قصہ و داستاں نہیں ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔ ش زاد

ش زاد

محفلین
قصہ و داستاں نہیں ہونا
مُجھ کو یوں رائیگاں نہیں ہونا

ہے نشانی خِزاں کے آنے کی
باغ میں باغباں نہیں ہونا

مُجھ کو رہنا ہے اپنے پاؤں تلے
بے سُتوں آسماں نہیں ہونا

یار ہونا یا پھِر عدو ہونا
دیکھنا درمیاں نہیں ہونا

طبعء ش زاد پر ہے گِراں
حلقہء دوستاں نہیں ہونا

خاطرِ ش زاد پر ہے گِراں
حلقہء دوستاں نہیں ہونا

ش زاد
ء
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! سبحان اللہ! کیا ہی خوبصورت غزل ہے۔ مبارک باد قبول کیجیے۔
مُجھ کو رہنا ہے اپنے پاؤں تلے
بے سُتوں آسماں نہیں ہونا
اور
یار ہونا یا پھِر عدو ہونا
دیکھنا درمیاں نہیں ہونا
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب، ہر شعر اچھا ہے، لیکن مقطع میں۔۔۔ شین زاد اگر مکمل بھی لیا جائے تو کیا طبعِ (فعلن۔ کو طبعہء باندھا ہے بر وزن فاعلن؟
 

فاتح

لائبریرین
جی بالکل طبعِ کو بر وزن "فاعلن" باندھا گیا ہے۔ گو میں نے بھی یہ کہنا چاہا تھا لیکن سوچا کہیں محمود مغل صاحب کا جی نہ متلانے لگے۔ ;)
آج کل انہیں ابکائیاں آنے اور جی متلانے کی شکایت ہے۔:grin:
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے ش زاد صاحب، بہت اچھے اشعار ہیں، بہت داد قبول کریں۔

اور جیسا کہ اعجاز صاحب اور فاتح صاحب نے لکھا، 'طبع' غلط منظوم ہو گیا ہے، اگر یہ 'طبّعِ' ہوتا تو وزن ٹھیک تھا اور آپ نے شاید اس کو مشدد کر کے ہی باندھا ہے لیکن افسوس کہ یہ لفظ بغیر تشدید کے ہے، اگر ہو سکے تو مصرع پھر کہہ لیں۔

والسلام
 

فاتح

لائبریرین
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
(غالب)
وہ اُڑنے لگے مثلِ پری، دوشِ ہوا پر
بیٹھے ہیں بھروسے پہ یہاں طبعِ رواں کے
(اسمٰعیل میرٹھی)
 

مغزل

محفلین
قبلہ ، کیوں متلانے لگا میں‌سمجھتا ہوں طبع درد یا نفی کے وزن پر ہے ۔۔ کیا غلطی پر ہوں ؟۔۔خیر۔۔آپ سے تو بات ہوگی ہی ۔۔
 

فاتح

لائبریرین
جی درست فرمایا مغل صاحب کہ طبع اور درد ہم وزن الفاظ ہیں لیکن نفی کے سلسلے میں اساتذہ کے کلام سے فی الحال کوئی حوالہ نہیں ملا کہ اسے بر وزن فعُو باندھیں یا بر وزن فعل۔ شاید آپ ہی درست کہتے ہوں۔
دراصل مجھ ایسوں پر اور ہماری نسل پر ایک بڑا ظلم یہ ڈھایا گیا کہ ہمارے دور تک آتے آتے اردو املا سے اعراب طوطوں کی طرح اڑا دیے گئے اور اردو الفاظ کا تلفظ ہماری صوابدید کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ کسی زمانے میں ہمارے اردو کے ایک قابل استاد جناب رحمت علی مسلم صاحب مرحوم (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین) خصوصاً سہ حرفی الفاظ کی دو فہرستیں رٹا لگانے کی غرض سے دیا کرتے تھے کہ کن الفاظ کا درمیانی حرف ساکن ہے اور کن کا متحرک۔ اس کے علاوہ ایسے الفاظ کی درست ادائیگی کا دوسرا ذریعہ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ انہوں نے کس لفظ کو کس طور باندھا ہے۔
اسی قسم کا ایک لفظ "سعی" ہے جس کا درست تلفظ ہمیں حضرت غالب کا مصرع "دوست غمواری میں میری سعی فرماویں گے کیا" پڑھ کر معلوم ہوا جب کہ "سعی" کا ع عموماً متحرک پڑھا اور باندھا جاتا ہے لیکن یہ بہر طور غلط ہے۔ "سعی" کو صرف بر وزن فعل یعنی ع ساکن پڑھنا اور نظم کرنا ہی جائز ہے۔
اسی طرح صحّت کو ہم عموماً "فعل" کے وزن پر باندھ دیتے ہیں جب کہ "صحّت" کو "فعلن" کے وزن پر باندھنا ہی جائز ہے۔ ایسا ہی حال "طبع" اور صبح کا ہے جن کے درمیانی حروف یعنی ب ساکن ہیں اور بر وزن فعل ہیں لیکن ہم انہیں عموماً متحرک ب کے ساتھ نظم کر دیتے ہیں۔
بہرحال آپ کا بے حد شکریہ کہ "نفی" پر تحقیق کی ایک راہ دکھا دی۔ انشاء اللہ ایک آدھ روز اس لفظ کا درست تلفظ کسی فارسی یا عربی شعر کے حوالہ سے یہیں اسی دھاگے میں (ش زاد صاحب سے معذرت کے ساتھ) پیش کرتا ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
لیجیے مغل صاحب! حیران کن طور پر نفی کا معاملہ بھی سعی جیسا نکلا کہ یہ دونوں ہم وزن ہیں یعنی بر وزن فعل آئیں گے۔ "نفی" کا صرف نون متحرک ہے جب کہ ف اور ی دونوں ساکن یعنی درد، طبع، صبح، وغیرہ کے وزن پر۔
تین مستند ترین فارسی اساتذہ کے کلام سے حوالہ جات:
عیب می جملہ چو گفتہ ہنرش نیز بگو
نفیِ حکمت مکن از بہر دلِ عامی چند
(حافظ شیرازی)

جہد حق است و دوا حق است و درد
منکر اندر نفی جہدش، جہد کرد
(مولانا رومی)

ہیں زلائی نفی سر ہا بر زنید
ویں خیال و وہم یک سو افکنید
(مولانا رومی)

ایں جہاں نفی است در اثبات جو
صورتت صفر است در معنات جو
(مولانا رومی)

نسبتِ اثبات با نفی از نخست
گر بیانش میکنی بر گو درست
(مولانا رومی)

"مَا رَمَیتَ اِذ رَمَیتَ" از نسبت است
نفی و اثبات است و ہر دو مثبت است
(مولانا رومی)

بہ اثباتش جگر خوردم بہ نفیِ خود دل افسردم
زمعنی چوں اثر بردم نہ او آمد نہ من رفتم
(بیدل)
اب کوئی ہم سے ان ابیات کے مطالب نہ پوچھنے لگ جائے کہ "زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم"۔ مجھ ایسے جاہل کے لیے ان اشعار کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ یہ تمام اشعار لفظ "نفی" کے درست تلفظ کا پتہ دیتے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
جی درست فرمایا مغل صاحب کہ طبع اور درد ہم وزن الفاظ ہیں لیکن نفی کے سلسلے میں اساتذہ کے کلام سے فی الحال کوئی حوالہ نہیں ملا کہ اسے بر وزن فعُو باندھیں یا بر وزن فعل۔ شاید آپ ہی درست کہتے ہوں۔دراصل مجھ ایسوں پر اور ہماری نسل پر ایک بڑا ظلم یہ ڈھایا گیا کہ ہمارے دور تک آتے آتے اردو املا سے اعراب طوطوں کی طرح اڑا دیے گئے اور اردو الفاظ کا تلفظ ہماری صوابدید کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ کسی زمانے میں ہمارے اردو کے ایک قابل استاد جناب رحمت علی مسلم صاحب مرحوم (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین) خصوصاً سہ حرفی الفاظ کی دو فہرستیں رٹا لگانے کی غرض سے دیا کرتے تھے کہ کن الفاظ کا درمیانی حرف ساکن ہے اور کن کا متحرک۔ اس کے علاوہ ایسے الفاظ کی درست ادائیگی کا دوسرا ذریعہ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ انہوں نے کس لفظ کو کس طور باندھا ہے۔اسی قسم کا ایک لفظ "سعی" ہے جس کا درست تلفظ ہمیں حضرت غالب کا مصرع "دوست غمواری میں میری سعی فرماویں گے کیا" پڑھ کر معلوم ہوا جب کہ "سعی" کا ع عموماً متحرک پڑھا اور باندھا جاتا ہے لیکن یہ بہر طور غلط ہے۔ "سعی" کو صرف بر وزن فعل یعنی ع ساکن پڑھنا اور نظم کرنا ہی جائز ہے۔اسی طرح صحّت کو ہم عموماً "فعل" کے وزن پر باندھ دیتے ہیں جب کہ "صحّت" کو "فعلن" کے وزن پر باندھنا ہی جائز ہے۔ ایسا ہی حال "طبع" اور صبح کا ہے جن کے درمیانی حروف یعنی ب ساکن ہیں اور بر وزن فعل ہیں لیکن ہم انہیں عموماً متحرک ب کے ساتھ نظم کر دیتے ہیں۔بہرحال آپ کا بے حد شکریہ کہ "نفی" پر تحقیق کی ایک راہ دکھا دی۔ انشاء اللہ ایک آدھ روز اس لفظ کا درست تلفظ کسی فارسی یا عربی شعر کے حوالہ سے یہیں اسی دھاگے میں (ش زاد صاحب سے معذرت کے ساتھ) پیش کرتا ہوں۔

شکریہ فاتح بھائی ، سبحان اللہ ، بہت خوب ماشا اللہ ، یہ کیا ناں‌کام ، آپ نے تو اچھی خاصی تحقیق کا میدان مارلیا، مجھے دماغ تو نہ تھا مگر اب حوالے کے ساتھ محفوظ کرلیتا ہوں ،شکریہ

لیجیے مغل صاحب! حیران کن طور پر نفی کا معاملہ بھی سعی جیسا نکلا کہ یہ دونوں ہم وزن ہیں یعنی بر وزن فعل آئیں گے۔ "نفی" کا صرف نون متحرک ہے جب کہ ف اور ی دونوں ساکن یعنی درد، طبع، صبح، وغیرہ کے وزن پر۔
تین مستند ترین فارسی اساتذہ کے کلام سے حوالہ جات:
عیب می جملہ چو گفتہ ہنرش نیز بگو
نفیِ حکمت مکن از بہر دلِ عامی چند
(حافظ شیرازی)

جہد حق است و دوا حق است و درد
منکر اندر نفی جہدش، جہد کرد
(مولانا رومی)

ہیں زلائی نفی سر ہا بر زنید
ویں خیال و وہم یک سو افکنید
(مولانا رومی)

ایں جہاں نفی است در اثبات جو
صورتت صفر است در معنات جو
(مولانا رومی)

نسبتِ اثبات با نفی از نخست
گر بیانش میکنی بر گو درست
(مولانا رومی)

"مَا رَمَیتَ اِذ رَمَیتَ" از نسبت است
نفی و اثبات است و ہر دو مثبت است
(مولانا رومی)

بہ اثباتش جگر خوردم بہ نفیِ خود دل افسردم
زمعنی چوں اثر بردم نہ او آمد نہ من رفتم
(بیدل)
اب کوئی ہم سے ان ابیات کے مطالب نہ پوچھنے لگ جائے کہ "زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم"۔ مجھ ایسے جاہل کے لیے ان اشعار کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ یہ تمام اشعار لفظ "نفی" کے درست تلفظ کا پتہ دیتے ہیں۔

بہت خوب ، شکریہ فاتح بھائی ، ویسے ’’ تشاریح ‘‘ کے لیے وارث صاحب کو زحمت دی جاسکتی ہے اگر وہ کرم فرماویں تو بھلا ہوجاوے گا، والسلام
(ویسے آپس دی گل اے ، یہ شعر ترکی کے نہیں فارسی کے ہیں ہاہاہاہاہاہاہ)‌
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ فاتح بھائی ، سبحان اللہ ، بہت خوب ماشا اللہ ، یہ کیا ناں‌کام ، آپ نے تو اچھی خاصی تحقیق کا میدان مارلیا، مجھے دماغ تو نہ تھا مگر اب حوالے کے ساتھ محفوظ کرلیتا ہوں ،شکریہ

بہت خوب ، شکریہ فاتح بھائی ، ویسے ’’ تشاریح ‘‘ کے لیے وارث صاحب کو زحمت دی جاسکتی ہے اگر وہ کرم فرماویں تو بھلا ہوجاوے گا، والسلام‌

پذیرائی پر شکر گزار ہوں مغل صاحب۔
جی واقعی اگر قبلہ وارث صاحب کرم فرمائیں تو ان اشعار سے ہم معنوی طور پر بھی حظ اٹھا سکتے ہیں۔

(ویسے آپس دی گل اے ، یہ شعر ترکی کے نہیں فارسی کے ہیں ہاہاہاہاہاہاہ)‌

عقل مند را اشارا کافی است۔ اسی سے آپ کو خوب اندازہ ہو گیا ہو گا کہ فارسی اور ترکی ہر دو زبانوں میں ہم کتنے چست ہیں کہ یہی علم نہ ہو پایا کہ یہ ترکی ہے فارسی۔:)

ش زاد صاحب تو دوبارہ تشریف ہی نہ لائے اس دھاگے پر اور ہم نے ان کی غیر موجودگی میں اسے تختۂ مشق بنا رکھا ہے۔:rolleyes:
 

مغزل

محفلین
شین زاد کی یہی تو ادا ہے ، کہ بھڑوں کو چھیڑ کر فرار ہوجاتے ہیں اور خبر بھی نہیں لیتے ۔۔۔؎
( ارے ہاں آپ نے شخصی ہائیکو پڑھے ، محفل میں پوسٹ کیے ہیں آپ کا بھی دیکھ لیجیے گا ) والسلام
 

ش زاد

محفلین
بہت خوبصورت غزل ہے ش زاد صاحب، بہت اچھے اشعار ہیں، بہت داد قبول کریں۔

اور جیسا کہ اعجاز صاحب اور فاتح صاحب نے لکھا، 'طبع' غلط منظوم ہو گیا ہے، اگر یہ 'طبّعِ' ہوتا تو وزن ٹھیک تھا اور آپ نے شاید اس کو مشدد کر کے ہی باندھا ہے لیکن افسوس کہ یہ لفظ بغیر تشدید کے ہے، اگر ہو سکے تو مصرع پھر کہہ لیں۔

والسلام

حضور کا اِقبال بلند ہو
بہت شکریہ وارث بھائی
تازہ مصرع ہوا ہے اب دیکھیئے
 
Top