ماحول کی بہتری کی جنگ کہیں اور نہیں بلکہ شہروں میں
آج کی ہماری دنیا کا صرف دو فیصد رقبہ شہری آبادیوں پر مشتمل ہے لیکن انتہائی حیرت اور اہمیت کی متقاضی یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے ماحول پر انکا مجموعی اثر پچھتر فیصد ہے۔
ماہرین ماحولیات کے بقول اگر دنیاکو انسانوں اور دیگر حیاتیاتی اقسام کے رہنے کے قابل رہنے دینا ہے تو اسکے ماحول کی بہتری کی جنگ کہیں اور نہیں بلکہ شہروں میں لڑنی ہوگی۔ ماحولیات کے تحفظ کیلئے سرگرم عالمی ادارہ International Union for Conservation of Nature کے مطابق شہری آبادیوں میں انسانوں کےغیر معمولی اضافے اور انکی ماحول دشمن طرز زندگی سے پچیس فیصد ممالیہ جانداروں کی نسل خطرے میں پڑگئی ہے۔
لیکن بات صرف یہی نہیں کہ انسانوں کے دیہاتوں سے شہروں کا رخ کرنا دیگر جانداروں کی نسل کے لئے خطرے اور قدرت کی خوبصورتی ماند کرنے کا باعث ہے، اصل بات ہے کہ بہت سے شہر ماحول دوست ہونے کے بجائے ماحول دشمن بنتے جارہے ہیں۔خاص کر ترقی پزیر دنیا کے شہر، جو تاحال بائیو ڈائیو ورسٹی یعنی انسانی آبادی کے ساتھ ساتھ دیگر حیاتیاتی اقسام کی آبادی کیلئے بھی موضوع تھے اب انہی شہروں میں بائیو ڈائیورسٹی کو سب سے بڑا خطرہ ہے ۔
ان شہروں کے برعکس جرمن شہر میونخ ایک بہترین مثال ہے جہاں مختلف انواع کے پرندوں کی اتنی زیادہ تعداد موجود ہے جتنی کہ ملک کے کسی دوسرے حصے میں نہیں، جاپان کا شہرناگویا میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کرکے وہاں کے درجہ حرارت میں چار سینٹی گریڈ تک کمی کردی گئ ہے جبکہ برطانیہ کا شہر لندن لومڑیوں کی بڑی تعداد کے حوالے سے بائیو ڈائیورسٹی کی انوکھی اور بہترین مثالیں ہیں۔
عالمی ادارے کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا کی پچاس فیصد آبادی شہروں میں زندگی گزار رہی ہے جو اگلے چالیس سال میں پچھتر فیصد تک پہنچ جائے گی۔اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کے شہروں میں زندگی بسر کرنے کو مد نظر رکھتے ہوے، اقوام متحدہ کے کنوینشن برائے بائیو ڈائیورسٹی یعنی حیاتیاتی تنوع کے سربراہ Ahmed Djoghlaf نےشہروں میں رہنے والوں پر بہت بڑی زمہ داری عائد کی ہے کہ وہ خوراک، پانی و توانائی کے ذرائع کے استعمال میں حد سے زیادہ محتاط رہیں۔
پچھلے سال برازیل میں دنیا کے چونتیس ممالک کے مختلف شہروں کے Mayers نےیکجا ہوکر عہد کیا تھا کہ وہ اپنے اپنے شہروں میں باغیچوں اور درختوں کیلئے زیادہ زمین مختص کریں گے، توانائی کے ماحول دوست ذرائع اور ری سائیکلنگ کو اپنائیں گے۔عالمی ادارہ کے سربراہ کی خواہش ہے کہ دنیا کے دیگر شہر بھی اس عمل کی پیروی کریں۔
انسان اور دیگر حیاتیاتی اقسام کی بہترزندگی کیلئے دنیا کے ماحول میں بہتری کی کوششیں کرنے والے مانتے ہیں کہ کامیابی عام لوگوں کی مدد سے ممکن ہے، نہ کہ صرف حکومتوں پر تکیہ کرکے۔
آج کی ہماری دنیا کا صرف دو فیصد رقبہ شہری آبادیوں پر مشتمل ہے لیکن انتہائی حیرت اور اہمیت کی متقاضی یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے ماحول پر انکا مجموعی اثر پچھتر فیصد ہے۔
ماہرین ماحولیات کے بقول اگر دنیاکو انسانوں اور دیگر حیاتیاتی اقسام کے رہنے کے قابل رہنے دینا ہے تو اسکے ماحول کی بہتری کی جنگ کہیں اور نہیں بلکہ شہروں میں لڑنی ہوگی۔ ماحولیات کے تحفظ کیلئے سرگرم عالمی ادارہ International Union for Conservation of Nature کے مطابق شہری آبادیوں میں انسانوں کےغیر معمولی اضافے اور انکی ماحول دشمن طرز زندگی سے پچیس فیصد ممالیہ جانداروں کی نسل خطرے میں پڑگئی ہے۔
لیکن بات صرف یہی نہیں کہ انسانوں کے دیہاتوں سے شہروں کا رخ کرنا دیگر جانداروں کی نسل کے لئے خطرے اور قدرت کی خوبصورتی ماند کرنے کا باعث ہے، اصل بات ہے کہ بہت سے شہر ماحول دوست ہونے کے بجائے ماحول دشمن بنتے جارہے ہیں۔خاص کر ترقی پزیر دنیا کے شہر، جو تاحال بائیو ڈائیو ورسٹی یعنی انسانی آبادی کے ساتھ ساتھ دیگر حیاتیاتی اقسام کی آبادی کیلئے بھی موضوع تھے اب انہی شہروں میں بائیو ڈائیورسٹی کو سب سے بڑا خطرہ ہے ۔
ان شہروں کے برعکس جرمن شہر میونخ ایک بہترین مثال ہے جہاں مختلف انواع کے پرندوں کی اتنی زیادہ تعداد موجود ہے جتنی کہ ملک کے کسی دوسرے حصے میں نہیں، جاپان کا شہرناگویا میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کرکے وہاں کے درجہ حرارت میں چار سینٹی گریڈ تک کمی کردی گئ ہے جبکہ برطانیہ کا شہر لندن لومڑیوں کی بڑی تعداد کے حوالے سے بائیو ڈائیورسٹی کی انوکھی اور بہترین مثالیں ہیں۔
عالمی ادارے کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا کی پچاس فیصد آبادی شہروں میں زندگی گزار رہی ہے جو اگلے چالیس سال میں پچھتر فیصد تک پہنچ جائے گی۔اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کے شہروں میں زندگی بسر کرنے کو مد نظر رکھتے ہوے، اقوام متحدہ کے کنوینشن برائے بائیو ڈائیورسٹی یعنی حیاتیاتی تنوع کے سربراہ Ahmed Djoghlaf نےشہروں میں رہنے والوں پر بہت بڑی زمہ داری عائد کی ہے کہ وہ خوراک، پانی و توانائی کے ذرائع کے استعمال میں حد سے زیادہ محتاط رہیں۔
پچھلے سال برازیل میں دنیا کے چونتیس ممالک کے مختلف شہروں کے Mayers نےیکجا ہوکر عہد کیا تھا کہ وہ اپنے اپنے شہروں میں باغیچوں اور درختوں کیلئے زیادہ زمین مختص کریں گے، توانائی کے ماحول دوست ذرائع اور ری سائیکلنگ کو اپنائیں گے۔عالمی ادارہ کے سربراہ کی خواہش ہے کہ دنیا کے دیگر شہر بھی اس عمل کی پیروی کریں۔
انسان اور دیگر حیاتیاتی اقسام کی بہترزندگی کیلئے دنیا کے ماحول میں بہتری کی کوششیں کرنے والے مانتے ہیں کہ کامیابی عام لوگوں کی مدد سے ممکن ہے، نہ کہ صرف حکومتوں پر تکیہ کرکے۔