راحت اندوری لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں - راحت اندوری

کاشفی

محفلین
غزل
(راحت اندوری)
لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں

میں نہ جگنوہوں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں
روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں


نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیئے
اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں

میکدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے
خالی شیشوں کی طرح لوگ اُچھلتے کیوں ہیں
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت اعلیٰ، اچھا انتخاب۔
راحت اندوری کا کلام نرالا اور پیش کرنے کا انداز منفرد ہوتا ہے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
بہت عمدہ


نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیئے
اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں

میکدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے
خالی شیشوں کی طرح لوگ اُچھلتے کیوں ہیں
 
Top