داغ لگ چلی بادِ صبا کیا کسی مستانے سے ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
لگ چلی بادِ صبا کیا کسی مستانے سے
جھومتی آج چلی آتی ہے مے خانے سے

چُور ہو جاؤں مگر جاؤں نہ مے خانے سے
عہد شیشے سے تو پیمان ہے پیمانے سے

روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے
مے اوڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے

فکر ہے دوست کو احوال سناؤں کیونکر
ٹکڑے ہو جاتا ہے کلیجا مرے افسانے سے

گر پڑا ہوں نگہِ مست سے چکر کھا کر
ساقیا پہلے اُٹھا تو مجھے پیمانے سے

وہی وحشت ہے وہی خار وہی ویرانہ
دشت کس بات میں اچھا مرے کاشانے سے

سختیاں کھینچنے کی ہو گئی عادت مجھ کو
بت چلے آئیں نہ کھنچ کر کہیں بت خانے سے

ڈر ہے تاثیر نہ کر جائے کسی کی فریاد
کان بھر لیجیے پہلے مرے افسانے سے

دلِ برباد میں آباد ہوئے عشق و جنون
کوئی بستی نہیں بہتر مرے ویرانے سے

شکل ثابت نظر آتی نہیں عمامے کی
شیخ نے بدلی ہے پگڑی کسی مستانے سے

کر دیا صاف الگ دل نے ہمیں الفت میں
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں بیگانے سے

جانشیں قیس کے سب وحشیِ صحرا ہو جائیں
دشت آباد نہ ہو گر ترے دیوانے سے

نگہ مست تری گر ہی پڑی دل پہ مرے
لغزشِ پا نہ سنبھالی گئی مستانے سے

اس کی بیداد نے چھوڑی نہیں عالم میں جگہ
نالے گھبرائے ہوئے پھرتے ہیں دیوانے سے

ایک چلّو میں بہت داغ بہک اٹھتے تھے
آج سنتے ہیں نکالے گئے مے خانے سے

(داغ دہلوی)
 

علی فاروقی

محفلین
کیا خوب غزل ہے،
وہی وحشت ہے وہی خار وہی ویرانہ
دشت کس بات میں اچھا مرے کاشانے سے

اب ٹہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
 
Top