لاپتہ افراد اور لاپتہ بھینسے

کعنان

محفلین
لاپتہ افراد اور لاپتہ بھینسے
رعایت اللہ فاروقی
13/01/2017

4-copy1-300x168.jpg

لاپتہ افراد کے معاملے پر اپنی کوئی اصولی رائے قائم کیجئے اور رائے قائم کرنے سے قبل لاپتہ افراد کا پورا معاملہ سمجھئے۔

میرے نزدیک لاپتہ افراد 4 طرح کے ہیں۔

  • ایک وہ لاپتہ افراد ہیں جو مشرف دور میں دہشت گردی کے الزام میں لاپتہ کئے گئے۔ ان لاپتہ افراد کے معاملے پر ہر شخص ریاستی اداروں کے اس اقدام کا مخالف تھا کیونکہ یہ کوئی قانونی اقدام تھا اور نہ ہی اسے "غیر معمولی حالات" کے تحت کوئی قومی حمایت حاصل تھی۔ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ اٹھایا تو ہر خاص و عام نے سپریم کورٹ کی حمایت کی۔
  • دوسری قسم ان لاپتہ افراد کی ہے جو ریاست کے خلاف لڑنے والے انہی دہشت گردوں پر مشتمل تھی اور انہیں "نیشنل ایکشن پلان" کے تحت ضرب عضب کے دوران لاپتہ کیا گیا۔ ان میں درجنوں ایسے بھی ہیں جو پولیس مقابلوں میں پار کر دیئے گئے۔ اس حوالے ریاست اعلان نہیں کرتی لیکن بادی النظر میں ملک کے تمام ادارے اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ جو لوگ قتل اور بم دھماکوں جیسی سنگین واردوتوں میں ملوث ہیں لیکن ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں یا انہوں نے ثبوت چھوڑے ہی نہیں ہیں تو انہیں مزید خون ریزی کے لئے چھوڑا نہیں جائے گا بلکہ "غیر معمولی حالات" کی چھتری تلے انہیں ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پچھلے دو سال سے ہر ہفتے نہیں تو ہر ماہ کئی افراد پولیس مقابلوں میں مارے جا رہے ہیں یا لاپتہ کئے جا رہے ہیں اور ہم نے نہیں دیکھا کہ سپریم کورٹ نے کوئی سوموٹو لیا ہو یا رضا ربانی، افراسیاب خٹک اور فرحت اللہ بابر کو کوئی بدہضمی ہوئی ہو۔ سب آنکھ اور کان بند کر کے بیٹھے ہیں اور اس لئے یوں بیٹھے ہیں کہ یہ "نیشنل ایکشن پلان" کے تحت غیر علانیہ ریاستی پالیسی ہے اور اس پالیسی کو ریاستی اداروں کی ہی نہیں بلکہ ہم عوام کی اکثریت کی بھی حمایت حاصل ہے۔
  • تیسری قسم کے لاپتہ یا مارے جانے والے افراد میں لشکر جھنگوی، سپاہ محمد، لیاری گینگ وار اور ایم کیو ایم کے دہشت گرد شامل ہیں۔ یہ لوگ ریاست سے نہیں لڑ رہے بلکہ عوام پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور ہزاروں معصوم انسانوں کے قتل سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ ان چاروں گروپوں کے درجنوں افراد مارے گئے، ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لاپتہ کئے گئے۔ کیا پارلیمنٹ، سپریم کورٹ یا ہم عوام نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ؟ نہیں کیا ! اور اس لئے نہیں کیا کہ ان کے خلاف بھی ہم سب "غیر معمولی حالات" والے اصول کے تحت غیر معمولی اقدام پر متفق ہیں۔
  • چوتھی قسم کے لاپتہ افراد وہ ہیں جو چند روز قبل متعارف ہوئے۔ انہیں ہم "لاپتہ بھینسے" کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھینسے بھی "غیر معمولی حالات" میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت لاپتہ کئے گئے ہیں۔ مگر اس بار کچھ خواص کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ ان چیخوں کی وجہ یہ ہے کہ جو لاپتہ کئے گئے ہیں وہ محض پیادے ہیں۔ ان کے "کمانڈر" صحافت اور سیاست کی کچھ نامی گرامی شخصیات ہیں۔ یہ شخصیات اچھی طرح جانتی ہیں کہ اس تازہ معاملے میں بھی حسبِ روایت "ماسٹر مائنڈ اور سہولت کار" پکڑ میں آ سکتے ہیں۔ یہاں میڈیا اور سیاست کے بعض اہم افراد "ماسٹر مائنڈ" کے طور پر تو کچھ نام نہاد دانشور "سہولت کار" کی حیثیت سے ممکنہ طور پر گرفت میں آ سکتے ہیں۔ اسی خوف کے تحت بعض سیاستدانوں اور میڈیا پرسنز کے ہوش اڑے ہوئے ہیں۔ ہم سب نے بچشم خود دیکھا اور بگوشِ خود سنا کہ فیس بک پر غلیظ قسم کی نفرت انگیز مہم چلانے والا خرم ذکی مارا گیا تو مین سٹریم میڈیا چار دن تک اسے "سماجی کارکن" قرار دے کر گمراہ کن پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ یہ کیا ثابت کرتا ہے ؟ یہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خرم ذکی کی جانب سے پھیلائی جانے والی منافرت کو مین سٹریم میڈیا کی حمایت حاصل تھی۔ لاپتہ بھینسے کے معاملے پر بھی میڈیا نے ایک بار پھر یہی ثابت کیا ہے کہ بھینسے کی پھیلائی جانے والی منافرت میں بھی وہ برابر کے شریک ہیں۔ اگر یہ میڈیا پرسنز اس معاملے میں ماسٹر مائنڈ نہیں بھی ہیں تو اپنی میڈیا مہم کے ذریعے "سہولت کار" کا کردار تو ادا کر ہی رہے ہیں۔
لاپتہ افراد کے اس پورے معاملے پر تین طرح کی عوامی آراء ہو سکتی ہیں۔

  • پہلی رائے ان لوگوں کی ہو سکتی ہے جو ٹی ٹی پی، بلوچ عسکریت پسندوں، لشکر جھنگوی، لیاری گینگ وار اور ایم کیو ایم کے لاپتہ افراد کے حوالے سے بھی یہ موقف رکھتے تھے کہ ان کے خلاف "غیر معمولی حالات" کے تحت قانون سے ماورا ایکشن درست نہیں۔ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے اور آج بھینسے کے معاملے میں بھی ان کا وہی موقف ہے۔ ان کی رائے سے عدم اتفاق کے باوجود میں ان کا احترام کرتا ہوں کیونکہ ان کی رائے اصولی ہے۔
  • دوسری رائے ان لوگوں کی ہے جو ہر طرح کے دہشت گردوں اور شرپسندوں کے خلاف پہلے بھی "غیر معمولی حالات" میں غیر معمولی اقدام کے حامی تھے اور آج بھی حامی ہیں۔ میری اپنی رائے بھی یہی ہے۔ اس رائے کا بھی احترام ہونا چاہئے کیونکہ یہ بھی اصولی رائے ہی ہے۔
  • تیسرے وہ لوگ ہیں جو ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی، لیاری گینگ وار اور ایم کیو ایم کے خلاف غیر معمولی اقدام پر چپ تھے، اس وقت انہیں قانون یاد نہ رہا تھا لیکن جب اسی پالیسی کی زد میں ان کے اپنے بھینسے آنے لگے تو یہ یکایک قانون کے پیمبر بن گئے۔ یا وہ لوگ جنہیں مذکورہ گروہوں کے خلاف غیر معمولی اقدام پر تو اعتراض تھا لیکن جب بھینسے رگڑے میں آگئے تو اب ان کے خلاف ایکشن کے حامی بن گئے ہیں۔ یہ دونوں ہی منافق ہیں اور ان کی رائے عقل و خرد کے کسی بھی پیمانے پر اصولی نہیں بلکہ "میٹھا میٹھا، ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا، تھو تھو" کی ہے۔
معاملہ فوج پر تنقید کا ہے ہی نہیں! اگر فوج پر تنقید کے سبب لوگوں کو اٹھایا جاتا تو یقینا غائب ہونے والوں میں میرا نام بھی شامل ہوتا کیونکہ گزشتہ دو برس کے دوران میں کئی بار سخت ترین تنقید کر چکا ہوں۔ معاملہ دشمن ممالک سے فنڈز لے کر وطن سے غداری کا ہے۔ میں دو بار مفصل پوسٹیں لکھ کر خبردار کر چکا ہوں کہ آپ کو فوج کی کسی پالیسی یا اقدام سے اختلاف ہے تو ضرور تنقید کیجئے ! اس تنقید کی بنیاد پر آپ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہو گا۔ ایکشن دو ہی صورتوں میں ہوتا ہے۔ پہلی صورت یہ کہ آپ کی تنقید آپ کے خیالات نہ ہوں بلکہ آپ کسی سے فنڈز لے کر ان کا ایجنڈہ آگے بڑھا رہے ہوں۔ دوسری صورت یہ کہ آپ تعمیری تنقید نہیں بلکہ تذلیل کر رہے ہوں۔

غداری صرف مسلح نہیں ہوتی بلکہ غیر مسلح بھی ہوتی ہے۔ وطن دشمنوں سے فنڈز لے کر ریاست کے خلاف آپ ہتھیار کی مدد سے سرگرم ہوں خواہ زبان و قلم کی مدد سے، جرم کی نوعیت ایک ہی رہتی ہے۔ سزا دونوں طرح کی غداری کی موت ہی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ مسلح غداری میں قتل کی اضافی دفعات بھی لاگو ہو جاتی ہیں۔ آپ فوج کی کسی حکمت عملی سے متفق نہیں تو تنقید بھی کیجئے اور اپنی ناراضگی کا اظہار بھی، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی آپ پر ہاتھ ڈالے، بس تذلیل اور غداری نہ کیجئے!

ح
=======
نوٹ: لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

وہ بلاگر جو بھینسوں کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کی تعداد گیارہ ہو گئی ہے جو مزید بڑھنے کے امکانات ہیں، سینٹ میں چوھدری نثار صاحب نے یہ بات قبول کر لی کہ سلمان حیدر خفیہ اداروں کے مہمان ہیں۔ پروفیسر صاحب کی آزادی کے امکانات مشکل ہی نظر آ رہے ہیں دیکھتے ہیں کیا بنتا ہے۔ آپ جس بھی ملک میں ہیں اس ملک کے حالات خراب کرنے پر قلم کا استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتنی چاہئے۔
========


سماجی کارکنوں کی حالیہ گمشدگی پر وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے پروفیسر سلمان حیدر کے لاپتا ہونے کی رپورٹ ہے، اس کے علاوہ لاہور میں بھی کچھ لوگوں کے لاپتا ہونے کی رپورٹ ہے۔ لاپتا افراد کے معاملے کو خود مانیٹرنگ کر رہا ہوں۔ ہم چاہتے ہیں یہ لوگ واپس آجائیں اور اس حوالے سے کچھ معاملات آگے بھی بڑھ رہے ہیں، لاپتا افراد کو بازیاب کرایا جائے گا۔
ح

والسلام
 
آخری تدوین:
Top