::::::: قناعت ، نفس کی راحت کی راہ :::::::

[FONT=Al_Mushaf]بسم اللہ و الحمد للہ وحدہُ و الصلاۃ و السلام علی من لا نبی بعدہ[/FONT][FONT=Al_Mushaf]ُ[/FONT]

اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں

::::::: قناعت ، نفس کی راحت کی راہ :::::::

"""قناعت""" کا اسلامی مفہوم اللہ کی عطاء پر راضی رہنا ہے ، خواہ وہ مادی طور پر بہت ہی کم ہو ، اور دوسروں کے مال و متاع پر نظر نہ کرنا ہے ، خواہ وہ مادی طور پر بہت ہی زیادہ ہو ،
یہ """ قناعت """ اِیمان کی سچائی کی علامات میں سے ایک ہے ، اس کی خبر ہمیں صادق المصدوق محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمائی ہے کہ ((((([FONT=Al_Mushaf]قد [/FONT][FONT=Al_Mushaf]أَفْلَحَ مَن أَسْلَمَ [/FONT][FONT=Al_Mushaf]وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ الله بِمَا آتَاهُ[/FONT]:::یقیناً وہ کامیاب ہو گیا جس نےخود کو اللہ کے حوالے کر دیا ،اور اُسے(صرف )ضروریات پوری کرنے والا رزق دیا گیا اور جو کچھ اللہ نے اُسے دیا اُس دیے ہوئے پر اُسے راضی بھی کر دیا)))))صحیح مُسلم /حدیث1055/کتاب الزکاۃ/باب44،
اللہ کے بعد سب سے بلند رتبے والی ہستی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قناعت دیکھیے کہ اُن کی زندگی مُبارک میں تونگری اور عیش و آرام نظر نہیں آتا ، لیکن ساری ہی سیرتء مبارکہ میں کہیں ایک ادنیٰ سا اِشارہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں اللہ کی عطاء پر رضامند ہونے کا شائبہ تک بھی ہو ،
اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ انہوں نے زندگی کی سہولت کے لیے ، آرام و راحت کے لیے کسی سے کسی چیز کا سوال کیا ہو،
اور نہ ہی کبھی کسی کے مال کے بارے میں خبر حاصل کرنے کی کوشش فرمائی ،
ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال سے تجارت فرمائی تو اللہ نے بہت نفع عطاء کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس مال کی طرف بھی کبھی رغبت نہیں فرمائی ،
انہیں مال غنیمت کے خزانے ملتے تو وہ سب کا سب مال مسلمانوں میں تقسیم فرما دیتے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے گھروں میں کھانے پینے کا معاملہ بالکل زندہ رہنے کی ضروریات کی حد تک ہی رہتا تھا ،
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ ((((([FONT=Al_Mushaf]مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ طَعَامٍ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ حَتَّى قُبِضَ[/FONT]:::محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے تک ان کے گھر والوں نے کبھی مسلسل تین دِن پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا )))))صحیح البخاری /حدیث5100 /کتاب الاطعمہ/باب22 ،
اِیمان والوں کی والدہ ماجدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بتانا ہے کہ ((((([FONT=Al_Mushaf]مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ المَدِينَةَ، مِنْ طَعَامِ البُرِّ ثَلاَثَ لَيَالٍ تِبَاعًا، حَتَّى قُبِضَ[/FONT]::: جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی وسلم مدینہ تشریف لائے ان کے گھر والوں نے کبھی تین رات مسلسل گندم نہیں کھائی، یہاں تک کہ رسول اللہ کو قبض کر لیا گیا )))))صحیح البخاری /حدیث5100 /کتاب الاطعمہ/باب22 ،صحیح مُسلم/حدیث2970 /کتاب الزھد و الرقاق،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم چٹائی پر سوتے ، ان کےمقدس اور پاک جسم پر چٹائی کی بنائی کے نشان پڑ جاتے ،ایک دفعہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ نشان دیکھ لیے تو تڑپ اُٹھے اور اِرداہ کیا کہ رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے کوئی نرم و ملائم بچھونا تیار کر دیں جس پر وہ تشریف فرما ہوں اور آرام فرما ہوں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے عرض کی کہ """ ہم آپ کے لیے کچھ آرام دہ بچھونا بنانا چاہتے ہیں """ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((([FONT=Al_Mushaf]مَا لِي وَلِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا[/FONT]:::میرا اور دُنیا کا کیا واسطہ ، میں تو دُنیا میں ایک مسافر کی طرح ہوں جو کسی درخت کے نیچے سایہ اختیار کرتا ہےا ور پھر اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے)))))صحیح ابن حبان /حدیث ، صحیح الترغیب و الترھیب ،
یہ ہے """ قناعت """ کہ سب کچھ مل سکنے کے باوجود جو کچھ اللہ نے دِیا ہو اس پر راضی رہنا اور دُنیا کی راحتوں اور اس کے مال و متاع کی کثرت کی طرف راغب نہ ہونا ،
ایک اچھے مُسلمان اور اِیمان والے کی شخصیت میں اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اس تعلیم اور سُنّتءِ مبارکہ کے مطابق یہ """قناعت """ہونا ہی چاہیے ،
یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اس کا معاملہ صرف دُنیاوی راحتوں اور دُنیاوی معاملات کے لیے ہے ، دینی معاملات اور دین کی خدمت اور سر بلندی کے لیے ، خیر اور نیکی کے کاموں کے لیے دُنیاوی مال و اغراض کے حصول کی کوشش قناعت کے خلاف نہیں ، اور اللہ دِلوں کے احوال خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ کون کس لیے کیا کر رہا ہے ،
پس نیک نیتی سے دین کے کاموں میں ، ان کاموں کی تکمیل کے لیے دُنیاوی اسباب کی کثرت کے لیے کام کرنا """ قناعت """ کے خلاف نہیں سمجھا جا سکتا ،
::::: قناعت کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ((((([FONT=Al_Mushaf]لَيسَ الْغِنَى عَن [/FONT][FONT=Al_Mushaf]كَثْرَةِ الْعَرَضِ [/FONT][FONT=Al_Mushaf]وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ[/FONT]::: مال و متاع کی کثرت غنی ٰ نہیں ہوتی لیکن غنی ٰ تو نفس کا غنی ٰ ہوتا ہے )))))متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث 6081/کتاب الرقاق/باب15،صحیح مُسلم/کتاب الزکاۃ/حدیث1051/باب40،
::::: قناعت عِزت اور آزادیء نفس ہے :::::
قناعت اپنے موصوف کو آزاد اور با عِزت بنانے والی صفت ہے ، کہ دوسرے لوگ اُس پر مسلط نہیں ہو سکتے ، وہ اس لیے کہ اسے دُنیا کے معاملات کا لالچ ہی نہیں ہوتا اور جو کچھ اسے اللہ کی طرف سے ملتا ہے اس پر راضی رہتا ہے لہذا دُنیا والے اس پر مسلط ہونے کا کوئی راستہ نہیں پاتے ، جبکہ قناعت سے عاری لوگوں کو دُنیا کا طمع گھیرے رکھتا ہے اور دُنیا والے ان کے اس لالچ کو استعمال کر کے ان لوگوں کو استعمال کرتے رہتے ہیں ،
امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ """ لالچ ہمیشہ مُسلط رہنے والی غُلامی کا سبب ہے """،
اہل عِلم و فضل کے حکیمانہ اقوال میں سے ہے کہ """جو اپنی زندگی کے دِن آزادی سے گذارنا چاہے وہ اپنے دِل میں دُنیا کے کسی لالچ کو داخل نہ ہونے دے """
اور کہا گیا ہے کہ """ غُلام تین طرح کے ہوتے ہیں ، زر خرید غُلام ، اپنی شھوت کا غُلام اور لالچ کا غُلام"""
تو قناعت نفس کی آزادی ، عِزت اور راحت و سُکون کی راہ ہے ، قانع یعنی قناعت اختیار کرنے والا مُسلمان نفسی طور پر امن ، راحت اور اطمینان کی حالت میں رہتا ہے ، اور دُنیا کے لالچ میں رہنے والا ہمیشہ دُنیا کے حصول کی کوششوں میں ہی غرق رہتا ہے اس کےنفس کو سکون و راحت سے کچھ میل نہیں ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اِرشاد ہے کہ ((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي، أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى، وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ، مَلَأْتُ یَدَیكَ شُغْلًا، وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ[/FONT]:::اللہ کہتا ہے :اے آدم کی اولاد ، میری عبادت کے لیے فراغت حاصل کیا کرو میں تمہارے سینے کو غِنی ٰ سے بھر دوں گا اورتمہاری غربت دور کر وں گا، اور اگر تُم ایسا نہیں کرو گے تو میں تمہارے دونوں ہاتھوں کو مشغول کردوں گا اور تمہاری غُربت دور نہ کروں گا ))))) سنن الترمذی ، سنن ابن ماجہ ، مُسند احمد ، وغیرھم ، السلسہ الصحیحہ /حدیث 1359 ،
حکماء کا کہنا ہے کہ """دُنیا کا سُرُور یہ ہے کہ جو کچھ تمیں رِزق کیا گیا اس پر قناعت کرو ، اور دُنیا کا غم یہ ہے کہ جوکچھ تمہیں رِزق نہیں کیا گیا اس کے غم کرو """،
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمت دے کہ ہم اُس کے قناعت اختیار کرنے والے بندوں میں سے بن جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ صحیح حدیث شریف کسی کو خلافء واقع محسوس ہو، اور وہ اس حدیث کی صحت یا اس میں بیان کردہ خبر کے بارے میں کوئی اعتراض وارد کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ پہلے وہ قناعت کے ساتھ ساتھ تونگری ، غِنیٰ ، اور غربت کے اسلامی مفاہیم کا علم ضرور حاصل کرے۔
 
Top