لوگ کیا کیا گفتگو کے درمیاں کھلنے لگے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

لوگ کیا کیا گفتگو کے درمیاں کھلنے لگے
ذکر ِ یاراں چل پڑا تو رازداں کھلنے لگے

پھر پڑاؤ ڈل گئے یادوں کے شامِ ہجر میں
اور فصیلِ شہرِ جاں پر کارواں کھلنے لگے

تنگ شہروں میں کھلے ساگر کی باتیں کیا چلیں
بادِ ہجرت چل پڑی اور بادباں کھلنے لگے

جب سے دل کا آئنہ شفاف رکھنا آگیا
میری آنکھوں پر کئی عکسِ نہاں کھلنے لگے

دل کی شریانوں میں تازہ غم اک ایسے جم گیا
سب پرانے زخم ہائے بےنشاں کھلنے لگے

تیرے غم کا مہر بستہ گوشوارہ کیا کھلا
عمربھرکے دفتر ِ سود و زیاں کھلنے لگے

مدتوں سےہم نشیں تھے ہم نشاط وہم طرب
مبتلائے غم ہوا تو مہرباں کھلنے لگے

۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۰ ۔۔۔۔​
 

کاشف اختر

لائبریرین
ظہیر بھائی ایک مشورہ قبول فرمائیں!
غزل کے شروع میں یا آخر میں اپنا نام بھی لکھ دیا کریں! سن لکھنے سے پہلے ۔۔۔ اس صورت میں کاپی پیسٹ کرنے والوں کو سہولت ہوتی ہے کہ نام نہیں لکھنا پڑتا ہے!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ ، نوازش اکمل بھائی !
ظہیر بھائی ایک مشورہ قبول فرمائیں!
غزل کے شروع میں یا آخر میں اپنا نام بھی لکھ دیا کریں! سن لکھنے سے پہلے ۔۔۔ اس صورت میں کاپی پیسٹ کرنے والوں کو سہولت ہوتی ہے کہ نام نہیں لکھنا پڑتا ہے!
حکم کی تعمیل ہوگی حضور !
واہ واہ ایک اور خوبصورت غزل۔ کیا کہنے
بڑی نوازش ! اتنی توجہ اور محبت کا بہت شکریہ!
 
Top