قومیت کی بنیاد ۔۔۔ 'وطن' نہیں بلکہ : "اسلام" !!

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاہلیت کی اُن تمام محدود مادّی ، حسی اور وہمی بنیادوں کو ، جن پر دنیا کی مختلف قومیتوں کی عمارتیں قائم کی گئی تھیں ، ڈھا دیا۔
رنگ ، نسل ، وطن ، زبان ، معیشت اور سیاست کی غیر عقلی تفریقوں کو ، جن کی بنا پر انسان نے اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے انسانیت کو تقسیم کر رکھا تھا ، مٹا دیا اور انسانیت کے مادے میں تمام انسانوں کو برابر اور ایک دوسرے کا ہم مرتبہ قرار دے دیا۔
اس تخریب کے ساتھ انسان نے پھر ایک خالص عقلی بنیاد پر ایک نئی قومیت تعمیر کی۔ اس "قومیت" کی بنا بھی امتیاز پر تھی ، مگر مادّی اور غرضی امتیاز پر نہیں بلکہ روحانی اور جوہری امتیاز پر۔ اس نے انسان کے سامنے ایک فطری صداقت پیش کی جس کا نام "اسلام" پے !
اسلام نے اللہ کی بندگی و اطاعت ، نفس کی پاکیزگی و طہارت ، عمل کی نیکی اور پرہیزگاری کی طرف سارے نوعِ بشر کو دعوت دی۔
پھر کہہ دیا کہ ۔۔۔
جو اس دعوت کو قبول کرے وہ ایک قوم سے ہے
اور جو اس کو ردّ کرے وہ دوسری قوم سے ہے۔


ایک قوم ایمان اور اسلام کی ہے اور اس کے سب افراد ایک امت ہیں۔
[arabic]وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا[/arabic]
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 143 )

اور ایک قوم کفر اور گمراہی کی ہے اور اس کے متبعین اپنے اختلافات کے باوجود ایک گروہ ہیں
[arabic]وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ[/arabic]
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 264 )

ان دونوں قوموں کے درمیان بنائے امتیاز نسل اور نسب نہیں ، اعتقاد اور عمل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک باپ کے دو بیٹے اسلام اور کفر کی تفریق میں جدا جدا ہو جائیں اور دو بالکل اجنبی آدمی اسلام میں متحد ہونے کی وجہ سے ایک قومیت میں مشترک ہوں۔

وطن کا اختلاف بھی ان دونوں قوموں کے درمیان وجۂ امتیاز نہیں ہے۔ یہاں امتیاز "حق" اور "باطل" کی بنیاد پر ہے ۔۔۔ اور
"حق" اور "باطل" کا کوئی مخصوص وطن نہیں ہوتا !
ممکن ہے ایک شہر ، ایک محلہ ، ایک گھر کے دو آدمیوں کی قومیتں اسلام اور کفر کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہو جائیں اور ایک پاکستانی رشتۂ اسلام میں مشترک ہونے کی وجہ سے ایک ہندوستانی کا قومی بھائی بن جائے۔

رنگ کا اختلاف بھی یہاں قومی تفریق کا سبب نہیں ہے۔ یہاں اعتبار چہرے کے رنگ کا نہیں ، اللہ کے رنگ کا ہے اور وہی بہترین رنگ ہے :
[arabic]صِبْغَةَ اللّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ صِبْغَةً[/arabic]
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 138 )
ہو سکتا ہے کہ "اسلام" کے اعتبار سے ایک سفید برطانوی اور ایک سیاہ افریقی کی ایک قوم ہو اور کفر کے اعتبار سے دو گوروں کی دو الگ قومیتیں ہوں۔

زبان کا امتیاز بھی "اسلام" اور "کفر" میں وجۂ اختلاف نہیں ہے۔ یہاں منہ کی زبان نہیں محض دل کی زبان کا اعتبار ہے جو ساری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کے اعتبار سے عربی اور برصغیری کی ایک زبان ہو سکتی ہے اور دو عربوں کی زبانیں مختلف ہو سکتی ہیں۔

معاشی اور سیاسی نظاموں کا اختلاف بھی اسلام اور کفر کے اختلاف میں بےاصل ہے۔ یہاں جھگڑا دولتِ زر کا نہیں دولتِ ایمان کا ہے۔ انسانی سلطنت کا نہیں اللہ کی بادشاہت کا ہے۔
جو لوگ حکومتِ الٰہی کے وفادار ہیں ، اور جو اللہ کے ہاتھ اپنی جانیں فروخت کر چکے ہیں وہ سب ایک قوم ہیں خواہ ہندوستان میں ہوں یا پاکستان میں۔
اور جو اللہ کی حکومت سے باغی ہیں اور شیطان سے جان و مال کا سودا کر چکے ہیں وہ ایک دوسری قوم ہیں۔ ہم کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ وہ کس سلطنت کی رعایا ہیں اور کس معاشی نظام سے تعلق رکھتے ہیں؟

اس طرح اسلام نے قومیت کا جو دائرہ کھینچا ہے ، وہ کوئی حسّی اور مادّی دائرہ نہیں بلکہ ایک خالص عقلی دائرہ ہے۔ ایک گھر کے دو آدمی اس دائرے سے جدا ہو سکتے ہیں اور مشرق و مغرب کا بُعد رکھنے والے دو آدمی اس میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اس دائرہ کا محیط ایک کلمہ ہے :
[arabic]لا اله الا الله محمد الرسول الله[/arabic]

اسی کلمہ پر دوستی بھی ہے اور اسی پر دشمنی بھی۔
اسی کا اقرار جمع کرتا ہے اور اسی کا انکار جدا کر دیتا ہے۔
جن کو اس نے جدا کر دیا ہے ان کو نہ خون کا رشتہ جمع کر سکتا ہے ، نہ خاک کا ۔ نہ زبان کا ، نہ وطن کا ، نہ رنگ کا ، نہ روٹی کا ، نہ حکومت کا۔
اور جن کو اس نے جمع کر دیا ہے انہیں کوئی چیز جدا نہیں کر سکتی۔ کسی دریا ، کسی پہاڑ ، کسی سمندر ، کسی زبان ، کسی نسل ، کسی رنگ اور کسی زر و زمین کے قضیہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اسلام کے دائرے میں امتیازی خطوط کھینچ کر مسلمان اور مسلمان کے درمیان فرق کرے۔


ہر مسلمان خواہ وہ پاکستان کا باشندہ ہو یا بھارت کا واسی ، گورا ہو یا کالا ، ہندی بولتا ہو یا عربی ، سامی ہو یا آرین ، ایک حکومت کی رعیت ہو یا دوسری حکومت کی ۔۔۔
وہ مسلمان قوم کا فرد ہے ،
اسلامی سوسائیٹی کا رکن ہے ،
اسلامی اسٹیٹ کا شہری ہے ،
اسلامی فوج کا سپاہی ہے ،
اسلامی قانون کی حفاظت کا مستحق ہے۔

شریعتِ اسلامیہ میں کوئی ایک دفعہ بھی ایسی نہیں ہے جو عبادات ، معاملات ، معاشرت ، معیشت ، سیاست ، غرض زندگی کے کسی شعبہ میں جنسیت یا زبان یا وطنیت کے لحاظ سے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے مقابلہ میں کمتر یا بیشتر حقوق دیتی ہو۔

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے ‫!
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے

کمپوزنگ ، ردّ و بدل و اضافہ : باذوق
بشکریہ : مسئلۂ قومیّت - سید ابوالاعلیٰ مودودی
 

arifkarim

معطل
بازوق صاحب : اسی ''سخت'' اسلام کی وجہ سے غیر مسلم ہم سے دور بھاگتے ہیں۔ ذرا اسلامی عقائد سے ہٹ کر تاریخ پر بھی نظر ڈالیے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے زمانے میں کتنے ہی غیر مسلم علاقے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے، مگر ان مسلمانوں نے کبھی بھی کے انکے ساتھ اقلیتوں والا سلو ک نہ کیا۔ بلکہ ہمیشہ انہیں باقی مسلمانوں والے حقوق دیے۔ انہی ''نیک'' اخلاق کے سبب کتنے ہی لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔
آج کل ہم فورا کسی کافر کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور خود مسلمانوں میں آپس میں اتنی نااتفاقی ہے کہ اپنے بھائی کی ٹانگ کھینچنے میں بالکل تاخیر نہیں کرتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم قومیت کو اسلام کی بنیاد اس وقت تک نہیں بنا سکتے جب تک تمام فرقے ختم نہیں ہو جاتے!
آج ایک سنی، شیعا اور شیعا، سنی کی مسجد میں جا کر نماز نہیں پڑتا۔ غیر مسلموں کو کہا جاتا کہ کلمہ پڑھو، اور خود قادیانیوں کی مساجد پر سے کلمہ مٹایا جاتا ہے۔ آپ کس قسم کی اسلامی قومیت کی بات کرتے ہیں؟
 

مغزل

محفلین
فلسطیین کے ممتاز شاعر محمود درویش کا ایک قول یاد آرہا ہے۔۔

’’ وطن ۔۔ ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی کھانے اور اپنی مرضی کی موت مرنے کا نام ہے ‘‘

بہ شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔ منو بھائی (معروف کالم نگار)
 

مغزل

محفلین
بازوق صاحب : اسی ''سخت'' اسلام کی وجہ سے غیر مسلم ہم سے دور بھاگتے ہیں۔ ذرا اسلامی عقائد سے ہٹ کر تاریخ پر بھی نظر ڈالیے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے زمانے میں کتنے ہی غیر مسلم علاقے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے، مگر ان مسلمانوں نے کبھی بھی کے انکے ساتھ اقلیتوں والا سلو ک نہ کیا۔ بلکہ ہمیشہ انہیں باقی مسلمانوں والے حقوق دیے۔ انہی ''نیک'' اخلاق کے سبب کتنے ہی لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔
آج کل ہم فورا کسی کافر کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور خود مسلمانوں میں آپس میں اتنی نااتفاقی ہے کہ اپنے بھائی کی ٹانگ کھینچنے میں بالکل تاخیر نہیں کرتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم قومیت کو اسلام کی بنیاد اس وقت تک نہیں بنا سکتے جب تک تمام فرقے ختم نہیں ہو جاتے!
آج ایک سنی، شیعا اور شیعا، سنی کی مسجد میں جا کر نماز نہیں پڑتا۔ غیر مسلموں کو کہا جاتا کہ کلمہ پڑھو، اور خود قادیانیوں کی مساجد پر سے کلمہ مٹایا جاتا ہے۔ آپ کس قسم کی اسلامی قومیت کی بات کرتے ہیں؟

ماسوائے قادیانی والی بات کے ۔۔ مجھے آپ کے مراسلے سے اصولی اتفاق ہے۔
 

مغزل

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاہلیت کی اُن تمام محدود مادّی ، حسی اور وہمی بنیادوں کو ، جن پر دنیا کی مختلف قومیتوں کی عمارتیں قائم کی گئی تھیں ، ڈھا دیا۔
رنگ ، نسل ، وطن ، زبان ، معیشت اور سیاست کی غیر عقلی تفریقوں کو ، جن کی بنا پر انسان نے اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے انسانیت کو تقسیم کر رکھا تھا ، مٹا دیا اور انسانیت کے مادے میں تمام انسانوں کو برابر اور ایک دوسرے کا ہم مرتبہ قرار دے دیا۔
اس تخریب کے ساتھ انسان نے پھر ایک خالص عقلی بنیاد پر ایک نئی قومیت تعمیر کی۔ اس "قومیت" کی بنا بھی امتیاز پر تھی ، مگر مادّی اور غرضی امتیاز پر نہیں بلکہ روحانی اور جوہری امتیاز پر۔ اس نے انسان کے سامنے ایک فطری صداقت پیش کی جس کا نام "اسلام" ہے۔۔۔[/color][/center]

کمپوزنگ ، ردّ و بدل و اضافہ : باذوق
بشکریہ : مسئلۂ قومیّت - سید ابوالاعلیٰ مودودی

قبلہ آپ نے تحریر کیا کہ ردو بدل کیا گیا ۔۔۔ ذرا ہمیں اصل مسودہ بھی دکھا دیجئے۔۔۔ ممنون ہوں گا۔

ایک بات کی وضاحت کہ ۔۔۔ اسلام ہمارے دین / مذہب کا نام ہے ۔۔
یعنی ایسا مذہب جس میں اسلام (سلامتی ) ہے۔۔۔۔۔۔۔
نہ کے تفریق کا نام اسلام ہے۔۔
کیا کہتے ہیں آپ ؟؟
 

باذوق

محفلین
اسی ''سخت'' اسلام کی وجہ سے غیر مسلم ہم سے دور بھاگتے ہیں۔ ذرا اسلامی عقائد سے ہٹ کر تاریخ پر بھی نظر ڈالیے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے زمانے میں کتنے ہی غیر مسلم علاقے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے، مگر ان مسلمانوں نے کبھی بھی کے انکے ساتھ اقلیتوں والا سلو ک نہ کیا۔ بلکہ ہمیشہ انہیں باقی مسلمانوں والے حقوق دیے۔ انہی ''نیک'' اخلاق کے سبب کتنے ہی لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔
آج کل ہم فورا کسی کافر کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور خود مسلمانوں میں آپس میں اتنی نااتفاقی ہے کہ اپنے بھائی کی ٹانگ کھینچنے میں بالکل تاخیر نہیں کرتے۔
اس مضون کا مرکزی خیال بہرحال یہ نہیں ہے کہ کسی مسلم ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے یا مجموعی طور پر مسلمانوں کا غیرمسلموں کے ساتھ کیسا رویہ ہونا چاہئے؟ ہاں اگر ایسا موضوع علیحدہ سے شروع کیا جائے تو بہتر ہے کہ گفتگو بھی وہیں کی جائے۔
اور آپ نے یہ جو لکھا ہے :
دوسری بات یہ ہے کہ ہم قومیت کو اسلام کی بنیاد اس وقت تک نہیں بنا سکتے جب تک تمام فرقے ختم نہیں ہو جاتے!
72 فرقوں کی پیش گوئی تو رسولِ عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کر چکے ہیں۔ یہ فرقے ختم ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اس آیت پر عمل کر لیا جائے :
[arabic]فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ[/arabic]
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 59 )
اسلام ہمارے دین / مذہب کا نام ہے ۔۔
یعنی ایسا مذہب جس میں اسلام (سلامتی ) ہے۔۔۔۔۔۔۔
نہ کے تفریق کا نام اسلام ہے۔۔
اگر "کافر" کو "کافر" بولنا یا سمجھنا آپ کے نزدیک "تفریق" ہے تو معاف کیجئے ایسی تفریق کا درس خود قرآن ہمیں دیتا ہے۔ قرآنی آیات کے دو حوالے اوپر سید مودودی کے مضمون میں موجود ہیں۔ مزید حوالوں کے لیے قرآن کریم سے راست رجوع فرمائیں۔
قبلہ آپ نے تحریر کیا کہ ردو بدل کیا گیا ۔۔۔ ذرا ہمیں اصل مسودہ بھی دکھا دیجئے۔۔۔ ممنون ہوں گا۔
میرا خیال ہے ہم کو اس طرح کے تقاضوں سے گریز کرنا چاہئے۔ خاص طور پر اس وقت جب کتاب اور صاحبِ کتاب کا نام دیا جا چکا ہو۔ مکمل حوالہ قرآن یا حدیث کا مانگا جائے تو یہ عین حق ہے لیکن دیگر کتب کے لئے اتنا ضروری امر نہیں ، بس کتاب یا مصنف کا نام ہی کافی ہونا چاہئے۔
پھر بھی میں آپ کو یہاں مکمل حوالہ دے رہا ہوں۔ صفحہ نمبر نہیں لکھ رہا ہوں۔ کیونکہ میرے پاس اس کتاب کے تین نسخے ہیں دو پاکستانی اور ایک ہندوستانی۔ اور تینوں میں صفحہ نمبرات مختلف ہیں۔
یہ کتاب "مسئلۂ قومیّت" سید مودودی کے پانچ مختلف مقالات پر مبنی ہے۔ جس میں سے پہلے مقالے کا عنوان ہے : قومیتِ اسلام
اسی اولین مقالے کے ایک باب "اسلامی قومیت کی بنیاد" کو یہاں میں نے ردّ وبدل و اضافے کے ساتھ پیش کیا ہے۔
آپ اصل مضمون سے رجوع کریں تو آپ کو اس "ردّ وبدل و اضافہ" کا علم ہو جائے گا۔
 
اقتباس:
دوسری بات یہ ہے کہ ہم قومیت کو اسلام کی بنیاد اس وقت تک نہیں بنا سکتے جب تک تمام فرقے ختم نہیں ہو جاتے!
72 فرقوں کی پیش گوئی تو رسولِ عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کر چکے ہیں۔ یہ فرقے ختم ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اس آیت پر عمل کر لیا جائے :
[arabic]فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 59 )[/arabic]


درد دل سے سوچنے کا مقام ہے۔
بہت شکریہ، اس آیت کو شئیر کرنے کا۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔
فرقہ تو اب 180 سے تجاوز کرچکے ہیں۔ فرقہ بندی جاری رہے گی جب تک لوگ قرآن اور موافق القرآن سنتوں کی پیروی نہیں کرتے۔ تقریباً تمام روایات جو فرقوں میں تقسیم کرتی ہیں وہ غیر القرآن روایات پر مبنی ہیں یا پھر لوگوں کی آپسی دشمنی اور معاندانہ سیاست پر مبنی ہیں۔
ممکن ہے میری تحریر میں کچھ سقم ہو یا کسی بھائی کے سوچنے کا انداز جدا ہو۔ لیکن میں‌سمجھتا ہو کہ سب اس بات پر سب متفق ہیں کہ فرقہ بازی، تفرقہ ڈالنا، تمام مسائیل کی جڑ ہے۔
 

خرم

محفلین
وطن غیر اسلامی ہیں، کسی حدیث سے یا آیت قرآن سے ثابت ہو جائے تو بہت بہتر ہوگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دو بیٹوں کے درمیان علاقے تقسیم فرما دیئے تھے یہ عمل بھی غیر اسلامی کہیں گے کچھ لوگ۔ اسلام کہتا ہے کہ تمام مسلمانوں کا ایک ہی حاکم ہوگا یہ کس نےکب کہا یہ فرما دیجئے ؟ کبھی یہ بھی بتا دیجئے گا کہ علی و معاویہ کی بیعت کرنے والوں میں سے کون غیر اسلامی اور جنگ جمل کے دو سالاروں میں سے کون دین سے نابلد؟ اے لوگو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیوں وہ باتیں باندھتے ہو جو نہ انہوں نے فرمائیں اور نہ تمہیں ان کا علم ہے؟ بس ہر کوئی کھینچ تان کے اپنے مقصد پر فٹ کرنے کی فکر میں ہے۔
 

وجی

لائبریرین
بھائیوں اسلام پوری دنیا پر قائم ہونے کے لئے آیا ہے اور مسلمان کسی جگہ رہتا ہوں اگر وہ خوف خدا کے ساتھ رہتا ہے تو اچھا ہے لیکن اگر وہ مسلمان ملک میں بغیر خوف خدا کے رہتا ہے تو ٹھیک نہیں‌
ایک اچھا مسلمان ہی ایک اچھا شہری بن سکتا ہے
 

باذوق

محفلین
وطن غیر اسلامی ہیں، کسی حدیث سے یا آیت قرآن سے ثابت ہو جائے تو بہت بہتر ہوگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دو بیٹوں کے درمیان علاقے تقسیم فرما دیئے تھے یہ عمل بھی غیر اسلامی کہیں گے کچھ لوگ۔ اسلام کہتا ہے کہ تمام مسلمانوں کا ایک ہی حاکم ہوگا یہ کس نےکب کہا یہ فرما دیجئے ؟
سید مودودی تو حیات نہیں ہیں ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آپ کے درج بالا سوالات غالباً ان کے اسی مضمون سے متعلق ہیں۔ میں اپنے علم کی حد تک جواب دے سکتا ہوں لیکن معذرت چاہتا ہوں کہ فی الوقت اتنی فرصت دستیاب نہیں ہے ، بہتر ہے کہ آپ جماعت اسلامی کے کسی معتبر عالمِ دین سے رجوع فرمائیں۔
کبھی یہ بھی بتا دیجئے گا کہ علی و معاویہ کی بیعت کرنے والوں میں سے کون غیر اسلامی اور جنگ جمل کے دو سالاروں میں سے کون دین سے نابلد؟ اے لوگو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیوں وہ باتیں باندھتے ہو جو نہ انہوں نے فرمائیں اور نہ تمہیں ان کا علم ہے؟ بس ہر کوئی کھینچ تان کے اپنے مقصد پر فٹ کرنے کی فکر میں ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ مشاجراتِ صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) سے آپ کو اس قدر دلچسپی کیوں ہے کہ موضوع کوئی سا بھی ہو آپ اسے کھینچ تان کر صحابہ کے اجتہادی اختلافات تک ضرور لاتے ہیں (کئی تھریڈز میں ، میں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے)۔
آپ خود دل پر ہاتھ رکھ کر غیرجانبداری سے سوچئے کہ اِس تھریڈ کا مرکزی خیال کیا ہے اور کون کون اسے کھینچ تان کے اپنے مقصد پر فٹ کرنے کی فکر میں ہیں؟؟
 

خاور بلال

محفلین
سید مودودی کا مضمون “مسئلہ قومیت“ دراصل اس بنیاد پر تھا کہ تقسیم سے قبل کچھ جید علماء قومیت کی بنیاد ہندوستان کو قرار دیتے تھے، سید مودودی اور علامہ اقبال نے اس نظریے کی نفی کی اور مذہب کو قومیت کی بنیاد قرار دیا اور سمجھایا کہ مسلمانوں کے لیے قومیت کی بنیاد دراصل اسلام ہے۔ یعنی مسلمان ایک ملت ہیں چاہے وہ کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں رہتے ہوں۔

“مسلمان کی نگاہ میں وطنی اور غیر وطنی کوئ چیز نہیں ہوتی۔ وہ غیر ملک کے صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گلے لگاتا ہے مگر اپنے وطن کے ابوجہل اور ابولہب سے دوستی نہیں کرسکتا۔ (سید مودودی)

عجم ہنوز نداند رموز دیں، ورنہ
ز دیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر از مقام محمد عربی است
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است
(علامہ اقبال)

یہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معاملات پر گفتگو کرنے کا آخر کیا محل ہے؟
 

باذوق

محفلین
سید مودودی کا مضمون “مسئلہ قومیت“ دراصل اس بنیاد پر تھا کہ تقسیم سے قبل کچھ جید علماء قومیت کی بنیاد ہندوستان کو قرار دیتے تھے، سید مودودی اور علامہ اقبال نے اس نظریے کی نفی کی اور مذہب کو قومیت کی بنیاد قرار دیا اور سمجھایا کہ مسلمانوں کے لیے قومیت کی بنیاد دراصل اسلام ہے۔ یعنی مسلمان ایک ملت ہیں چاہے وہ کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں رہتے ہوں۔

“مسلمان کی نگاہ میں وطنی اور غیر وطنی کوئ چیز نہیں ہوتی۔ وہ غیر ملک کے صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گلے لگاتا ہے مگر اپنے وطن کے ابوجہل اور ابولہب سے دوستی نہیں کرسکتا۔ (سید مودودی)

عجم ہنوز نداند رموز دیں، ورنہ
ز دیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر از مقام محمد عربی است
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است

(علامہ اقبال)

یہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معاملات پر گفتگو کرنے کا آخر کیا محل ہے؟
آپ نے بےشک بجا فرمایا۔ وضاحت اور تفہیم کا بہت بہت شکریہ۔
علامہ اقبال نے اس قطعہ میں مشہور دیوبندی عالم حسین احمد مدنی کا جو نام لیا ہے ۔۔۔۔ وہ بھی ایک بہت مشہور واقعہ ہے۔ حسین احمد صاحب نے کہا تھا : موجودہ زمانے میں‌ قومیں "اوطان" سے بنتی ہیں۔
اس فقرے پر اُس وقت کے سارے ہندوستان میں ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ، علامہ اقبال اور سید مودودی نے بہترین علمی تعاقب کیا۔
ان مضامین کو بھی کمپوز کرنے کی میں کوشش کر رہا ہوں تاکہ تاریخ برصغیر کا یہ حصہ میں یہاں محفوظ ہو جائے۔
 
باذوق آپ نے بہت اچھا شروع کیا۔ چند چھوٹی چھوٹی باتیں ، اگر خیال کرلیں تو۔

سید مودودی تو حیات نہیں ہیں ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آپ کے درج بالا سوالات غالباً ان کے اسی مضمون سے متعلق ہیں۔ میں اپنے علم کی حد تک جواب دے سکتا ہوں لیکن معذرت چاہتا ہوں کہ فی الوقت اتنی فرصت دستیاب نہیں ہے ، بہتر ہے کہ آپ جماعت اسلامی کے کسی معتبر عالمِ دین سے رجوع فرمائیں۔
بھائی ، بہتر یہ ہے کہ اپنی بات کہی جائے۔ جیسا کہ آپ نے تھوڑے رد و بدل سے کیا۔ اب یہ آپ کا مضمون ہے۔ آپ اس کا دفاع کیجئے۔

مجھے نہیں معلوم کہ مشاجراتِ صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) سے آپ کو اس قدر دلچسپی کیوں ہے کہ موضوع کوئی سا بھی ہو آپ اسے کھینچ تان کر صحابہ کے اجتہادی اختلافات تک ضرور لاتے ہیں (کئی تھریڈز میں ، میں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے)۔
آپ خود دل پر ہاتھ رکھ کر غیرجانبداری سے سوچئے کہ اِس تھریڈ کا مرکزی خیال کیا ہے اور کون کون اسے کھینچ تان کے اپنے مقصد پر فٹ کرنے کی فکر میں ہیں؟؟

استدعا ہے کہ سوال کا جواب عنایت کیا کیجئے یا معذرت کرلیا کیجئے۔ ایک دوسرے کی شخصیات کے تجزئے صرف اور صرف کردار کشی کے ضمن میںشمار ہوتے ہیں۔ احتراز کریں تو بہت بہتر ہے۔
والسلام
 
کبھی یہ بھی بتا دیجئے گا کہ علی و معاویہ کی بیعت کرنے والوں میں سے کون غیر اسلامی اور جنگ جمل کے دو سالاروں میں سے کون دین سے نابلد؟
بھائی خرم۔ میں نے بھی آپ کے متعلق نوٹ کیا ہے کہ آپ اکثر صحابہ کرام کے اجتہادی معاملات کو موضوعِ بحث بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ میں آپ سے صرف ادب سے گذارش ہی کر سکتا ہوں کہ براہ مہربانی "دین سے نابلد" جیسے الفاظ صحابہ کرام جیسی عظیم المرتبت ہستیوں کے لئے استعمال کرنے سے پرہیز فرمائیں۔
دین سے نابلد ہم لوگ ہو سکتے ہیں لیکن اپنی کم علمی یا لاعلمی کی آڑ میں صحابہ کے "اجتہاد" کو نشانہ بنانا کون سے دین کی خدمت کہلائے گی؟؟
 

باذوق

محفلین
استدعا ہے کہ سوال کا جواب عنایت کیا کیجئے یا معذرت کرلیا کیجئے۔ ایک دوسرے کی شخصیات کے تجزئے صرف اور صرف کردار کشی کے ضمن میںشمار ہوتے ہیں۔ احتراز کریں تو بہت بہتر ہے۔
والسلام
آپ سے بھی ادباَ استدعا ہے کہ اس سوال کا جواب عنایت کیجئے کہ ۔۔۔۔ غیرضروری طور پر اور بغیر کسی موقع محل کے مشاجراتِ صحابہ کو نشانہ بنانا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی کردار کشی کے ضمن میں‌ شمار ہوتا ہے کہ نہیں؟؟ ہماری نظروں میں ایک دوسرے کی شخصیات اہم ہونی چاہئے یا خیرالقرون کی مبارک ہستیوں کی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

خاور بلال

محفلین
استدعا ہے کہ سوال کا جواب عنایت کیا کیجئے یا معذرت کرلیا کیجئے۔ ایک دوسرے کی شخصیات کے تجزئے صرف اور صرف کردار کشی کے ضمن میںشمار ہوتے ہیں۔ احتراز کریں تو بہت بہتر ہے۔ والسلام

کسی سوال کا جواب دینا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب سوال موجود ہو۔ ہمارے ریاضی کے ایک استاد تھے انہیں بچوں کو مارنے کا بہت شوق تھا، کبھی کبھی وہ اس شوق کی تکمیل کے لیے بلیک بورڈ پر ریاضی کا ایک جواب تحریر کرتے اور کہتے کہ اب اس کا سوال بناؤ۔ ظاہر ہے ہم جیسے کند ذہن بچے سوال کا جواب تو دے سکتے تھے لیکن جواب کا سوال نہیں اس طرح وہ ہماری خوب درگت بناتے۔

خرم صاحب نے جو چند فقرے لکھے ہیں اگر آپ انہیں سوال کہہ رہے ہیں تو معذرت کیساتھ انہیں پہلے سوال میں تبدیل کراکر لائیں تاکہ ان کا جواب دیا جاسکے۔ کسی بھی فقرے کے آخر میں سوالیہ نشان لگانے سے وہ سوال نہیں بن جاتا۔ ملاحظہ ہوں وہ فقرے جنہیں سوال سمجھا جارہا ہے؛

وطن غیر اسلامی ہیں، کسی حدیث سے یا آیت قرآن سے ثابت ہو جائے تو بہت بہتر ہوگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دو بیٹوں کے درمیان علاقے تقسیم فرما دیئے تھے یہ عمل بھی غیر اسلامی کہیں گے کچھ لوگ۔ اسلام کہتا ہے کہ تمام مسلمانوں کا ایک ہی حاکم ہوگا یہ کس نےکب کہا یہ فرما دیجئے ؟ کبھی یہ بھی بتا دیجئے گا کہ علی و معاویہ کی بیعت کرنے والوں میں سے کون غیر اسلامی اور جنگ جمل کے دو سالاروں میں سے کون دین سے نابلد؟ اے لوگو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیوں وہ باتیں باندھتے ہو جو نہ انہوں نے فرمائیں اور نہ تمہیں ان کا علم ہے؟ بس ہر کوئی کھینچ تان کے اپنے مقصد پر فٹ کرنے کی فکر میں ہے۔

وطن کے غیر اسلامی ہونے کا اس مضمون میں کہیں ذکر نہیں۔ اگر میرا وطن پاکستان ہے اور آپ کا وطن کچھ اور تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم ایک امت ہیں، چاہے ایک دنیا کے ایک کونے میں اور دوسرا دوسرے کونے میں ہی کیوں نہ ہو وہ اسلامی وحدت میں شامل ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کا وطن بھی ایک ہونا چاہیے۔ پاکستان اسی بنیاد پر وجود میں آیا کہ مسلم اور ہندو دو الگ قومیں ہیں حالانکہ ان کا وطن ایک تھا۔ یہی اس مضمون میں سمجھایا گیا ہے۔ لیکن کیونکہ کاغذ سیاہ کرنا ضروری ہیں اس لیے مضمون کون پڑھے۔

دوسری بات یہ کہ حضرت ابراہیم نے اپنے دو بیٹوں کے درمیان اگر علاقے تقسیم کردیے تھے تو کیا ان سے یہ بھی کہا تھا کہ پیارے بچو! اب تم ایک ملت ہرگز نہیں کہلاسکتے کیونکہ تم الگ الگ وطن میں رہتے ہو۔ اس طرح کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے لوگوں کے پاس فضول سوالات میں ضائع کرنے کے لیے بہت وقت ہے۔ خیر یہ بھی ایک فن ہے میں اس فن کی قدر کرتا ہوں، اگر یہ فن نہ ہوتا تو محفل کے اتنے سارے دھاگے کیسے بھرتے۔
 

خرم

محفلین
ہر مسلمان خواہ وہ پاکستان کا باشندہ ہو یا بھارت کا واسی ، گورا ہو یا کالا ، ہندی بولتا ہو یا عربی ، سامی ہو یا آرین ، ایک حکومت کی رعیت ہو یا دوسری حکومت کی ۔۔۔
وہ مسلمان قوم کا فرد ہے ،
اسلامی سوسائیٹی کا رکن ہے ،
اسلامی اسٹیٹ کا شہری ہے ،
اسلامی فوج کا سپاہی ہے ،

اسلامی قانون کی حفاظت کا مستحق ہے۔
ان سطور کے جواب میں لکھا گیا جو بھی لکھا گیا۔
خاور صاحب نے لکھا
اگر میرا وطن پاکستان ہے اور آپ کا وطن کچھ اور تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم ایک امت ہیں، چاہے ایک دنیا کے ایک کونے میں اور دوسرا دوسرے کونے میں ہی کیوں نہ ہو وہ اسلامی وحدت میں شامل ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کا وطن بھی ایک ہونا چاہیے۔
یہی میرا مؤقف ہے۔
جہاں تک اصحاب کے اختلافی/اجتہادی معاملات کو بیان کرنے کا تعلق ہے تو ایسا صرف یہ واضح کرنے کے لئے کیا جاتا ہے کہ لوگ اپنا شوق پادشاہی پورا کرنےکے لئے دین کے اندر نئے قوانین وضع کرتے ہیں جیسا کہ ظالمان اور ان جیسوں کا دستور ہے۔ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اختلاف اصحاب کے دوران بھی موجود تھا، اسے غیر اسلامی بنا کر وجہ گردن زنی نہ بنایا جائے۔
 

باذوق

محفلین
جہاں تک اصحاب کے اختلافی/اجتہادی معاملات کو بیان کرنے کا تعلق ہے تو ایسا صرف یہ واضح کرنے کے لئے کیا جاتا ہے کہ لوگ اپنا شوق پادشاہی پورا کرنےکے لئے دین کے اندر نئے قوانین وضع کرتے ہیں جیسا کہ ظالمان اور ان جیسوں کا دستور ہے۔ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اختلاف اصحاب کے دوران بھی موجود تھا، اسے غیر اسلامی بنا کر وجہ گردن زنی نہ بنایا جائے۔
میں منتظمینِ محفل سے سخت احتجاج کرنا چاہوں گا کہ درج بالا اقتباس کا نوٹ لیا جائے۔ یا تو خرم صاحب کو تنبیہ کی جائے کہ وہ اپنے قلم پر قابو رکھیں اور ان جملوں کر حذف/تبدیل کریں یا پھر مجھے بھی اسی قسم کے اشتعال انگیز مراسلوں کی اجازت دی جائے۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کو اگر کسی گروہ سے نظریاتی اختلاف ہے تو آپ اس کا نام بگاڑ کر "ظالمان" کا خطاب دیں؟؟
اپنے اپنے بلاگ پر جو چاہیں زہر اگلیں لیکن اوپن فورم پر یہ نہیں چل سکتا کہ آپ اپنے مخالفانہ نظریے والی جماعتوں کو جو چاہیں کہتے پھریں۔
محفل کے وہ قابل احترام اراکین یہاں چپ کیوں بیٹھے ہیں جن کے دل میں اراکینِ محفل کے متعلق بڑا درد ہے؟؟ یہ کون سی انسانیت ہے کہ درد صرف مخصوص نظریات رکھنے والے ساتھیوں کے لئے ہی پیدا ہوتا ہے ، باقی ساری انسانیت غالباً اس قابل ہے کہ اس خلاف جتنی لاف زنی کر لی جائے جائز ہے؟؟

دوسری اہم بات ۔۔۔۔
آج کے دور کے کسی بھی گروہ (چاہے وہ کس قدر متبع سنت ہو یا کس قدر مخالفِ سنت) کے اختلافات ہرگز ہرگز ہرگز (سو دفعہ "ہرگز") بھی اس قابل نہیں ہیں کہ ان کا تقابل/موازنہ صحابہ کرام جیسی مقدس جماعت کے اجتہادی اختلاف سے کیا جائے !! یہ "دردِ دل" رکھنے والا ہر عام مسلمان جانتا ہے !!
کیا اس قسم کے تقابل کے ذریعے بغضِ طالبان کی آڑ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو "ظالمان" کہنے کی جراءت کیا جا رہی ہے؟؟

میں ایک بار پھر دوستانہ ماحول میں خرم صاحب سے بصد خلوص گذارش کرنا چاہوں گا کہ براہ مہربانی آئیندہ سے اس قسم کے تقابل/موازنہ سے احتراز کریں اور اگر درج بالا جملوں سے یہ توہین آمیز فقرے حذف / تبدیل بھی کر دیں تو محفل کے دیگر اراکین کے جذبات پر آپ کی بڑی رحم نوازی ہوگی ، بہت شکریہ !!
 

شمشاد

لائبریرین
امید ہے خرم بھائی اپنی پہلی فرصت میں اپنے جواب سے نوازیں گے اور باذوق بھائی کے کئے گئے اعتراضات پر اپنا نقطہ نظر واضح کریں گے۔

اور باذوق بھائی اگر کوئی غلط کام کرے تو اس کے مقابلے میں غلط کام نہیں کرنا چاہیے۔ یہی میری رائے ہے۔
 
جہاں تک اصحاب کے اختلافی/اجتہادی معاملات کو بیان کرنے کا تعلق ہے تو ایسا صرف یہ واضح کرنے کے لئے کیا جاتا ہے کہ لوگ اپنا شوق پادشاہی پورا کرنےکے لئے دین کے اندر نئے قوانین وضع کرتے ہیں جیسا کہ ظالمان اور ان جیسوں کا دستور ہے۔ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اختلاف اصحاب کے دوران بھی موجود تھا، اسے غیر اسلامی بنا کر وجہ گردن زنی نہ بنایا جائے۔

بھائی باذوق نے یہ بات اچھی کہی ہے کہ ہم کسی بھی صحابہ کی بے ادبی نہیں کرسکتے۔ خرم کے پیغام میں کسی بھی بے عزتی کا عنصر مجھے نظر نہیں آیا لیکن مجھے ان اعتراضات پر یہ اعتراض ہے۔
ظلم یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے قتل مذہبی سیاسی وجوہات پر تھے، ظلم یہ ہے کہ خانوادہ رسول کا قتل، بھی مذہبی سیاسی بنیاد پر تھا۔ ظلم ہے کہ یہ سب تاریخی حقیقت ہے اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ظلم یہ ہے دین تو رسول اکرم کے آخری خطبہ کے موقع پر مکمل ہو گیا تھا۔ اس کے بعد نت نئے مذہبی بنیادوں پر سیاسی قوانین بنانا تاکہ اپنا کام آسان رہے، اور ظلم یہ ہے کہ نطریاتی اختلافات کی سزا موت کے فلسفہ پر عمل کرنا---- ایک ظلم ہے۔ اس لحاظ سے آج کے دور میں جو بھی یہ دستور ظلم اپناتا ہے ، اس کو ظالمان ہی کہا جائے گا۔ اس میں کس بات پر احتجاج ہے ، کچھ میری سمجھ میں نہیں‌ آیا بھائی۔
 
Top