اختر شیرانی لیلی عشق کو درکار ہیں دیوانے چند

لیلئٰ عشق کو درکار ہیں دیوانے چند
نجد میں پھر نظر آنے لگے ویرانے چند

اللہ اللہ تری آنکھوں کا چھلکتا ہُوا کیف
جیسے مستی میں اُلٹ دے کوئی پیمانے چند

اب بھی آغاز جوانی کے فسانے ہیں یاد
اب بھی آنکھوں میں ہیں آباد پری خانے چند

چٹکیاں لینے لگا دل میں نشاطِ طفلی
آج یاد آ گئے بھولے ہوئے افسانے چند

دل کہیں راز محبت کو نہ کر دے افشا
آج محفل میں نظر آتے ہیں بیگانے چند

بجلیاں کالی گھٹاؤں میں ہیں یوں آوارہ
جیسے کہسار پہ رقصاں ہوں پری خانے چند

کیا کہوں کیا ہے خدا اور مذاہب کا ہجوم
اِک حقیقت پہ ہیں چھائے ہوئے افسانے چند

حافظ و بیدل و خیّام ہوں یا غالب و میر
بادۂ شعر کے ہیں بس یہی مستانے چند

بزم ہستی سے نکالے گئے اختر کیا جلد
ابھی پینے بھی نہیں پائے تھے پیمانے چند

اختؔر شیرانی
 
Top