لاہور میں ادارہ فیروز سنز کی مرکزی دکان میں آتشزدگی

Rashid Ashraf

محفلین
غلام رسول بلڈنگ لاہور مال روڈ میں واقع کتابوں کی ایک معروف دکان فیروز سنز بدھ 30 مئی 2012 کو آگ لگنے سے تباہ ہوگئی۔ دکان کے مینیجر کے مطابق آگ سے کوئی ایک کتاب بھی محفوظ نہ رہ سکی۔
فیروز سنز نامی ادارہ 1894 میں مولوی فیروز الدین نے قائم کیا تھا۔

فیروز سنز کے ڈائرکٹر مارکٹنگ دانیال سلام کے مطابق اس حادثے میں آٹھ لاکھ کتابیں جل کر خاکستر ہوگئیں، ان میں دکان کے ساتھ ساتھ بیسمنٹ میں واقع گودام میں رکھی کتابیں بھی شامل تھیں۔ دو لاکھ کتابیں وہ تھیں جو آگ سے بچ گئیں لیکن آگ بجھانے کی کوششوں کے دوران پانی سے تباہ ہوگئیں۔

دانیال اسلام کے مطابق دس سے پندرہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

لاہور میں واقع فیروز سنز محض ایک کتابوں کی دکان نہیں تھی بلکہ اسے شہر کی اہم لائبریری ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ جو کتاب پورے ملک میں نہیں ملتی تھی، یہاں سے مل جاتی تھی۔ تفصیلات کے مطابق فیروز سنز میں تقسیم ہند سے قبل کی بھی کئی کتابیں موجود تھیں، معروف شاعروں اور ادیبوں کے ہاتھ کی لکھی کئی نایاب تحاریر اس پر مستزاد! ادارے کے ایم ڈی اسپین کے اعزازی کونسل جنرل بھی ہیں اور ان کا دفتر بھی اسی عمارت میں واقع تھا۔

یہ ادارہ مولوی فیروز الدین نے 1894 میں قائم کیا تھا۔ مولوی صاحب کی اہم خودنوشت "جہاد زندگانی" 1959 میں ان کے اپنے ادارے سے شائع ہوئی تھی۔ اس کا سرورق یہاں دیکھا جاسکتا ہے:

http://www.wadi-e-urdu.com/wp-conte...lvi-feroz-uddin-ahmed-feroz-sons-lhr-1959.jpg

یہ وہی مولوی فیروز الدین ہیں جن کے پوتے عبدالوحید کی بیٹی ناصرہ (جسٹس ناصر اقبال) سے علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال کی شادی ہوئی ہے ۔

ایک تازہ اخباری اطلاع کے مطابق فیروز سنز جو کتابیں نمونے کے طور پر بیرون ممالک بھیجتا تھا، صرف اس کی مالیت ہی سال میں دو کروڑ سے زیادہ تھی۔ ادارے کے مینیجر کے مطابق گودام میں ایک ایک کتاب کے پانچ ہزار ٹائٹل جڑے ہوئے پڑے تھے۔

یہ واقعہ بدھ کے روز ساڑھے دس اور گیارہ کے درمیان پیش آیا۔ آگ بیسمنٹ میں واقع اسٹور میں لگی جہاں سرے سے بجلی کا کنکشن موجود ہی نہیں تھا۔ آگ کا شور سنتے ہی جب مینیجر موقع پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ آگ کا شعلہ سیڑھی پر بھڑک رہا ہے جہاں بقول اس کے آگ لگنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ یہ جگہ ایسی تھی کے دکان کے 50 ملازمین میں سے شاذ و نادر ہی کوئی وہاں جاتا تھا۔ مالکان نے تخریب کاری کا شبہ ظاہر کیا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
بہت افسوس ناک خبر ہے ۔
میرے لیئے " فیروز سنز " صرف اک کتابوں کی دکان نہ تھی ۔ بلکہ " مادر علمی " کی حیثیت رکھتی تھی ۔
سن 1975سے 1990تک یہاں موجود کتابوں سے میں بنا خریدے فیضیاب ہوتا رہا ہوں ۔ یہاں کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ
آپ یہاں کھڑے کھڑے احتیاط کے ساتھ کسی بھی مہنگی سے مہنگی کتاب کا مطالعہ کر سکتے تھے ۔۔۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
اسی کی دہائی میں اسکول کا طالب علم تھا، والد صاحب کے ہمراہ کراچی سے لاہور و مری اسلام آباد جانا ہوا، لاہور میں فیروز سنز میں ایسے داخل ہوئے کہ گھر والوں کو زبردستی نکالنا پڑا، جیسے کسی خوابوں کی دنیا میں قدم رکھ دیا ہو، اچھی طرح یاد ہے کہ مقبول جہانگیر مرحوم کی "خوفناک کہانیاں" اور "ہوگرالی کا آدم خور" وہیں سے خریدی تھیں اور پھر بقیہ سفر میں انہیں مزے لے لے کر اور خوف کھا کھا کر پڑھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جہانگیر صاحب نے کتاب کے ابتدا میں ایک ہدایت نامہ بھی جاری کیا تھا جو آج بھی نئے ایڈیشن پر موجود ہے کہ سردیوں کی راتوں میں اسے پڑھیے، ساتھ میں ایک ٹائم پیس رکھ لیں جس کی ٹک ٹک آپ کے کانوں میں پہنچتی رہے وغیرہ ------ یہ ہدایت نامہ، ہدایت نامہ خاوند سے زیادہ پر اثر تھا کہ اس پر مِن و عن عمل کرکے مری کے ہوٹل میں رات کے بارہ بجے کے بعد اس کی ایک کہانی "کاغذ کے ٹکڑے" پڑھتے وقت یوں محسوس ہورہا تھا کہ مذکورہ کہانی کی اسی پراسرار دنیا میں پہنچ گیا ہوں، پھنس گیا ہوں اور اب شاید وہاں سے واپسی ناممکن ہو۔

خدا بخشے، مقبول جہانگیر کو، دلی کے رہنے والے، لاہور کو مسکن بنایا، لاکھوں کو پڑھنا سکھایا! ۔۔۔۔۔ بس اک دنیا سے جانے کی جلدی تھی!
 

یوسف-2

محفلین
اناللہ و انا الیہ راجعون
ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدان،اساتذہ اور عالم دین تو پہلے ہی چن چن کر (ٹارگٹ کلنگ کے ذریعہ) ختم کئے جارہے تھے۔ اب لگتا ہے کہ اس ملک کے دشمنوں نے ملک سے کتابوں کے مراکز کو بھی ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اتنا بڑا سانحہ ہوگیا، کسی حکومتی عہدیداروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اللہ اس ملک پر رحم کرے اور دشمنان پاکستان کو نیست و نابود کرے آمین
 
فیروز سنز میں آتش زدگی کی خبر گو ٹی وی کے ذریعے مل گئی تھی لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ اتنا بڑا نقصان ہوا ہو گا کہ آٹھ لاکھ کتابیں خاکستر اور دو لاکھ پانی برد ہو گئی ہوں گی۔ اس سانحے نے تو بیت الحکمت کی تباہی کی یاد تازہ کر دی جب ہلاکو خان کے ہاتھوں یہ دانش کدا خاکستر ہو گیا تھا۔مورخین کے مطابق پہلے دریائے دجلہ کا پانی انسانوں کے خون سے سرخ ہوا پھرجلائی گئی کتابوں کی راکھ سے سیاہ پڑ گیا۔
فیروز سنز کو بطور پبلشر اردو دنیا میں ایک لیجنڈری حیثیت حاصل ہوچکی ہے گو کہ اب اس ادارے کی ترجیحات اور پالیسیز میں کافی منفی تبدلیلیاں آچکی ہیں، تاہم ماضی میں اس ادارے نے اردو کے لیے بے پایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔خصوصا تین جیحات سے فیروز سنز اپنی مثال آپ رہا ہے، ایک طرف بچوں کے لیے اس ادارے سے بہتریں کتابیں شائع ہوتی رہیں جن میں اردو کی کلاسیکل داستانوں مثلا بوستان خیال، داستان امیر حمزہ، اسی دانستان کا ایک حصہ طلسم ہوش ربا اور الف لیلہ و لیلہ کو آسان اردو میں منتقل کرنا، دنیا بھر کی لوک کہانیوں و میتھالوجی کو بچوں کے لیے پیش کرنا(اس سلسلے کی بعض کتابیں ، ایک بوند شہد ، تانبے کے تین پیسے وغیرہ تھیں) اور خود اردو میں طبع زاد کہانیاں اور ناول بچوں کے لیے لکھوانا فیروز سنز کا ایک بہت اہم کارنامہ ہے۔
فیروز سنز کا یک اور اہم کارنامہ اردو میں معتبر حوالہ جاتی کتب کی اشاعت ہے فیروز اللغات اردو جامع، فیروزاللغات فارسی اردو اور عربی اردو اور فیروز سنز اردو انسائیکلوپیڈیا کا نام اس سلسلے میں قابل ذکر ہے۔
فیروز سنز کا تیسرا کارنامہ پرنٹنگ و پبلشنگ کی دنیا میں عمدہ معیار کا برقرار رکھنا ہے، شروع شروع میں فیروز سنز جیسی عمدہ طباعتی معیار کی کتابیں اور کوئی ادارہ نہیں چھاپتا تھا، ایک زمانے میں فیروز سنز کے قریبی حریف شیخ غلام علی اینڈ سنز والے تھے( جو اب کسی قابل ذکر حیثت کے مالک نہیں) لیکن ان کی طباعت فیروز سنز کے پاسنگ بھی نہیں ہوتی تھیں۔
مقبول جہانگیر مرحوم کا ذکر راشد اشرف صاحب نے کیا، درحقیقت مقبول جہانگیر صاحب کے اردو پر احسانات میرے خیال میں ابن صفی مرحوم سے کم نہیں، اردو میں شکاری ادب، فرار کی کہانیاں،دوسری جنگ عظیم سے متعلق کہانیاں، ہارر یا ڈراونی کہانیوں کے مختلف زبانوں سے شاندار تراجم مقبول جہانگیر نے اردو میں کیے۔ بچوں کے لیے بھی بوستان خیال اور داستان امیر حمزہ کو اردو میں منتقل کیا۔ مقبول جہانگیر کی بعض مترجم کتابیوں مثلا، جہنم سے فرار، فرار ہونے کے بعد ، پیپلن کا فرار اور پیلن کی واپسی آج بھی جب میں پڑھتا ہوں لطف آجاتا ہے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
جناب ابن حسن صاحب
خدا خوش رکھے آپ کو، کیا عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے، ایک ایک لفظ سے آپ کی معلومات و مطالعہ کا اندازہ ہورہا ہے۔ بزم قلم پر آپ کے تبصرے کو شامل کیا ہے، اسے 12 ہزار لوگ پڑھیں گے۔آپ نے لکھا:
"درحقیقت مقبول جہانگیر صاحب کے اردو پر احسانات میرے خیال میں ابن صفی مرحوم سے کم نہیں۔"
آپ نے درست کہا، میں انہیں اسی فہرست میں رکھتا ہوں۔ آپ اس بات سے اتفاق بھی کریں گے کہ اس فہرست میں اے حمید بھی آتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک قدر مشترک تھی، یہ سب لوگ صاف ستھرا ادب پیش کرنے میں پیش پیش رہے، اے حمید اور مقبول جہانگیر نے معصوم ذہنوں کی تربیت کی۔ کچھ شعور آنے پر اس بچے کی تربیت کا بیڑہ ابن صفی صاحب نے اٹھا لیا۔۔۔۔۔۔۔ ان تخلیق کاروں نے (جن میں اشتیاق احمد بھی شامل ہیں) فحش نگاری سے مکمل اجتناب برتتے ہوئے اپنی تخلیقات پیش کیں۔ اے حمید کی موت کا تعاقب غالبا شیخ غلام علی سے شائع ہوتی تھی ؟

مقبول جہانگیر کی جن کتابوں کے نام آپ نے لکھے ہیں، ان کو بچپن میں پڑھا اور آج تک پڑھتا ہوں، شاید مجھ ایسے اور بھی لوگ رہے ہوں گے جو بچپن کی ان یادوں کو آج بھی سینے سے لگائے ہیں۔ مقبول جہانگیر کی ایک خاکوں کی عمدہ کتاب یاران نجد بھی ہے، یہ مجھے کتابوں کے اتوار بازار سے ملی تھی، لاجواب خاکے لکھے ہیں۔ اسی طرح یاد شاہد کے نام سے انہوں نے ایک کتاب مرتب کی تھی جو شاہد احمد دہلوی پر لکھی تحریروں÷مضامین پر مشتمل تھی۔

اتفاق دیکھیے کہ کل کے اتوار بازار سے ضیاء شاہد کی کتاب "پراسرار کہانیاں" ملی ہے، یہ کتاب 1968 کی ہے، میں اس سے واقف نہ تھا، حیرت ہوئی، اس سے چند منتخب کہانیاں اسکین کی ہیں، مجھے ذاتی پیغام میں ای میل کرکے منگوا لیجیے گا۔ لیکن ایک بات محسوس کی ۔ ۔۔ ۔ ایک کہانی ایسی ہے جو ہے تو پراسرار لیکن اس میں وہ باتیں لکھی ہیں جن سے مقبول جہانگیر احتزاز برتتے تھے، مطلب یہ کہ میں اس کہانی کو کہیں شامل نہیں کرسکتا، منظر نگاری میں فحاشی در آئی ہے، یقیننا مقبول صاحب ترجمے کے وقت ایسے تمام مقامات کو نظر انداز کرکے گزر جایا کرتے ہوں گے، یہی وجہ تھی کہ والدین کے سامنے ان کی کتابیں پڑھنے وقت باز پرس کا کوئی خؤف دامن گیر نہ ہوتا تھا۔

میں ابن صفی پر ایک کتاب مرتب کررہا ہوں، 400 صفحات کی یہ کتاب ان دنوں زیر طبع ہے، ایک موقع پر اگاتھا کرسٹی کے صفی صاحب سے متعلق بیان کی تصدیق کی کھوج میں پڑگیا، معلوم ہوا کہ 60 کی دہائی میں اگاتھا کرسٹی لاہور آئی تھیں اور مقبول صاحب ان سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔

 

موجو

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون
یہ بہت ہی بڑا حادثہ ہے
اس قیمتی خزانہ کا تو شائد بدل بھی نہ ہو
پنجاب حکومت تو ڈیجیٹل لائبریریوں کے پیچھے ایسی پڑی ہے کہ حقیقی لائبریریاں تو جیسے بھوت بنگلہ قسم کی چیز ہے۔
ویسے تو عرصے سے لائبریریوں کا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔
 
محترم راشد اشرف صاحب یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے ورنہ میرا علم و مطالعہ تو محدود سے گزر کر مفقود کی سرحدوں میں داخل ہو چکا ہے۔دراصل اس فورم پر آپ کی تحاریر کو میں ضرور پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں اس سے ادبی دنیا کے بارے میں تازہ ترین احوال سے آگاہی حاصل ہوتی رہتی ہے۔ضیاء شاہد صاحب کی کتاب کے سلسلے میں آپ کو ذاتی پیغام میں اپنا ای میل ایڈرس بھیج دیا ہے۔ ابن صفی مرحوم پر جب آپ کی کتاب شائع ہو جائے تو ضرور بتائیے گا۔ انتظار رہے گا۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
ابن حسن صاحب!
ضیاء شاہد کی کتاب سے تین عدد کہانیاں محفوظ کی ہیں، آپ کو بھیج دی ہیں
"کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا" امید ہے کہ ایک ہفتہ میں شائع ہوجائے گی، آپ کو مطلع کروں گا
 

راشد اشرف

محفلین
محترم راشد اشرف صاحب یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے ورنہ میرا علم و مطالعہ تو محدود سے گزر کر مفقود کی سرحدوں میں داخل ہو چکا ہے۔دراصل اس فورم پر آپ کی تحاریر کو میں ضرور پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں اس سے ادبی دنیا کے بارے میں تازہ ترین احوال سے آگاہی حاصل ہوتی رہتی ہے۔ضیاء شاہد صاحب کی کتاب کے سلسلے میں آپ کو ذاتی پیغام میں اپنا ای میل ایڈرس بھیج دیا ہے۔ ابن صفی مرحوم پر جب آپ کی کتاب شائع ہو جائے تو ضرور بتائیے گا۔ انتظار رہے گا۔

آپ سے رابطہ دیر سے ہورہا ہے۔ خاکسار کی کتاب دو ماہ قبل شائع ہوگئی تھی، کراچی کے اردو بازار میں ویلکم اور فضلی پر جبکہ لاہور میں کتاب سرائے پر دستیاب ہے۔ کتاب پر بی بی سی نے تبصرہ شائع کیا اور کل یعنی 12 نومبر 2012 کو روزنامہ دنیا، کراچی میں حسن نثار صاحب نے اس پر کالم لکھا ہے، لنکس یہ ہیں:

http://e.dunya.com.pk/colum.php?date=2012-11-12&edition=KCH&id=1200_18218076
hasan nisar – dunya column-12-11-2012

http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2012/09/120915_book_review_ibn_e_safi_tim.shtml

اس کے علاوہ رئیس فاطمہ اور انتطار حسین نے بھی کتاب پر کالم (روزنامہ ایکسپریس) تحریر کیے ہیں۔ "ابن صفی-فن اور شخصیت" پر کام مکمل کرچکا ہوں۔ امید ہے کہ یہ دونوں کتابیں دہلی سے بھی شائع ہوں گی، اس سلسلے میں بات چیت چل رہی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جناب ابن حسن صاحب
خدا خوش رکھے آپ کو، کیا عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے، ایک ایک لفظ سے آپ کی معلومات و مطالعہ کا اندازہ ہورہا ہے۔ بزم قلم پر آپ کے تبصرے کو شامل کیا ہے، اسے 12 ہزار لوگ پڑھیں گے۔آپ نے لکھا:
"درحقیقت مقبول جہانگیر صاحب کے اردو پر احسانات میرے خیال میں ابن صفی مرحوم سے کم نہیں۔"
آپ نے درست کہا، میں انہیں اسی فہرست میں رکھتا ہوں۔ آپ اس بات سے اتفاق بھی کریں گے کہ اس فہرست میں اے حمید بھی آتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک قدر مشترک تھی، یہ سب لوگ صاف ستھرا ادب پیش کرنے میں پیش پیش رہے، اے حمید اور مقبول جہانگیر نے معصوم ذہنوں کی تربیت کی۔ کچھ شعور آنے پر اس بچے کی تربیت کا بیڑہ ابن صفی صاحب نے اٹھا لیا۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ان تخلیق کاروں نے (جن میں اشتیاق احمد بھی شامل ہیں) فحش نگاری سے مکمل اجتناب برتتے ہوئے اپنی تخلیقات پیش کیں۔ اے حمید کی موت کا تعاقب غالبا شیخ غلام علی سے شائع ہوتی تھی ؟

مقبول جہانگیر کی جن کتابوں کے نام آپ نے لکھے ہیں، ان کو بچپن میں پڑھا اور آج تک پڑھتا ہوں، شاید مجھ ایسے اور بھی لوگ رہے ہوں گے جو بچپن کی ان یادوں کو آج بھی سینے سے لگائے ہیں۔ مقبول جہانگیر کی ایک خاکوں کی عمدہ کتاب یاران نجد بھی ہے، یہ مجھے کتابوں کے اتوار بازار سے ملی تھی، لاجواب خاکے لکھے ہیں۔ اسی طرح یاد شاہد کے نام سے انہوں نے ایک کتاب مرتب کی تھی جو شاہد احمد دہلوی پر لکھی تحریروں÷مضامین پر مشتمل تھی۔

اتفاق دیکھیے کہ کل کے اتوار بازار سے ضیاء شاہد کی کتاب "پراسرار کہانیاں" ملی ہے، یہ کتاب 1968 کی ہے، میں اس سے واقف نہ تھا، حیرت ہوئی، اس سے چند منتخب کہانیاں اسکین کی ہیں، مجھے ذاتی پیغام میں ای میل کرکے منگوا لیجیے گا۔ لیکن ایک بات محسوس کی ۔ ۔۔ ۔ ایک کہانی ایسی ہے جو ہے تو پراسرار لیکن اس میں وہ باتیں لکھی ہیں جن سے مقبول جہانگیر احتزاز برتتے تھے، مطلب یہ کہ میں اس کہانی کو کہیں شامل نہیں کرسکتا، منظر نگاری میں فحاشی در آئی ہے، یقیننا مقبول صاحب ترجمے کے وقت ایسے تمام مقامات کو نظر انداز کرکے گزر جایا کرتے ہوں گے، یہی وجہ تھی کہ والدین کے سامنے ان کی کتابیں پڑھنے وقت باز پرس کا کوئی خؤف دامن گیر نہ ہوتا تھا۔

میں ابن صفی پر ایک کتاب مرتب کررہا ہوں، 400 صفحات کی یہ کتاب ان دنوں زیر طبع ہے، ایک موقع پر اگاتھا کرسٹی کے صفی صاحب سے متعلق بیان کی تصدیق کی کھوج میں پڑگیا، معلوم ہوا کہ 60 کی دہائی میں اگاتھا کرسٹی لاہور آئی تھیں اور مقبول صاحب ان سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔
آپ نے شاید قلعہ فینگرفن کے ہولناک اسرار پڑھی ہوگی؟
 
اوہو آپ نے تو شاید دوسرا اکاؤنٹ بنایا ہے۔ شمشاد بھائی یا ابن سعید بھائی سے رجوع کیجیے ، شاید وہ آپ کے ان دونوں اکاؤنٹس کو یکجا کرسکیں، راشد اشرف کے نام سے؟
فی الحال اس فورم سافٹوئیر میں اراکین کو ضم کرنے کا نظام ماجود نہیں ہے۔ اس کے لیے شاید چند ماہ انتظار کرنا پڑے۔ ویسے موصوف نے ارادہ ظاہر کیا ہوتا تو ان کا انگریزی والا نام ہی اردو میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ :) :) :)
 

قیصرانی

لائبریرین
مقبول جہانگیر میرے شروع سے ہی پسندیدہ مصنف رہے تھے۔ لیکن جب سے میں نے ان کی ترجمہ شدہ کتب کو انگریزی کے اصل متن میں پڑھنا شروع کیا ہے، تب سے دل بہت اچاٹ ہو گیا ہے۔ مرحوم نے نہ صرف حقائق، واقعات بلکہ کرداروں کو بھی توڑ موڑ کر اور کئی جگہ منفی بنا کر پیش کیا

اس کی ایک مثال آپ کیننتھ اینڈرسن کے دوست بیرا پجاری کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں

اس کے علاوہ پیپلن کا فرار بھی اسی طرح ترجمے سے کافی مختلف ہے

جم کاربٹ کی کتب بھی ایک طرح سے عجیب انداز میں ترجمہ کی گئی ہیں
 

راشد اشرف

محفلین
اوہو آپ نے تو شاید دوسرا اکاؤنٹ بنایا ہے۔ شمشاد بھائی یا ابن سعید بھائی سے رجوع کیجیے ، شاید وہ آپ کے ان دونوں اکاؤنٹس کو یکجا کرسکیں، راشد اشرف کے نام سے؟

اکاونٹ وہی پرانا ہے جناب، انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو نام سے داخل ہونے کی سہولت کا فائدہ اٹھایا ہے
 

راشد اشرف

محفلین
فی الحال اس فورم سافٹوئیر میں اراکین کو ضم کرنے کا نظام ماجود نہیں ہے۔ اس کے لیے شاید چند ماہ انتظار کرنا پڑے۔ ویسے موصوف نے ارادہ ظاہر کیا ہوتا تو ان کا انگریزی والا نام ہی اردو میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ :) :) :)
اکاونٹ وہی پرانا ہے جناب، انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو نام سے داخل ہونے کی سہولت کا فائدہ اٹھایا ہے
 
Top