ماحولیات ۲۱ویں صدی کا ایک سنگین مسئلہ

عارف عزیز(بھوپال)
ماحولیات کے تئیں بیداری لانے کا مقصد عوام کو یہ آگاہی دینا ہے کہ غذا، کپڑا، رہائش، تعلیم، ملازمت اور صحت جیسے مسائل صرف آبادی میں اضافہ کا نتیجہ نہیں بلکہ ماحول کی آلودگی بھی اس کا ایک سبب ہے اس کو صاف اور بہتر بنانے کی طرف توجہ نہیں دی گئی تو ایک دن وہ وقت بھی آسکتا ہے جب خود انسان کا وجود ہی خطرہ میں پڑجائے گا۔اس سلسلے میں عالمی، قومی اور ریاستی پیمانے پر جو کوششیں ہورہی ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ان کوششوں کے باوجود دنیا کے ماحول میں آلودگی بڑھ رہی ہے اور وہ تیزی سے خراب ہوکر انسانی صحت کے لئے خطرہ بن رہا ہے جس کے متعدد اسباب ہیں۔

مثلاً شہری اور دیہی علاقوں میں آبادیاں بسانے کے لئے درختوں کی بے دردی سے قطع وبرید ، جس کی وجہ سے زمین پر جنگلوں کی کمی ہوگئی ہے اور یہ کمی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔اسی طرح لکڑی کا استعمال بڑھنے لگا ہے جس سے عمارتیں اور فرنیچر بنانے کے ساتھ ساتھ اسے بطور ایندھن استعمال کرنے سے اور خود انسان کی بنائی ہوئی مشینوں موٹر گاڑیاں اور مختلف قسم کے کارخانوں کے دھوئیں سے فضا کی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ آج کل جو گاڑیاں نقل وحمل کے مختلف کاموں میں استعمال ہورہی ہیں وہ سب پیٹرول یا ڈیزل سے چلتی ہیں اور تیزی سے منزل کی طرف جاتی ہوئی ایندھن کے بخارات کے بادل چھوڑ کر فضا کو کثیف بنادیتی ہیں پیٹرول کے جلنے سے بننے والے مرکبات انتہائی زہریلے ہوتے ہیں جو صر ف انسانوں اور جانوروں کی صحت ہی نہیں بگاڑتے بلکہ ہوا، پانی اور یہاں تک کہ زمین کو بھی نقصان پہونچاتے ہیں، یہی حال جراثیم کش ادویات کا بھی ہے جو ہر وقت ہوا میں شامل ہوتی رہتی ہیں اور ان سب کے نتائج امراضِ قلب خاص طور پر پھیپھڑوں کے کینسر کی صورت میں دنیا کے سامنے آرہے ہیں۔
ہمارے ملک کی ۷۰ فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جہاں اسے ہوا تو قدرے صاف میسر آجاتی ہے مگر پانی صاف نہیں ملتا یہ بھی انسانی صحت کی بربادی کا باعث بن رہا ہے خاص طور پر پانی میں جب صنعتی فضلہ شامل ہوجائے تو مزید خطرناک ہوجاتا ہے جس کا کسی حد تک اندازہ بڑے بڑے دریاؤں کی مچھلیاں مرنے سے ہوتا ہے ممبئی کا چمور علاقہ کبھی اپنے سرسبز وشاداب ماحول کے لئے مشہور تھا لیکن آج اس کے ارد گرد تیل کے کارخانے، کیمیائی کھاد کے پلانٹ اور دیگر صنعتوں کے قیام سے فضا اس قدر آلودہ ہوگئی ہے کہ وہاں کے شہری اکثر دمہ کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھوپال کے بڑے تالاب کا پانی انسانوں کے پینے کے قابل نہیں مگر پانی کا متبادل معقول انتظام کم ہونے کی صورت میں شہر کا ایک حصہ یہی پانی پینے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے عام طور پر مقامی شہری زکام، کھانسی، پیٹ کے مختلف امراض اور یرقان کا شکار رہتے ہیں۔ آج سے ۲۰۔۲۱سال پہلے بھوپال میں یونین کاربائیڈ جراثیم کش ادویہ کے کارخانہ سے زہریلی گیس خارج ہونے کے باعث جو گیس المیہ ہوا تھا اس کے اثرات بھی یہاں کے لوگ آج تک بھگت رہے ہیں جو ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق نسلوں تک جاری رہیں گے۔ فضائی کثا فت اور آبی آلودگی کے علاوہ شور وغل بھی آج کے انسان کے لئے ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے جس کی وجہ انسانوں میں بہراپن بڑھ رہا ہے اور دورانِ حمل بچے ضائع ہونے کے اوسط میں اضافہ ہوگیا ہے ماہرین کے مطابق اگر آگے شور وغل کم کرنے کے اقدامات نہیں کئے گئے تو ایک دہائی کے بعد شہروں کی نصف آبادی قوتِ سماعت سے محرو م ورنہ ہائی بلڈپریشر میں مبتلا ہوجائے گی۔ اس کی مزاجی کیفیت میں بے چینی اور ناآسودگی بھی برابر بڑھتی جارہی ہے۔
مذکورہ تین آلودگیوں کا مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ذمہ دار ادارے خطرات سے واقف ہوں اور سب میں اس کا شعور پیدا کیا جائے ورنہ آج ہم نے ماحول کے تئیں اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا تو کل مسموم ماحول خود ہماری ہلاکت کا موجب بن جائے گا۔

FikroKhabar - Online Urdu News Portal - ماحولیات ۲۱ویں صدی کا ایک سنگین مسئلہ
 
Top