لندن مارچ 2014

قیصرانی

لائبریرین
اس تعلیمی سال کے آغاز سے ہی ہمارے کالج میں روٹین کافی بزی ہو گئی تھی اور خدا خدا کر کے چھٹیاں شروع ہوئیں اور 12 مارچ کو لندن روانہ ہوا تو میرا پروگرام ابتداء سے ہی گڑبڑ کا شکار ہو گیا تھا۔ پہلا پروگرام یہ تھا کہ میں تمپرے سے رائن ائیر کی فلائٹ پکڑتا اور سیدھا سٹین سٹیڈ جا پہنچتا۔ اب پروگرام بدلا تو فلائٹ مجھے وہ پکڑنی پڑی جو ایمسٹرڈیم سے ہو کر گذرے کہ وہاں ہمارے ایک فیملی فرینڈ کے بیٹے کا ولیمہ تھا، وہ بھگتانا تھا۔ خیر، بارہ تاریخ کی صبح گھر سے نکلا سیدھا ہیلسنکی پہنچ کر دوست کو گاڑی تھمائی اور خود جہاز کے لئے روانہ ہوا۔ فن ائیر کے بوئنگ 727 نے ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد اور بغیر کسی قابل ذکر واقعے کے، ایمسٹرڈیم جا اتارا۔ سامان میرا بکڈ تھا فائنل ڈیسٹی نیشن کے لئے۔ میں نے ہینڈ کیری اٹھایا، دوست کے ساتھ سیدھا ریستوران جا پہنچا جہاں ولیمہ چل رہا تھا۔ اسے بھگتایا اور پھر واپس ائیرپورٹ۔ سوا گھنٹے بعد اگلی فلائٹ نے گھنٹے بھر بعد مجھے لندن جا اتارا۔ اترنے کے بعد امیگریشن سے ہو کر سامان لینے پہنچا تو سامان نہیں پہنچا۔ پتہ چلا کہ کوئی گڑبڑ ہے کہ کنکٹنگ فلائٹ کی وجہ سے سامان نہیں پہنچا۔ مجھے پہلے سے ہی اس بات کا شبہ تھا اور میں نے ہر ممکن جگہ پر اطلاعات دے دی تھیں کہ ایسا نہ ہو کچھ۔ خیر، ائیرپورٹ سٹاف کو شکایت درج کرائی تو انہوں نے اپنے افسران بالا کو فون کیا تاکہ کچھ حل نکل سکے۔انہوں نے ایک آفیسر بھیجا، لیکن ان سےبھی میرا مسئلہ حل نہ ہوا کہ میرا ٹرپ محض گیارہ دن کا تھا اور اگر سامان ہفتے بعد پہنچتا تو مجھے کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ بھانجی اور بھانجے کے لئے کھلونے اور دیگر اہم سامان وغیرہ اسی بیگ میں تھا۔ خیر شکر ہے کہ میں نے اپنا ڈی ایس ایل آر اور وڈیو کیمرہ، کنڈل، چارجر وغیرہ اور ٹیبلٹ کو اپنے ہینڈ کیری میں ہی رکھا تھا اور والٹ بھی۔ اس افسر نے پھر اپنے کسی افسر کو فون کیا اور پتہ چلا کہ ان کے اعلٰی ترین افسر تشریف لا رہے ہیں۔ برطانوی نظام میں اس طرح بیوروکریسی عام بات ہے، اس لئے میں صبر سے منتظر رہا کہ اس سے زیادہ شور کرتا تو کامیابی کی جگہ مسائل پیدا ہونے لگ جاتے


افسر صاحبہ کی آمد میرے لئے کافی حیرت انگیز ثابت ہوئی کہ ان کی شکل کچھ جانی پہچانی لگ رہی تھی اور انہوں نے میرے کاغذات دیکھتے ہی فوراً پوچھا، "قیصرانی"؟اس کا جواب میں نے کچھ ایسے دیا کہ "ہیں؟ ۔۔۔" خیر ان کے آئی ڈی کارڈ پر نظر پڑی تو یا حیرت، صائمہ شاہ ؟ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ وہ یہاں کام کرتی ہیں۔صائمہ شاہ سے اچانک ہونےوالی یہ ملاقات اس حوالے سے یادگار ثابت ہوئی کہ پہلی بار کسی محفلین سے بغیر پہلے سے اپوائنٹمنٹ لئے ملاقات ہوئی۔ خیر بیگ کا مسئلہ تو انہوں نے فوری حل کرا دیا کہ بیگ کے لئے ارجنٹ کا میسج بھجوایا اور پتہ چلا کہ بیگ اگلی فلائٹ سے روانہ ہونے والا ہے۔ ابھی میرے پاس دو گھنٹے جتنا وقت تھا کہ اگر میں انتظار کر لیتا تو بیگ ساتھ ہی لے جاتا۔ خیر پھر انہوں نے کھانے کا پوچھا (مہمان نوازی ہے نا شاید) لیکن میں نے معذرت کر لی کہ باجی کھانے کے ساتھ انتظار کر رہی تھیں گھر پر۔ البتہ کافی کی آفر قبول کر لی


ٹرمینل کے ایک کیفے پر جا پہنچے۔ انہوں نے میرے سفر کا حال پوچھا اور میں نے ان کے گھر والوں کی خیریت وغیرہ وغیرہ۔ پھر ہماری لمبی ڈسکشن شروع ہو گئی محفل کے اور اہل محفل کے حوالے سے۔ اکثریت محفلین کے بارے بات ہوئی۔ درمیان میں ہر چند منٹ بعد صائمہ شاہ کو ان کے کام کے حوالے سے کالز آتی رہیں اور وہ انہیں مناسب ہدایات دیتی رہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ کافی امپریسو پرفارمینس تھی


محفل پر ان سے میری زیادہ بات چیت تو نہیں ہوتی لیکن مجھے اندازہ تھا کہ عام محفلین انہیں کافی غصہ ور سمجھتے ہیں۔ میں نے تو کافی کوشش کی کہ انہیں کسی بات پر غصہ آئے لیکن وہ سارا کام اور ساتھ ساتھ باتیں بھی آرام سے کرتی رہیں اور کسی موقع پر بھی ان کی پیشانی پر شکن تک نہیں آئی حالانکہ کافی ٹف سچوئشنز بھی آتی رہی تھیں


باتیں کرتے کرتے پتہ بھی نہیں چلا کہ دو گھنٹے گذر گئے اور اطلاع آ ئی کہ سامان پہنچ گیا ہے۔ بے چارے اہلکار پوچھ پاچھ کر کیفے میں مجھے سامان دے گئے۔ اس سارے کام میں ان کی مدد واقعی پرائس لیس تھی اور اس بات کے لئے میں مشکور ہوں۔ اس کے بعد میں نے اجازت مانگی اور پھر ائیرپورٹ سے روانہ ہو گیا۔ لندن کا ہیتھرو ائیرپورٹ اگرچہ دنیا کے مشہور اور مصروف ترین ائیرپورٹس میں سے ایک ہے۔ تاہم اس کے ایک دو ٹرمینل ایسے ہیں کہ وہاں سے نکلنے پر شدید مایوسی ہوتی ہے کہ ٹوٹی پھوٹی ٹرالیاں، خالی کاؤنٹر اور ایسا ماحول ہوتا ہے جیسے آپ کسی پاکستانی چھوٹے ائیرپورٹ پر موجود ہوں


باجی کے گھر تک تقریباً چالیس منٹ کا ٹرین کا سفر ہے کہ ہیتھرو سے دس سٹاپ پر ایکٹن ٹاؤن تک کی انڈرگراؤنڈ اور ایکٹن ٹاؤن سے دوسری ٹرین چار سٹاپ کے بعد الپرٹن جا اتارتی ہے۔ وہاں سے کزن نے پک کر لیا جو ان کے گھر تک محض پانچ منٹ کی ڈرائیو تھی۔ کزن کچھ دیر قبل ہی آفس سے گھر پہنچے تھے


باجی نے کھانا تیار رکھا تھا اور میری فیورٹ ڈش یعنی آلو پالک تیار تھی۔ انہوں نے اسی وقت روٹیاں بنائیں اور میں نے کھانے سے ہاتھ صاف کیا۔ بھانجی اور بھانجا اپنے تحائف سے بہت خوش تھے اس لئے انہوں نے اجنبیت نہیں ظاہر کی


اس بار میرا پروگرام کافی ٹف تھا کہ بہت زیادہ کزنز اور دیگر جاننے والوں سے ملنا تھا،ا س لئے زیادہ سیر وغیرہ کا پروگرام نہیں بنا۔ لے دے کر ایک بار لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کا چکر لگایا


23 تاریخ کو ایک اور ولیمہ بھگتانا تھا، جس کے بعد پھر سامان کی پیکنگ ہوئی۔ یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ کچھ شاپنگ وغیرہ بھی کی اور 23 کی رات کو اڑھائی بجے ائیرپورٹ کو نکلا کہ واپسی کی فلائٹ رائن ائیر سے تھی جو سٹین سٹیڈ ائیرپورٹ سے چلتی ہے۔ یہ ائیرپورٹ شہر سے تقریباً 50 منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ رات کو یہ ائیرپورٹ بند ہو جاتا ہے اور پھر صبح جب چلتا ہے تو انتہائی رش ہو جاتا ہے۔ خیر اس بار انہوں نے اس ائیرپورٹ کو بہت بہتر بنا دیا تھا اور سارا کام سٹریم لائنڈ محسوس ہوا۔ پہلے جس جگہ آپ کو قطار میں کم ازکم نصف گھنٹہ کھڑا ہو کر کاؤنٹر کھلنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے (اگر نہ کریں تو لائن بہت لمبی ہو جاتی ہے) اور پھر ایک گھنٹے بعد جا کر سامان کی بکنگ ہوتی ہے۔ اس بار وہ سارا کام محض دو منٹ میں ہو گیا۔ یہ پورے سفر کی سب سے بڑی ٹینشن تھی جو آئے بنا ہی ختم ہو گئی


سٹین سٹیڈ سے تمپرے دو گھنٹے چالیس منٹ کی فلائٹ ہے اور تمپرے کا ائیرپورٹ جسے سرکاری طور پر Pirkkala کا ائیرپورٹ کہا جاتا ہے، بہت اچھے طریقے سے چلایا جاتا ہے کہ ائیرفورس اسی کے رن وے کو استعمال کرتی ہے اور ایف 18 ہارنٹس چار چار کی فارمیشن میں یہاں سے اڑتے اور اترتے رہتے ہیں۔ دن میں چند ہی مسافر جہاز آتے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے کوئی جلدی نہیں ہوتی۔فلائٹ انتہائی مختصر ثابت ہوئی کہ سارا وقت ہی میں نے گانے سنتے اور کتب پڑھتے گذارا۔ جہاز کے نکلنے سے قبل میں نے فون کر دیا تھا اس لئے دوست نے مجھے پک کرنا تھا اور پک کر بھی لیا


اس طرح یہ سفر بالکل بخیریت تمام ہوا۔ اس کی تصاویر جلد سے جلد لگانے کی کوشش کرتا ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
10003981_10152051201587183_485839296_n.jpg
 
Top