لاہور کے شاہی حمام کا انوکھا نظام

لاہور کے شاہی حمام کا انوکھا نظام
شمائلہ جعفریبی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
13 جون 2015
150613070204_shahi_hamam__624x351_bbc.jpg

دلی دروازے کی شاہی گزرگاہ میں جڑا پہلا نگینہ مغلیہ دور کا یہ حمام ہی ہے جو سنہ 1634 میں شاہ جہاں کے گورنر وزیرخان نے عام لوگوں اور مسافروں کے لیے تعمیر کروایا
لاہور شہر تاریخ کی ایک کتاب کی طرح ہے، جیسے کتاب کا صفحہ پلٹتے ہی الفاظ سے تراشی گئی ایک نئی تصویر ابھرتی ہے اسی طرح سر زمین لاہور کے سینے کو کریدیں تو ہر کونے میں خطے کی خوبصورت ثقافت اور روایتوں کی نئی داستان سامنے آتی ہے۔

ایسا ہی کچھ ہوا ہے اندرون شہر کے دلی دروازے میں جہاں مغلیہ دور کے شاہی حمام کی کھدائی میں ایک انتہائی سائنسی انداز میں بنا نظام دریافت ہوا۔

دلی دروازے کی شاہی گزرگاہ میں جڑا پہلا نگینہ مغلیہ دور کا یہ حمام ہی ہے جو سنہ 1634 میں شاہ جہاں کے گورنر وزیرخان نے عام لوگوں اور مسافروں کے لیے تعمیر کروایا۔ ماہرین کے مطابق یہ مغلوں کا واحد عوامی حمام ہے جو اب تک موجود ہے۔

150613070339_shahi_hamam__624x351_bbc.jpg

اب اس کی عمارت میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں
تاہم اب اس کی عمارت میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ 50 کمروں کے اس حمام کی تزئین وآرائش کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ حمام صرف نہانے دھونے کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ لوگوں کے میل ملاپ اور ذہنی آسودگی کی جگہ بھی تھی۔

دو برس پہلے جب اس کی بحالی کے کام کا آغاز ہوا تو ایک تاریخی عمارت کا ڈھانچہ تو موجود تھا لیکن کسی طرح بھی یہاں حمام کے آثار دکھائی نہیں دیتے تھے بلکہ اس عمارت کو دیکھ کر ایک عجیب حسرت اور مایوسی کا احساس ہوتا تھا جیسے یہ تاریخ کا کوئی فراموش باب ہو۔

ایک زمانے میں تو یہاں سکول ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سرکاری دفاتر حتیٰ کہ 52 دکانیں بھی موجود تھیں۔ فریسکو پینٹنگز سے آراستہ دیواروں پر چونے کی کئی کئی انچ موٹی تہہ جمی ہوئی تھی۔

بحالی کے پہلے مرحلے میں عمارت کے نقشے بنائے گئے اور تحقیقاتی کھدائی کی گئی جس میں آٹھ فٹ نیچے مغلیہ دور کی سڑک اور حمام کا اصل نظام دریافت ہوا۔

150613070600_shahi_hamama__624x351_bbc.jpg

50 کمروں کے اس حمام کی تزئین وآرائش کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ حمام صرف نہانے دھونے کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ لوگوں کے میل ملاپ اور ذہنی آسودگی کی جگہ بھی تھی
راشد مخدوم شاہی حمام کی بحالی کے پراجیکٹ کے آرکیٹیکٹ ہیں۔ انھوں نے دریافت ہونے والے نظام کی تفصیل بتائی۔

’بہت کم محنت اور وسائل سے وہ لوگ بہت کچھ حاصل کرتے تھے۔ پانی کو تین انگیٹھیوں پر گرم کیا جاتا تھا اور پانی گرم کرنے کے بعد بھاپ کو ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ چمنی عمارت کی دوسری جانب تھی۔ بھاپ کو سرنگوں کے ذریعے عمارت کے نیچے سے گزارا جاتا تھا جس سے حمام ہروقت گرم رہتا۔ ٹھنڈا اور گرم پانی ایک ہی ٹینک سے لیا جاتا تھا اور تمام کمروں کا نکاس بھی ایک ہی پائپ کے ذریعے کیا جاتا تھا۔‘

عمارت کی حالت اب ایسی ہے کہ حمام کو نہانے کے لیے تو دوبارہ استعمال نہیں کیا جاسکتا تاہم حکومت اسے بحال کرنے کے بعد میوزیم کی شکل میں عوام کے لیے کھولنا چاہتی ہے۔

گاریکر آج کل لوہے کے پینلز تیار کر رہے ہیں۔ جنھیں حمام کے مختلف حصوں میں نصب کر کے اس پر شیشہ لگایا جائے گا تاکہ سیاح ان پینلز پر چل کر حمام کا تفصیلی جائزہ لے سکیں اور لوگوں کی آمدورفت سے اصل عمارت کو نقصان نہ پہنچے۔

حمام کی بحالی کے لیے تکینکی مدد آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے فراہم کی ہے۔

مسعود احمد خان آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کے کنسلٹنٹ ہیں۔

150613070736_shahi_hamam__624x351_bbc.jpg

بحالی کا کام اب آخری مراحل میں ہے اور توقع ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں اسے عوام کے لیے کھول دیا جائے گا
وہ کہتے ہیں ’اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہم نے بین الاقوامی معیار کے مطابق ہر کام کیا۔ یہ بہت اہم تاریخی ورثہ ہے۔ لاہور کی تمدنی زندگی کے تانے بانے کا مرکز دلی دروازہ اور یہاں موجود عمارتیں بازار اور مکان ہیں۔ یہاں صرف عمارتوں کا نہیں شہری زندگی کی وراثت کا سوال بھی تھا۔ اسی لیے اس حمام کو بحال کر کے محفوظ کیا جارہا ہے۔‘

بحالی کے لیے ساڑھے چھ کروڑ کی رقم نارووے کی حکومت کی جانب سے دی گئی ہے جبکہ اس میں والڈ سٹی اتھارٹی کی معاونت بھی شامل ہے۔

حمام کے اردگرد نئی دیوار تعمیر کی گئی ہے تاکہ اسے محفوظ رکھا جاسکے۔

مغلیہ دور کی دیواریں منہدم ہوئے تو صدیاں بیت چکی ہیں۔ یہاں سیاحوں کے لیے بیت الخلا اور کیفےٹیریا جیسی سہولتیں بھی تعمیر کی جا رہی ہیں تاہم نئی اور پرانی تعمیر میں فرق کو واضح رکھا گیا ہے۔

بحالی کا کام اب آخری مراحل میں ہے اور توقع ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں اسے عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔
 
Top