لشکری زبان: تیسری قسط

زیف سید

محفلین
دو نئے انداز

جب انگریز ہندوستان آئے تو انہیں یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہواکہ ہندواور مسلمان ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ ایک ایسی زبان جس کا ڈھانچہ اور صرف و نحو خالصتاً مقامی ہیں لیکن جس نے فارسی اور فارسی کے توسط سے عربی زبان سے اثر قبول کیا ہے اور جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ انگریزوں کی حیرت کی بنایہ تھی کہ مسلمان اور ہندو ان کے تئیں دو مختلف قومیں تھے چنا ں چہ ان کی زبانیں بھی مختلف ہونی چاہیے تھیں۔ فورٹ ولیم کالج کے بانیوں میں سے ایک ، جان گلکرسٹ کچھ یوں رقم طراز ہے:

”(ہندوستان) کے باسی ہندو اور مسلمان ہیں۔ ہم ان کے لیے اور ان کی زبان کے لیے بڑے آرام سے عمومی اور جامع اصطلاح ہندوستانی استعمال کرسکتے ہیں۔ جس کو میں نے مندرجہ بالا اور مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر اختیار کیا ہے:

اگرچہ اس ملک اور اس کی مذکورہ زبان (ہندوستانی )کا یہ نام نیا ہے، لیکن مجھے اس زبان کے مطالعے اور اسے پروان چڑھانے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور نام نہیں ملا۔ اس امر کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ مقامی لوگ اسے ہندوستان کے پرانے نام ہند کی نسبت سے ہندی کہتے ہیں،لیکن اس نام کے دوسرے ناموں ، ہندوی، ہندووی وغیرہ سے خلط ملط ہونے کے امکانات ہیں جو ہندو سے مشتق ہیں۔ اس لیے میں اپنے نظریے پر قائم ہوں کہ اس ملک کی مقبولِ عام زبان کے دوسرے تمام نام ، جن میں ُمور جیسا بے معنی نام بھی شامل ہے، ترک کرکے انہیں ہندوستانی سے بدل دینا چاہیے۔ چاہے مقامی اس کی پیروی کریں یا نہ کریں۔ وہ تو ویسے بھی سمجھانے کے باوجود ایسی باتوں کی مصلحت نہیں سمجھ سکتے۔

یہاں قابلِ دیدبات یہ ہے کہ مستشرقوں کے عام اندازِ فکر کے عین مطابق گلکرسٹ مقامیوں کی مادری زبان کے بارے میں ان کے نظریے کو قلم زد کرکے یک طرفہ ڈگری جاری کر دیتاہے۔ دوہی برس بعد گلکرسٹ ایک بار پھر بڑے پر تیقن لہجے میں لکھتاہے:

”ہندو قدرتی طور پر ہندی کی طرف جھکیں گے جب کہ ظاہر ہے مسلمان عربی اور فارسی کی نسبت جانب دارہوں گے۔ یوں دو نئے انداز جاری ہو جائیں گے۔

اور دو نئے اندازوں کی نشو ونما کے لیے گلکرسٹ نے فورٹ ولیم کالج میں ملازمت اختیار کر لی۔ یہ کالج انگریزوں کو مقامی زبانیں سکھانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔چوں کہ نصابی ضروریات کے لیے درکار سلیس اردو نثر کی کتابیں دستیاب نہیں تھیں اس لیے کالج نے کئی مصنفین کو ملازم رکھا تاکہ وہ نئی کتابیں لکھیں#
#کہا جاتا ہے کہ میر تقی میر نے بھی ملازمت کے لیے عرضی دی تھی لیکن ان کی درخواست اس بنا پر نامنظور کر دی گئی کہ یہ ملازمت ان کے مرتبے سے بہت کم تھی(ڈاکٹر گوہر نوشاہی، ذاتی گفتگو)۔

۔ یہ کالج 1853ء تک کام کرتا رہا اور اس عرصے میں اس کے توسط سے کل 741کتابیں مرتب ہوئیں، جن میں سے 53شائع ہو ئیں(ڈاکٹر سمیع اللہ)۔

میر امن دہلوی نے اس کالج کے نصاب کے لیے 1802ء میں ’باغ و بہار‘ لکھی جو آج اردو نثر کے شاہکاروں میں شمار کی جاتی ہے۔ اسی کالج سے اردو کے مشہور ادیب حیدر بخش حیدری (آرائشِ محفل) ، کاظم علی جوان(شکنتلا کا اردو ترجمہ) اور بابر علی حسینی وغیرہ وابستہ تھے۔

یہ تو ہوگئے اردو مصنیفین( واضح رہے کہ انگریز اس زمانے میں اردو کو ہندوستانی کہنے پر مصر تھے)، لیکن فورٹ ولیم کالج نے ساتھ ہی ساتھ کچھ دیوناگری کے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کر لیں اور ان سے ’جدید‘ہندی میں کتابیں لکھوانے لگے۔ للولال جی جس نے 1803ء میں ’پریم ساگر‘ لکھ کر جدید ہندی ادب کی خشتِ اول رکھی، کے سامنے جدید ہندی کا کوئی نمونہ نہیں تھا۔ چنا ں چہ اس نے میر امن کی باغ و بہار سامنے رکھ کر عربی فارسی اسما کو سنسکرت اسما سے بدل دیا۔ رام چند رشکلا لکھتے ہیں:

اگر للو لال اردو کے ماہر نہ ہوتے تووہ پریم ساگر میں عربی و فارسی الفاظ سے گریز میں کامیاب نہ ہوپاتے۔ اس دور کی روزمرہ زبان میں یہ الفاظ اس حد تک سرایت کر گئے تھے کہ محض سنسکرت یا ہندی کے ماہر کے لیے ان کی شناخت مشکل تھی۔ (ہندی ساہتیہ کا اتہاس)

فورٹ ولیم ہی کا تنخواہ دار ایک اور ماہرِ دیوناگری سڈل متر تھا۔ وہ اپنی کارگزاری کچھ یوں بیان کرتا ہے:

گلکرسٹ نے۔۔۔ ایک دن آگیا دی کہ ادھیا تم رامائن کو ایسی بولی میں کروجس میں فارسی ، عربی نہ آوے۔ تب سے میں اس کو کھڑی بولی میں کرنے لگا۔

یہاں د ل چسپ اور قابلِ غوربات لفظ’ کھڑی بولی‘ کا استعمال ہے۔ اس لفظ نے ماہرینِ لسانیات کو بڑے مغالطوں میں مبتلا کیا ہے۔ کسی نے کہا کہ چوں کہ اردویا ہندی میں افعال کا اختتام الف پر ہوتا ہے (آنا، جانا، کھانا، وغیرہ) اس لیے اس کو کھڑی بولی کہتے ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں دوسری زبانیں ’پڑی بولی ‘ہیں۔ مثال کے طور پر برج بھاشا پڑی بولی ہے کیوں کہ اس میں آئیو، جائیو، کھائیوکہتے ہیں۔ معروف ماہرِ لسانیات ڈاکٹر سہیل بخاری تو بڑے دور کی کوڑی لائے اور انہوں نے مشرقی ہندوستان میں ریاست اڑیسہ کے قرب و جوار میں ایک علاقہ کھڑدیس کے نام سے بھی دریافت کرڈالا اور دعویٰ کیا کہ یہی کھڑی بولی، یعنی اردو کی مزربوم ہے۔

کھڑی بولی نام کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک جعلی اور مصنوعی نام ہے۔ اس کا سراغ 1798ء سے قبل نہیں ملتا۔اس سال گلکرسٹ ’اورینٹل لنگوئسٹ ‘میں لکھتا ہے:

شکنتلا کا دوسرا ترجمہ کھڑی بولی یا ہندوستان کی خالص بولی (sterling tongue)میں ہے۔ ہندوستانی (یعنی اردو) سے مختلف یہ صرف اس بات میں ہے کہ عربی و فارسی کا لفظ چھانٹ لیا جاتا ہے۔
میرا اندازہ ہے کہ گلکرسٹ یہاں’ کھری بولی‘لکھنا چاہ رہا تھالیکن کتابت کی غلطی یا کسی اور بنا پر لفظ کھری کو کھڑی مان لیا گیا۔ بعد میں فورٹ ولیم کالج کے مصنفین نے ’ہندوستان کی خالص بولی‘ کو کھڑی بولی کہنا شروع کر دیا اور یہ لفظ غلط العام و خواص ہو گیا۔

خیر ہندی اردو تنازعے کی طرف لوٹتے ہیں۔ ماہرِ لسانیات ایف ای کی اپنی کتاب’ تاریخِ ہندی ادب‘میں لکھتاہے:

ہندوؤں کے لیے ایک ایسی زبان حسبِ خواہ تھی جس سے وہ وابستگی محسوس کر سکیں۔ اور اس مقصد کے لیے اردوسے فارسی اور عربی کے الفاظ نکال کر ان کی جگہ سنسکرت کے الفاظ رکھ دیے گئے (ایف ای کی، 1920ء)۔

دوسرے ماہرینِ لسانیات نے بھی کی کے ہم نوا نظر آتے ہیں۔ عالمِ بشریات اورمشہور کتاب ’شاخِ زریں ‘ کا مصنف ولیم فریزر ’ہندوستان کی ادبی تاریخ ‘ میں لکھتا ہے:

اونچی ہندی ایک کتابی زبان تھی جو انگریزوں کے زیرِ اثر پروان چڑھی، جنہوں نے مقامی ادیبوں کو آمادہ کیا کہ وہ اردو سے فارسی اور عربی کے الفاظ نکال کر ان کی جگہ سنسکرت کے الفاظ رکھ دیں(ولیم فریزر، 1893ء)

ڈاکٹر تاراچند’ہندوستانی کا مسئلہ‘ میں رقم طراز ہیں:

فورٹ ولیم کالج انگریزوں نے برطانوی افسروں کو مقامی زبانیں سکھانے کے لیے قائم کیا تھا۔ ان میں دو زبانیں برج اور اردو تھیں۔ برج شاعرانہ زبان تھی اور نثری تحریر کے لیے مناسب نہیں تھی۔ اردو تمام ہندوستان کی مشترکہ زبان تھی۔ بدقسمتی سے زبان میں تخصیصات تلاش کرنے کی دھن میں کالج کے پروفیسروں نے ایک نئی اردو تخلیق کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کر دی جس میں عربی و فارسی الفاظ کو سنسکرت الفاظ سے بدل دیاگیا تھا۔ یہ کام بڑی ڈھٹائی سے ہوا تاکہ ہندوؤں کو ان کی اپنی زبان فراہم کی جاسکے۔ لیکن اس کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوئے اور ہندوستان آج تک زبانوں کی اس مصنوعی تقسیم کے اثرات سہ رہا ہے (تاراچند، 1944ء)

جارج گریرسن جس نے ہندوستانی لسانیات کی سب سے اہم کتاب ’ہندوستان کا لسانی سروے‘ مرتب کی، 1896ء میں للو لال کی کتاب کے دیباچے میں لکھتا ہے:

ہندوستان میں ایسی کوئی زبان پہلے سے موجود نہیں تھی۔ چنا ں چہ جب للو لال نے پریم ساگر لکھی تو وہ دراصل ایک نئی زبان ایجاد کر رہا تھا۔

اور آخر میں سنیتی کمار چیٹرجی کی سن لیجیے، جنہیں ہندوستانی لسانیات کا باوا آدم مانا جاتا ہے:
تاریخی اورلسانی اعتبارسے اردو ہندی یا سنسکرت آمیز کھڑی بولی کی اسلامی شکل نہیں ہے، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل ہندوؤں نے فارسی آمیز ہندوستانی اختیار کر لی تھی جو دربار اور اس کے حلقوں میں استعمال ہونے لگی تھی۔ چوں کہ فارسی اور عربی الفاظ ان کے لیے بے کارتھے، اس لیے انہوں نے دیوناگری رسم الخط اختیار کرلیا اور فارسی اور عربی کے الفاظ خارج کر کے زبان کو سنسکرت آمیز بنادیا۔ (چیٹرجی، 1973ء)

اس موقعے پر سوال اٹھتا ہے کہ دونوں زبانوں کا ماخذ اردو سہی، لیکن کیا جدید اردو اور جدید ہندی دو مختلف زبانیں ہیں؟اور جواب ہے، نہیں۔ لسانیات کا مانا ہوا اصول ہے کہ زبانوں کی تقسیم و تفریق اور درجہ بندی ان کے افعال کی بنا پر ہوتی ہے ، نہ کہ اسما کی بنیادپر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندہ زبانوں کے اسما بہت لچکدار ہوتے ہیں اور بڑی تیزی سے زبان کے ذخیرے میں داخل ہوتے اور نکلتے رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں افعال نسبتاً مستقل رہتے ہیں اور ان میں آسانی سے تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ لسانیات میں افعال کو زبان کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اگر جدید ہندی اور جدید اردو کو افعال کے حوالے سے پرکھا جائے تو کیا شکل سامنے آتی ہے۔

ایک روسی ماہرِ لسانیات سٹینی سلاف مارٹنیک نے اسی تناظر میں جدید ہندی اور جدید اردو کے تقریباً ساڑھے چار لاکھ الفاظ لیے اور ان کی بسامد (فریکونسی) کا تجزیہ کیا ۔ معلوم ہوا کہ دونوں زبانوں میں ایک سو سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ میں سے ستر مشترک ہیں۔ دونوں زبانوں میں بیس سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ درجِ ذیل ہیں:

اردو: کا، ہونا، میں ، کرنا، نے، اور، سے، کو، جانا، پر، کہ، دینا، یہ، کہنا، وہ، کے لیے ، نہیں، ایک، رہنا، جو،
ہندی: کا، ہونا، میں، نے، کرنا، کو، سے، جانا، کی ، یہ، اور، وے، پر، کہنا، دینا، بھی، رہنا، نہیں، ایک، کے لیے
( ’ہندی اور اردو کی بحث کا شماریاتی جائزہ‘ ، 2002ء)

اور خیر، اب تو ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں اسماکے منبع کی بحث غیر متعلق ہوتی جارہی ہے۔ اور وہ یوں کہ سرحد کے دونوں اطراف اسما، چاہے وہ فارسی و عربی کے ہوں یا سنسکرت کے، بڑی تیزی سے انگریزی الفاظ سے تبدیل کیے جارہے ہیں۔


گیان وگماں کی سرحد

عام خیال یہی ہے کہ اردو فارسی اور مقامی زبان (یازبانوں) کے میل جول سے وجود میں آئی ہے۔ یہ بات اس لیے بالکل غلط ہے کہ اردو زبان کا ڈھانچاخالصتاً ہندوستانی ہے اور اس کا فارسی کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، زبانیں افعال اور صرف و نحو کی بنیا د پر جانچی جاتی ہیں، نہ کہ اسما کی بنا پر۔ چنا ں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اردو صرف و نحو پر فارسی اثر انداز نہیں ہوئی۔ اس کی ایک د ل چسپ اور واضح مثال فارسی اضافت کی بحث ہے۔ بے شک ایک زمانہ گزرا ہے کہ بعض ادبا نے اردو اور فارسی الفاظ کے درمیان اضافت برتی ہے، مثال کے طور پر:

’وعدہٴ کل‘ مت کر اے ظالم کہ تجھ بن کل نہیں (شاہ حاتم)
یا پھر :

چاہو کہ پی کے پگ تلے اپنا وطن کرو
اول اپس کو عجز میں ’نقشِ چرن‘ کرو (ولی دکنی)

جدید دور میں اردو لسانیات کے تین بڑوں نے اردو اور فارسی الفاظ کے درمیان اضافت کو رواجانا ہے، میری مراد ہے، شمس الرحمٰن فاروقی، رشید حسن خاں اور مرحوم شان الحق حقی سے۔ حقی صاحب نے تو اس ‘صنعت ‘میں کچھ غزلیں بھی کہی ہیں۔ چند اشعار دیکھیے:

سج گئی اشکِ فراواں سے مری کشتِ حیات
کثرتِ اوس سے ہے طرفِ چمن آئینہ بند

یہ ہے گیان وگماں کی سرحد، کدھر ہے تیرا جھکاؤ اے دل
گیاں ہے فکرو نظر کا پھندا، گماں میں آزادیاں ہیں کیا کیا

لیکن بات پھر قبولِ عام کی آجاتی ہے۔ ان حلقوں کے اصرار کے باوجود اردواور فارسی و عربی الفاظ کے درمیان اضافت کو کسی دور میں بھی قبولِ عام نہیں مل سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے زبانیں دوسری زبانوں سے اسماتو بڑی سہولت سے قبول کر لیتی ہیں، دوسری زبانوں کی گرامر کے اصول اتنی آسانی سے ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل نہیں ہوتے۔ اضافت کے ذریعے دو الفاظ کومنسلک کر دینا فارسی گرامر کا اصول ہے اوراردو نحو کو یہ بات گوارانہیں کہ وہ دوسری زبان سے اصول برآمد کرے۔

ایک مثال سے بات واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں: انگریزی کا قاعدہ ہے کہ الفاظ کی جمع بنانے کے لیے آخر میں حرف ایس لگا دیا جاتا ہے، جیسے کار سے کارز، روڈسے روڈز، وغیرہ۔ اب ہم اردو بولتے وقت انگریزی الفاظ میں تو انگریزی جمع کا اصول بے تکلفی سے برت لیتے ہیں، جیسے اس فقرے میں، ’ روڈز پر کارز کی بھرمار ہو گئی ہے۔‘ لیکن انگریزی جمع بنانے کا اصول کبھی بھی اردو الفاظ کی جمع بنانے کے لیے نہیں استعمال کرتے۔ایسے الفاظ کی شکل ہی مضحکہ خیز ہے، یعنی سڑکزاور گاڑیز ۔ وجہ وہی کہ اسما تو قبول ہو جاتے ہیں، گرامر ہضم نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی گرامر کا اصول اردو کو گوارا نہیں۔

گرامر کو ایک طرف رکھ بھی دیں، پچھلے ایک ہزار سال کے تسلط کے باوجود فا رسی اردو زبان کے بنیادی اسماکو متاثر نہیں کر سکی۔ جیسے بنیادی رشتے (ماں، باپ، بیٹا، بیٹی،بھائی، بہن، نانا، دادا،ماموں، چچا، حتیٰ کہ ساس، سسر)، بنیادی ہندسے (ایک ، دو، تین، چار، پانچ، دس، بیس، پچاس ،سو )،اہم اعضا(ہاتھ، پاؤں، ناک،ٹانگ، کان، آنکھ، منھ)، وغیرہ اب بھی اردو کے اپنے الفاظ ہیں۔

مزید برآں، مارٹنیک کی تحقیق، جس کا ذکر پہلے آچکاہے، کے مطابق تحریری اردو کے بیس سب سے عام استعمال ہونے والے الفاظ میں، جو اردو ذخیرہٴ الفاظ کا اڑتیس فیصد بنتا ہے، ایک لفظ بھی فارسی یا عربی کا نہیں ہے۔

مذکورہ بالا دلائل اس بات کا ثبوت ہیں کہ اردو مسلمانوں کی ایجاد نہیں ہے ، بل کہ یہ دہلی اور اس کے قرب وجوانب میں قطب الدین ایبک کے ورود (1193ء) سے پہلے ہی بولی جاتی تھی۔ اس زبان کو اس وقت کیا کہا جاتا تھا، اس کا ادبی سرمایہ کیا تھا، کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ماہرینِ لسانیات نے کچھ دھندلا سا نقشہ ضرور مرتب کیا ہے۔


پہلی زبانیں، بگڑی زبانیں

برِصغیر میں زبانوں کے ارتقا کا سادہ نقشہ کچھ یوں مرتب کیا جا سکتا ہے۔

منڈازبانیں: 5000 ہزار تا 3000 قبل مسیح
قدیم دراوڑی زبانیں: 3000 تا 1500 قبل مسیح
انڈو آرین: قبل از 1500 قبل مسیح
ویدک سنسکرت/قدیم انڈو آرین: 1500 قبل از مسیح تا 1000 قبل مسیح
کلاسیکی سنسکرت /وسطی انڈوآرین: 1000 ق م تا500 ق م
پراکرتیں: 1500 ق م تا 50ق م
اپ بھرنشائیں: 500 ق م تا 1000 ق م
جدید زبانیں: 1000 تا حال
1000 تا حال

(ماخوذ از گیان چند جین، 1994ء؛ عین الحق فریدکوٹی، 1972ء)

پراکرتیں وہ زبانیں تھیں جو آریاؤں کی آمد سے قبل ہندوستان میں بولی جاتی تھیں(پرا: پہلے؛ کرت: بنائی ہوئی۔ اس کے مقابلے میں سنسکرت کا مطلب ہے، خالص زبان)۔ ہم جانتے ہیں کہ آریاؤں کی آمد سے قبل بھی برِ صغیر گنجان آباد خطہ اورمتنوع تہذیبوں کا گہوارہ تھا۔ امری نل تہذیب سات ہزار سال پرانی ہے جب کہ وادیٴ سندھ کی عظیم الشان تہذیب آج سے پانچ ہزار پہلے اپنے عروج پر تھی۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب قومیں مختلف زبانیں بولتی تھیں، جو صدیوں کے سفر میں اپنی شکلیں بدلتی چلی گئیں۔انہی زبانوں کو پراکرتیں کہا جاتا ہے۔ پالی ان میں سے ایک پراکرت ہے جسے گوتم بدھ نے اپنی تعلیمات کی تشہیر کے لیے منتخب کیا۔

اپ بھرنشائیں (لفظی مطلب، بگڑی زبانیں)کچھ اور بل کہ پراکرتوں کی ارتقائی شکلیں ہیں۔ بگڑی ہوئی زبانیں انہیں برہمنوں نے کہا جو سنسکرت کو خالص زبان سمجھتے تھے اورجنہیں اس کے بے داغ دامن پر تغیر کی ہلکی سی دھول بھی گوارانہیں تھی۔ چناں چہ ہوا کیا کہ سنسکرت تو عجائب گھر میں رکھی ہوئی حنوط شدہ ممی بن گئی لیکن زندہ زبانوں کا سفر جاری و ساری رہا اور یہ دوسری زبانوں سے اثر قبول کرتی، اثرڈالتی، سکڑتی پھیلتی، چھلتی چھلاتی آگے بڑھتی رہیں۔ ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ موجودہ زبانیں یکایک وجود میں نہیں آئیں بلکہ قدیم زبانوں کی بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔دراصل زبانیں زمانی اور مکانی دونوں اعتبار سے مسلسل عملِ تغیر سے دوچار ہوتی رہتی ہیں۔ جیسے ہر دس بارہ میل کے بعد ایک ہی زبان میں معمولی سافرق آجاتا ہے، بالکل ویسے ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھی زبانیں دھیرے دھیریتبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ جس طرح کسی علاقے میں زمین پر خط لگا کر نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں سے فلاں لہجہ شروع ہوتا ہے، اتنا ہی مشکل زبان میں کسی تبدیلی کے صحیح سن کا تعین بھی ہے۔

ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے محققین نے بڑی دقت نظری سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جدید پنجابی جس اپ بھرنشا سے نکلی ہے اسے پشاچی اپ بھرنشا کہا جاتا ہے جب کہ برج بھاشا شورسینی اپ بھرنشا کی ارتقائی شکل ہے۔ اردو زبان کی اپ بھرنشا کون سی ہے، اس سلسلے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے اور تاحال ماہرینِ لسانیات کسی سب کے لیے قابلِ قبول نتیجے تک نہیں پہنچ پائے۔ (گیان چند جین، 1984ء؛ شوکت سبزواری، 1987ء)

چڑیا لائی چاول کا دانہ

یہ بحث ہمیں 1193ء میں لے جاتی ہے جب سلاطینِ غلاماں دہلی میں اپنی قلمرو کی داغ بیل ڈال رہے تھے۔ مذکورہ بالا، تاحال نامعلوم اردوزبان کی ’ماں‘ اپ بھرنشا اس وقت دہلی اور اس کے نواح میں بولی جاتی تھی۔ جب مسلمان دہلی میں آباد ہوگئے توظاہر ہے کہ مقامی آبادی ، جو غالب اکثریت میں تھی، کے ساتھ بول چال کے لیے انہیں مقامی زبان سیکھنا پڑی۔ سات صدیوں بعد تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا جب انگریز ہندوستان میں آبسے اور انہیں مقامیوں کی زبان سیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔مسلمانوں نے تو خیر اس مقصد کے لیے کوئی فورٹ ولیم کالج نہیں قائم کیاتاہم جیسا کہ امیر خسرو کی گواہی سے معلوم ہوتاہے، وہ جلد ہی مقامی زبان پانی کی طرح بولنے لگے۔ اور جیسا انیسویں صدی میں ہواکہ شاہ کی زبان (انگریزی) کے الفاظ مقامی زبان (اردو) میں استعمال ہونے لگے، ویساہی بارہویں اور تیرہویں صدی میں بھی ہوا کہ فارسی کے اسما کا اثر مقامی زبان (اردو) پر ہوا۔ بالکل ایسے ہی جیسے انیسویں صدی میں اردو اور انگریزی کے میل جول سے کسی نئی زبان نے جنم نہیں لیا، بارہویں صدی میں بھی فارسی اور مقامی زبان کے اختلاط سے کوئی نئی زبان وجود میں نہیں آئی۔

ان صاحبان کی خدمت میں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اردو مسلمانوں اور مقامیوں کی زبانوں کے خلط ملط ہونے سے ظہور میں آئی ہے،ایک سوال پیش کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا وجہ ہے کہ اس مبینہ تال میل سے صرف ایک ہی زبان، یعنی اردو وجود میں آئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بھی نئی زبانیں کھمبیوں کی طرح اگ آتیں، کیوں کہ مسلمان صرف دہلی تک محدود نہیں رہے، وہ اس سے چار صدیاں قبل سندھ میں ڈیرے ڈال چکے تھے۔ پنجاب پر حکومت کرتے کرتے بھی انہیں ڈیڑھ صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا۔ بعد میں وہ بنگال ، دکن اور ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ حتیٰ کہ پاکستان کے صوبہٴ سرحدمیں بھی کسی نئی زبان کے آثار نہیں ملتے حالانکہ وہاں کی توکل آبادی اجتماعی طور پر مشرف بہ اسلام ہوگئی تھی۔

یہ نظریہ مشرق و مغرب کے کئی ماہرینِ لسانیات رد کرچکے ہیں کہ اردو زبانوں کے اختلاط سے بنی ہے
، لیکن شاید سب سے رنگارنگ تردید جناب شوکت سبزواری کی طرف سے آئی ہے، فرماتے ہیں:

ایک نظریہ جسے میں غیر سنجیدہ سمجھتا ہوں، یہ ہے کہ اردو کھچڑی ہے: چڑیا لائی چاول کا دانہ، چڑا لایا دال کا دانہ، دونوں نے مل کر کھچڑی بنائی۔

حقیقت یہ ہے کہ زندہ زبانیں دوسری زبانوں سے الفاظ مستعارلیتی رہتی ہیں۔ انگریزی کی مثال سامنے کی ہے ، اس نے دنیا بھر کی زبانوں ، بشمول اردو، سے الفاظ اخذکیے ہیں۔ لیکن انگریزی کو کوئی بھی مخلوط زبان نہیں کہتا۔ ہندوستان میں آئیے تو کئی دوسری زبانوں نے فارسی کے الفاظ اپنائے ہیں۔ پنجابی زبان کی مثال لے لیجیے، اسے بھی عام طور پر کھچڑی نہیں کہا جاتا۔ لیکن جدید پنجابی اور مسلمانوں کے بولنے والی پنجابی تو خیر الگ رہی، سولہویں صدی کے اوائل میں اس زبان میں لکھی گئی سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ ’صاحب‘ تک میں فارسی و عربی کے 3431 منفرد الفاظ پائے جاتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں
:
نانک دنیا کیسی ہوئی سالک مت نہ رہیو کوئی

بھائی باندھی ہیت چکایا دنیا کارن دین گنوایا

دل دروائی جو کرے ، درویشی دل راس عشق ، محبت ،نانکا، لیکھتاکرتے پاس
(جمیل جالبی، 1983ء)

ہندو زبان، مسلم زبان

یہ سوال اکثر پوچھا گیا ہے کہ انیسویں صدی سے قبل ہندو کون سی زبان بولتے تھے۔ اس کا جواب پہلے ہی سنیتی کمار چیٹرجی دے چکے ہیں۔ یعنی وہی زبان جسے آج اردو کہا جاتا ہے۔ نقطہ یہ ہے کہ مسلمان یہ زبان اپنے ساتھ ایران یا طوران سے تو لائے نہیں تھے۔ یہ زبان انہوں نے یہیں پر مقامیوں سے سیکھی۔ اس لیے اسے مسلم زبان کہنا بالکل غلط ہے۔

جہاں تک رسم الخط کی بات ہے تو ناگری رسم الخط کے علاوہ کیتھی بھی استعمال کیاجاتا تھا۔ تاہم سب سے زیادہ مستعمل لپی ترمیم شدہ فارسی ہی تھی۔ وجہ وہی کہ یہ سرکاری رسم الخط تھا اور ہندوستان بھر کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ اس حد تک کہ جنوب میں مرہٹوں اور شمال مغرب میں سکھوں کی ریاستوں کی درباری زبان بھی فارسی ہی تھی۔ بیسیوں صدی میں پہلی بار عدالتوں میں اردو کے ساتھ ساتھ ناگری رسم الخط کو جگہ ملی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکم نامے کے اصل الفاظ ”ناگری اور فارسی رسم الخط“ کو بعد میں حکومتِ ہند نے بدل کر ”ہندی اور اردو زبانیں“ کر ڈالا (الوک رائے، 1995ء)۔

اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں میں ہزاروں ہندو اُردو میں لکھتے تھے۔ لیکن جوں جوں ہندی اور اردو کے درمیان خلیج وسیع تر ہونے لگی، اردو ادبا اور مورخین نے ہندو ادیبوں کو اردو کے دائرہٴ استثناد سے خارج کرنا شروع کر دیا۔ مثال کے طور پراردو ادب کی انتہائی بااثر ’آبِ حیات‘ میں صرف ایک ہندو شاعردیا شنکر نسیم کاذکرہے اور بھی محض حاشیے پر۔ دوسری طرف ہندی میں بھی یہی کچھ ہورہا تھا، چنانچہ رام چندر شکلا کی کتاب ’ہندی ساہتیہ کا اتہاس‘ میں اٹھارہویں صدی کے اردوشعرا کا تذکرہ نہیں ہے، اس بات سے قطعِ نظر کہ وہ خود اپنی زبان کو ہندی کہتے تھے۔

فی الوقت تو صورتِ حال یہ ہے کہ اردو اور ہندی کے درمیان سیاسی اور مذہبی نزاع کی خلیج اتنی گہری ہوچکی ہے کہ اسے پاٹنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ منشی پریم چند کے پوتے الوک رائے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں:

”قابلِ غور بات یہ ہے کہ دونوں فریق اس حقیقت سے آنکھ چرا رہے ہیں جس سے دونوں بہ خوبی واقف ہیں۔۔۔اور دونوں کو جاننے کی ضرورت ہے ۔۔۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ عوام نے صدیوں کے عمل میں ایک خو ب صورت اور مشترک زبان تخلیق کی تھی۔ بات یہ ہے کہ اگر مسئلے کی جڑ پر ایک زبان نہ ہوتی تو یہ معاملہ کبھی بھی اتنا طول نہ پکڑتا۔“


تو یہ تھی اردو کی کہانی۔ یہ غالباً دنیا کی واحد زبان ہے جو اول تا آخر بدگمانیوں، استعماری سازشوں ، ریشہ دوانیوں اور شکوک و شبہات کی زد میں رہی ہے۔ اس کا آغاز نزاعی ، اس کا ارتقاغلط فہمیوں کی دھند میں لپٹا ہوامذہبی ،علاقائی اور قومی تعصبات سے آلودہ اور اس کا رسم الخط متنازعہ ہے ۔ باقی باتیں تو الگ رہیں، اس کے نام ہی کے بارے میں یاروں نے طرح طرح کے افسانے اڑائے ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر پچھلے صفحات پرآچکا ہے۔

جناب شان الحق حقی مرحوم کہا کرتے تھے کہ اردو زبان کی ہمہ گیری، وسعت اور مٹھاس کا کیا کہنا، یہ وہ زبان ہے جس نے دنیا کی تین عظیم زبانوں کا دودھ پیا ہے، سنسکرت، عربی اور فارسی۔

غالباً اسی دودھ نے اردو میں وہ قوتِ مدافعت بھی پیدا کر دی ہے کہ مندرجہ بالا تمام اڑچنوں کے باوجود اس زبان کا ارتقا قابلِ رشک اور مستقبل تابناک ہے۔

دنیا میں کوئی اور زبان ایسی ہو تو بتایئے۔

-------------------
ختم شد
 
Top