قرۃ العین طاہرہ

حسان خان

لائبریرین
اصلی نام زرّین تاج ہے۔ حاجی ملا محمد صالح قزوینی کی بیٹی تھی، جو ایران کے نامور علماء کے خاندان کا ایک معزز رکن تھا۔ اس کا زمانہ انیسویں صدی عیسوی کے اوائل سے تعلق رکھتا ہے۔ ملا صالح ایک مشہور فقیہ تھا اور اس کے گھرانے کے لوگ بڑے بڑے عالم و فاضل تھے۔ اس کا بھائی حاجی ملا محمد تقی (قرۃ العین کا چچا) قزوین کا مجتہد تھا، جس کی عزت و عظمت کا سکہ چاروں طرف ملک میں پھیلا ہوا تھا۔ ملا محمد تقی کا بیٹا ملا محمد بہت بڑا عالم تھا اور علمی دنیا میں نہایت ممتاز درجہ رکھتا تھا۔ غرض قرۃ العین ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئی جس کا گھر بھر عالم و فاضل تھا۔ اس لیے منجملہ اُن قابلیتوں اور قوتوں کے جو فطرت نے نہایت فیاضی سے اس خاتون کے دماغ میں ودیعت کی تھیں، اس کی عالی خاندانی نے بھی اس کی ترقیات میں بہت کچھ مدد دی۔
قرۃ العین کو علم سے ایک طبعی مناسبت تھی اور اُس پر اُس کی بے نظیر غور و خوض کی عادت، علم کا بے حد شوق اور حصولِ علم میں سخت محنت و کوشش نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ برخلاف عام طبیعتوں کے، بچپن سے علمی چرچوں کے سوا اسے اور کوئی شغل نہیں تھا۔ قاعدے کی بات ہے کہ جب چند علم دوست اشخاص ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو ضرور علمی مباحثے چھڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح جب قرۃ العین کے عزیز و اقارب ایک جگہ جمع ہو جاتے تو اسی قسم کے علمی تذکرے اور مباحثے ہوتے۔ قرۃ العین ان میں نہایت شوق سے شریک ہوتی اور نہایت غور سے ان باتوں کو سنتی۔
اس کا عالم باپ اور فاضل چچا جو اس کی ہونہار طبیعت سے خوب واقف تھے اور اس کی دماغی ترقی کو نہایت پیار و محبت سے دیکھتے تھے، اسے اس قسم کے مباحثوں میں حصہ لینے اور اپنی رائے دینے کا ضرور موقع دیتے۔ اس کے نفیس اور پاکیزہ دلائل نہایت وقعت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے اور بجائے خود اس قدر بے نظیر ہوتے کہ پھر کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔
حصولِ علم و فضل میں اس کی ان تھک کوششوں کا نیک قابلِ تعریف نتیجہ بہت جلد برآمد ہوا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس نے وہ حیرت انگیز ترقی کی کہ اُس کے خداداد حُسن اور عصمت و حیا کے ساتھ اس کی علمی واقفیت اور قابلیت و بلند خیالی کا شہرہ تمام شہرِ قزوین میں ہو گیا۔ اور یہ خاندان کی سرتاج اور شہرِ قزوین کی مایۂ ناز و افتخار سمجھی جانے لگی۔ سچ یہ ہے کہ قرۃ العین نہ صرف اپنے خاندان اور اپنے ملک کی موجبِ افتخار سمجھی جانے کے قابل ہے، بلکہ یہ حسین، باحیا، عصمت مآب اور عالم و فاضل خاتون تمامی عورات ذات کے لیے مایۂ نازش اور وجہِ تفاخر ہے۔ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بنی نوعِ انسان کو اس معزز بی بی کی برگزیدہ ذات پر فخر و ناز ہے۔
اسی زمانے میں قرۃ العین کی شادی ملا محمد سے، جو حاجی ملا محمد تقی کا بیٹا اور قرۃ العین کا چچیرا بھائی تھا، ہوئی۔ لیکن افسوس کہ اس باہمی مناکحت کا انجام اچھا نہیں ہوا جس کا ذکر آگے آئے گا۔
قرۃ العین کے علمی مشاغل بدستور اُسی جوش و خروش کے ساتھ جاری تھے اور وہ ہمیشہ انہیں اشغال میں مستغرق رہتی تھی۔ بلکہ اب مذہبی اور علمی امور میں اس کی دلچسپی بہت کچھ بڑھ گئی تھی۔ لیکن اب اُس کی زندگی میں بہت بڑا تغیر واقع ہونے کو تھا۔ اور ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہونے کا وقت آ چکا تھا۔ انہیں دنوں میں اُسے خبر ملی کہ ایک نوجوان شیرازی مرزا علی محمد نے مہدویت کا دعویٰ کیا ہے اور ایک انبوہِ کثیر اُس کا پیرو ہو گیا ہے۔ اس نے بھی مرزا علی محمد سے، جس نے اپنا لقب باب اختیار کیا تھا، سلسلۂ خط و کتابت قائم کیا اور چند ہی روز کی خط و کتابت کے بعد باب کی تعلیم کو سچے دل سے قبول کر لیا۔ اور صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ اس کی اشاعت و ترویج میں بے دریغ کوشش شروع کر دی۔ یہاں تک کہ اسی غرض سے اس نے سفر اختیار کیا اور کھلم کھلا بڑے دھڑلے سے وعظ کہنے لگی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں نہایت اختصار سے یہ بیان کر دینا کہ مرزا علی محمد باب کون تھا؟ اس نے مہدویت کا دعویٰ کیسے کیا؟ اس کی تعلیم کیا تھی؟ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔
مرزا علی محمد کا باپ تجارت کا پیشہ کرتا تھا اور اپنے وطن شیراز میں نہایت کامیاب تاجر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ظالم موت نے اسے اس بات کی مہلت نہ دی کہ اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کر سکتا۔ اس کے بے وقت مر جانے اور اچانک سر سے باپ کا سایۂ عاطفت اٹھ جانے سے مرزا علی محمد کی، جو بہت ہی کمسن تھا، اُس کے ماموں نے پرورش کی۔ نہایت جاں کاہی و دل دہی سے اس کی تربیت کرنے کے بعد جب یہ شعور کو پہونچا، ماموں نے اس کے آبائی پیشے تجارت میں اسے لگا دیا۔ لیکن اس کی طبیعت کو اس پیشے کے ساتھ کچھ بھی مناسبت نہ تھی اس لیے وہ اس میں نہایت بد دلی سے کچھ دنوں مشغول رہنے کے بعد شیراز سے چل کھڑا ہوا اور سیدھا کربلا پہونچا۔
یہاں حاجی سید کاظم کا، جو شیخ احمد احسائی بانیِ فرقۂ شیخیہ کے جانشین تھے، بڑا شہرہ تھا اور ان کے علم و فضل کا ہر طرف چرچا تھا۔ ان کے درسوں میں شریک ہونے کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے۔ اور بڑے بڑے عالم اس نامور بزرگ کے خوانِ علم کے زلّہ خوار تھے۔ مرزا علی محمد نے ان سے شرفِ ملاقات حاصل کی اور اس عالمِ متبحر کے شاگردوں کے زمرے میں شامل ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد حاجی سید کاظم نے اس جہانِ فانی سے رحلت کی اور مرزا علی محمد کو شیراز واپس جانا پڑا۔
حاجی سید کاظم کے شاگرد اب اس تشویش میں تھے کہ کسے اس بزرگ سید کا جانشین بنائیں۔ یہ لوگ اسی تردد میں سرگردان تھے اور مرحوم کا کوئی قابل جانشین نہیں ملتا تھا۔
انہیں دنوں میں اتفاقاً ملا حسین بشروی کو، جو حاجی سید کاظم کا شاگردِ رشید تھا، شیراز جانا پڑا اور یہاں مرزا علی محمد سے اُس کی ملاقات ہوئی۔ سلسلۂ گفتگو میں اپنے استاد کے جانشین کے تقرر کا ذکر آیا۔ مرزا علی محمد نے ملا بشروی سے اُن تمام باتوں کو پوچھنے کے بعد، جو ایسے شخص میں ہونی چاہییں، اپنے آپ کو اس عہدے کے لیے پیش کیا۔ اولاً تو ملا بشروی کو حیرت ہوئی کیونکہ جس زمانے میں مرزا علی محمد کربلا میں تھا اس کی لیاقت نہایت معمولی تھی۔ لیکن جب اُس نے دعوے کے ثبوت میں اپنی ایک نئی تصنیف پیش کی اور بہت عمدگی سے ملّا کے ہر سوال کا معقول اور تشفی بخش جواب دیا تو ملّا کو اُس کی اس حیرت انگیز ترقی پر نہایت استعجاب ہوا۔ اُسی وقت اُس نے مرزا کو اس کی لیاقت و قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے حاجی کاظم کا جانشین تسلیم کر لیا۔ اور اپنے رفقا کو اس کی خبر کر دی۔ جنہوں نے بہ اتفاق مرزا علی محمد کو اپنے بزرگ استاد کا جانشین اور اپنا پیر و مرشد تسلیم کیا۔
اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد مرزا علی محمد نے مہدویت کا دعویٰ کیا اور نہ صرف اسی پر اکتفا کی بلکہ اپنا لقب باب اختیار کر کے ایک نئی شریعت تیار کی۔ اور ایک نئی تعلیم پھیلانے لگا۔ وہ کہتا تھا کہ انسان کی ہدایت و رہبری کے لیے 'مشیتِ اولیٰ' کو ہمیشہ کسی نہ کسی انسانی صورت میں حلول کرنا پڑا ہے۔ اور وہی صورتیں پیغمبر کہلائی ہیں۔ حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد ص تک جتنے پیغمبر گذرے ہیں اگرچہ ہم انہیں جدا جدا تصور کرتے ہیں اور ان کی صورتیں بھی مختلف تھیں لیکن فی الحقیقت وہ سب ایک تھے۔ اور 'مشیتِ اولیٰ' ہی ان مختلف صورتوں کے ذریعے سے بولتی تھی۔ اسی طرح اس کے اخیر ظہور حضرت محمد ص کے ۱۲۷۰ برس بعد 'مشیتِ اولیٰ' نے میرزا علی محمد باب میں حلول کیا ہے اور اب اس کے ذریعے سے بولتی ہے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہے گا اور ان ظہوروں کی کوئی انتہا نہیں۔ جس طرح ہر ظہور کے وقت آیندہ ظہور کی خبر دی گئی ہے اسی طرح حضرت محمد صلعم نے باب کے متعلق مسلمانوں کو آگاہ کر دیا ہے اور یہ بشارت دی ہے کہ ان کے بعد امام مہدی آنے والا ہے۔ حضرت محمد صلعم کی پیشین گوئی کے موافق اب اس کا ظہور ہو گیا ہے اور وہ مرزا علی محمد باب شیرازی ہے۔
مرزا علی محمد نے اپنے دعویِٰ رسالت کی صداقت کے لیے ایک کتاب بیان قرآنِ مجید کے جواب میں پیش کی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ جس طرح قرآنِ شریف محمد صلعم کی رسالت کی دلیل ہے، اسی طرح بیان باب کے دعوے کی صداقت کا کافی ثبوت ہے۔ اس نئی تعلیم نے، جس کا ہم نے نہایت ہی اختصار سے یہاں ذکر کیا ہے، ملک میں ہل چل پیدا کر دی۔ تمام ملکِ ایران میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ اکثر اس کے رفقا اور شاگرد اس سے پھر گئے اور مخالفت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ لوگ اس کے خون کے پیاسے ہو گئے اور اسے اور اس کے ساتھیوں کو سخت سخت ایذائیں پہونچانے لگے۔
قزوین کا مجتہد حاجی ملا محمد تقی اس کا بہت بڑا زبردست مخالف تھا۔ ملا تقی کو پہلے ہی سے شیخ احمد احسائی اور اُس کے مقلدین سے نفرت تھی۔ اب جبکہ اُس نے اسی فرقے کے ایک آدمی کو اتنے بڑے بڑے حیرت انگیز دعوے کرتے ہوئے دیکھا تو اس کی دلی حقارت اور نفرت میں اور اضافہ ہو گیا۔ باب کے خیالات کا وہ سخت مخالف تھا اور اُس کو اور اس کے ساتھیوں کو کافر کہتا تھا۔
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ایسے خاندان میں، جس کے افراد کسی خاص فرقے یا خیال کے سخت دشمن ہوتے ہیں، ایک ایسا شخص پیدا ہوتا ہے جو اُسی خیال کا بہت بڑا حامی اور موئد ہوتا ہے۔ اسی طرح حاجی محمد تقی کے خاندان میں، جو باب اور اُس کی تعلیم کا بہت برا دشمن اور بابیوں اور شیخیوں سے سخت نفرت کرنے والا تھا، قرۃ العین پیدا ہوئی۔
باب کے دعویِ مہدویت و رسالت کرنے کے بہت پہلے حاجی سید کاظم کی زندگی میں وہ ایک بار کربلا گئی تھی، جہاں اس نے اس عالمِ متبحر اور اس کے بڑے بڑے شاگردوں سے ملاقات کی اور ان لوگوں کی علمی مجالس میں شریک ہوئی تھی۔ حاجی کاظم کے انتقال کے بعد جب اس بزرگ کے شاگرد اس تشویش و پریشانی میں تھے کہ کسے اپنے استاد کا جانشین قرار دیں، قرۃ العین نے حاجی کاظم کے شاگردِ رشید ملا حسین بشروی کو، جس سے کربلا میں شناسائی ہو گئی تھی، خط لکھا کہ جب وہ اپنی تلاش میں کامیاب ہوں اور کوئی مرشدِ کامل ملے تو ضرور مطلع کریں۔
اسی اثنا میں جب ملا بشروی نے شیراز کا سفر کیا اور میرزا علی محمد سے ملاقات کی اور اسے اپنا پیر و مرشد اور اپنے بزرگ استاد کا جانشین تسلیم کیا، جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، تو اُس نے فوراً قرۃ العین کو خبر کی کہ جس بزرگ کے ہم منتظر تھے اور جس کی تلاش میں سرگردان تھے اُسے پا لیا۔ اس کے ساتھ ہی ملا حسن بشروی نے قرۃ العین کا خط باب کو بتلایا جس نے اس معزز خاتون کی لیاقت اور قابلیت، علم و فضل، مذہبی اور علمی امور سے دلچسپی کی، جس کا اس خط سے بخوبی پتہ چلتا تھا، نہایت تعریف کی اور اُسے اپنے اصحاب میں شامل کیا۔
اس کے بعد جب میرزا علی محمد نے مہدویت کا دعویٰ کیا اور صرف دعویِ مہدویت ہی پر اکتفا نہ کر کے اس سے بھی آگے قدم بڑھایا یعنی رسالت کا دعویٰ کرنے لگا، اُس وقت قرۃ العین کا اس سے سلسلۂ خط و کتابت قائم ہو چکا تھا۔ قرۃ العین نے اس نئی تعلیم اور نئی شریعت کو بہ دل و جان قبول کر لیا اور اس کی بے حد دلدادہ اور اس کی اشاعت و ترویج میں نہایت جوش سے کوشاں ہو گئی۔ ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ اس نے اسی غرض سے گھر بار تک چھوڑا اور اس نئے مذہب کے پھیلانے میں ہمہ تن مستغرق ہو گئی۔
سب سے پہلے وہ اس غرض سے کربلا گئی اور وہاں اپنی خداداد فصاحت اور لیاقت کے وہ کرشمے دکھلائے کہ ہر روز اس کے لکچر سننے کو ایک مجمعِ کثیر جمع ہو جاتا اور روزانہ بہت سے لوگ اس نئی تعلیم اور شریعت کے دائرے میں داخل ہونے لگے۔ علمائے شہر نے حاکم کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور شکایت کی کہ یہ نوجوان عورت کربلا میں کفر پھیلا رہی ہے اور اپنی فصاحتِ خداداد اور اپنے حسنِ دلاویز سے شہر کے نوجوانوں کو ورغلان کر گمراہ کر رہی ہے۔ گورنر نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ قرۃ العین کو پہلے ہی سے اس کی خبر مل گئی، اور وہ اُسی وقت کربلا سے بغداد روانہ ہو گئی۔
بغداد پہنچ کر اولاً وہ مفتی سے ملی اور اپنے خیالات نہایت عمدگی سے بیان کیے اور اپنا بغداد آنے کا مقصد بھی ظاہر کیا۔ مفتی نے بغداد کے گورنر سے اس بارے میں رائے طلب کی اور بہ اتفاق یہ طے پایا کہ اس کے بارے میں گورنمنٹ سے اجازت لی جائے۔ سلطنتِ عثمانیہ نے اس بات کی اجازت نہیں دی۔ لہٰذا قرۃ العین کو مجبوراً بصد مایوسی بے نیلِ مرام بغداد سے واپس ہونا پڑا۔
اس جوانمرد پُرجوش خاتون نے ہمت نہ ہار کر ہمدان کا قصد کیا اور نہایت جوش و خروش سے اپنے مشن کو جاری رکھا۔ ہمدان میں بھی اس کے لکچر بے اثر نہ رہے اور ایک معقول جماعت کو، جس میں اکثر بڑے بڑے عالم تھے، بابی بنا لیا۔
میرزا علی محمد اس کی ان تمام بے نظیر ان تھک کوششوں اور ان کے نتائج سے نہایت خوش ہوا۔ اور جب بعض کم فہم اور کوتاہ اندیش بابیوں نے اس سے استفسار کیا کہ آیا ایک عورت کا اس طرح وعظ کرنا اور کھلم کھلا لکچر دینا اچھا ہے، تو اُس نے نہایت جوش سے اس کی تعریف کی اور اس کو جنابِ طاہرہ کے معزز لقب سے ملقب فرمایا۔ چنانچہ اب تک وہ اسی نام سے بابیوں میں یاد کی جاتی ہے۔
ہمدان سے قزوین واپس آنے کے بعد قرۃ العین کو ایک ایسا بڑا خیال پیدا ہوا جس سے اس جوانمرد عورت کی اولوالعزمی، ہمت، جوش اور جرات کا کسی قدر پتہ چلتا ہے۔ اُس نے قصد کیا کہ طہران جا کر محمد شاہ، شاہِ ایران کو بابی بنا لے۔ اس عظیم الشان ارادے سے وہ قزوین سے طہران روانہ ہو گئی۔ ابھی وہ طہران نہیں پہنچی تھی کہ اس بات کی خبر حاجی محمد صالح (قرۃ العین کے باپ) کو ہو گئی۔ اُس نے فوراً بہت سے آدمی بھیجے تاکہ وہ قرۃ العین کو راستے ہی سے لوٹا لیں۔ یہ لوگ بڑی ہی مشکل سے اسے قزوین واپس لائے۔
ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ قرۃ العین کا خاندان فرقۂ بابیہ کا سخت مخالف تھا، اس لیے قرۃ العین کی ان کارروائیوں نے اُس کے تمامی خویش و اقارب کو اُس سے برانگیختہ کر دیا۔ اُس کے عزیز اس سے برگشتہ ہو گئے اور وہ جو اب تک اپنے خاندان کا گلِ سرسبد تھی، کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی۔ یہاں تک کہ اُس کو اپنے شوہر ملا محمد سے، جو اس کا چچا زاد بھائی تھا، قطعِ تعلق کر لینا پڑا۔
انہیں دنوں میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے قرۃ العین کا قزوین میں رہنا دوبھر ہو گیا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ مجتہدِ قزوین ملا محمد تقی، قرۃ العین کا چچا، شروع ہی سے باب کا اور اس کی تعلیم کا سخت مخالف تھا۔ لیکن جب اس کی پیاری بھتیجی اور عزیز بہو خود بابیوں کے زمرے میں شامل ہو گئی اور نہایت جوش سے مذہبِ باب کی اشاعت میں سعیِ بلیغ کرنے لگی تو اس کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی۔
جب وہ خیال کرتا تھا کہ خود اُس کے خاندان کی ایک لائق فائق عالم اور فاضل خاتون، جو اُس کی آنکھوں کا تارا اور خاندان کی سرتاج تھی، باب کی تعلیم کو قبول کرتی ہے اور کفر و الحاد کے پھیلانے میں اس کی شریکِ غالب ہو گئی ہے تو وہ آپے سے باہر ہو جاتا تھا اور جب اس کو اس کی عزیز از جان بہو اور بھتیجی کی خداداد قابلیت اور لیاقت کا خیال آتا کہ ہائے اس کے خاندان کا ایک بیش بہا زیور مفت ہاتھ سے جاتا رہا ہے تو دنیا اُس کی آنکھوں میں تاریک ہو جاتی اور وہ خوں کے آنسو رونے لگتا۔ اس کی بے خودی اور از خود رفتگی اور غضب و غصہ یہاں تک ترقی کر گیا کہ وہ عام طور پر باب اور شیخ احمد احسائی پر لعنت بھیجنے لگا۔ بابی اس کی اس ناپسندیدہ حرکت سے سخت برافروختہ ہو گئے اور اس کے قتل کے درپے ہو گئے۔
۱۸۴۸ء میں ایک روز موقع پا کر میرزا صالح نے تین چار اور بابیوں کی شرکت سے قزوین کی ایک مسجد میں ملا محمد تقی کو قتل کر ڈالا۔ اس جرم میں کئی بابی ماخوذ ہوئے اور قتل کیے گئے۔ میرزا صالح قید میں سے بھاگ گیا۔ ملا محمد نے اپنے باپ کے قتل کا الزام قرۃ العین پر لگایا۔ اس لیے وہ گرفتار کر لی گئی۔ لیکن تحقیقات میں وہ سراسر بے جرم اور بالکل بے خطا ثابت ہوئی اور رہا کر دی گئی۔ اس الزام سے بری ہونے کے بعد اسے قزوین میں رہنا ناممکن معلوم ہونے لگا اس لیے اُس نے اپنے پیارے وطن کو چھوڑنے پر آمادہ ہو کر خراسان کا قصد کیا۔
خراسان میں چند روز رہنے کے بعد وہ بدشت گئی اور وہاں سے مازندران پہنچی۔ اپنے نئے مذہب کی ترویج و اشاعت کا جوش اُسے ایک جگہ دم نہیں لینے دیتا تھا اور بعض جگہ ہمتوں کو پسپا کرنے والی مخالفتیں اُسے ٹھیرنے نہیں دیتی تھیں۔ بالمختصر وہ کچھ دن اس شہر میں، کچھ روز اس قصبے میں گذارتی اور وعظ کرتی پھرتی تھی کہ اُنہیں دنوں میں شاہی فوج اور بابیوں میں لڑائی شروع ہوئی۔ اس نے دورانِ جنگ میں نور میں رہنا پسند کیا اور لڑائی کے اختتام تک وہیں بہ اطمینان رہی۔
جنگ کے ختم ہونے کے بعد نور کے باشندوں نے اُسے حکام کے سپرد کر دیا، جنہوں نے قرۃ العین کو پا بہ زنجیر طہران بھیج دیا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جبکہ وہ ایک عظیم الشان ارادے سے طہران چلی تھی اور اس کے باپ نے بہ ہزار منت و سماجت واپس بلایا تھا۔ اُس وقت وہ آزاد تھی لیکن اب وہ اسی بادشاہِ مرحوم کے فرزند شاہ ناصرالدین قاچار کے دربار میں ایک قیدی اور مجرم کی حیثیت سے پا بہ زنجیر شاہی گارڈ کی حراست میں پیش ہوئی۔
شاہِ ایران کو اس کی حالتِ زار پر رحم اور اُس کے حسن و جمال پر ترس آیا۔ لہٰذا اُس نے اس جمالِ صوری و معنوی سے آراستہ و پیراستہ خاتون کو بہت پیار و ہمدردی کی نگاہوں سے دیکھ کر فرمایا کہ مجھے اس کی صورت بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اسے چھوڑ دو۔ لیکن چونکہ بابیوں اور شاہی افواج میں لڑائی ہو کر کوئی زیادہ دن نہیں گذرے تھے اس لیے احتیاطاً قرۃ العین کوتوالِ شہر محمد خاں کلانتر کی حفاظت میں رکھی گئی۔ اور ایک عرصے تک وہیں رہی۔ وہ یہاں کسی سخت قید میں نہ تھی بلکہ اکثر بابی مختلف طریقوں سے اس سے ملتے رہتے تھے۔
وہ یہاں بھی اپنے کام سے غافل نہیں رہتی تھی اور اکثر اوقات جب کبھی شہر کی عورتیں کوتوال کے گھر میں کسی تقریب کا جشن میں جمع ہوتیں، قرۃ العین اپنی پُرزور فصیح تقریر شروع کر دیتی اور سبھوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی۔ اس کا وعظ ایسا دلچسپ اور اس کا لکچر ایسا دلکش ہوتا کہ تمام سامعین پر محویت کا عالم طاری ہو جاتا۔ خدائے تعالیٰ نے اُس کے بیان میں وہ طاقت اور زور عنایت فرمایا تھا کہ جب تک وہ لکچر دیتی، حاضرین اپنے آپے کو بھی بھول جاتے لیکن افسوس اُسے یہاں بھی قرار نہ ملا اور وہ چین سے نہ رہ سکی۔
انہیں دنوں میں ایک نہایت خوفناک واقعہ پیش آیا جس سے بابیوں پر مصیبتوں کی گھٹا چھا گئی۔ تمام ملکِ ایران میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ بابیوں کے مصائب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اس فرقے کے سر پر ایک بڑی آفت آئی اور بابیوں کی بربادی کے آثار نظر آنے لگے۔ اس افسوسناک حادثے کا اثر یہاں تک پہنچا کہ بابی ہونا سخت جرم سمجھا جانے لگا۔
وہ ہوش ربا سانحہ یہ تھا کہ ۱۸۵۲ء میں ۱۵ اگست اتوار کے روز صبح کے وقت شاہ ناصرالدین جو اس وقت نیاوران میں، جو کوہِ البرز کے دامن میں واقع ہے، فروکش تھے شکار کے قصد سے گھوڑے پر سوار باہر نکلے۔ تھوڑی دور جانے کے بعد تین شخص عرضی دینے کے حیلے سے شاہ کے پاس آئے اور قریب پہنچ کر ایک نے پستول چلایا جو خالی گیا۔ دوسرے نے شاہِ موصوف کو گھوڑے پر سے نیچے گرا دیا اور چاہتا تھا کہ گلا کاٹ ڈالے کہ شاہی ملازمین نے پہنچ کر پُھرتی سے قاتل ہی کا سر اُڑا دیا اور بادشاہ کو موت کے منہ سے چھڑا لیا۔ جس نے شاہ کو زمین پر دے مارا تھا اور قتل کیا چاہتا تھا وہ فتح اللہ بابی تھا اس لیے فوراً احکام جاری کیے گئے کہ تمام بابی گرفتار کر لیے جائیں اور اس فرقے اور اس خیال کے جتنے آدمی، کیا مرد اور کیا عورت، کیا بچے اور کیا بوڑھے، بلا امتیاز سب یک دم گرفتار کر لیے گئے۔
اب یہ قرار پایا کہ ان میں سے جو اس خیال سے تائب ہو جائے اور باب پر لعنت بھیجے وہ چھوڑ دیا جائے۔ اور جو ایسا کرنے میں پس و پیش کرے وہ بلا درنگ تلوار کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ ان قیدیوں میں خود باب اور بابیوں کے بڑے بڑے پیشوا موجود تھے۔ ان کے مصائب و آلام کی کوئی حد نہیں رہی تھی۔ طرح طرح کی تکلیفیں دی جاتی تھیں جسے یہ نامراد گروہ بہ خندہ پیشانی گوارا کر رہا تھا۔ لیکن اُن کے استقلال میں ذرہ بھر فرق نہ آتا تھا۔ وہ اپنے خیالات پر ثابت قدم تھے۔ وہ اس طرح مرنے کو قابلِ فخر سمجھتے تھے اور یوں اپنی عزیز زندگی منقطع کرنے اور جانِ شیریں سے ہاتھ دھونے میں انہیں ذرا دریغ نہ تھا۔
بیچاری قرۃ العین بھی اس اثر سے بہ حیثیت ایک پرجوش بابی ہونے کے بچ نہ سکی۔ اور بابیوں کے بڑے بڑے علماء کے ساتھ اسے بھی مندرجہ بالا غرض کے لیے دربارِ شاہی میں حاضر ہونا پڑا۔ جب محمد خاں کلانتر کو قرۃ العین کے پیش کرنے کا حکم ہوا، وہ خوش خوش اپنے گھر آیا اور قرۃ العین سے کہنے لگا کہ اب تمہاری رہائی کا زمانہ آ پہنچا۔ کل صبح کو تم دربارِ شاہی میں اپنے مذہب کے پیروؤں کے ساتھ پیش کی جاؤ گی۔ اور تم سے صرف یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا تم بابی ہو۔ اس پر صرف تمہارے 'نہیں' کہہ دینے سے تمہیں چھوڑ دیا جائے گا اور اتنا کہہ دینے میں کوئی نقصان سوائے سراسر فائدے کے نہیں ہو گا۔
قرۃ العین نے نہایت متانت سے جواب دیا کہ میں سمجھتی ہوں کہ کل کا دن مجھے اس سے بھی زیادہ مبارک اور نیک ہو گا جیسا کہ تم سمجھتے ہو، کیونکہ کل مجھے اپنی اس صداقت کا ثبوت دینے کا بہترین موقع ملے گا جو باب کی طرف سے میرے دل میں جلوہ افگن ہے۔ میں ضمیر کی آزادی کو، جو ایک غیر مترقبہ نعمت ہے، ترک کرنا نہیں چاہتی۔ میں موت سے نہیں ڈرتی بلکہ مجھے اس طرح مرنا دل سے پسند ہے۔ اگر میں ضمیر کے خلاف کام کروں اور تمہاری رائے پر عمل کروں تو یقیناً بچ جاؤں گی۔ لیکن مجھے یہ منظور نہیں۔ مجھے منظور ہے کہ ضمیر کی آزادی قائم رکھنے کے لیے اپنی قیمتی اور عزیز زندگی قربان کر دوں۔ اور اس کے بحال رکھنے کے لیے اپنی گراں قدر جان نثار کر دوں۔ لیکن مجھے یہ ہرگز منظور نہیں کہ اپنے ایمان کے خلاف کوئی کام کروں۔ محمد خاں نے بہتیرا سمجھایا لیکن اس کی ایک پیش نہ گئی اور وہ اولوالعزم عورت اپنے خیال پر ثابت قدم رہی۔
دوسرا روز آیا اور قرۃ العین محمد خاں کے ہاں سے اُس ستم رسیدہ گروہ میں پہنچا دی گئی جس کے ساتھ وہ دربارِ شاہی میں پیش ہوئی۔ وہاں اُس سے وہی سوال کیا گیا کہ کیا وہ بابی ہے۔ اس کا قرۃ العین نے نہایت بے باکانہ وہی جواب دیا جو وہ محمد خاں کلانتر کوتوالِ شہر سے ایک روز قبل کہہ چکی تھی اور نہایت فصاحت اور عمدگی سے اپنے عقائد بھی بیان کیے۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے نئے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی شروع کیں۔ اس کی قدرتی فصاحت جوش زن ہوئی اور دربار میں ایک سکتے کا عالم طاری ہو گیا۔ اس کا لکچر ایک دریائے فصاحت و بلاغت تھا جو بڑے زور و شور سے بے اختیار امڈا چلا آتا تھا۔ مجلس میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور سب لوگ ساکت تھے۔
اس کی تقریر کے ختم ہونے کے بعد بھی تھوڑی دیر تک یہی حالت رہی۔ آخر کار نہایت افسوس و رنج کے ساتھ مجبوراً اس کے قتل کا فتویٰ دیا گیا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ وہ جلا دی گئی۔ لیکن در حقیقت اُس کا گلا گھونٹ کر اُس کی لاش باغِ ایلخانی کے اندھے کنوئیں میں ڈال دی گئی اور اوپر سے پتھر بھر دیے گئے۔
یوں اس لائق، ہوشیار، ثابت قدم اور خوبصورت خاتون کی زندگی کا خاتمہ ہوا۔ گو اس کی موت نہایت ہیبت ناک تھی مگر وہ اپنی اس بہادرانہ موت سے دنیا کو ایک اعلیٰ درجے کی شجاعت و جوانمردی کا نمونہ دکھلا گئی۔ اس کی ایسی افسوس ناک موت نے اُس کے فضائل پر کوئی پردہ نہیں ڈالا بلکہ اُس سے اس کی عظمت اور عزت اور بھی دوبالا ہو گئی۔ اس معزز اور فخرِ بنی نوعِ انسان خاتون کی قابلیت اور خوبی کی دنیا میں ہمیشہ یادگار رہے گی۔ اور اس جوانمرد عورت کا نام ہمیشہ دلی عظمت کے ساتھ لیا جائے گا۔ لوگ اس کی ہمت و استقلال اور اس کی لیاقت و قابلیت کے ثنا خواں رہیں گے اور اس کے کارناموں کو دیکھ کر وجد کریں گے۔
فطرت نے قرۃ العین کو نہایت فیاضی سے جہاں جمالِ صوری و معنوی سے ہر طرح آراستہ فرمایا تھا اور بے نظیر قابلیت و لیاقت، برگزیدہ صفات، بڑی بڑی خوبیاں عنایت فرمائی تھیں وہاں اسے شاعرانہ طبیعت بھی عطا فرمائی تھی۔ لیکن افسوس کہ اس کا کلام بالکل تلف ہو گیا۔ ہم ذیل میں اس کی تین غزلیں درج کرتے ہیں جو بہ ہزار کوشش ہاتھ آئی ہیں۔

جذبات شوقک الجمت بسلاسل الغم والبلا
همه عاشقان شکسته دل که دهند جان به ره ولا
اگر آن صنم ز سر ستم پی کشتن من بی‌گناه
لقد استقام بسیفه فلقد رضیت بما رضیٰ
سحر آن نگار ستمگرم قدمی نهاده به بسترم
واذا رایت جماله طلع الصباح کانما
نه چو زلف غالیه بار او نه چو چشم فتنه شعار او
شده نافه‌ای به همه ختن، شده کافری به همه خطا
تو که غافل از می و شاهدی پی مرد عابد و زاهدی
چه کنم که کافر جاحدی ز خلوص نیت اصفیا
به مراد زلف معلّقی پی اسپ و زین مغرّقی
همه عمر منکر مطلقی ز فقیر فارغ بی‌نوا
بگذر ز منزل ما و من بگزین به ملک فنا وطن
فاذا فعلت بمثل ذا فلقد بلغت بما تشا

لمعات وجهک اشرقت وشعاع طلعتک اعتلا
ز چه رو الست بربکم نزنی بزن که بلیٰ بلیٰ
به جواب طبل الست تو ز ولا چه کوس بلا زدند
همه خیمه زد به در دلم سپه غم و حشم بلا
من و عشق آن مه خوب رو که چو زد صدای بلا بر او
به نشاط و قهقهه شد فرو که انا الشهید بکربلا
چو شنید نالهٔ مرگ من پی ساز من شد و برگ من
فمشی الیّ مهرولا و بکیٰ علیّ مجلجلا
چه شده که آتش حیرتی نزنم به قلهٔ طور دل
فسککته ودککته متدکدکاً متزلزا
پی خوان دعوت عشق او همه شب ز خیل کروبیان
رسد این صفیر مهیمنی که گروه غمزده الصلا
تو که فلس ماهی حیرتی چه زنی ز بحر وجود دم
بنشین چو طاهره دمبدم بشنو خروش نهنگ لا

گر به تو افتدم نظر دیده به دیده رو به رو
شرح دهم غم ترا نکته به نکته مو به مو
از پی دیدن رخت همچو صبا فتاده‌ام
خانه به خانه در به در کوچه به کوچه کو به کو
دور دهان تنگ تو عارض عنبرین خطت
غنچه به غنچه گل به گل لاله به لاله بو به بو
مهر ترا دل حزین بافته بر قماش جان
بخیه به بخیه نخ به نخ رشته به رشته پو به پو
می‌رود از فراق تو خون دل از دو دیده‌ام
دجله به دجله یم به یم چشمه به چشمه جو به جو
در دل خویش طاهره گشت و ندید جز وفا
صفحه به صفحه لا به لا پرده به پرده تو به تو

(نویسندہ: سید خورشید علی)
(اسلم جیراج پوری کی مرتب کردہ کتاب 'خواتین' سے مقتبس)
 
آخری تدوین:
بہائی پبلشنگ ٹرسٹ، بہائی ہال کراچی نے ’’قرۃ العین طاہرہ‘‘ کے نام سے کتاب چھاپ جس میں طاہرہ کی بیس غزلیں اور کچھ منظوم کلام پیش کیا ہے۔ صاحبِ مراسلہ کی اجازت ہوتو ہم وہ غزلیں یہاں پیش کریں؟
 
غزل
(قرۃ العین طاہرہ)
ترجمہ :محمد خلیل الرحمٰن


گر مجھے حاضری ملے، ’’چہرہ بہ چہرہ، رُو بہ رُو‘‘
غم تیرا میں بیاں کروں، ’’نکتہ بہ نکتہ ، مُو بہ مُو‘‘


دِل میں تِری تڑپ لیے، مثلِ صبا میں یوں پھروں
’’خانہ بہ خانہ، در بہ در، کوچہ بہ کوچہ، کُو بہ کُو‘‘


تیرے فِراق میں مِری آنکھوں سے ہے رواں دواں
’’دجلہ بہ دجلہ ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ ، جُو بہ جُو‘‘


عارِض و لب کے دائرے، تیرے یہ عنبریں خطوط
’’غنچہ بہ غنچہ ، گُل بہ گُل، لالہ بہ لالہ، بُو بہ بُو‘‘


گھائل کیا مجھے ترے ابرُو نے، چشم و خال نے
’’طبع بہ طبع ، دِل بہ دِل، مہر بہ مہر ، خُو بہ خُو‘‘


دِل نے مِرے تُجھے بُنا زیست کے دائروں میں یوں
’’رشتہ بہ رشتہ ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پُو بہ پُو‘‘


دِل میں مِرے، مِرے صنم کچھ بھی نہیں ترے سِوا
’’صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تُو بہ تُو‘‘

ربط
 
اصلی نام زرّین تاج ہے۔ حاجی ملا محمد صالح قزوینی کی بیٹی تھی، جو ایران کے نامور علماء کے خاندان کا ایک معزز رکن تھا۔ اس کا زمانہ انیسویں صدی عیسوی کے اوائل سے تعلق رکھتا ہے۔ ملا صالح ایک مشہور فقیہ تھا اور اس کے گھرانے کے لوگ بڑے بڑے عالم و فاضل تھے۔ اس کا بھائی حاجی ملا محمد تقی (قرۃ العین کا چچا) قزوین کا مجتہد تھا، جس کی عزت و عظمت کا سکہ چاروں طرف ملک میں پھیلا ہوا تھا۔ ملا محمد تقی کا بیٹا ملا محمد بہت بڑا عالم تھا اور علمی دنیا میں نہایت ممتاز درجہ رکھتا تھا۔ غرض قرۃ العین ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئی جس کا گھر بھر عالم و فاضل تھا۔ اس لیے منجملہ اُن قابلیتوں اور قوتوں کے جو فطرت نے نہایت فیاضی سے اس خاتون کے دماغ میں ودیعت کی تھیں، اس کی عالی خاندانی نے بھی اس کی ترقیات میں بہت کچھ مدد دی۔
قرۃ العین کو علم سے ایک طبعی مناسبت تھی اور اُس پر اُس کی بے نظیر غور و خوض کی عادت، علم کا بے حد شوق اور حصولِ علم میں سخت محنت و کوشش نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ برخلاف عام طبیعتوں کے، بچپن سے علمی چرچوں کے سوا اسے اور کوئی شغل نہیں تھا۔ قاعدے کی بات ہے کہ جب چند علم دوست اشخاص ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو ضرور علمی مباحثے چھڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح جب قرۃ العین کے عزیز و اقارب ایک جگہ جمع ہو جاتے تو اسی قسم کے علمی تذکرے اور مباحثے ہوتے۔ قرۃ العین ان میں نہایت شوق سے شریک ہوتی اور نہایت غور سے ان باتوں کو سنتی۔
اس کا عالم باپ اور فاضل چچا جو اس کی ہونہار طبیعت سے خوب واقف تھے اور اس کی دماغی ترقی کو نہایت پیار و محبت سے دیکھتے تھے، اسے اس قسم کے مباحثوں میں حصہ لینے اور اپنی رائے دینے کا ضرور موقع دیتے۔ اس کے نفیس اور پاکیزہ دلائل نہایت وقعت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے اور بجائے خود اس قدر بے نظیر ہوتے کہ پھر کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔
حصولِ علم و فضل میں اس کی ان تھک کوششوں کا نیک قابلِ تعریف نتیجہ بہت جلد برآمد ہوا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس نے وہ حیرت انگیز ترقی کی کہ اُس کے خداداد حُسن اور عصمت و حیا کے ساتھ اس کی علمی واقفیت اور قابلیت و بلند خیالی کا شہرہ تمام شہرِ قزوین میں ہو گیا۔ اور یہ خاندان کی سرتاج اور شہرِ قزوین کی مایۂ ناز و افتخار سمجھی جانے لگی۔ سچ یہ ہے کہ قرۃ العین نہ صرف اپنے خاندان اور اپنے ملک کی موجبِ افتخار سمجھی جانے کے قابل ہے، بلکہ یہ حسین، باحیا، عصمت مآب اور عالم و فاضل خاتون تمامی عورات ذات کے لیے مایۂ نازش اور وجہِ تفاخر ہے۔ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بنی نوعِ انسان کو اس معزز بی بی کی برگزیدہ ذات پر فخر و ناز ہے۔
اسی زمانے میں قرۃ العین کی شادی ملا محمد سے، جو حاجی ملا محمد تقی کا بیٹا اور قرۃ العین کا چچیرا بھائی تھا، ہوئی۔ لیکن افسوس کہ اس باہمی مناکحت کا انجام اچھا نہیں ہوا جس کا ذکر آگے آئے گا۔
قرۃ العین کے علمی مشاغل بدستور اُسی جوش و خروش کے ساتھ جاری تھے اور وہ ہمیشہ انہیں اشغال میں مستغرق رہتی تھی۔ بلکہ اب مذہبی اور علمی امور میں اس کی دلچسپی بہت کچھ بڑھ گئی تھی۔ لیکن اب اُس کی زندگی میں بہت بڑا تغیر واقع ہونے کو تھا۔ اور ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہونے کا وقت آ چکا تھا۔ انہیں دنوں میں اُسے خبر ملی کہ ایک نوجوان شیرازی مرزا علی محمد نے مہدویت کا دعویٰ کیا ہے اور ایک انبوہِ کثیر اُس کا پیرو ہو گیا ہے۔ اس نے بھی مرزا علی محمد سے، جس نے اپنا لقب باب اختیار کیا تھا، سلسلۂ خط و کتابت قائم کیا اور چند ہی روز کی خط و کتابت کے بعد باب کی تعلیم کو سچے دل سے قبول کر لیا۔ اور صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ اس کی اشاعت و ترویج میں بے دریغ کوشش شروع کر دی۔ یہاں تک کہ اسی غرض سے اس نے سفر اختیار کیا اور کھلم کھلا بڑے دھڑلے سے وعظ کہنے لگی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں نہایت اختصار سے یہ بیان کر دینا کہ مرزا علی محمد باب کون تھا؟ اس نے مہدویت کا دعویٰ کیسے کیا؟ اس کی تعلیم کیا تھی؟ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔
مرزا علی محمد کا باپ تجارت کا پیشہ کرتا تھا اور اپنے وطن شیراز میں نہایت کامیاب تاجر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ظالم موت نے اسے اس بات کی مہلت نہ دی کہ اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کر سکتا۔ اس کے بے وقت مر جانے اور اچانک سر سے باپ کا سایۂ عاطفت اٹھ جانے سے مرزا علی محمد کی، جو بہت ہی کمسن تھا، اُس کے ماموں نے پرورش کی۔ نہایت جاں کاہی و دل دہی سے اس کی تربیت کرنے کے بعد جب یہ شعور کو پہونچا، ماموں نے اس کے آبائی پیشے تجارت میں اسے لگا دیا۔ لیکن اس کی طبیعت کو اس پیشے کے ساتھ کچھ بھی مناسبت نہ تھی اس لیے وہ اس میں نہایت بد دلی سے کچھ دنوں مشغول رہنے کے بعد شیراز سے چل کھڑا ہوا اور سیدھا کربلا پہونچا۔
یہاں حاجی سید کاظم کا، جو شیخ احمد احسائی بانیِ فرقۂ شیخیہ کے جانشین تھے، بڑا شہرہ تھا اور ان کے علم و فضل کا ہر طرف چرچا تھا۔ ان کے درسوں میں شریک ہونے کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے۔ اور بڑے بڑے عالم اس نامور بزرگ کے خوانِ علم کے زلّہ خوار تھے۔ مرزا علی محمد نے ان سے شرفِ ملاقات حاصل کی اور اس عالمِ متبحر کے شاگردوں کے زمرے میں شامل ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد حاجی سید کاظم نے اس جہانِ فانی سے رحلت کی اور مرزا علی محمد کو شیراز واپس جانا پڑا۔
حاجی سید کاظم کے شاگرد اب اس تشویش میں تھے کہ کسے اس بزرگ سید کا جانشین بنائیں۔ یہ لوگ اسی تردد میں سرگردان تھے اور مرحوم کا کوئی قابل جانشین نہیں ملتا تھا۔
انہیں دنوں میں اتفاقاً ملا حسین بشروی کو، جو حاجی سید کاظم کا شاگردِ رشید تھا، شیراز جانا پڑا اور یہاں مرزا علی محمد سے اُس کی ملاقات ہوئی۔ سلسلۂ گفتگو میں اپنے استاد کے جانشین کے تقرر کا ذکر آیا۔ مرزا علی محمد نے ملا بشروی سے اُن تمام باتوں کو پوچھنے کے بعد، جو ایسے شخص میں ہونی چاہییں، اپنے آپ کو اس عہدے کے لیے پیش کیا۔ اولاً تو ملا بشروی کو حیرت ہوئی کیونکہ جس زمانے میں مرزا علی محمد کربلا میں تھا اس کی لیاقت نہایت معمولی تھی۔ لیکن جب اُس نے دعوے کے ثبوت میں اپنی ایک نئی تصنیف پیش کی اور بہت عمدگی سے ملّا کے ہر سوال کا معقول اور تشفی بخش جواب دیا تو ملّا کو اُس کی اس حیرت انگیز ترقی پر نہایت استعجاب ہوا۔ اُسی وقت اُس نے مرزا کو اس کی لیاقت و قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے حاجی کاظم کا جانشین تسلیم کر لیا۔ اور اپنے رفقا کو اس کی خبر کر دی۔ جنہوں نے بہ اتفاق مرزا علی محمد کو اپنے بزرگ استاد کا جانشین اور اپنا پیر و مرشد تسلیم کیا۔
اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد مرزا علی محمد نے مہدویت کا دعویٰ کیا اور نہ صرف اسی پر اکتفا کی بلکہ اپنا لقب باب اختیار کر کے ایک نئی شریعت تیار کی۔ اور ایک نئی تعلیم پھیلانے لگا۔ وہ کہتا تھا کہ انسان کی ہدایت و رہبری کے لیے 'مشیتِ اولیٰ' کو ہمیشہ کسی نہ کسی انسانی صورت میں حلول کرنا پڑا ہے۔ اور وہی صورتیں پیغمبر کہلائی ہیں۔ حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد ص تک جتنے پیغمبر گذرے ہیں اگرچہ ہم انہیں جدا جدا تصور کرتے ہیں اور ان کی صورتیں بھی مختلف تھیں لیکن فی الحقیقت وہ سب ایک تھے۔ اور 'مشیتِ اولیٰ' ہی ان مختلف صورتوں کے ذریعے سے بولتی تھی۔ اسی طرح اس کے اخیر ظہور حضرت محمد ص کے ۱۲۷۰ برس بعد 'مشیتِ اولیٰ' نے میرزا علی محمد باب میں حلول کیا ہے اور اب اس کے ذریعے سے بولتی ہے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہے گا اور ان ظہوروں کی کوئی انتہا نہیں۔ جس طرح ہر ظہور کے وقت آیندہ ظہور کی خبر دی گئی ہے اسی طرح حضرت محمد صلعم نے باب کے متعلق مسلمانوں کو آگاہ کر دیا ہے اور یہ بشارت دی ہے کہ ان کے بعد امام مہدی آنے والا ہے۔ حضرت محمد صلعم کی پیشین گوئی کے موافق اب اس کا ظہور ہو گیا ہے اور وہ مرزا علی محمد باب شیرازی ہے۔
مرزا علی محمد نے اپنے دعویِٰ رسالت کی صداقت کے لیے ایک کتاب بیان قرآنِ مجید کے جواب میں پیش کی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ جس طرح قرآنِ شریف محمد صلعم کی رسالت کی دلیل ہے، اسی طرح بیان باب کے دعوے کی صداقت کا کافی ثبوت ہے۔ اس نئی تعلیم نے، جس کا ہم نے نہایت ہی اختصار سے یہاں ذکر کیا ہے، ملک میں ہل چل پیدا کر دی۔ تمام ملکِ ایران میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ اکثر اس کے رفقا اور شاگرد اس سے پھر گئے اور مخالفت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ لوگ اس کے خون کے پیاسے ہو گئے اور اسے اور اس کے ساتھیوں کو سخت سخت ایذائیں پہونچانے لگے۔
قزوین کا مجتہد حاجی ملا محمد تقی اس کا بہت بڑا زبردست مخالف تھا۔ ملا تقی کو پہلے ہی سے شیخ احمد احسائی اور اُس کے مقلدین سے نفرت تھی۔ اب جبکہ اُس نے اسی فرقے کے ایک آدمی کو اتنے بڑے بڑے حیرت انگیز دعوے کرتے ہوئے دیکھا تو اس کی دلی حقارت اور نفرت میں اور اضافہ ہو گیا۔ باب کے خیالات کا وہ سخت مخالف تھا اور اُس کو اور اس کے ساتھیوں کو کافر کہتا تھا۔
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ایسے خاندان میں، جس کے افراد کسی خاص فرقے یا خیال کے سخت دشمن ہوتے ہیں، ایک ایسا شخص پیدا ہوتا ہے جو اُسی خیال کا بہت بڑا حامی اور موئد ہوتا ہے۔ اسی طرح حاجی محمد تقی کے خاندان میں، جو باب اور اُس کی تعلیم کا بہت برا دشمن اور بابیوں اور شیخیوں سے سخت نفرت کرنے والا تھا، قرۃ العین پیدا ہوئی۔
باب کے دعویِ مہدویت و رسالت کرنے کے بہت پہلے حاجی سید کاظم کی زندگی میں وہ ایک بار کربلا گئی تھی، جہاں اس نے اس عالمِ متبحر اور اس کے بڑے بڑے شاگردوں سے ملاقات کی اور ان لوگوں کی علمی مجالس میں شریک ہوئی تھی۔ حاجی کاظم کے انتقال کے بعد جب اس بزرگ کے شاگرد اس تشویش و پریشانی میں تھے کہ کسے اپنے استاد کا جانشین قرار دیں، قرۃ العین نے حاجی کاظم کے شاگردِ رشید ملا حسین بشروی کو، جس سے کربلا میں شناسائی ہو گئی تھی، خط لکھا کہ جب وہ اپنی تلاش میں کامیاب ہوں اور کوئی مرشدِ کامل ملے تو ضرور مطلع کریں۔
اسی اثنا میں جب ملا بشروی نے شیراز کا سفر کیا اور میرزا علی محمد سے ملاقات کی اور اسے اپنا پیر و مرشد اور اپنے بزرگ استاد کا جانشین تسلیم کیا، جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، تو اُس نے فوراً قرۃ العین کو خبر کی کہ جس بزرگ کے ہم منتظر تھے اور جس کی تلاش میں سرگردان تھے اُسے پا لیا۔ اس کے ساتھ ہی ملا حسن بشروی نے قرۃ العین کا خط باب کو بتلایا جس نے اس معزز خاتون کی لیاقت اور قابلیت، علم و فضل، مذہبی اور علمی امور سے دلچسپی کی، جس کا اس خط سے بخوبی پتہ چلتا تھا، نہایت تعریف کی اور اُسے اپنے اصحاب میں شامل کیا۔
اس کے بعد جب میرزا علی محمد نے مہدویت کا دعویٰ کیا اور صرف دعویِ مہدویت ہی پر اکتفا نہ کر کے اس سے بھی آگے قدم بڑھایا یعنی رسالت کا دعویٰ کرنے لگا، اُس وقت قرۃ العین کا اس سے سلسلۂ خط و کتابت قائم ہو چکا تھا۔ قرۃ العین نے اس نئی تعلیم اور نئی شریعت کو بہ دل و جان قبول کر لیا اور اس کی بے حد دلدادہ اور اس کی اشاعت و ترویج میں نہایت جوش سے کوشاں ہو گئی۔ ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ اس نے اسی غرض سے گھر بار تک چھوڑا اور اس نئے مذہب کے پھیلانے میں ہمہ تن مستغرق ہو گئی۔
سب سے پہلے وہ اس غرض سے کربلا گئی اور وہاں اپنی خداداد فصاحت اور لیاقت کے وہ کرشمے دکھلائے کہ ہر روز اس کے لکچر سننے کو ایک مجمعِ کثیر جمع ہو جاتا اور روزانہ بہت سے لوگ اس نئی تعلیم اور شریعت کے دائرے میں داخل ہونے لگے۔ علمائے شہر نے حاکم کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور شکایت کی کہ یہ نوجوان عورت کربلا میں کفر پھیلا رہی ہے اور اپنی فصاحتِ خداداد اور اپنے حسنِ دلاویز سے شہر کے نوجوانوں کو ورغلان کر گمراہ کر رہی ہے۔ گورنر نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ قرۃ العین کو پہلے ہی سے اس کی خبر مل گئی، اور وہ اُسی وقت کربلا سے بغداد روانہ ہو گئی۔
بغداد پہنچ کر اولاً وہ مفتی سے ملی اور اپنے خیالات نہایت عمدگی سے بیان کیے اور اپنا بغداد آنے کا مقصد بھی ظاہر کیا۔ مفتی نے بغداد کے گورنر سے اس بارے میں رائے طلب کی اور بہ اتفاق یہ طے پایا کہ اس کے بارے میں گورنمنٹ سے اجازت لی جائے۔ سلطنتِ عثمانیہ نے اس بات کی اجازت نہیں دی۔ لہٰذا قرۃ العین کو مجبوراً بصد مایوسی بے نیلِ مرام بغداد سے واپس ہونا پڑا۔
اس جوانمرد پُرجوش خاتون نے ہمت نہ ہار کر ہمدان کا قصد کیا اور نہایت جوش و خروش سے اپنے مشن کو جاری رکھا۔ ہمدان میں بھی اس کے لکچر بے اثر نہ رہے اور ایک معقول جماعت کو، جس میں اکثر بڑے بڑے عالم تھے، بابی بنا لیا۔
میرزا علی محمد اس کی ان تمام بے نظیر ان تھک کوششوں اور ان کے نتائج سے نہایت خوش ہوا۔ اور جب بعض کم فہم اور کوتاہ اندیش بابیوں نے اس سے استفسار کیا کہ آیا ایک عورت کا اس طرح وعظ کرنا اور کھلم کھلا لکچر دینا اچھا ہے، تو اُس نے نہایت جوش سے اس کی تعریف کی اور اس کو جنابِ طاہرہ کے معزز لقب سے ملقب فرمایا۔ چنانچہ اب تک وہ اسی نام سے بابیوں میں یاد کی جاتی ہے۔
ہمدان سے قزوین واپس آنے کے بعد قرۃ العین کو ایک ایسا بڑا خیال پیدا ہوا جس سے اس جوانمرد عورت کی اولوالعزمی، ہمت، جوش اور جرات کا کسی قدر پتہ چلتا ہے۔ اُس نے قصد کیا کہ طہران جا کر محمد شاہ، شاہِ ایران کو بابی بنا لے۔ اس عظیم الشان ارادے سے وہ قزوین سے طہران روانہ ہو گئی۔ ابھی وہ طہران نہیں پہنچی تھی کہ اس بات کی خبر حاجی محمد صالح (قرۃ العین کے باپ) کو ہو گئی۔ اُس نے فوراً بہت سے آدمی بھیجے تاکہ وہ قرۃ العین کو راستے ہی سے لوٹا لیں۔ یہ لوگ بڑی ہی مشکل سے اسے قزوین واپس لائے۔
ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ قرۃ العین کا خاندان فرقۂ بابیہ کا سخت مخالف تھا، اس لیے قرۃ العین کی ان کارروائیوں نے اُس کے تمامی خویش و اقارب کو اُس سے برانگیختہ کر دیا۔ اُس کے عزیز اس سے برگشتہ ہو گئے اور وہ جو اب تک اپنے خاندان کا گلِ سرسبد تھی، کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی۔ یہاں تک کہ اُس کو اپنے شوہر ملا محمد سے، جو اس کا چچا زاد بھائی تھا، قطعِ تعلق کر لینا پڑا۔
انہیں دنوں میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے قرۃ العین کا قزوین میں رہنا دوبھر ہو گیا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ مجتہدِ قزوین ملا محمد تقی، قرۃ العین کا چچا، شروع ہی سے باب کا اور اس کی تعلیم کا سخت مخالف تھا۔ لیکن جب اس کی پیاری بھتیجی اور عزیز بہو خود بابیوں کے زمرے میں شامل ہو گئی اور نہایت جوش سے مذہبِ باب کی اشاعت میں سعیِ بلیغ کرنے لگی تو اس کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی۔
جب وہ خیال کرتا تھا کہ خود اُس کے خاندان کی ایک لائق فائق عالم اور فاضل خاتون، جو اُس کی آنکھوں کا تارا اور خاندان کی سرتاج تھی، باب کی تعلیم کو قبول کرتی ہے اور کفر و الحاد کے پھیلانے میں اس کی شریکِ غالب ہو گئی ہے تو وہ آپے سے باہر ہو جاتا تھا اور جب اس کو اس کی عزیز از جان بہو اور بھتیجی کی خداداد قابلیت اور لیاقت کا خیال آتا کہ ہائے اس کے خاندان کا ایک بیش بہا زیور مفت ہاتھ سے جاتا رہا ہے تو دنیا اُس کی آنکھوں میں تاریک ہو جاتی اور وہ خوں کے آنسو رونے لگتا۔ اس کی بے خودی اور از خود رفتگی اور غضب و غصہ یہاں تک ترقی کر گیا کہ وہ عام طور پر باب اور شیخ احمد احسائی پر لعنت بھیجنے لگا۔ بابی اس کی اس ناپسندیدہ حرکت سے سخت برافروختہ ہو گئے اور اس کے قتل کے درپے ہو گئے۔
۱۸۴۸ء میں ایک روز موقع پا کر میرزا صالح نے تین چار اور بابیوں کی شرکت سے قزوین کی ایک مسجد میں ملا محمد تقی کو قتل کر ڈالا۔ اس جرم میں کئی بابی ماخوذ ہوئے اور قتل کیے گئے۔ میرزا صالح قید میں سے بھاگ گیا۔ ملا محمد نے اپنے باپ کے قتل کا الزام قرۃ العین پر لگایا۔ اس لیے وہ گرفتار کر لی گئی۔ لیکن تحقیقات میں وہ سراسر بے جرم اور بالکل بے خطا ثابت ہوئی اور رہا کر دی گئی۔ اس الزام سے بری ہونے کے بعد اسے قزوین میں رہنا ناممکن معلوم ہونے لگا اس لیے اُس نے اپنے پیارے وطن کو چھوڑنے پر آمادہ ہو کر خراسان کا قصد کیا۔
خراسان میں چند روز رہنے کے بعد وہ بدشت گئی اور وہاں سے مازندران پہنچی۔ اپنے نئے مذہب کی ترویج و اشاعت کا جوش اُسے ایک جگہ دم نہیں لینے دیتا تھا اور بعض جگہ ہمتوں کو پسپا کرنے والی مخالفتیں اُسے ٹھیرنے نہیں دیتی تھیں۔ بالمختصر وہ کچھ دن اس شہر میں، کچھ روز اس قصبے میں گذارتی اور وعظ کرتی پھرتی تھی کہ اُنہیں دنوں میں شاہی فوج اور بابیوں میں لڑائی شروع ہوئی۔ اس نے دورانِ جنگ میں نور میں رہنا پسند کیا اور لڑائی کے اختتام تک وہیں بہ اطمینان رہی۔
جنگ کے ختم ہونے کے بعد نور کے باشندوں نے اُسے حکام کے سپرد کر دیا، جنہوں نے قرۃ العین کو پا بہ زنجیر طہران بھیج دیا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جبکہ وہ ایک عظیم الشان ارادے سے طہران چلی تھی اور اس کے باپ نے بہ ہزار منت و سماجت واپس بلایا تھا۔ اُس وقت وہ آزاد تھی لیکن اب وہ اسی بادشاہِ مرحوم کے فرزند شاہ ناصرالدین قاچار کے دربار میں ایک قیدی اور مجرم کی حیثیت سے پا بہ زنجیر شاہی گارڈ کی حراست میں پیش ہوئی۔
شاہِ ایران کو اس کی حالتِ زار پر رحم اور اُس کے حسن و جمال پر ترس آیا۔ لہٰذا اُس نے اس جمالِ صوری و معنوی سے آراستہ و پیراستہ خاتون کو بہت پیار و ہمدردی کی نگاہوں سے دیکھ کر فرمایا کہ مجھے اس کی صورت بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اسے چھوڑ دو۔ لیکن چونکہ بابیوں اور شاہی افواج میں لڑائی ہو کر کوئی زیادہ دن نہیں گذرے تھے اس لیے احتیاطاً قرۃ العین کوتوالِ شہر محمد خاں کلانتر کی حفاظت میں رکھی گئی۔ اور ایک عرصے تک وہیں رہی۔ وہ یہاں کسی سخت قید میں نہ تھی بلکہ اکثر بابی مختلف طریقوں سے اس سے ملتے رہتے تھے۔
وہ یہاں بھی اپنے کام سے غافل نہیں رہتی تھی اور اکثر اوقات جب کبھی شہر کی عورتیں کوتوال کے گھر میں کسی تقریب کا جشن میں جمع ہوتیں، قرۃ العین اپنی پُرزور فصیح تقریر شروع کر دیتی اور سبھوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی۔ اس کا وعظ ایسا دلچسپ اور اس کا لکچر ایسا دلکش ہوتا کہ تمام سامعین پر محویت کا عالم طاری ہو جاتا۔ خدائے تعالیٰ نے اُس کے بیان میں وہ طاقت اور زور عنایت فرمایا تھا کہ جب تک وہ لکچر دیتی، حاضرین اپنے آپے کو بھی بھول جاتے لیکن افسوس اُسے یہاں بھی قرار نہ ملا اور وہ چین سے نہ رہ سکی۔
انہیں دنوں میں ایک نہایت خوفناک واقعہ پیش آیا جس سے بابیوں پر مصیبتوں کی گھٹا چھا گئی۔ تمام ملکِ ایران میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ بابیوں کے مصائب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اس فرقے کے سر پر ایک بڑی آفت آئی اور بابیوں کی بربادی کے آثار نظر آنے لگے۔ اس افسوسناک حادثے کا اثر یہاں تک پہنچا کہ بابی ہونا سخت جرم سمجھا جانے لگا۔
وہ ہوش ربا سانحہ یہ تھا کہ ۱۸۵۲ء میں ۱۵ اگست اتوار کے روز صبح کے وقت شاہ ناصرالدین جو اس وقت نیاوران میں، جو کوہِ البرز کے دامن میں واقع ہے، فروکش تھے شکار کے قصد سے گھوڑے پر سوار باہر نکلے۔ تھوڑی دور جانے کے بعد تین شخص عرضی دینے کے حیلے سے شاہ کے پاس آئے اور قریب پہنچ کر ایک نے پستول چلایا جو خالی گیا۔ دوسرے نے شاہِ موصوف کو گھوڑے پر سے نیچے گرا دیا اور چاہتا تھا کہ گلا کاٹ ڈالے کہ شاہی ملازمین نے پہنچ کر پُھرتی سے قاتل ہی کا سر اُڑا دیا اور بادشاہ کو موت کے منہ سے چھڑا لیا۔ جس نے شاہ کو زمین پر دے مارا تھا اور قتل کیا چاہتا تھا وہ فتح اللہ بابی تھا اس لیے فوراً احکام جاری کیے گئے کہ تمام بابی گرفتار کر لیے جائیں اور اس فرقے اور اس خیال کے جتنے آدمی، کیا مرد اور کیا عورت، کیا بچے اور کیا بوڑھے، بلا امتیاز سب یک دم گرفتار کر لیے گئے۔
اب یہ قرار پایا کہ ان میں سے جو اس خیال سے تائب ہو جائے اور باب پر لعنت بھیجے وہ چھوڑ دیا جائے۔ اور جو ایسا کرنے میں پس و پیش کرے وہ بلا درنگ تلوار کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ ان قیدیوں میں خود باب اور بابیوں کے بڑے بڑے پیشوا موجود تھے۔ ان کے مصائب و آلام کی کوئی حد نہیں رہی تھی۔ طرح طرح کی تکلیفیں دی جاتی تھیں جسے یہ نامراد گروہ بہ خندہ پیشانہ گوارا کر رہا تھا۔ لیکن اُن کے استقلال میں ذرہ بھر فرق نہ آتا تھا۔ وہ اپنے خیالات پر ثابت قدم تھے۔ وہ اس طرح مرنے کو قابلِ فخر سمجھتے تھے اور یوں اپنی عزیز زندگی منقطع کرنے اور جانِ شیریں سے ہاتھ دھونے میں انہیں ذرا دریغ نہ تھا۔
بیچاری قرۃ العین بھی اس اثر سے بہ حیثیت ایک پرجوش بابی ہونے کے بچ نہ سکی۔ اور بابیوں کے بڑے بڑے علماء کے ساتھ اسے بھی مندرجہ بالا غرض کے لیے دربارِ شاہی میں حاضر ہونا پڑا۔ جب محمد خاں کلانتر کو قرۃ العین کے پیش کرنے کا حکم ہوا، وہ خوش خوش اپنے گھر آیا اور قرۃ العین سے کہنے لگا کہ اب تمہاری رہائی کا زمانہ آ پہنچا۔ کل صبح کو تم دربارِ شاہی میں اپنے مذہب کے پیروؤں کے ساتھ پیش کی جاؤ گی۔ اور تم سے صرف یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا تم بابی ہو۔ اس پر صرف تمہارے 'نہیں' کہہ دینے سے تمہیں چھوڑ دیا جائے گا اور اتنا کہہ دینے میں کوئی نقصان سوائے سراسر فائدے کے نہیں ہو گا۔
قرۃ العین نے نہایت متانت سے جواب دیا کہ میں سمجھتی ہوں کہ کل کا دن مجھے اس سے بھی زیادہ مبارک اور نیک ہو گا جیسا کہ تم سمجھتے ہو، کیونکہ کل مجھے اپنی اس صداقت کا ثبوت دینے کا بہترین موقع ملے گا جو باب کی طرف سے میرے دل میں جلوہ افگن ہے۔ میں ضمیر کی آزادی کو، جو ایک غیر مترقبہ نعمت ہے، ترک کرنا نہیں چاہتی۔ میں موت سے نہیں ڈرتی بلکہ مجھے اس طرح مرنا دل سے پسند ہے۔ اگر میں ضمیر کے خلاف کام کروں اور تمہاری رائے پر عمل کروں تو یقیناً بچ جاؤں گی۔ لیکن مجھے یہ منظور نہیں۔ مجھے منظور ہے کہ ضمیر کی آزادی قائم رکھنے کے لیے اپنی قیمتی اور عزیز زندگی قربان کر دوں۔ اور اس کے بحال رکھنے کے لیے اپنی گراں قدر جان نثار کر دوں۔ لیکن مجھے یہ ہرگز منظور نہیں کہ اپنے ایمان کے خلاف کوئی کام کروں۔ محمد خاں نے بہتیرا سمجھایا لیکن اس کی ایک پیش نہ گئی اور وہ اولوالعزم عورت اپنے خیال پر ثابت قدم رہی۔
دوسرا روز آیا اور قرۃ العین محمد خاں کے ہاں سے اُس ستم رسیدہ گروہ میں پہنچا دی گئی جس کے ساتھ وہ دربارِ شاہی میں پیش ہوئی۔ وہاں اُس سے وہی سوال کیا گیا کہ کیا وہ بابی ہے۔ اس کا قرۃ العین نے نہایت بے باکانہ وہی جواب دیا جو وہ محمد خاں کلانتر کوتوالِ شہر سے ایک روز قبل کہہ چکی تھی اور نہایت فصاحت اور عمدگی سے اپنے عقائد بھی بیان کیے۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے نئے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی شروع کیں۔ اس کی قدرتی فصاحت جوش زن ہوئی اور دربار میں ایک سکتے کا عالم طاری ہو گیا۔ اس کا لکچر ایک دریائے فصاحت و بلاغت تھا جو بڑے زور و شور سے بے اختیار امڈا چلا آتا تھا۔ مجلس میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور سب لوگ ساکت تھے۔
اس کی تقریر کے ختم ہونے کے بعد بھی تھوڑی دیر تک یہی حالت رہی۔ آخر کار نہایت افسوس و رنج کے ساتھ مجبوراً اس کے قتل کا فتویٰ دیا گیا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ وہ جلا دی گئی۔ لیکن در حقیقت اُس کا گلا گھونٹ کر اُس کی لاش باغِ ایلخانی کے اندھے کنوئیں میں ڈال دی گئی اور اوپر سے پتھر بھر دیے گئے۔
یوں اس لائق، ہوشیار، ثابت قدم اور خوبصورت خاتون کی زندگی کا خاتمہ ہوا۔ گو اس کی موت نہایت ہیبت ناک تھی مگر وہ اپنی اس بہادرانہ موت سے دنیا کو ایک اعلیٰ درجے کی شجاعت و جوانمردی کا نمونہ دکھلا گئی۔ اس کی ایسی افسوس ناک موت نے اُس کے فضائل پر کوئی پردہ نہیں ڈالا بلکہ اُس سے اس کی عظمت اور عزت اور بھی دوبالا ہو گئی۔ اس معزز اور فخرِ بنی نوعِ انسان خاتون کی قابلیت اور خوبی کی دنیا میں ہمیشہ یادگار رہے گی۔ اور اس جوانمرد عورت کا نام ہمیشہ دلی عظمت کے ساتھ لیا جائے گا۔ لوگ اس کی ہمت و استقلال اور اس کی لیاقت و قابلیت کے ثنا خواں رہیں گے اور اس کے کارناموں کو دیکھ کر وجد کریں گے۔
فطرت نے قرۃ العین کو نہایت فیاضی سے جہاں جمالِ صوری و معنوی سے ہر طرح آراستہ فرمایا تھا اور بے نظیر قابلیت و لیاقت، برگزیدہ صفات، بڑی بڑی خوبیاں عنایت فرمائی تھیں وہاں اسے شاعرانہ طبیعت بھی عطا فرمائی تھی۔ لیکن افسوس کہ اس کا کلام بالکل تلف ہو گیا۔ ہم ذیل میں اس کی تین غزلیں درج کرتے ہیں جو بہ ہزار کوشش ہاتھ آئی ہیں۔

جذبات شوقک الجمت بسلاسل الغم والبلا
همه عاشقان شکسته دل که دهند جان به ره ولا
اگر آن صنم ز سر ستم پی کشتن من بی‌گناه
لقد استقام بسیفه فلقد رضیت بما رضیٰ
سحر آن نگار ستمگرم قدمی نهاده به بسترم
واذا رایت جماله طلع الصباح کانما
نه چو زلف غالیه بار او نه چو چشم فتنه شعار او
شده نافه‌ای به همه ختن، شده کافری به همه خطا
تو که غافل از می و شاهدی پی مرد عابد و زاهدی
چه کنم که کافر جاحدی ز خلوص نیت اصفیا
به مراد زلف معلّقی پی اسپ و زین مغرّقی
همه عمر منکر مطلقی ز فقیر فارغ بی‌نوا
بگذر ز منزل ما و من بگزین به ملک فنا وطن
فاذا فعلت بمثل ذا فلقد بلغت بما تشا

لمعات وجهک اشرقت وشعاع طلعتک اعتلا
ز چه رو الست بربکم نزنی بزن که بلیٰ بلیٰ
به جواب طبل الست تو ز ولا چه کوس بلا زدند
همه خیمه زد به در دلم سپه غم و حشم بلا
من و عشق آن مه خوب رو که چو زد صدای بلا بر او
به نشاط و قهقهه شد فرو که انا الشهید بکربلا
چو شنید نالهٔ مرگ من پی ساز من شد و برگ من
فمشی الیّ مهرولا و بکیٰ علیّ مجلجلا
چه شده که آتش حیرتی نزنم به قلهٔ طور دل
فسککته ودککته متدکدکاً متزلزا
پی خوان دعوت عشق او همه شب ز خیل کروبیان
رسد این صفیر مهیمنی که گروه غمزده الصلا
تو که فلس ماهی حیرتی چه زنی ز بحر و جود دم
بنشین چو طاهره دمبدم بشنو خروش نهنگ لا

گر به تو افتدم نظر دیده به دیده رو به رو
شرح دهم غم ترا نکته به نکته مو به مو
از پی دیدن رخت همچو صبا فتاده‌ام
خانه به خانه در به در کوچه به کوچه کو به کو
دور دهان تنگ تو عارض عنبرین خطت
غنچه به غنچه گل به گل لاله به لاله بو به بو
مهر ترا دل حزین بافته بر قماش جان
بخیه به بخیه نخ به نخ رشته به رشته پو به پو
می‌رود از فراق تو خون دل از دو دیده‌ام
دجله به دجله یم به یم چشمه به چشمه جو به جو
در دل خویش طاهره گشت و ندید جز وفا
صفحه به صفحه لا به لا پرده به پرده تو به تو

(نویسندہ: سید خورشید علی)
(اسلم جیراج پوری کی مرتب کردہ کتاب 'خواتین' سے مقتبس)

محمد وارث
بہت معلوماتی مضمون :)
اس کے متعلق ایک کتابچہ میں پہلے بھی محفل پر شریک کر چکا ہوں
درج ذیل لنک سے آپ بھی ڈاونلوڈ کر سکتے ہیں
http://www.mediafire.com/download/4uil7qse62596ho/TAHIRA.zip
اس میں طاہرہ کا کافی کلام موجود ہے
شراکت کا شکریہ
سلامت رہیں
 
غزل
(قرۃ العین طاہرہ)
ترجمہ :محمد خلیل الرحمٰن


گر مجھے حاضری ملے، ’’چہرہ بہ چہرہ، رُو بہ رُو‘‘
غم تیرا میں بیاں کروں، ’’نکتہ بہ نکتہ ، مُو بہ مُو‘‘


دِل میں تِری تڑپ لیے، مثلِ صبا میں یوں پھروں
’’خانہ بہ خانہ، در بہ در، کوچہ بہ کوچہ، کُو بہ کُو‘‘


تیرے فِراق میں مِری آنکھوں سے ہے رواں دواں
’’دجلہ بہ دجلہ ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ ، جُو بہ جُو‘‘


عارِض و لب کے دائرے، تیرے یہ عنبریں خطوط
’’غنچہ بہ غنچہ ، گُل بہ گُل، لالہ بہ لالہ، بُو بہ بُو‘‘


گھائل کیا مجھے ترے ابرُو نے، چشم و خال نے
’’طبع بہ طبع ، دِل بہ دِل، مہر بہ مہر ، خُو بہ خُو‘‘


دِل نے مِرے تُجھے بُنا زیست کے دائروں میں یوں
’’رشتہ بہ رشتہ ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پُو بہ پُو‘‘


دِل میں مِرے، مِرے صنم کچھ بھی نہیں ترے سِوا
’’صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تُو بہ تُو‘‘

ربط
چھا گئے ہیں محترم :)
اللہ آپ کے قلم کی روانی اسی طرح قائم رکھے آمین
 

حسان خان

لائبریرین
بہائی پبلشنگ ٹرسٹ، بہائی ہال کراچی نے ’’قرۃ العین طاہرہ‘‘ کے نام سے کتاب چھاپ جس میں طاہرہ کی بیس غزلیں اور کچھ منظوم کلام پیش کیا ہے۔ صاحبِ مراسلہ کی اجازت ہوتو ہم وہ غزلیں یہاں پیش کریں؟
جی، قرۃ العین کا منظوم کلام ضرور پیش کیجیے، اور اگر اُس منظوم کلام کا زبانِ اردوئے معلّیٰ میں ترجمہ بھی کتاب میں شامل ہو تو کیا ہی بات ہے۔
==========
قرۃ العین کا جمع شدہ فارسی کلام یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے:
http://www.sahneha.com/digital/divan[1].pdf
 
آخری تدوین:
جی، قرۃ العین کا منظوم کلام ضرور پیش کیجیے، اور اگر اُس منظوم کلام کا زبانِ اردوئے معلّیٰ میں ترجمہ بھی کتاب میں شامل ہو تو کیا ہی بات ہے۔
==========
قرۃ العین کا جمع شدہ فارسی کلام یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے:
http://www.sahneha.com/digital/divan[1].pdf
ایک اور زبردست شراکت :)
رابعہ بلخی اور یارقند کی امان النّسا خان کے بارے میں کچھ میسر ہو تو ضرور شریک کریں
کوشش بیسار کے باوجود رابعہ بلخی کے بارے میں یہ مضمون دستیا ب ہو سکا ہے
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/رابعہ-خضداری.72865/
 

فاتح

لائبریرین
غزل
(قرۃ العین طاہرہ)
ترجمہ :محمد خلیل الرحمٰن


گر مجھے حاضری ملے، ’’چہرہ بہ چہرہ، رُو بہ رُو‘‘
غم تیرا میں بیاں کروں، ’’نکتہ بہ نکتہ ، مُو بہ مُو‘‘


دِل میں تِری تڑپ لیے، مثلِ صبا میں یوں پھروں
’’خانہ بہ خانہ، در بہ در، کوچہ بہ کوچہ، کُو بہ کُو‘‘


تیرے فِراق میں مِری آنکھوں سے ہے رواں دواں
’’دجلہ بہ دجلہ ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ ، جُو بہ جُو‘‘


عارِض و لب کے دائرے، تیرے یہ عنبریں خطوط
’’غنچہ بہ غنچہ ، گُل بہ گُل، لالہ بہ لالہ، بُو بہ بُو‘‘


گھائل کیا مجھے ترے ابرُو نے، چشم و خال نے
’’طبع بہ طبع ، دِل بہ دِل، مہر بہ مہر ، خُو بہ خُو‘‘


دِل نے مِرے تُجھے بُنا زیست کے دائروں میں یوں
’’رشتہ بہ رشتہ ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پُو بہ پُو‘‘


دِل میں مِرے، مِرے صنم کچھ بھی نہیں ترے سِوا
’’صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تُو بہ تُو‘‘

ربط
محمد خلیل الرحمٰن بھائی، حیرت ہو رہی ہے کہ آپ جیسا کہنہ مشق شاعر اس زمین میں غچہ کھا گیا۔ یہ مصرع وزن سے خارج ہو رہا ہے
گھائل کیا مجھے ترے ابرُو نے، چشم و خال نے
 

فاتح

لائبریرین
حاجی ملا محمد صالح قزوینی کی بیٹی تھی، جو ایران کے نامور علماء کے خاندان کا ایک معزز رکن تھا۔ اس کا زمانہ انیسویں صدی عیسوی کے اوائل سے تعلق رکھتا ہے۔ ملا صالح ایک مشہور فقیہ تھا اور اس کے گھرانے کے لوگ بڑے بڑے عالم و فاضل تھے۔ اس کا بھائی حاجی ملا محمد تقی (قرۃ العین کا چچا) قزوین کا مجتہد تھا، جس کی عزت و عظمت کا سکہ چاروں طرف ملک میں پھیلا ہوا تھا۔
از وکی پیڈیا: وہ ایران کے عظیم شیعہ آیۃ اللہ ملا برغانی کی صاحبزادی تھیں، والدہ کا نام آمنہ خانم قزوینی تھا۔ ان کی شادی قزوین کے نوجوان عالم شیخ محمد تقی سے ہوئی، جنہیں شہید ثالث کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
 

x boy

محفلین
جب میرا تبصرہ ڈیلیٹ ہوا ہے تو مجھے نوٹیفیکیشن کیوں مل رہے ہیں
میں نے تو یہی پوچھا تھا کہ بابی کا مطلب کیا ہے اور کیا غلط بات لکھی تھی
نہ کسی پر تنز کیا نہ کسی کو برا بھلا کہا۔
 

فاتح

لائبریرین
قرۃ العین طاہرہ کی اس مشہور زمانہ غزل کا منظوم ترجمہ تابش دہلوی نے بھی کیا تھا۔۔۔ یہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
تجھ پہ مری نظر پڑے، چہرہ بہ چہرہ، رو بہ رو
میں ترا غم بیاں کروں، نکتہ بہ نکتہ، مو بہ مو

میں تری دید کے لئے مثلِ صبا رواں دواں
خانہ بہ خانہ، دربہ در، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو

ہجر میں تیرے خونِ دل آنکھ سے ہے مری رواں
دجلہ بہ دجلہ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ، جو بہ جو

یہ تری تنگیِ دہن، یہ خطِ روئے عنبریں
غنچہ بہ غنچہ، گل بہ گل، لالہ بہ لالہ، بو بہ بو

ابرو و چشم و خال نے صید کیا ہے مرغِ دل
طبع بہ طبع، دل بہ دل، مہر بہ مہر، خو بہ خو

تیرے ہی لطفِ خاص نے کر دیے جان و دل بہم
رشتہ بہ رشتہ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پو بہ پو

قلب میں طاہرہ کے اب کچھ بھی نہیں ترے سوا
صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تُو بہ تُو
(قرۃ العین طاہرہ)
ترجمہ: تابش دہلوی​
 
اسی غزل پر رئیس امروہوی کی تظمین
کس کا جمالِ غیب ہےجلوہ نما یہ سو بہ سو
گوشہ بہ گوشہ، در بہ در، قریہ بہ قریہ ، کو بہ کو


اشک فشاں ہے کس لیے دیدہٗ منتظرمرا
’’دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ، جو بہ جو

میری نگاہِ شوق میں حسنِ ازل ہے بے حجاب
’’غنچہ بہ غنچہ، گُل بہ گل ، لالہ بہ لالہ، بو بہ بو‘‘

کاش ہو ان کا سامنا عینِ حریمِ ناز میں
چہرہ بہ چہرہ، رُخ بہ رُخ ، دیدہ بہ دیدہ، دو بدو

عالمِ شوق میں رئیس کس کی مجھے تلاش ہے
خطّہ بہ خطّہ، رہ بہ رہ ، جادہ بہ جادہ، کو بہ کو

بہائی میگزین، کراچی نومبر ۱۹۷۶
قرۃ العین طاہرہ از مارتھا روٹ​
 
از وکی پیڈیا: وہ ایران کے عظیم شیعہ آیۃ اللہ ملا برغانی کی صاحبزادی تھیں، والدہ کا نام آمنہ خانم قزوینی تھا۔ ان کی شادی قزوین کے نوجوان عالم شیخ محمد تقی سے ہوئی، جنہیں شہید ثالث کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔


’’قاچاری عہد میں قزوین کا برغانی خاندان علم و فضل کی بدولت بڑی شہرت رکھتا تھا۔ اس خاندان کے تین افراد ملا محمد تقی، ملا محمد صالح اور ملا محمد علی جو سگے بھائی تھے جید علماء ہونے کے علاوہ اپنے وقت کے مجتہد بھی تھے۔

قرۃ العین منجھلے بھائی ملا محمد صالح کی بیٹی تھی۔ مروجہ علوم و معارف میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد طاہرہ کی شادی آپ کے تایا زاد بھائی ملا محمد سے ہوگئی۔ ‘‘
( قرۃ العین طاہرہ کی شاعری از صابر آفاقی، قرۃ العین طاہرہ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ۔ بہائی ہال کراچی)
 
محمد خلیل الرحمٰن بھائی، حیرت ہو رہی ہے کہ آپ جیسا کہنہ مشق شاعر اس زمین میں غچہ کھا گیا۔ یہ مصرع وزن سے خارج ہو رہا ہے
گھائل کیا مجھے ترے ابرُو نے، چشم و خال نے

نشاندھی کا شکریہ فاتح بھائی
اس مصرع کو دیکھتے ہیں پھر سے۔ویسے آپ کو غلط فہمی نہیں ہورہی فاتح بھائی، ہمیں کہنہ مشق شاعر سمجھتے ہوئے :)

کچھ مہلت دیجیے کہ اسے پرکھ سکیں۔
 
Top