::::::: قول اور عمل کو ایک جیسا رکھنا:::::::

::::::: قول اور عمل کو ایک جیسا رکھنا:::::::
بِسمِ اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ ، و أفضلَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ اللہِ مُحمدٍ ابن عَبدُاللہ ، خَاتمُ الرُسلِ والأنبیاءِ و المَعصومِین ، و صَلوۃُ اللہِ عَلیٰ أصحَابِہِ و أزوَاجِہِ و مَن تَبِعَھُم بِأحسانٍ اِلیٰ یَومِ الدِین ، وأما بعد ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
قول و عمل کو ایک جیسا رکھنا یقیناً آسان کام نہیں ، لیکن اُس سے زیادہ یقینی بات یہ ہے کہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے مطلوب ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ((((( أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ :::کیا تُم لوگ دوسروں کو تو نیکی کا حُکم دیتے ہوئے اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو جبکہ تُم لوگ کتاب بھی پڑہتے ہو کیا تُم لوگوں کو عقل نہیں))))) سورت البقرہ /آیت 44،
اِس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بُری عادات میں سے ایک عادت بیان فرمائی ہےکہ وہ لوگ دوسروں کو تو نیک کام کرنے کا حُکم دیتے لیکن خود اُس کے مطابق کام نہ کرتے جبکہ وہ اللہ کی نازل کردہ کتاب بھی پڑہتے تھے یعنی اللہ کے احکام اور ہدایات پڑھنے کے باوجود وہ لوگ یہ گندی حرکت کیا کرتے تھے ،
انہوں نے کسی بھی اور کاروبار اور صنعت کی طرح اللہ کی کتاب کو پڑھنا اور اس میں سے وعظ و نصیحت کرنے کو بھی ایک تجارت اور ایک صنعت بنا لیا ، جِس کی صناعت کو انہوں نے دُنیا کے مقاصد کے حصول کا سبب بنا لیا اور دِینی ذمہ داریوں کی آڑ میں دُنیاوی ذمہ داریاں پورے کرنے لگے ، اور اپنی اصل دِینی ذمہ داریوں کو بھول بیٹھے یہاں تک کہ دوسروں کو جن کاموں سے باز رہنے کی نصیحت کرتے ، خود وہی کام کرتے دِکھائی دیتے ، اور دوسروں کو جو کام کرنے کی نصیحت کرتے خود وہی کام نہ کرتے ، اور ستم ظریقی یہ کہ اللہ کی کتاب پڑہتے ہوئے یہ کام کرتے ، اس کی ایک کیفیت یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ اللہ کی کتاب پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سُناتے اور اُس میں سے نکال نکال کر حکم سناتے لیکن خود ان پر عمل نہ کرتے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے سب اِیمان والوں کے لیے یہ ایک عام تنبیہ ہے ، اور اسلام کی دعوت لے کر چلنے والوں اور اسلام کے معلمین کے لیے خاص طور پر ہے، کہ قول اور عمل میں موافقت انتہائی ضروری ہے ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ اُن کی بات کچھ ہو اور کام کچھ ، کیونکہ عُلوم میں سےمتاثر کُن اور اپنی طرف جذب کرنے والا عِلم وہ ہوتا جِس کی تصدیق عمل کے ذریعے ہوتی ہو ،اور عمل کے ذریعے پیروی کرنا قول کے ذریعے پیروی کرنےسے کہیں زیادہ مکمل اور مؤثر ہوتا ہے ، لہذا جو کوئی خیر کے کام کی دعوت دے ، نیکیوں پر عمل کرنے کا حکم دے اور برائیوں سے باز رہنے کا حکم دے تو اسے چاہیے کہ کسی اور سے پہلے وہ خود وہی کچھ کرے ،
کسی شک اور شبہے کے بغیر انسانی تاریخ کے سب سے بڑے اور سب سے عظیم اور سب سے کامیاب ترین شخص کی زندگی کی طرف نظر کیجیے کہ اُس کا اخلاق و کردار اُس کی زندگی کا ہر ایک کام بالکل اُس دعوت کے عین مطابق تھا جو دعوت وہ لے کر آیا تھا ، میرا سب کچھ اُس پر قربان ہو جائے ،
اللہ کا وہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اپنی دعوت کے ایک نکتے کے بھی خلاف عمل نہ کرتا تھا،
اللہ کے حکم سے اُس کی دعوت کی کامیابی کے اہم ترین اسباب میں سے ایک سبب اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اپنا اخلاق و کردار تھا جو کہ اُن کی دعوت اور ان کے اقوال کے عین مطابق تھا،
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ ، عائشہ رضی اللہ عنہا جو کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے انتہائی ذاتی ترین اوقات کی بھی راز دان تھیں ، اُن کا اِرشاد گرامی ہے کہ ((((( کَانَ خُلقہُ القُرآن ::: اُن کا اخلاق و کِردار تو قُران تھا)))))یعنی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زندگی مبارک میں ہر ایک لمحہ اُس عِلم پر عمل تھا جو اُن کو دیا گیا اور جس کی وہ دعوت دیتے تھے ،
پس اپنے عقیدے اور عمل میں ، اور اپنے قول او ر فعل میں مطابقت اور موافقت رکھنا ، کچھ آسان کام نہیں ،
کوئی طے شدہ ، مقرر شدہ عبادت نہیں جسے آسانی سے کیا جا سکتا ہو ، بلکہ یہ کافی مشکل اور مستقل جد وجہد سے کیے جانے والا کام ہے،
یہ کوئی پہلے سے بنا بناسیدھا سادھا محفوظ و مأمون راستہ نہیں جِس پر آرام سے چل کر سفر تمام کیا جا سکتا ہو ، بلکہ اس راہ میں ہر قدم کوئی نئی روکاٹ ،کوئی نئی ٹھوکر سامنے ہوتی ہے، اس پر چلتے ہوئے سفر زندگی کے اختتام تک پہنچنے کے لیے بہت ہی شدید عزیمت کی ضرورت ہوتی ہے ،
اس کام کو مستقل مزاجی سے کرنے کے لیے بہت ہی بلند حوصلے اور اللہ پر مکمل اِیمان کی ضرورت ہوتی ہے ، اللہ سے سچے تعلق کی ضرورت ہوتی ہے ،صِرف اُسی سے مدد طلب کرتے ہوئے ، صِرف اُس کی اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایات کے مطابق عمل کرتے ہوئے ہی یہ مہم کامیابی اور مطلوبہ معیار کے ساتھ سر ہوسکتی ہے ،
اگر اِن صفات میں سے کسی کو ترک کیا تو اپنے قول اور عمل کو اگر ایک دوسرے کے موافق نہیں رکھا جا سکے گا اور ایسا ہو جانے کی صورت میں مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ کی طرف سے یہ بتا دیا گیا ہے کہ جو کوئی بھی یہودیوں کی اس عادت کو اپنائے گا ، اُن کی اُس راہ پر چلے گا اُنہی کی طرح بد حالی کا شکار ہو گا اور انہی نُقصانات کو پانے والا بنے گا جو بنی اِسرائیل کو ملے، اللہ تعالیٰ ہر ،مسلمان کو یہ توفیق عطاء فرمائے کہ وہ اپنے قول و فعل میں سچا ہو اُس کا ہر قول اللہ اور اللہ کے رسول کے احکامات کے مطابق ہو اور اُس کا ہر فعل اُس کے ہر قول کی تصدیق کرنے والا ہو۔ والسلام علیکم،
طلبگار دُعا ، آپ کا بھائی ، عادل سہیل ظفر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ """ یہاں """ سے اتارا جا سکتا ہے ۔
 

باباجی

محفلین
جزاک اللہ
اللہ ہم سب کو اپنے قول و فعل کے فرق کو دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین
 

نایاب

لائبریرین
کسی شک اور شبہے کے بغیر انسانی تاریخ کے سب سے بڑے اور سب سے عظیم اور سب سے کامیاب ترین شخص کی زندگی کی طرف نظر کیجیے کہ اُس کا اخلاق و کردار اُس کی زندگی کا ہر ایک کام بالکل اُس دعوت کے عین مطابق تھا جو دعوت وہ لے کر آیا تھا ، میرا سب کچھ اُس پر قربان ہو جائے ،
حق ہے سچ ہے
جزاک اللہ خیراء محترم عادل سہیل بھائی
 
Top