لذت آشنائی- گذشتہ مکمل - زندگی کی پنہاں حقیقتوں اور لذتوں سےآشکار ہوں-1

گوہر

محفلین
تحریروتحقیق: محمد الطاف گوہر
تجسس انسانی فطرت کا خاصہ رہا ہے اور اس کے بل بوتے پر انسانی ذہن نے مختلف ادوار میں جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اسکے باعث امکانات کے اسرار کھلتے ہیں اور انسانی سوچ کو بلند فضاؤں میں پرواز کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ اب جبکہ شعوری بالیدگی کا دور دورہ ہے اور نئے نئے انکشافات نے پرانے اور دقیانوسی تصورات کی جگہ لے لی ہے دور حاضر کے مسلسل سائنسی انکشافات نے حقائق بیان کر کے شعوری پستی کی آنکھیں چکا چوند کر دی ہیں ۔ اگر پچھلی ابتدائی صدیوں کے انسان کو آج کے دور کے سلسلہءزندگی کو دیکھنے کا موقعہ ملے تو وہ سو فیصد غیر یقینی حالت میں چلا جائے گا کیونکہ پرانے وقتوں میں ایک انسان کیلئے ہوا میں اڑنا ،سمندر کے پانی میں سفر کرنا دور دراز کے فاصلے گھنٹوں میں طے کرنا یا پھر لاکھوں کلو میٹر دور بیٹھے شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہ صرف دیکھنا بلکہ بات بھی کر لینا یا پھر زمین کے کسی بھی کو نے سے دوسرے کو نے میں پلک جھپکتے میں بات کر لینا یا پھر اسے پیغار م بجھوا دینا کسی حیرت انگیز بات سے کم نہیں۔مگر آج کے انسان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ یہ زمین ساری کی ساری اس کی دسترس میں آ گئی ہے اور یہ دنیا اب ایک چھوٹے سے بچے کے آگے صرف Mouse کی ایک Click کے فاصلے پہ ہے۔جبکہ فاصلے سمٹ چکے ہیں اور دنیا ایک Global Villiageکی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ یہاں تک کہ دنیا کے ایک کونے میں سرکنے والے پتھر کی بازگشت دوسرے کونے میں سنای دیتی ہے۔مگر ہمارے دنیا کو ماپنے اور جاننے کے پیمانے وہی صدیوں پرانے ہیں؟
یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر اس پرانی صدی کے انسان کو ہماری اس دنیا میں رہنے کا موقع ملے تو ا س کیلئے یہ سب کچھ جو وہ دیکھے گا کسی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں ہو گا ۔مزید براں یہ سارے طلسمات ایک عام انسان کی دسترس میں ہیں کہ وہ نا صرف گھر بیٹھے دور دراز کے حالات اور دنیا کی خبر رکھ سکتا ہے بلکہ زمین کے کسی بھی کونے میں ہونے والے حالات ا سکی نظروں کے سامنے ہیں لہذا اس انسان کیلئے ہوا میں اڑنا اور دور دراز کے رابطے کیلئے پریشان ہونا اور دور کی خبریں حاصل کرنے کیلئے تگ ودو کرنا کتنا مضحکہ خیز ہو گا؟ پہلے وقتوں میں یہ سب باتیں شخصی کمالات کے زمرے میں آتی تھیں اور ان کی ضرور ت بھی تھی کیونکہ وسائل محدود تھے اور کسی کو بھی ٹیلی فون ،ٹیلی ویژن، جہاز ، گاڑی کی سہولیات میسر نہ تھی بلکہ ان کا تصور بھی نہ ہو گا اب جبکہ یہ سب کچھ ہو چکا تو ان علوم پر وقت ضائع کرنا جن سے یہ کمالات حاصل ہوں مندرجہ بالا جائزہ کے پس منظر میں کتنا مضحکہ خیز ہو گا ؟
اب روائتی شخصیت پرستی کا دور ختم ہو چکا ہے پہلے اگر راکھ کی ایک چٹکی کوئی خاص آدمی کسی عام آدمی کو دیتا تھا تو وہ آنکھیں بند کر کے منہ میں رکھ لیتا تھا کہ یہ کوئی خاص آدمی کا کمال ہے اور واقعی شفا بخشی بھی نظر آتی تھی مگر آج سائنسی ترقی علوم کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ راکھ کے اندر بھی شفا بخشی کی صلاحیت موجود ہے جیسا کہ ہو میو پیتھک طریقہ علاج میں Carbo Veg کے نام کی راکھ سے دوا بھی موجود ہے ۔ ارتقا ء کا دھارا اب کسی دوسری طر ف گامزن ہے ۔یہ شعوری بالیدگی کا دور ہے اب بہت سے طلسمات کا جادو ٹوٹ چکا ہے۔پہلے پہل بہت سی با تیں جن کو جادوئی تصور کیا جاتا تھا اب ان کی بھی کوئی نہ کوئی طبعی توجیہہ بھی کی جا سکتی ہے۔
ع اس موڑ سے آگے منزل ہے مایوس نہ ہو دراتا جا​

اس زمین پر ظہور انسانی سے ہر دور کے لوگوں کا چند ایک سوالات سے واسطہ پڑتا رہا ہے جیسا کہ
اس کائنات کا بنانے والا کون ہے ۔؟
زمین پر زندگی کا آغاز کسیے ہوا ۔؟
زندگی کا مقصد کیا ہے ۔؟
ہم کیوں پیدا ہوئے اور کیوں مر جاتے ہیں۔؟
آیا ان سب معا ملات کے پس پردہ کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہے یا پھر سارا عمل خود بخود ہو رہا ہے ؟

ہر دور کے لوگوں میں کائنات کے خالق کو جاننے کا جوش و خروش پایا جاتا ہے (یہاں ایک اصول واضح کرتا چلوں کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلے کا حل تلاش نہ کر سکے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے جانچے ۔ یعنی تمام امکانات کا جائزہ لے) ا کثر اوقات دیانتداری سے مسئلہ کو حل کرنے کی کاوش خودبخود ہی مسئلہ کو آسان بنا دیتی ہے ۔لہذا انہی خطوط پر چلتے ہوئے لوگوں میں معاملات زندگی کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ پیدا ہو گئی ہے ۔یہ جاننے کیلئے کہ اس کائنات کا خالق کو ن ہے ۔لوگوں نے اس کائنات (آفاق)کی تخلیق سے متعلق تحقیق کرنا شروع کر دی۔ کائنات کے راز کو جاننے کیلئے مختلف روش اختیار کی گیں۔
لوگوں کے ایک گروہ نے آفاق کو اپنا مر کز چن کر کائنات کے اسرار کو جاننے کیلئے اسکا ظاہری مطالعہ شروع کر دیا نتیجہ نا صرف قوانین اور مظاہر قد رت کو جانا بلکہ انتہائی مفید مشینری،الیکٹرانکس کے آلات و دیگر ایجادات کا ایک ڈھیر لگا دیا ۔ان تحقیقات کی بدولت سائنس نے ترقی کی اور نت نئی ایجادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا لہذا مستقل جستجو نے طبعی (Physical) اور زیستی (Biological)قوانین کے راز فاش کرنے شروع کر دیئے۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے باعث آجکا جد ید دور ان لوگوں کی مستقل تحقیقات اور جدو جہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے اس کائنات کا ظاہری مطالعہ کیا۔یہ تحقیق اپنی مسلسل پیش رفت کے باعث قدرت کے رازوں کو مسخر کرنے پر گامزن ہے ۔
علاوہ ازیں لوگوں کے دوسرے گروہ نے بجائے اس کے کہ زندگی کی حقانیت کو آفاق میں تلاش کیا جائے خود انہوں نے ایک دوسری روش اختیار کی۔ ان لوگوں کی سوچ تھی کہ گراس ظاہری کائنات کا کوئی خا لق ہے تو انکے وجود (جسم )کا بھی کوئی خالق ہو گا ؟ لہذا اس سوچ سے وہ بھی اس تخلیق کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہیں ۔ اپنی تو جہ کائنات کے ظاہری وجود سے ہٹا کر اپنے وجو د ( نفس) کے اسرار کی کھوج میں لگا دی۔ اس طرح انہوں نے آفاق سے ہٹ کہ مطالعہ نفس میں دلچسپی لی اور اپنی ذات پہ تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا تا کہ اپنے اندر کے رازِ حقیقت کو سمجھا جائے اس طرح سے علم نورانی کے سلسلے نے وجود پکڑا یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ تمام تجربات انسان کے اپنے (Software ) یعنی ذہن (MIND (پہ کئے گئے نہ کہ جسم پہ۔
پرانے وقتوں لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ یہ دنیا صر ف چار عناصر سے ملکر بنی ہے ۔زمین، پانی اور آگ اور ہوا، پھر سائنسی ایجادات کا سلسلہ چلا اور زیادہ سے زیادہ انکشافات سامنے آنے لگے اور یہ طے پایا کہ کائنات108عناصر سے ملکر بنی تھی ۔پھر ان 108عناصرکی پیچیدگیوں کے مطالعہ کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ یہ تمام عناصر صرف ایک ذرہ ایٹم (ATOM)سے ملکر بنے ہیں اور ان عناصر میں صرف فرق ایٹم کی ترتیب کا ہے۔ اسکے بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایٹم ہی بنیادی ذرہ نہیں بلکہ الیکٹران ہی وہ بنیادی ذرہ ہے جو تمام دنیا کی اساس ہے۔ تاہم الیکٹران کی دریافت ایک مسئلہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔الیکٹران اگرچہ بنیادی ذرہ کہلایا مگر یہ مطلق ذرہ والی فطرت ظاہر نہ کر پایا یعنی ایک وقت میں وہ متحرک بھی تھا اور غیر متحرک بھی۔ کبھی یہ ذرہ کا کردار ادا کرتا اور کبھی ایک لہر کی شکل میں ہوتا۔یہ معاملہ سائنسدانوں کیلئے انتہائی پیچیدہ ہو گیا کہ وہ الیکٹران کی اصل تعریف کیسے کر سکیں ۔لہذا ایک نئی اخترا ع سا منے آئی اور الیکٹران دوہری خصوصیت کا حامل ٹھرا ے جو کہ لہر کے ذرات ا ور کبھی صرف ذرہ کی خصوصیت کا اظہار کرتا ۔ مگر جب اس الیکٹران پر مزید تحقیق جاری رکھی تو یہ کھوج ایک انتہائی درجے پر پہنچی کہ الکٹران صرف اور صرف ایک کمترین توانائی کا ذرہ (Energy Particle)ہے اور یہ توانائی ہی کی خصوصیت ہے جو کہ اپنے آپ کو الیکٹران میں تبدیل کرتی ہے اور بعد میں اس مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مشہور سائنسدان البرٹ آئینسٹاین کی مساوات E= MC2 بھی تمام مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہونے کے عمل کہ تقویت دیتی ہے۔سائنسدانوں کی تمام تحقیق اب تک ہمیں یہاں تک لانے میں یقینی طور پہ کامیاب ہوئی ہے کہ یہ درخشاں توانائی اپنے بنیادی درجہ پر اس کائنات میں جاری و ساری ہے ۔ جبکہ ہر چیز ایک مخصوص جگہ گھیرتی ہے اور پھر توانائی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
یہ تو بات ہو رہی تھی ا ن لوگوں کے بارے میں جنہوں نے مسلسل آفاق کی تحقیق سے زندگی کے چند اسرار کا اندازہ لگایا اور ہمیں ہستی کے نئے میدان میں لاکھڑا کیا ۔ اب ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنہوں نے نفس کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا اور اپنے جسم و ذات پر یہ تحقیق شروع کر دی اور انہوں نے اپنی توجہ اپنے ا ند ر مرکوز کر دی جسکے نتیجہ میں نفوذ کرنے کے بہت سے طریقہ کار دریافت کیے تا کہ ا پنے اندر کا سفر کرکے اس اکائی (جز)کو تلاش کیا جا سکے جو کے انکو اس کائناتی حقیقت سے مربوط کرتا ہے ۔اس کوشش نے علم نورانی (علم مراقبہ) کے عمل کو تقویت دی ۔تمام طریقہ کار جو کہ مختلف طرح سے مراقبہ کے عمل میں نظر آتے ہیں وجود پائے۔ جس کا عمل دخل کم و بیش ہر مذہب کی اساس معلوم ہوتا ہے۔ آ ج مراقبہ کے عمل میں جو جدت اور انواع و اقسام کے طریقہ کار نظر آتے ہیں انہی لوگوں کے مرہون منت ہے جنہوں نے اپنے نفس کو تحقیق کیلئے چنا۔ ان تحقیقات اور مراقبہ کی مختلف حالتوں میں لوگوں نے محسوس کیا کہ اس سارے نظام عالم وجود میں شعوری توانائی کا نفوذ اور منسلکہ رشتہ ہے ۔مراقبہ کی گہری حالتوں میں اب ہر فرد واحد کا واسطہ ایک ا ہم گہرا احساس دلانے وا لے وجود یعنی خودی ( میں،SELF)سے پڑا اور یہ اخذ کیا گیا کہ یہ جو سلسلہ کائنات میں توانائی کا عمل دخل نظر آتا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک اعلی حس آگاہی (Supreme Consciousness) ہے جس کا اس کائنات میں نفوذ ہے ۔ مراقبہ ایک عمل ہے جو اپنی گہری حالتوں میں کسی بھی شخص کیلئے وجود حقیقی سے روابط کا ذریعہ بنتا ہے۔
علم نورانی (مراقبہ)
مدتوں سے لوگ مراقبہ کو ایک انتہائی پر اسرار اور مشکل موضوع سمجھتے رہے ہیں ہمیشہ بڑے بوڑھے اور فار غ لوگوں کو اس کا حقدار سمجھا جاتا رہا ہے ۔ ۔مراقبہ پر پوری دنیا میں سائنسی طریقہ کار کے تحت تجربات کر کے اخذ کر لیا ہے کہ اس عمل سے انسانی ذہن اور جسم پر انتہائی اعلی مثبت اثرات مرتب ہو تے ہیں جس میں تعلیم و عمر کی کوئی قید نہیں اب کوئی بوڑھا ہو یا جوان سب ہی مراقبہ کی کرنے مے دلچسپی رکھتے ہیں مزید برآں اب تو سکول و کالج میں مراقبہ کی تعلیم کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے کم و بیش پوری دنیا میں مراقبہ کی تربیتی کلاسز کا اجراء ہو چکا ہے اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر اور صحتی ادارے اپنے مریضوں کو روزانہ مراقبہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں مراقبہ جو کہ پہلے وقتوں میں صرف مذہب کا حصہ سمجھا جاتا تھا اب دنیاوی پیش قدمی کے علاوہ روز مرہ مسائل کے حل کے لئے بھی مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے آج پوری دنیا میں ذہنی دباﺅ کو کم کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے مراقبہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اس کو آج کے وقت میں انتہائی میسر آلہ قرار دے دیا گیا ہے جوں جوں معاشرہ میں اسکی آگاہی بڑھتی جا رہی ہے نتیجہ میں انسانی بھائی چارہ اور عالمی اتحاد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جب زیادہ لوگ مراقبہ کی بدولت ذاتی شناسائی حاصل کرتے جائیں گے انکو کائنات کی سچائی اور اصلیت کا قرب حاصل ہو گا اور نتیجہ عالمی بھائی چارہ وجود مے آئے گا۔
مراقبہ کیا ہے ؟
مراقبہ انسان کا اپنی حقیقی خودی (ذات) کی طرف ایک گہرا سفر ہے جس میں ایک انسان اپنے اندر (باطن) میں اپنا اصلی گھر تلاش کر لیتا ہے آپ چاہے کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ ۔ کسی بھی مذہب اور روحانی سلسلہ سے منسلک ہوں مراقبہ سب کے لئے ایک جیسا عمل ہے مراقبہ آپکی توجہ ،آپکے باطن کی طرف لے جانے کا موجب بنتا ہے آ پکا ذہن اس طرح سے سکون پہ مقیم ہو جاتا ہے اس طرح آپکی توجہ بھٹکے ہو ئے شعور کی حدود سے نکل کر حقیقی مرکز سے مربوط ہو جاتی ہے ۔مراقبہ ذہن کی وہ طاقت ہے جو اسکو نورانی پہلو کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ باندھ دیتی ہے اس پہلو سے ذہن زندگی کا اعلی مقصد آشکار ہوتا ہے مراقبہ کو آپ" نورانی علم " سے تعبیر کر سکتے ہیں کیونکہ ہے نور کے چشمہ سے کام کرتا ہے ۔حقیقی مراقبہ کا راز صرف ذہنی تصور کے ساتھ منسلک ہے جو اسکی ابتدائی اور انتہائی سطحوں پر کام کرتا ہے ۔ مراقبہ علم کی وہ قسم ہے جو آپکی شخصیت ،روح اور ذات کو آپس میں یکجا کر دے اور سب کو ایک نقطہ سے مربوط کر کے کثرت و دوئی سے آزادی کا احساس پیدا کر دے ۔ مراقبہ ایک علمی تجربہ ہے جو ذہنی کشمکش سے خالی پن اور ظاہر ی زندگی کے مستقل نہ ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے۔مراقبہ ایک عملی نمونہ ہے زندگی کو قریب سے دیکھنے پر اسکے ظاہری نا پائداری کے احساس کا۔ مراقبہ کو آپ ایک ذہنی ورزش کا نام دے سکتے ہیں ۔جس کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں ۔جتنا زیادہ اس عمل کو کیا جائے اتنی زیادہ اس میں مہارت حاصل ہو گی ۔یہ اس طرح کا عمل ہے جیسے ایک باڈی بلڈر یا پہلوان جسمانی ورزش کے باعث مضبوط و خوبصورت بناتا ہے۔ مراقبہ کرنے کی عادت سے باطنی اعضاء کی ورزش ہوتی ہے اور وہ قابل استعمال ہو جاتے ہیں۔
عبادت اور مراقبہ میں فرق
عبادات میں اللہ سے بات کی جاتی ہے اور اپنا رابطہ ازل سے جوڑا جاتا ہے مگر مراقبہ میں اپنے باطن کی اتھاہ گہرائیوں میں جا کر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کی حقیقت سے نا صرف شناسا ہوا جاتا ہے بلکہ مشاہدہءقدرت بھی کیا جاتا ہے۔ مراقبہ کا نصب العین (مقصد)صرف اور صرف آپ کے جسم، جذبات ،اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس اعلی درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف اپنے باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونا یہیں سے کشف و وجدان کے دھارے پھوٹتے ہیں ۔ اسطرح ایک انسان کا رابطہ کائنات کی اصل سے جڑ جاتا ہے اور علم و عر فان کے چشمے پھو ٹ پڑ تے ہیں ۔ کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ اور انسان پستی کے گرداب سے نکل کر ہستی کے نئے میدان میں آجاتا ہے جہاں ہر طرف بہار ہی بہار ہے ۔بہار بھی ایسی کہ خزاں نہیں ہوتی اور سوچ انسانی آسمان کی بلندی کو چھوتی ہے اور لذت بھی ایسی
ع کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے​

یہی زندگی کا موسم بہار ہے جسکے آ جانے کے بعد ہر طرف کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور انسانی سوچ کا سفر ایک نئی سمت گامزن ہو جاتا ہے۔ جسکے سامنے ایک وسیع واریض میدان عمل ہے اور یہاں کی سلطنت میں صرف آج کی حکمرانی جبکہ گذشتہ کل کی کسی تلخی کا دکھ نہےں اور آنے والے کل کی خشبوکا دور دورہ ہے۔یہاں لذت سرور کا وہ سماں ہے جو کہ دنیا کے کسی نشے میں نہےں ۔ اور خواب حقیقت کے روپ میں بدل جاتے ہیں جبکہ زندگی سوچوں کی تنگ و تاریک گلیوں میں دھکے کھانے کے بجائے روشن اور وسیع میدانوں میں سفر کرتی ہے۔اب اسکا سفر کوئی سڑاند والا جوہڑ نہیں کہ جس میں وہ غوطے کھائے بلکہ ایک بحربیکراں جسکے سفینے صرف کامیابی ،خشحالی اور سکون کی منزل تک لے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
لذت آشنائی قسط نمبر 2​
ہر دور میں مختلف افراد اپنی بساط کے مطابق ’میں‘(SELF )کی تلاش میں نکلے، کسی نے کہا ’کی جاناں میں کون؟‘اور کوئی ’ان الحق‘ کا نعرہ لگا کر چلا گیا کسی نے خودی کا تصور دیا۔ غرض ہر نظر نے اپنے اپنے زاوئیے سے دیکھا اور جو دیکھا خوب دیکھا ۔ ہر شے کو دیکھنے کے360 زاوئیے ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر زاویہ ٹھیک ہو مگر ایک زاویہ ضرور حقیقت بتلاتا ہے۔ زاویہ، نظریہ، ترکیب بہر حال ایک تو ضرور ایسی ہوتی ہے جو حقیقت شناسا ہوتی ہے۔
اگر ہائیڈروجن گیس کے دو حصے اور آکسیجن کا ایک حصہ ملایا جائے تو نتیجتاً پانی بنے گا مگر ان دونوں گیسوں کو اور کسی بھی ترکیب سے ملایا جائے پانی نہےں بنے گا چاہیں کروڑوں طریقے آزمائے جائیں۔ یعنی ایک ہی زاویہ یا ترکیب کسی حقیقت کی غمازی کرتی ہے وگرنہ دوسری ساری تراکیب و طریقے (زاوئیے، نقطہ نظر)سوائے گمراہی اور وقت کے ضیاع کے اور کچھ نہیں۔
تخلیق کا خاصہ ہے کہ وہ ان طاقتوں کو (جو ایک دوسرے کیلئے قربت کا مزاج رکھتی ہوں)ایک خاص نسبت (ترکیب)پہ ملا کر ایک نئی چیز معرض وجود میں لاتی ہے۔ جیسے قدرت کے رازوں میں سے ایک راز واضح کرتا چلوں کہ قدرت کس طرح عدم (غائب) سے کسی چیز کو ظاہر وجود میں لاتی ہے۔ یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن نظر نہ آنے والی گیسیں ہیں مگر جب دونوں ایک خاص ترکیب (H20) کی نسبت کے ساتھ ملتی ہیں تو ایک نئی چیز (پانی ) وجود میں آتا ہے جوکہ ایک جدا گانہ خاصیت رکھتا ہے اور دیکھا اور چکھا بھی جا سکتا ہے۔
اس دنیا کو ہم اپنی اپنی نظر اور زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ اور جو اخذ کرتے ہیں وہ ہماری اندر کی دنیا کا عکس ہے۔ ورنہ باہر کی دنیا ایک ہی ہے مگر نقطہ نظر اور تجربات زندگی مختلف۔ کوئی خوش ہے اور کوئی غمگین کسی کو دنیا (زندگی ) حسین و دلفریب نظر آتی ہے اور کسی کو خاردار جھاڑی یعنی ہر کوئی دنیا کے بارے میں اپنا علیحدہ ہی نقطہ نظر رکھتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’میں ڈوبا تو جگ ڈوبا‘ یعنی ایک دفعہ ایک شخص پانی میں ڈوب رہا تھا۔ اس نے شور مچایا کہ مجھے بچاﺅ دونہ تمام یہ دنیا (جگ) ڈوب جائے گی۔ لوگوں نے اسے بچا کر کنارے پر پہنچایا اور پوچھا کہ یہ بات تو ٹھیک کہ تم ڈوب رہے تھے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اگر میں ڈوبا تو جگ ڈوبا؟ وہ شخص بولا بھئی اگر میں ڈوب کر مر جاتا تو میرے لئے تم سب مر گئے تھے نا یعنی میرے لئے تو دنیا ختم ہوگئی تھی “
اس مثل میں کتنی بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ ہر فرد کی اپنی دنیا اور اپنا زندگی کا تجربہ ہے۔ اب اندر کی دنیا بھی کئی منزلہ عمارت کی مانند ہے جسے ہم بچپن سے لے کر مرنے تک تعمیر کرتے ہیں اور اس کی منزلوں میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ہم میں سے کچھ لوگ تو اس عمارت کی بیسمنٹ میں رہتے ہیں کچھ گراونڈ فلور پر اور کچھ سب سے اوپر والی منزل پر۔ آپ اندازہ کریں کہ جو شخص اس کئی منزلہ عمارت کی بیسمنٹ میں رہتا ہو جہاں حشرات الارض (کیڑے مکوڑے) اور بدبودار ماحول ہے اسکو کس طرح سے اندازہ ہو سکتا ہے اس شخص کی زندگی کے بارے میں جو سب سے اوپر والی منزل میں رہتا اور قدرت کے نظارے ، صبح سورج طلوع ہونے کا منظر ، بادلوں کا آنا جانا ، غروب ہونا کا منظر وغیرہ دیکھتا ہے۔ غرض اپنے ہی اندر کوئی عذاب میں مبتلا ہے اور کوئی سکون کی لذت سے مالامال ہے۔
یعنی یہ کئی منزلہ عمارت ہمارے اپنے اندر (ذہن ) میں بنے ہوئے ماحول (Mind Set ) ہیں جن میں ہم اپنی زندگی گزارتے ہیں اور کبھی تکلیف نہیں کرتے کہ اسکے بارے میں معلوم کریں؟ بچن سے اب تک جو کچھ ہم دیکھتے آئے ہیں، سنتے آئے میں سب کا سب ہمارے ذہن کا حصہ بن چکا ہے مگر اس سب کو ہم باہر سے اندر غیر جانب دار ہو کر ریکارڈ نہیں کرتے بلکہ اپنے عقیدہ (Belief System)کے تحت مرضی کی اشیاء اپنے ذہن کا حصہ بناتے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے ذہن میں شاندار طریقے سے ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ ہم تہہ در تہہ اس کو ذخیرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ سب ہماری زندگی پہ براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
خودی (SELF ) ہر فرد کے اندر سے اس دنےا ( زندگی )کی ہر چیز کا مشاہدہ کررہی ہے؟ اس دنیا کی ہر چیز تبدیل ہوتی ہے ہمارے نظریات تبدیل ہوتے ہیں، ہماری ذات، اردگرد کا ماحول ملک خاندان غرض ہر شے تبدیل ہوتی ہے مگر یہ مشاہدہ کرنے والی اکائی (میں - SELF ) کبھی تبدیل نہےں ہوتی بلکہ شہادت دیتی ہے کہ اب بچپن ہے اور یہ جوانی ہے اور یہ بڑھاپا ہے ہر چیز پہلے اسطرح تھی اور اب اس طرح ہو گئی غرض ہمارے اندر سے اس دنیا کی ہر تبدیلی پہ یہ اکائی (میں Self) شہادت دینے والی بن جاتی ہے۔ مراقبہ اپنے آپ کو جاننے کا ایک عمل ہے کہ دراصل ہم میں کون ہیں؟ اور ہمارے اندر کبھی نہ تبدیل ہونے والی اس (Self )سے رابطہ کیسے کیا جائے جبکہ اسکے ثمرات سے استفادہ حاصل کرنا ہمارا نصب العین ہے۔
آپ سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کون ہیں؟ تو یقیناً آپ برملا کہیں گے کہ میں چھبیس برس کا مرد ہوں، پاکستانی ہوں، سفید رنگ ہے، مسلمان ہوں، ڈاکٹر ہوں اور کسی ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دیتا ہوں اور اس سال شادی کا ادارہ
رکھتا ہوں مگر کیا یہ اس سوال کا مکمل جواب ہے؟ کیا یہ سب باتیں جو آپ نے بیان کی ہیں آپ کو مکمل طور بیان کرتی ہیں؟ تو یقیناً آپ مزید اضافہ کریں گے کہ میں چھ فٹ کا مضبوط، گھنگھریالے بالوں والا، صاف چہرہ، جوان ہوں۔ مجھے آئس کریم کھانا پسند ہے، کرکٹ کھیلنا اچھا لگتا ہے دیگر باغبانی بھی میرا مشغلہ ہے، فلمیں دیکھنا مجھے پسند ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ کیا آپ اپنے آپ کو مکمل طور پر بیان کررہے ہیں؟ لہٰذا اگر میں پوچھوں کہ اگر آپ پاکستان میں پیدا نہ ہوتے بلکہ افریقہ کے کسی جنگلی قبیلے میں کالے لوگوں کے درمیان پیدا ہوتے اور پڑھنے لکھنے کا موقع نہ ملتا تو آپ کا کیا جواب ہو گا کہ آپ کون ہیں؟
یہاں ٹھہریں ایک مرتبہ غور کریں کر وہ تمام شناختتیں جو ہم رکھتے ہیں ہمارا نام، ہمارے نظریات ،ہماری جسمانی ساخت، اور خیالات وغیرہ یہ تمام ایک مجموعہ ہے اِن حالات کا جن کے اندر ہم پیدا ہوئے اور پروان چڑھے آپ اپنے خاندان کے نقوش اپنے اندر وراثت میں لیے ہوئے ہیں۔ آ پکا قد کاٹھ ، رنگ، جسمانی مضبوطی ان جینز (Geans)کی وجہ سے ہے جو آپ اپنے والدین کی طرف سے وراثت میں لیتے ہیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں۔تو آپ کے پاس موقع ہے۔ جس کے باعث آپ اپنی خوش قسمتی سے محنت کے باعث ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرتے ہیں اس بات پر ذرا غور کرے۔ کہ جو حالات آ پکو پیدائش کے بعد ملے انہی میں آپ پروان چڑھے اور انہیں خاص حالات و واقعات میں آپ کچھ بھی بن گئے۔ یہ تمام باتیں ہو کر بھی جو ایک فرد کو بیان کرنے میں استعمال کی گئی ہیں وہ صرف ان خاص حالات و ماحول کے اثرات میں جو کسی بھی شخص کو مخصوص کر دیتے ہیں مگر یہ باتیں حقیقت میں آپ کو بیان نہیں کرتیں۔ کسی بھی شخص کے کبھی بھی نہ تبدیل ہونے والے پہلو کو بیان نہیں کرتیں جو کہ ہر حال میں یکساں رہتا ہے۔ چاہے حالات کچھ بھی ہوں۔ یہ کوئی معاملہ نہیں کہ آپ کہاں پیدا ہوئے، کو نسا مذہب اپنائے ہوئے ہیں ،آپکی قومیت کیا ہے؟ آپ کا تعلیمی معیار کیا ہے؟آپ ان سب باتوں سے ہٹ کر علیحدہ ایک پہچان رکھتے ہیں۔ ایک شناخت جو آ پکو اس دنیا میں ہونے کی ایک علیحدہ پہچان دیتی ہے۔ مراقبہ کا مقصد ہے کہ آپ اپنی اس حقیقی شناخت کو جان سکیں جو اپنا ایک علیحدہ وجود رکھتی ہے حالات خواہ کچھ بھی ہوں اس میں تبدیلی واقع نہےں ہوتی ۔ وہ شناخت کیا ہے؟ اور آپ حقیقت میں کون ہیں؟
درحقیقت آپ صرف ایک احساس خودی (Self) ہیں۔ اور یہ حس آگاہی ہے نہ کے آپکا ذہن، جسم یا پھر خیالات بلکہ اس مکمل شعوریت (خودآگاہی) ہیں جوکہ محسوس کرتی ہے۔ اور شاہد بنی ہوئی ہیں کہ آپ زندگی میں کیا رول ادا کر رہے ہیں۔ یہ احساس خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراﺅ والا ،از سرنو زندگی بخشنے والا ہے۔ مراقبہ ایک خودی (Self )کو اپنے اندر جاننے کا عمل ہے۔ اس موقع پہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد یہ کس طرح جان سکتا ہے کہ اس کے اندر خودی (Self ) موجود ہے جوان تمام واقعات و حالات کا مشاہدہ کر رہی ہے جو ہمارا ذہن یا جسم اس زندگی میں کر رہا ہے۔
یہ بات یہاں تک واضح ہوگئی کہ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے۔ جو ہمیں اپنے اندر موجود خودی (Self) سے ملانے کا ذریعہ بنتا ہے اور یہ خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراﺅ والی اور از سرنو زندگی بخشنے والی ہے۔ لہٰذا ہم چاہیں گئے کہ مراقبہ کو سمجھنے کیلئے ہم سب سے پہلے اپنے اندر موجود خودی (Self) کو جانیں۔آپ اس خودی کو اور بھی نام دے سکتے ہیں۔ مثلاً، نفس، میں (مثلاً Self, I, ) وغیرہ آئیے اب ایک چھوٹا سا تجربہ کرتے ہیں جو انتہائی دلچسپی کا حامل ہے اور آپ کے لئے اس (میں ) سے شناسائی کا ذریعہ بنے گا۔
”آپ اپنی آنکھیں بند کر کے کوئی ایک لفظ، کسی کا نام یا اللہ کا نام 25 مرتبہ اپنے ذہن میں دہرائیں مگر گنتی دل ہی دل میں ہونی چاہیے مگر گنتی کرتے ہوئے ذہن میں کوئی اور خیال نہےں آنا چائیے اور اگر گنتی میں کوئی غلطی ہو تو دوبارہ سے گنتی شروع کر دیں۔ مگر گنتی ذہن میں ہی رہے ناکہ ہاتھوں یا انگلیوں پہ“ اس تجربہ کے کرنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ25 مرتبہ ایک لفظ اپنے ذہن میں گنتے رہے ہونگے اور خیال بھی ذہن میں آتا ہوگا۔ یا ہو سکتا ہے کہ چند خیالات ذہن سے گزرے ہوں۔ یا پھر پہلی کوشش ناکام ہو گئی ہو اور کئی مرتبہ اس تجربہ کو کرنا پڑا ہو تو پھر جا کر 25 مرتبہ کی گنتی پوری ہوئی ہو یا پھر خیالات بھی آ رہے ہوں اور گنتی بھی جاری رہی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ یہ تجربہ نہ کر پائے ہوں کہ آپ 25 مرتبہ کوئی ایک لفظ دہرائیں اور کوئی خیال بھی ذہن میں نہ آئے ۔
معاملہ کچھ بھی، تجربہ کچھ بھی ہو، بات حقیقت ہے کہ آپ اپنے اندرونی خودی (Self ) کے وجود کا انکار نہ کر پائیں گے۔ کیونکہ جب آپکا ذہن گنتی میں مصروف تھا تو وہ کون تھا جو مشاہدہ کر رہا تھا کہ ذہن سے خیالات گزر رہے ہیں؟وہ کون تھا جو ایک ہی وقت میں مشاہدہ کر رہا تھا کہ ذہن میں خیالات بھی آ رہے ہیں اور گنتی بھی ہورہی ہے؟ کیونکہ آپ کا ذہن کو یقیناً گنتی میں مصروف تھا۔ یقیناً آپ کہیں گے کہ وہ میں تھا جو دیکھ رہا تھا کہ کوئی خیال ذہن میں آ رہا ہے اور گنتی بھی صحیح ہو رہی ہے۔ وہ کون تھا جو مشاہدہ کر رہا تھا؟ آپ کا جسم یا پھر آپ کا ذہن؟ یا پھر آپ خود؟ اگر آپ یہ سارا عمل دیکھ رہے تھے تو آپ کو اپنے ذہن اور جسم سے علیحدہ ہونا چاہیے۔ جی ہاں! دراصل یہ حس آگاہی ہی تو خودی (Self) ہے جو آپکو اپنے خیالات ت تصورات سے آگاہ کرتی اور صرف اور صرف خودی (Self) ہی ہے جو آپکو بتلاتی ہے کہ آپکے اندر اور باہر کیا ہو رہا ہے؟ کہاں ہو رہا ہے ؟ و دیگر سے آگاہی کا سبب بنتی ۔ اس جاننے والے کو جاننے کا عمل ہی مراقبہ ہے۔ مراقبہ دراصل اپنی ذات سے شناسائی کا عمل ہے اس تجربہ سے یقیناً آپ اپنے اندر اپنی ذات، خودی ) Self ( سے آگاہ ہوئے ہونگے لہٰذا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپکو زندگی کے اس تیسرے پہلو سے آگاہی حاصل ہو جو مراقبہ کی روح ہے اور اِن سارے معاملاتِ مراقبہ میں مرکزی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہے۔
جاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

 

عبادت اور مراقبہ میں فرق
عبادات میں اللہ سے بات کی جاتی ہے اور اپنا رابطہ ازل سے جوڑا جاتا ہے مگر مراقبہ میں اپنے باطن کی اتھاہ گہرائیوں میں جا کر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے[/center]

یہ بات بھی درست ہے۔ لیکن مجھے ایک حدیثِ مبارکہ یاد آگئی کہ " افضل العبادہ انتظار الفرج"۔۔۔یعنی بہترین عبادت کشادگی کا منتظر رہنا ہے (اپنے رب کی طرف سے)۔۔۔۔یہ مراقبے کی کتنی اچھی تعریف ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
 
Top