ماؤں کے حوالے سے سوچنے کا دن

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
پچانوے برس پہلے امریکی صدر وڈرو ولسن نے اعلان کیا کہ ہرسال مئی کا دوسرا اتوار یومِ مادر کے طور پر منایا جائےگا۔ تب سے یہ دن رفتہ رفتہ کئی اقوام اور ممالک نے اپنا لیا۔ قدیم یونان میں کئی دیوتاؤں کو جنم دینے والی سائی بیلے کا یادگاری دن بچوں کی جانب سے ماں کو تحائف دینے کا دن تھا۔ رومن لوگ جونو دیوی کی یاد میں ایک دن مختص کرکے اپنی ماؤں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔جب کہ ارضِ ہند میں ماتا تیرتھا کا دن ماں کو پوجنے کا دن قرار پایا اور آج تک ہے۔گویا مشرق و مغرب کی ہر تہذیب نے ہر دور میں کسی نہ کسی بہانے ماں کے احسانات کا اعتراف کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔

مگر اس دنیا میں اگر سخت جان کرداروں کی فہرست بنائی جائے تو سرِ فہرست شاید ماں ہی ہوگی۔ جس نے ہم سب کو ہر سمت سے گھیر رکھا ہے۔ باپ کی منکوحہ ہے تو آپ کی ماں ہے۔ بیوی ہے تو آپ کے بچوں کی ماں ہے اور بیٹی ہے تو مستقبل کی ماں ہے۔ تو پھر اس سارے جھرمٹ میں سوائے اپنی ماں کے ہمیں سب مائع کیوں نظر آتا ہے۔

ہم یہ نکتہ کیوں یاد نہیں رکھتے کہ جس طرح ہر بیج میں ایک درخت چھپا ہوتا ہے اسی طرح ماں دراصل ہر بچی کے ساتھ ہی جنم لے لیتی ہے۔ لہذا منطق کا تقاضا تو یہی ہے کہ جس درخت کی تعظیم کی جائے اس کے بیج کو بھی اتنی ہی عزت دی جائے۔ لیکن منطق کی یہاں سنتا کون ہے؟
کہنے کو ہم سب کو اپنی ماں بہت ہی پیاری ہے۔ اتنی پیاری کہ ہم اپنے وطن کو مادرِ وطن کہتے ہیں اور مرمٹنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔اپنی زبان کو مادری زبان کہتے ہیں اور کوئی اس کا مذاق اڑائے تو منہ سے ماں کی گالی تک نکل جاتی ہے۔ ماں کے دودھ کی قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں اور اس پر قائم رہنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

لیکن اسی مادر پرست دنیا میں دوسرے کی ماں کا ریپ ہمیشہ سے انفرادی و اجتماعی انتقام کے سرِ فہرست ہتھیاروں میں بھی شامل ہے۔ ماں کے سامنے اسی کے بچوں کو نیزے پر اچھال دینا، سر کاٹ لینا یا ننگا دوڑانا بھی اسی مادر پرست دنیا میں ہی ہوتا ہے۔ کوئی ماں کی عظمت کی مالا جپتے جپتے اسے کمبھ کے میلے میں لاوارث چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی بیوگی کی سزا کے طور پر سفید ساڑھی پہنا، سرمنڈوا آشرم کے سپرد کرجاتا ہے۔ کوئی سب کچھ ہتھیانے کے لیے ماں کو پاگل خانے کے دروازے تک ہاتھ پکڑ کر لے جاتا ہے۔ تو کوئی اسے گھر میں رکھتا بھی ہے تو ایک کمرے تک محدود کردیتا ہے یا نہیں بھی کرتا تو ماں کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر چند روپے رکھ کر اپنے فرضِ مادری سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہر شخص تو ایسا نہیں ہوتا۔ پانچوں انگلیاں برابر تو نہیں ہوتیں۔ہر بھیڑ کالی تو نہیں ہوتی۔لیکن اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچیے گا کہ ہم میں سے کتنے لوگ ماں کو اس طرح سمجھتے ہیں جس طرح ماں ہمیں سمجھتی تھی، سمجھتی ہے اور سمجھتی رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کون ہے ؟ ایک عورت ہی تو ہے نا ! اس کی پوجا کا کیا مطلب؟ اسے پوجا نہیں دائمی عزت و احترام چاہیے۔

یومِ مادر پر زیادہ خوش دلی کا مظاہرہ، تحائف دینا، ماں کے گلے میں باہیں ڈال دینا یا گود میں سر رکھ دینا بالکل درست۔لیکن پھر؟؟؟؟

اتنا ہلکا سا تبسم تو نہ ہو گا کافی
آپ نے دیکھا نہیں، زخم بہت گہرا ہے
بشکریہ بی بی اردو ڈاٹ کام
 
Top