسکتی ہے، اور اس کے لیئے حکومت کو مخلص ہو کر متعلقہ اداروں سے کام لینے کی بے حد ضرورت ہے۔ اقربا پروری جو لوگوں میں احساسِ محرومی کا موجد بنتی ہے وہ معاشرے میں ہزار ہا خرابیوں کا باعث بھی بنتی ہے، اسی کے کارن قابل لوگ پیچھے رھ جاتے ہیں اور پھر یا تو انکی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتے ہے یا پھر وہ دوسرے ممالک کا رخ کرلیتے ہیں۔ جس معاشرے میں جرائم کی سطح آ خری حد کو چھو رہی ہو وہاں کبھی معاشی خوشحالی نہیں آ سکتی اور نہ ہی روٹی کپڑا اور مکان جیسے نعرے کی تکمیل ہو سکتی ہے۔
بے روزگاری: جب کوئی شخص بھوکا ہو تو ہم اس سے کیسے امید کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھانے کے لیئے کسی بھی صورت پانی کی تلاش نہیں کرے گا اور کسی بھی قیمت پر وہ اسے پانے کی انتہائی تگ و دو نہیں کرے گا؟ بے روزگاری اکثر وسائل کی غیر منصفانہ بندر بانٹ سے ہی وجود میں آتی ہے، اکثر لوگ شاید متفق نہ ہوں پر میرا ذاتی مشاہدہ ہیکہ جس معاشرے میں امراءاپنوں ہی کو نوکریاں دیں اور روزگار کے مواقع فراہم کریں کیا اس معاشرے میں بے روزگاری نہیں بڑھے گی؟ ہم اگر اپنے آس پاس نظر دوڑا کر دیکھیں تو بخوبی دیکھ سکتے ہیں اقربا پروری کی وجہ سے ملازمتوں میں ایسے لوگ بیٹھے ہیں ( اکثر اعلیٰ ملازمتوں میں) جن کو کوئی ضرورت نہیں تھی وہ خدمت کرنے یا ملازمت کو بطور روزگار نہیں بلکہ شان و شوکت کا سبب گردانتے ہیں، پاکستان میں کتنے سپاہیوں کے بچے ہوں گے جو کمیشنڈ افسر بنے ہیں، کتنے چپڑاسیوں کی اولادیں افسر بنی ہیں، کلرک کے بیٹے کا کلرک بن جانا بھی بہت بڑی بات ہے، سو بھوک اور بے روزگاری کی چکی میں پسنے والے لوگ اکثر جرائم کی طرف چل نکلتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ بندوق اٹھا لیں، جعلسازی ، منشیات فروشی اور ایسے دیگر چھوٹے موٹے جرائم سے وابستہ لاکھوں لوگوں کی نوے فیصد سے بھی زیادہ تعداد بے روزگاری سے تنگ آکر اسطرف چلی آئی ہے اور پھر اس دلدل میں ایسی دھنسی ہیکہ نکلنا دو بھر ہو گیا ہے۔ اگر ہم گٹکا ( پان کے پتے کے بغیر پان کی ایک گندی قسم جو کہ بہت زیادہ بیماریوں کا موجد ہے اور سندھ میں اس پر پابندی ہے مگر اس پابندی پر عمل شائد ہی ہو رہا ہے) فروشی اور بنانے کے مکروہ کاروبار کو دیکھیں تو اس سے وابستہ لوگوں کی بڑی تعدا د بے روزگاری کے سبب ہی اسطرف آئی تھی مگر اب وہ عادی ہو چکی ہے۔
میرا یہ مطلب نہیں کہ ہر آدمی کو سرکاری نوکری دینا ہی حکومت کی ذمہ داری ہے بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہیکہ وہ روزگار کے مواقع اور ساز گار ماحول پیدا کرے، قرض جو کہ بینکوں کے ذریعے دیئے جاتے ہیں ( روزگار کے لیئے) ان کی ترسیل عام ضرورت مند لوگوں تک انصاف کی بنیاد پر یقینی بنائے ۔ مفاد پرست پالیسی میکرز جو کہ لمبی اور مشکل پالیسیاں بنا کر مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں ان پر کڑی نظر رکھے اور ان عہدوں پر مخلص اور اہل لوگوں کو تعینات کرے اور بینکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں کو رشوت اور سفارش کی لعنت سے نکالے اور ملوث لوگوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔
معاشرے میں تعلیم کا فقدان: تعلیم کسی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اور تعلیم کا فقدان کسی معاشرے میں برائیوں اور دقیانوسی روایات کا موجد ہوتا ہے۔ وطنِ عزیز میں گزشتہ حکومتوں نے تعلیم کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جسکی وجہ سے ملک میں تعلیم کا فقدان رہا ، خاص طور پر صوبہ سندھ میں بنیادی اور اعلیٰ تعلیم سخت متاثر ہوئی ہے، اسکاسب سے بڑا سبب وقتاَ فوقتاَ محکمہ تعلیم میں سفارش کے ذریعے نااہل لوگوں کی تقرریاں رہا ہے ۔ پرائمری تعلیم ایک بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس بات کو نظر انداز کیا گیا ہے جسکی وجہ سے تعلیم کی عمارت کمزور رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم کو صرف پڑھنے لکھنے کا ہنر گردانا جاتا ہے جو کہ ایک غلط اور خطرناک سوچ ہے تعلیم میں جب تک تحقیق کو ایک خاص مقام نہ دیا جائے تعلیم فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔ ہمارے کالج اور یونیورسٹیاں طلبہ سیاست کے اکھاڑے بنے ہوئے ہیں اور انکی اس حالت زار کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور لیڈر ہیں جو طلبہ سیاست کے مہروں کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرتے ہیں، جس کے نہایت بھیانک نتائج آج ہمارا معاشرہ بھگت رہا ہے۔ ہماری مادر علمیوں سے بہت کم تعداد تعلیم یافتہ اورایک بڑی تعداد پڑھے لکھے انپڑھوں کی نکل رہی ہے جو معاشرے کو مزید مسائل کا شکار بنا رہی ہے، ہمارے تعلیمی ادارے اور انکے ہاسٹلز جرائم پیشہ افراد کی آمجگاہ بنے ہوئے ہیں، حکومت اور حکومتی اداروں کے علاوہ والدین بھی اس کے بڑے ذمہ دار ہیں جو اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے کے بعد مڑ کر انکی طرف دیکھتے تک نہیں کہ وہ کس راہ پر جا رہے ہیں۔
حکومت کو چاہیئے کہ وہ پرائمری تعلیم پر خصوصی توجہ دے اور لوگوں کے لیئے ایسی آگاہی پیدا کرنے کے انتظامات کرے جس سے عوام میں یہ احساس بیدار ہو کہ تعلیم صرف پڑھنا لکھنا ہی سیکھ لینے کا نام نہیں بلکہ تحقیق کا نام ہے، تعلیم جستجو کی راہیں دکھاتی ہے اور زندگی گذارنے کا طریقہ سکھاتی ہے اور دوسروں کو زندہ رہنے کے مواقع فراہم کرنے کا نام ہے۔ جس دن ایسی آگاہی اس سوتی ہوئی قوم میں پیدا ہو گئی اس دن ہمارا معاشرہ بہت سی بڑی بڑی برائیوں سے پاک ہو جائے گا۔
کمزور اور غیر منظم پولیس نظام ۔: اگر کسی عمارت کا چوکیدار سو جائے یا چورکے آنے پر اپنی آنکھیں بند کر لے تو پھر اس عمارت کو چوروں کی دسترس سے بھلا کون بچا سکتا ہے اور اس عمارت کے مکین چوروں کی ظالمانہ کارروائی سے کیسے بچ سکتے ہیں، ہمارے اداروں کا حال بھی ایسا ہی ہے کہ انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور بے حس ہو گئےہیں، اپنی ذمہ داریوں سے ایسے چشم پو ش ہوئے ہیں کہ لوگوں کا فالودہ نکل گیا ہے۔ چونکہ موضوع جرائم ہے اور جرائم دہشتگردی کے چھوٹے بھائی ہیں تو ہم اس موقع پر صرف جرائم کی روک تھام کرنے والے اداروں کے کردار پر بات کریں گے۔ محکمہ پولیس جو کہ بہت سے یونٹس پر مشتمل ہے امن امان کا ذمہ دار ہے، لیکن ہماری پولیس کو جرائم کی روک تھام سے زیادہ برسرِ اقتدار حکومتوں نے ہمیشہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیئے استعمال کیا ہے، جس محکمہ کے سپاہی کے خوف سے کبھی بڑے بڑے ملزم کانپتے تھے آج ہماری حکومتوں کی غلط روش کے سبب اور محکمہ میں بے جاسیاسی مداخلت کی وجہ اس محکمے کے اعلیٰ افسران وڈیروں اور چوہدریوں کے سامنے ہاتھ باندھے گڑ گڑا کر پیٹی ( بیلٹ) بچاتے نظر آتے ہیں یو ں معلوم ہوتا ہیکہ وہ سرکار کے نہیں بلکہ ان لوگوں کے ذاتی ملازم ہیں ہر ضلع گویا کہ وہاں کے بر سرِ اقتدار ایم پی ایز اور ایم این ایز و منسٹروں کی ذاتی ریاست معلوم ہوتا ہے اور انکے حکم اور پسند کے بغیر کسی تھانے پر ایک سپاہی کی پوسٹنگ بھی ممکن نہیں، اور جو لوگ قابل اور ایماندار ہوتے ہیں انھیں کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے، اگر ایمانداری سے دیکھا جائے اور سروے کیا جائے تو مارشل لاء کے دور میں جرائم کا گراف راتوں رات گر کر نہایت کم ہو جاتا ہے اور یہی پولیس لوگوں کی سچی محافظ نظر آتی ہے ،کیوں؟ کیونکہ سیاسی مداخلت ختم ہو جاتی ہے اور تقرریاں اور تبادلے کافی حد تک اہلیت کی بنیاد پر ہونے لگتے ہیں اور احتساب کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
میرا مقصد اس مثال سے قطعی یہ نہیں کہ مارشل لاءایک اچھا نظام ہے میرا مقصد اس مثال سے یہ تھا کہ محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت اور غیر قانونی اور سفارشی مقرریاں و تقرریاں جرائم میں بے تحاشہ اضافے کا ایک بڑا سبب ہیں، پولیس اس مداخلت کیوجہ سے سیاستدانوں کو خوش رکھنے کی تگ و دو میں اپنا اصل مقصد بھول جاتی ہے۔ ملک کے بہت سے حصے خصوصاَ اپر سندھ کے علاقے جرائم کی آمجگاہ بنے ہوئے ہیں اور لوگوں کے پاس بے تحاشہ غیر قانونی جدید اسلحہ ہے جو جرائم اور بدامنی کا سبب بنا ہواہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، شہدادکوٹ میں کچھ دنوں پہلے پولیس چوکی پر ہونے والا حملہ بھی اسکا منہ بولتا ثبوت ہے اور چیخ چیخ کر پوچھ رہا ہیکہ ان لوگوں کے پاس ایسا جدید اسلحہ کہا ں سے اور کیسے آیا۔ اس واقع پر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاھ کا کردار نہایت مثبت اور قابلِ تعریف رہا ہے کہ انہوں نے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اس واقع کو مجرمانہ و دہشتگردانہ حرکت قرار دیا جس سے جرائم پیشہ لوگوں اور وڈیروں کے حوصلے پست اور فورس کا مورال بلند ہوا ہے۔ جب چھوٹے موٹے جرائم کو قابل تنسیخ نہ جانا جائے تو یہ عمل جرم کی پرورش میں شمار ہوتا ہے اور وہی چھوٹاملزم کال کا بڑا ملزم اور پھر دہشت گرد بنتا ہے، اس لیئے ذمہ دار اداروں کو چاہئیے کہ وہ چھوٹے جرائم اور اسٹریٹ کرائم کے خاتمے کو اولین ترجیح دیں۔
حکومت کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ذہنی تربیت کا انتظام کرنا چاہئیےے تا کہ انکی مینٹلی اپروچ امپروو ہو سکے اور وہ اس جدید دور میں جرائم کے جدید طریقوں سے بہتر طور پر نپٹ سکیں۔ اقوامِ متحدہ کے ذریعے یا اپنے طور پرپاکستان پولیس کے چھوٹے اہلکاروں جن میں سپاہی بھی شامل ہوں ایک منصفانہ چناؤ کے ذریعے دماغی اور تفتیشی تر بیت کے لیئے ترقی یافتہ مما لک کی پولیس اور اسکاٹ لینڈ یارڈ بھیجا جائے۔
گزشتہ حکومت نے پولیس آرڈرز 2002 کیمطابق پولیس کی ازسر نو تنظیم کی لیکن یہ بات نہایت قابلِ افسوس ہیکہ ہمارے ملک میں نئے سسٹم تو رائج کر دیئے جاتے ہیں مگر انکی طرف مڑ کر دیکھا نہیں جاتا کہ وہ کس حال میں ہیں اور لگایا گیا وہ پودا جس پر قوم کے بے انتہا اخراجات صرف ہوئے ہیں وہ پھل بھی دے رہا ہیکہ نہیں، اسی طرح پولیس کو دو بڑے یونٹس انویسٹیگیشن اور آپریشن میں تبدیل / تقسیم کیا گیا تا کہ تفتیش کے مراحل ٹھیک طرح سے اور تیزی سے تکمیل پا سکیں، مگر جہاں تفتیش کے شعبے کو اچھے اہلکاروں کی ضرورت تھی وہاں آپریشن سے نہایت خراب لوگ تعینات کر دیئے گئے اور آپریشن کے مقابلے میں انویسٹیگیشن میں کم پڑھے لکھے اور جونیئر سربراہان تعینات کردیئے اور اسکے وجود میں آنے سے لیکر آج تک وسائل فراہم کرنے کے بجائے مسائل کا شکار رکھا گیا جسکی وجہ یہ تھی کہ مخصوص طبقہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک ضلع میں دو ایس پی ہوں اور انکو سفارش میں تکلیف ہو اور پولیس اسٹیبلشمنٹ بھی اختیارات میں کمی اور تقسیم کی وجہ سے بوکھلا گئی اور اس یونٹ کو پنپنے نہیں دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ تفتیشی پولیس کی علیحدہ کوئی ضرورت نہیں، حالانکہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کے تفتیشی شعبے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے بہرحال ان وجوہات کی وجہ سے یہ یونٹ اپنی افادیت کھو بیٹھا اور ایک خطیر رقم جو کہ پولیس کی تنظیمِ نو پر صرف ہوئی تھی ضائع ہو گئی۔ اگر اب بھی اس یونٹ کو اچھے اہلکار اور اعلیٰ پائے کے ضلعی سربراہ میسر آئیں تو یہ ایک بہت اچھا نظام ثابت ہو سکتا ہےاور اس یونٹ کو قطعی طور پر آزاد کیا جانا بھی لازمی ہے اسکا ضلعی سربراہ صرف اور صرف اپنے علیحٰدہ ڈی آئی جیز اور ایڈیشنل آئی جی کی معرفت آئی جی کو جوابدہ ہو تو یہ درخت جو اب تناور ہو چکا ہے بہتریں پھل دے سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اسے کاٹ کر اربوں روپے کا نقصان کیا جائے۔ اسکے علاوہ محکمہ پولیس میں نچلے درجے کے بجائے اوپری درجے سے احتساب کا عمل شروع کیا جانا چاہئیے اور رشوت ستانی کو اوپر سے ختم کرتے ہوئے نیچے تک آنے کے موئثر اور فول پروف اقدامات کیئے جانے چاہئیں۔
مندرجہ بالا بحث سے ثابت ہوتا ہیکہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور حکومت کی غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے اور جزاو سزا کے عمل کے ناپید یا نہایت سست ہونے کی وجہ سے لوگ جوک درجوک مختلف قسم کے گھناؤنے جرائم سے وابستہ ہو رہے جو کے بعد میں بڑے ملزم بن کر بڑے دہشتگردوں یا ان کے حواریوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ موجودہ جمہوری حکومت جو بے بہا قربانیوں کے بعد آئی ہے اس سے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کے نعرہ کو سچ کر دکھانے کے لیئے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں لیکن یہ نعرہ امن کے بغیر سچ ثابت ہونا ناممکن ہے، لہٰذا حکومت کو چاہئیے کہ وہ امن و امان قائم کرنے اور ظلم و نا انصافی کو مٹانے کے لیئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرے اور یہی اقدامات حکومت کے لیئے نئی روح اور طاقت کا سبب بنیں گے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔

ایم اے راجا
 

راشد احمد

محفلین
بڑی عمدہ تحریر ہے آپ کی

نا انصافی
کمزور اور غیر منظم پولیس نظام ۔

اگر یہ دونوں مسائل حل ہو جائیں تو بے روزگاری اور تعلیم کے مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے، میرے خیال میں ناانصافی کے خاتمہ کا مطلب ہے تمام لوگوں کو برابر کے حقوق۔ اس کی مددسے سفارش، میرٹ سے ہٹ کر کام کرنا، اقربا پروری کا خاتمہ خود ہی ہو جائے گا۔ جبکہ پولیس کا نظام بھی تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 70% جرائم تو پولیس کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ پولیس طاقت ور کی طاقت سے مرعوب ہو جاتی ہے، اس پر ہاتھ نہیں ڈالتی، رشوت لیتی ہے جس کی وجہ سے مجرم بڑے سے بڑا جرم کرنے سے نہیں ہچکچاتا اور پولیس اچھے بھلے شریف آدمی کوایک بڑا مجرم بنادیتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
تمام معاشرتی برائیاں کی جڑ ’’نا انصافی‘‘ سے ہی جنم لیتی ہے۔ انسان ہر چیز پر گزارہ کر لیتا ہے، لیکن نا انصافی پر نہیں!
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب راجا بھائی کبھی کبھی یہاں آ کر کچھ نا کچھ عطا کر دیا کریں بہت اچھی تحریر ہے نثر لکھنا کب سے شروع کر دیا آپ نے اچھا لکھا ہے جاری رکھے بہت شکریہ
 
Top