انور مسعود قطعات۔ انور مسعود (غنچہ پھر لگا کھِلنے)

فرحت کیانی

لائبریرین
درسِ اِمروز
بچو یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا
وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہر گز نہیں روتی
عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا
اُردو وہ زباں ہے کہ جو نافِذ نہیں ہوتی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
لا اَدریّت
مرے ہم فکر ہیں خیام جیسے
مری یہ بات جذباتی نہیں ہے
سمجھ میں ایک شے آئی ہے انور
سمجھ میں کوئی شے آتی نہیں ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین

اعجازِ عجز

کس مخمصے میں ڈال دیا اِنکسار نے
اپنے کہے پہ آپ ہی شرمسار ہوں
لے آیا میرے واسطے وہ ایک بیلچہ
اک دن یہ کہہ دیا تھا کہ میں خاکسار ہوں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اُوں ہوں
ووٹوں سے کہ نوٹوں سے کہ لوٹوں سے بنے ہے
یہ راز ہیں ایسے جنہیں کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
اندر کی جو باتیں ہیں ٹٹولا نہیں کرتے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
مِلتے جُلتے
شاعرانہ اور ظریفانہ ہو گر ذوقِ نظر
زندگی میں جا بجا دلچسپ تشبیہیں بھی ہیں
ریل گاڑی اور الیکشن میں ہے اک شے مشترک
لوگ بے ٹکٹے کئی اِس میں بھی ہیں اُس میں بھی ہیں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ثابت قدم
کبھی نہ زیر کیا نقطہ ہائے بالا کو
ہمیں پسند نہ آیا کہ تُو کو یُو کرتے
کبھی لکھی نہیں درخواست ہم نے انگلش میں
"زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ضرورت ہے
ہمیں ایسے پڑھے لکھے ملازم کی ضرورت ہے
ورق گردانیِ پیہم سے جو ہر گز نہ تھکتا ہو
ہمیں درکار ہے اک مردِ صاحبِ جستجو ایسا
جو اخباروں کی خبروں کے بقیّے ڈھونڈ سکتا ہو
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ٹو ہُوم اِٹ مے کنسرن

ایک ہی نظم ہے اُن کی جس کو
ہر کہیں جا کے سُنا دیتے ہیں
بُھول جاتے ہیں جو کوئی مصرع
سامعین اُن کو بتا دیتے ہیں

1. To whom it may concern
 

فرحت کیانی

لائبریرین
خطیب

مرا دوست ہے اک فلان بِن فلاں
بلند اُسکی دانش کا پایہ رہے
خطابت میں اُس کا ہے ایسا مقام
نہ بولے تو محفل پہ چھایا رہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کرے گا کیا؟

مانا کہ بیٹھ جائے گا دفتر میں تھوڑی دیر
اُٹھے گا جب وہاں سے تو اُٹھ کر کرے گا کیا؟
انور مری سمجھ میں تو آتی نہیں یہ بات
دورہ نہیں کرے گا تو افسر کرے گا کیا؟
 
بہت خوب جناب ۔۔ بہت ہی خوب!

کس طرح کا احساسِ زیاں تھا کہ ہوا گم
کس طرح کا احساسِ زیاں ہے کہ بچا ہے
ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے
’اک لونگ گواچا‘ ہے تو کیا شور مچا ہے
 
۔۔۔۔
جب حسبِ تسلی نہ ملا قافیہ کوئی
پھر کام چلایا ہے فقط خانہ پری سے
کرتا ہے خوشامد بھی بڑے رعب سے انور
مکھن بھی لگائے تو لگاتا ہے چھری سے
 
اَن بیان ایبل

اپنی عادت،اپنا شیوہ یہی ہے ایک زمانے سے
اس نے کہا میں لیڈر ہوں اور ہم نے مان لیا
اب اس ضمن میں حال ہمارا ناگفتہ ہی بہتر ہے
آخر واٹر کولر کو بھی ہم نے رہبر مان لیا
 
Top