حسرت موہانی لاؤں کہاں سے حوصلہ آرزوئے سپاس کا

ام اویس

محفلین
لاؤں کہاں سے حوصلہ آرزوئے سپاس کا
جب کہ صفات یار میں دخل نہ ہو قیاس کا

عشق میں تیرے دل ہوا ایک جہاں بے خودی
جان خزینہ بن گئی حیرت بے قیاس کا

رونق پیرہن ہوئی خوبی جسم نازنین
اور بھی شوخ ہوگیا رنگ تیرے لباس کا

دل کو ہو تجھ سے واسطہ لب پہ ہو نام مصطفٰی
وقت جب آئے اے خدا خاتمہ حواس کا

لطف و عطائے یار کی عام ہیں بسکہ شہرتیں
قلب گنہگار میں نام نہیں ہراس کا

طے نہ کسی سے ہو سکا تیرے سوا معاملہ
جان امیدوار کا " حسرت " محو یاس کا
 
Top