لوگ تو ہیں سب کے سب بے باک سے (اصلاح)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
لوگ تو ہیں سب کے سب بے باک سے​
ہیں مگر سارے بہت چالاک سے​
ظلم کی اک پھر کہانی ہوگئی​
خون کی بُو آ رہی ہے خاک سے​
بندے تو اب کر نہیں سکتے مدد​
اب امیدیں بس ہمیں افلاک سے​
بن نہیں جاتا ہے مجنوں ہر کوئی​
بال بکھرے اور گریباں چاک سے​
حال اپنا ہوگیا بے حال سا​
پڑ گیا ہے پھر سے پالا ناک سے​
کوزہ گر اب تُو نہیں ہے پہلے سا​
سب اترنے جا رہے ہیں چاک سے​
در بدر جانے کی فرصت ہی نہیں​
مانگتا ہوں میں تومولا پاک سے​
 

الف عین

لائبریرین
ذرا روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے کئی اشعار میں۔ خرم خود گور کر کے درستگی کر لیں تو بہتر ہے۔ ورنہ پھر ہم تو ہیں ہی، خیال رہے کہ میں ’ہم‘ کہہ رہا ہوں، اور اس میں محمد یعقوب آسی بھائی کو بھی شامل کر رہا ہوں اور دوسرے مستند شعراء کو بھی۔
 
سب سے پہلے تو جناب الف عین سے معذرت کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔
’’درستگی‘‘ یا ’’درستی‘‘ ۔۔۔۔۔۔؟
میرے علم کے مطابق قاعدہ یہ ہے کہ جس اسم واحد کا آخری حرف ’’ہ‘‘ ہو، اُس کو گاف سے بدلتے ہیں۔
بچہ بچگان، زچہ زچگی، بے قاعدہ بے قاعدگی، عمدہ عمدگی، خانہ خانگی، تشنہ تشنگی تشنگان، تِیرہ تِیرگی ۔۔۔

اور جہاں آخری حرف کچھ اور ہو وہاں گاف اضافی نہیں لگاتے۔
جوان جوانی جوانان، عالم سے عالمان اور اس سے عالمانہ، مرد سے مردان اور اس سے مردانہ اور آگے اس سے مردانگی۔

روان سے روانی اور روانہ سے روانگی

تشفی کا منتظر ہوں۔
 
ایک سوال اور بھی ہے، جناب الف عین۔
ہم عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ’’دیوانہ وار‘‘ ’’دیوانہ‘‘ سے مشتق ہے۔ وہ دیوانہ وار آگے بڑھا (وہ پاگلوں کی طرح آگے بڑھا) یہ معانی مشکوک ہیں۔ منقولہ بالا قاعدے کے مطابق ’’دیو‘‘ سے جمع ’’دیوان‘‘ (زیر کے بغیر) اور اس سے دیوانہ وار (دیووں کی طرح)۔ مثال یا دلیل مردانہ وار سے لیتے ہیں۔ مرد سے جمع مردان اور اس سے مردانہ وار، زن سے زنان اور اس سے زنانہ، بچہ سے بچگان اور اس سے بچگانہ۔
یعنی ایسے مشتقات کی بنیاد جمع پر ہوتی ہے۔ اور ’’دِیوانہ‘‘ (پاگل) جمع نہیں واحد ہے۔

غلط العام کی بات دوسری ہے۔ توجہ کا طالب ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، یہاں کا پیغام شاہد کی غزل میں پوسٹ ہو گیا۔ درتگی کی درستی آسی بھائی نے یہاں فرمائی تھی!! یہاں پہلے آیا تھا، اور بعد میں اس دھاگے میں گیا تھا۔
 
ظلم کی اک پھر کہانی ہوگئی
خون کی بُو آ رہی ہے خاک سے

’’کہانی ہو گئی‘‘ میرے لئے غیرمانوس ہے، اس لئے کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ دوسرا مصرع بہت قوی ہے، پہلا مصرع کچھ ایسا لائیے کہ اس کی قوت کو اجاگر کرے۔ جیسے ظلم اتنا عام ہو گیا ہے کہ ۔۔۔ وغیرہ۔
 
بندے تو اب کر نہیں سکتے مدد
اب امیدیں بس ہمیں افلاک سے

پہلا مصرع بہت کمزور ہے صاحب۔ ایک تو اس کی قرات میں ’’بند تو ۔۔‘‘ آتا ہے، دوسرے اس کی معنوی سطح ہے۔ ’’اب‘‘ کی ضرورت کیوں پڑی؟
میرے نزدیک شعر کا خیال کچھ ترمیم طلب ہے: ’’بندے تو کیا مدد کریں گے، ہمیں تو اللہ ہی سے امیدیں ہیں‘‘۔ گر قبول افتد۔
 
کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ ادھر شعر کہے ادھر پوسٹ کر دئے! اتنی عجلت بھی کیا، صاحب؟

میں احباب کو یہ مشورہ اکثر دیا کرتا ہوں کہ وہ کچھ وقت اپنی شاعری کے ساتھ گزاریں، گویا اپنے شعر سے مکالمہ کریں۔ ہم شعر محض اپنے لئے نہیں کہتے، ہمارے پیشِ نظر ایک قاری یا سامع ہوتا ہے۔ خود کلامی کے لئے تو شاید الفاظ بھی ضروری نہ ہوں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
کوزہ گر اب تُو نہیں ہے پہلے سا
سب اترنے جا رہے ہیں چاک سے​
واہ! جناب! اس شعر کی فنی خوبیاں تو عالی جناب الف عین صاحب اور محترم یعقوب آسی صاحب جیسے ارباب فن جانیں۔ ہمیں تو پڑھ کر مزہ آگیا۔کوزہ گر کے ہاتھوں میں بے بس اور بے کس مٹی کے لوندے، زیرِ تخلیق کوزے کوزہ گر کے چاک کی رفتار اور اس کے ہنر اورہاتھوں کی فن کاری کے منتظر ہوتے ہیں کہ دیکھیں ہمیں کون سا روپ نصیب ہوتاہے، ہم تشنگانِ عالم کو سیراب کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں،یا کچھ اور؟؟؟ لیکن آپ نے تو کمال کر دِیا ایک بے بس و بے کس مٹی کے لوندے کو جو شاید ابھی کسی کوزے میں تبدیل بھی نہیں ہوا ہوگا، کوزہ، مٹکا، صنم کچھ بھی نہ بنا ہوگا۔ کہ آپ نے اُ سے ایسا اِختیار عطا فرما دِیا کہ ایک ہونے والی مخلوق اپنے خالِق سے بغاوت پر اُتر آئے اور اپنی ہی تخلیق کے خلاف بغاوت کردے۔عقلی اور منطقی طور پر یہ قطعی ممکن نہیں۔ آپ کا یہ شعر اگرعقل اور منطق کی کسوٹی پر کسا گیا تو شاید کھرا نہ اُترے۔
البتہ ادب میں ایک رجحان سر ریلزم کا بھی رہا ہے۔ جو حضرات سر ریلزم کی اصطلاح سے واقف ہیں وہ اس شعر کی داد دیے بنا نہ رہ سکیں گے۔​
انتباہ: اپنے دِل میں جھانک کر ایک سوال دِل سے پوچھ لیجیے گا کہ یہ شعر کہیں خالقِ حقیقی کی شان میں تو نہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ کفر ہوگا۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔​
 
Top