لڑائی اسلام کے ليے يا وطن کی خاطر؟

السلام عليکم
ايک سوال ہے

کيا مسلمان کو اسلام کی حفاظت کے ليے لڑنا چاہئے يا وطن کی خاطر؟ کيا مسلمان کا يہ کہنا مناسب ہے کہ سب سے پہلے پاکستان؟؟ جواب مدلل ديجئے۔ جزاکم اللہ خيرا۔
 

ناصر

محفلین
و علیکم السلام

رسول ﷺ کے دور کا یہ واقعہ اپنے اندر اس سوال کا جواب سمیٹے ہوئے ہے۔۔۔ سنن ابو داود میں وارد ہے:

۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ أُقَيْشٍ، كَانَ لَهُ رِبًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَكَرِهَ أَنْ يُسْلِمَ حَتَّى يَأْخُذَهُ فَجَاءَ يَوْمَ أُحُدٍ ‏.‏ فَقَالَ ‏:‏ أَيْنَ بَنُو عَمِّي قَالُوا ‏:‏ بِأُحُدٍ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ أَيْنَ فُلاَنٌ قَالُوا ‏:‏ بِأُحُدٍ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ أَيْنَ فُلاَنٌ قَالُوا ‏:‏ بِأُحُدٍ ‏.‏ فَلَبِسَ لأْمَتَهُ وَرَكِبَ فَرَسَهُ ثُمَّ تَوَجَّهَ قِبَلَهُمْ، فَلَمَّا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ قَالُوا ‏:‏ إِلَيْكَ عَنَّا يَا عَمْرُو ‏.‏ قَالَ ‏:‏ إِنِّي قَدْ آمَنْتُ ‏.‏ فَقَاتَلَ حَتَّى جُرِحَ، فَحُمِلَ إِلَى أَهْلِهِ جَرِيحًا، فَجَاءَهُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ لأُخْتِهِ ‏:‏ سَلِيهِ حَمِيَّةً لِقَوْمِكَ أَوْ غَضَبًا لَهُمْ أَمْ غَضَبًا لِلَّهِ فَقَالَ ‏:‏ بَلْ غَضَبًا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فَمَاتَ ‏.‏ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَا صَلَّى لِلَّهِ صَلاَةً ‏.‏

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ عمرو بن أقیش نے زمانۂ جاہلیت میں سود پر قرض دے رکھا تھا اور وہ اسے وصول کرنے سے پہلے اسلام قبول کرنے سے گریزاں تھے۔وہ یومِ اُحُد پر آئے اور پوچھا:’میرے عمزاد کہاں ہیں؟‘لوگوں نے جواب دیا:’اُحُد پر۔‘ انہوں نے پوچھا:’ فلاں کہاں ہے؟‘لوگوں نے جواب دیا: ’اُحُد پر۔‘ پھر انہوں نے اپنی زرّہ پہنی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی جانب روانہ ہو گئے۔جب مسلمانوں نے انہیں دیکھا تو کہا:’ ہم سے دور رہو عمرو۔‘انہوں نے کہا:’میں ایمان لا چکا ہوں۔‘وہ لڑتے رہے حتی کہ زخمی ہو گئے اور زخمی حالت میں ہی اپنے خاندان والوں کے پاس پہنچا دیئے گئے۔سعد بن معاذ ان کی بہن کے پاس گئے اور ان سے کہا:’اس سے پوچھو کہ یہ قوم کی حمیّت کی خاطر یا ان کے لئے غصّے کی خاطریا اللہ کے لئے غصّے کی خاطر لڑے۔‘انہوں نے جواب دیا:’اللہ اور اس کے رسول کی خاطر غصّے کی وجہ سے۔ ‘پھر وہ وفات پا گئے اور جنّت میں داخل ہو گئے۔انہوں نے اللہ کی خاطر کوئی نماز تک ادا نہیں کی ہوئی تھی۔)

سنن ابو داود، کتاب14
 

ناصر

محفلین
آپ کے سوال کا جواب علامہ محمد اقبال اپنی اس نظم میں واضح طور پر دے چکے ہیں:

وطنیت

اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روشِ لُطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدہء تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانہء دینِ نبَویؐ ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفویؐ ہے
نظّارہء دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے!

ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
 
آخری تدوین:
Top