الف عین
لائبریرین
مونا لیزا
مونا لیزاپریوں کی سرزمین کو ایک راستہ جاتا ہے شاہ بلوط اور صنوبر کے جنگلوں میں سے گزرتا ہوا جہاں روپہلی ندیوں کے کنارے چیری اور بادام کے سایوں میں خوب صورت چرواہے چھوٹی چھوٹی بانسریوں پر خوابوں کے نغمے الاپتے ہیں۔ یہ سنہرے چاند کی وادی ہے۔ Never Never Land کے مغرور اور خوب صورت شہزادے۔ پیٹرپین کا ملک جہاں ہمیشہ ساری باتیں اچھی اچھی ہوا کرتی ہیں۔ آئس کریم کی برف پڑتی ہے۔ چوکلیٹ اور پلم کیک کے مکانوں میں رہا جاتا ہے۔ موٹریں پٹرول کے بجائے چائے سے چلتی ہیں۔ بغیر پڑھے ڈگریاں مل جاتی ہیں۔
اور کہانیوں کے اس ملک کو جانے والے راستے کے کنارے کنارے بہت سے سائن پوسٹ کھڑے ہیں جن پر لکھا ہے ”صرف موٹروں کے لیے“، ”یہ عام راستہ نہیں“ اور شام کے اندھیرے میں زناٹے سے آتی ہوئی کاروں کی تیز روشنی میں نرگس کے پھولوں کی چھوٹی سی پہاڑی میں سے جھانکتے ہوئے یہ الفاظ جگمگا اٹھتے ہیں: ”پلیز آہستہ چلائیے — شکریہ!“
اور بہار کی شگفتہ اور روشن دوپہروں میں سنہرے بالوں والی کرلی لوکس، سنڈریلا اور اسنووائٹ چھوٹی چھوٹی پھولوں کی ٹوکریاں لے کر اس راستے پر چیری کے شگوفے اور ستارہ ¿ سحری کی کلیاں جمع کرنے آیا کرتی تھیں۔
ایک روز کیا ہوا کہ ایک انتہائی ڈیشنگ شہ سوار راستہ بھول کر صنوبروں کی اس وادی میں آنکلا جو دوردراز کی سرزمینوں سے بڑے بڑے عظیم الشان معرکے سر کرکے چلا آرہا تھا۔ اس نے اپنے شان دار گھوڑے پر سے جھک کر کہا: ”مائی ڈیرینگ لیڈی کیسی خوش گوار صبح ہے!“
کرلی لوکس نے بے تعلقی سے جواب دیا: ”اچھا ، واقعی؟ تو پھر کیا ہوا؟“
شہ سوار کی خواب ناک آنکھوں نے خاموشی سے کہا: ”پسند کرو ہمیں۔“ کرلی لوکس کی بڑی بڑی روشن اورنیلی آنکھوں میں بے نیازی جھلملا اٹھی۔ ”جناب ِ عالی ہم بالکل نوٹس نہیں لیتے۔“ شہ سوار نے اپنی خصوصیات بتائیں۔ ایک شان دار سی امپیریل سروس کے مقابلے میں ٹاپ کیا ہے۔ اب تک ایک سو پینتیس ڈوئیل لڑ چکا ہوں۔ بہترین قسم کا Heart Breakerہو ں۔کرلی لوکس نے غصے سے اپنی سنہری لٹیں جھٹک دیں اور اپنے بادامی ناخنوں کے برگنڈی کیوٹیکس کو غور سے دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔ سنڈریلا اور اسنووائٹ پگڈنڈی کے کنارے اسٹرابری چنتی رہیں۔
اور ڈیشنگ شہ سوار نے بڑے ڈرامائی انداز سے جھک کر نرسری کا ایک پرانا گیت یاد دلایا:
کرلی لوکس کرلی لوکس
یعنی اے میری پیاری چینی کی گڑیا۔
تمھیں برتن صاف کرنے نہیں پڑیں گے۔
اور بطخوں کو لے کر چراگاہ میں جانا نہیں ہوگا۔
بلکہ تم کشنوں پر بیٹھی بیٹھی اسٹرابری کھایا کروگی۔
اے میری سنہرے گھنگھریالے بالوں والی مغرور شہزادی ایمیلیا ہنری ایٹامرایا —— دو نینا متوارے تمھارے ہم پر ظلم کریں۔
اور پھر وہ ڈیشنگ شہ سوار اپنے شان دار گھوڑے کو ایڑ لگا کر دوسری سرزمینوں کی طرف نکل گیا جہاں اور بھی زیادہ عظیم الشان اور زبردست معرکے اس کے منتظر تھے اور اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آوازِ بازگشت پہاڑی راستوں اور وادیوں میں گونجتی رہی۔
پھر ایک اور بات ہوئی جس کی وجہ سے چاند کی وادی کے باسی غمگین رہنے لگے کیوں کہ ایک خوش گوار صبح معصوم کوک روبن ستارہ ¿ سحری کے سبزے پر مقتول پایا گیا۔ مرحوم پر کسی ظالم نے تیر چلایا تھا۔ سنڈریلا رونے لگی۔ بے چارا میرا سرخ اور نیلے پروں والا گڈّو سا پرندہ۔ پرستان کی ساری چڑیوں، خرگوشوں اور گلہریوں نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد پتا چلا لیا اور بالاتفاق رائے اس کی بے وقت اور جوان مرگی پر تعزیت کی قرارداد منظور کی گئی۔ یونی ورسٹی میں کوک روبن ڈے منایا گیا لیکن عقل مند پوسی کیٹ نے، جوفل بوٹ پہن کر ملکہ سے ملنے لندن جایا کرتی تھی، سنڈریلا سے کہا: ”روو ¿ مت میری گڑیا، یہ کوک روبن تو یوں ہی مرا کرتا ہے اور پھر فرسٹ ایڈ ملتے ہی فوراً زندہ ہوجاتا ہے۔“ اور کوک روبن سچ مچ زندہ ہوگیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
اور ہمیشہ کی طرح وادی کے سبزے پر بکھرے ہوئے بھیڑوں نے گلّے کی ننھی مُنّی گھنٹیاں اور دور سمندر کے کنارے شفق میں کھوئے ہوئے پرانے عبادت خانوں کے گھنٹے آہستہ آہستہ بجتے رہے— ڈنگ ڈونگ، ڈنگ ڈونگ بل، پوسی ان وَویل۔
ڈنگ ڈونگ۔ ڈنگ ڈونگ— جیسے کرلی لوکس کہہ رہی ہو: نہیں، نہیں، نہیں، نہیں!
اور اس نے کہا۔نہیں نہیں۔ یہ تو پریوں کے ملک کی باتیں تھیں۔ میں کوک روبن نہیں ہوں، نہ آپ کرلی لوکس یا سنڈریلا ہیں۔ ناموں کی ٹوکری میں سے جو پرچی میرے ہاتھ پڑی ہے اس پر ریٹ بٹلر لکھا ہے لہٰذا آپ کو اسکارٹ اوہارا ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر آپ جو لیٹ یا کلیوپٹرا ہیں تو رومیو یا انطونی صاحب کو تلاش فرمائیے اور میں قاعدے سے مس اوہارا کی فکر کروں گا لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ جو لیٹ یا بیٹرس یا ماری انطونی نہیں ہیں اور میں قطعی ریٹ بٹلر نہیں ہوسکتا، کاش آپ محض آپ ہوتیں اور میں صرف میں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا آئیے اپنی اپنی تلاش شروع کریں۔
— ہم سب کے راستے یوں ہی ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے پھر الگ الگ چلے جاتے ہیں، لیکن پرستان کی طرف تو ان میں سے کوئی راستہ بھی نہیں جاتا۔
— چوکو بارز کی اسٹالوں اور لکی ڈپ کے خیمے کے رنگین دھاری دار پردوں کے پیچھے چاندی کی ننھی منی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ ڈنگ ڈونگ ڈنگ ڈونگ— پوسی بے چاری کنویں میں گر گئی اور ٹوم اسٹاو ¿ٹ بے فکری سے چوکو بارز کھاتا رہا۔ پھر وہ سب زندگی کی ٹریجڈی میں غور کرنے میں مصروف ہوگئے کیوں کہ وہ چاند کی وادی کے باسی نہیں تھے لیکن اتنے احمق تھے کہ پرستان کی پگڈنڈی پر موسمِ گل کے پہلے سفید شگوفے تلاش کرنے کی کوشش کر لیا کرتے تھے اور اس کوشش میں انھیں ہمیشہ کسی نہ کسی اجنبی ساحل، کسی نہ کسی ان دیکھی، اَن جانی چٹان پر فورسڈ لینڈنگ کرنی پڑتی تھی۔ وہ کئی تھے۔ ڈک ڈنگٹن جسے امید تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اسے فل بوٹ پہننے والی وہ پوسی کیٹ مل ہی جائے گی جو اسے خوابوں کے شہر کی طرف اپنے ساتھ لے جائے اور اسے یقین تھا کہ خوابوں کے شہر میں ایک نیلی آنکھوں والی ایلس اپنے ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھی اس کی راہ دیکھ رہی ہے اور وہ افسانہ نگار جو سوچتا تھا کہ کسی رو پہلے راج ہنس کے پروں پر بیٹھ کر اگر وہ زندگی کے اس پار کہانیوں کی سرزمین میں پہنچ جائے جہاں چاند کے قلعے میں خیالوں کی شہزادی رہتی ہے تو وہ اس سے کہے: ”میری مغرور شہزادی! میں نے تمھارے لیے اتنی کہانیاں، اتنے اوپیرا اور اتنی نظمیں لکھی ہیں۔ میرے ساتھ دنیا کو چلو تو دنیا کتنی خوب صورت، زندہ رہنے اور محبت کرنے کے قابل جگہ بن جائے۔“ لیکن روپہلا راج ہنس اسے کہیں نہ ملتا تھا اور وہ اپنے باغ میں بیٹھا بیٹھا کہانیاں اور نظمیں لکھاکرتا تھا اور جو خوب صورت اور عقل مند لڑکی اس سے ملتی اسے ایک لمحے کے لیے یقین ہو جاتا کہ خیالوں کی شہزادی چاند کے ایوانوں میں سے نکل آئی ہے لیکن دوسرے لمحے یہ عقل مند لڑکی ہنس کر کہتی کہ افوہ بھئی فن کار صاحب! کیا cynicism بھی اس قدر الٹرافیشن ایبل چیز بن گئی ہے اور آپ کو یہ مغالطہ کب سے ہوگیا ہے کہ آپ جینیس بھی ہیں اور اس کے نقرئی قہقہے کے ساتھ چاند کی کرنوں کی وہ ساری سیڑھیاں ٹوٹ کر گر پڑتیں جن کے ذریعے وہ اپنی نظموں میں خیالستان کے محلوں تک پہنچنے کی کوشش کیا کرتا تھا اور دنیا ویسی کی ویسی ہی رہتی— اندھیری، ٹھنڈی اور بدصورت— اور سنڈریلا جو ہمیشہ اپنا ایک بلوریں سینڈل رات کے اختتام پر خوابوں کی جھلملاتی رقص گاہ میں بھول آتی تھی، اور وہ ڈیشنگ شہ سوار جو پرستان کی خاموش، شفق کے رنگوں میں کھوئی ہوئی پگڈنڈیوں پر اکیلے اکیلے ہی ٹہلا کرتا تھا اور برف جیسے رنگ اور سرخ انگارہ جیسے ہونٹوں والی اسنووائٹ جو رقص کرتی تھی تو بوڑھے بادشاہ کول کے دربار کے تینوں پری زاد مغنی اپنے وائلن بجانا بھول جاتے تھے۔
”اور“، ریٹ بٹلر نے اس سے کہا، ”مس اوہارا آپ کو کون سا رقص زیادہ پسند ہے۔ ٹینگو— فوکس ٹروٹ— رومیا— آئیے لیمبتھ واک کریں۔“
اور افروز اپنے پارٹنر کے ساتھ رقص میں مصروف ہوگئی حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسکارلٹ اور ہارا نہیں ہے کیوں کہ وہ چاند کی دنیاکی باسی نہیں تھی۔سبزے پر رقص ہورہا تھا۔ روش کی دوسری طرف ایک درخت کے نیچے، لکڑی کے عارضی پلیٹ فارم پر چارلس جوڈا کا آرکیسٹرا اپنی پوری سوئنگ میں تیزی سے بج رہا تھا— اور پھر ایک دم سے قطعے کے دوسرے کنارے پر ایستادہ لاو ¿ڈ اسپیکر میں کارمن میرانڈا کا ریکارڈ چیخنے لگا: ”تم آج کی رات کسی کے بازوو ¿ں میں ہونا چاہتی ہو؟“ لکی ڈپ اور ”عارضی کافی ہاو ¿س“ کے رنگین خیموں پر بندھی ہوئی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بجتی رہیں اور کسی نے اس کے دل میں آہستہ آہستہ کہا: موسیقی— دیوانگی— زندگی— دیوانگی— شوپاں کے نغمے— ”جپسی مون۔“ اور خدا!! اس نے اپنے ہم رقص کے مضبوط، پراعتماد، مغرور بازوو ¿ں پر اپنا بوجھ ڈال کر ناچ کے ایک کوئیک اسٹیپ کاٹرن لیتے ہوئے اس کے شانوں پر دیکھا۔ سبزے پر اس جیسے کتنے انسان اس کی طرح دو دو کے رقص کی ٹکڑیوں میں منتشر تھے۔ ”جولیٹ“ اور ”رومیو“، ”وکٹوریہ“ اور ”البرٹ“، ”بیٹرس“ اور ”دانتے“ ایک دوسرے کو خوب صورت دھوکے دینے کی کوشش کرتے ہوئے، ایک دوسرے کو غلط سمجھتے ہوئے اپنی اس مصنوعی، عارضی، چاند کی وادی میں کتنے خوش تھے وہ سب کے سب—! بہار کے پہلے شگوفوں کی متلاشی اور کاغذی کلیوں پر قانع اور مطمئن— زندگی کے تعاقب میں پریشان و سرگرداں زندگی— ہُنہ— شوپاں کی موسیقی، سفید گلاب کے پھول، اور اچھی کتابیں۔ کاش! زندگی میں صرف یہی ہوتا، چاند کی وادی کے اس افسانہ نگار اویناش نے ایک مرتبہ اس سے کہا تھا۔ ہُنہ— کتنا بنتے ہو اویناش! ابھی سامنے سے ایک خوب صورت لڑکی گزر جائے اور تم اپنی ساری تخیل پرستیاں بھول کر سوچنے لگوگے کہ اس کے بغیر تمھاری زندگی میں کتنی بڑی کمی ہے— اور اویناش نے کہا تھا :کاش جو ہم سوچتے وہی ہوا کرتا، جو ہم چاہتے وہی ملتا— ہائے یہ زندگی کالکی ڈپ—! زندگی، جس کا جواب مونا لیزا کا تبسم ہے جس میں نرسری کے خوب صورت گیت اور چاند ستارے ترشتی ہوئی کہانیاں تمھارا مذاق اُڑاتی، تمھارا منہ چڑاتی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں جہاں کوک روبن پھر سے زندہ ہونے کے لیے روز نئے نئے تیروں سے مرتا رہتا ہے— اور کرلی لوکس ریشمیں کشنون کے انبار پر کبھی نہیں چڑھ پاتی۔ کاش افروز تم— اور پھر وہ خاموش ہوگیا تھا کیوں کہ اسے یاد آگیا تھا کہ افروز کو ”کاش“— اس سستے اور جذباتی لفظ سے سخت چڑ ہے۔ اس لفظ سے ظاہر ہوتا ہے جیسے تمھیں خود پر اعتماد، بھروسہ، یقین نہیں۔
اور افروز لیبتھ واک کی اچھل کود سے تھک گئی۔ کیسا بے ہودہ سا ناچ ہے۔ کس قدر بے معنی اور فضول سے Steps ہیں۔ بس اچھلتے اور گھومتے پھر رہے ہیں، بے وقوفوں کی طرح۔
”مس اوہارا—“ اس کے ہم رقص نے کچھ کہنا شروع کیا۔
”— افروز سلطانہ کہیے۔“
”اوہ— مس افروز حمید علی— آئیے کہیں بیٹھ جائیں۔“
”بیٹھ کر کیا کریں؟“
”ار— باتیں!“
”باتیں آپ کر ہی کیا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ مس حمید علی آپ یہ ہیں، آپ وہ ہیں، آپ بے حد عمدہ رقص کرتی ہیں، آپ نے کل کے سنگلز میں پرکاش کو خوب ہرایا—“
”ار— غالباً آپ کو سیاسیات سے—“
”شکریہ اویناش اس کے لیے ضرورت سے زیادہ ہے۔“
”اچھا تو پھر موسیقی یا پال مُنی کی نئی فلم—“
”مختصر یہ کہ آپ خاموش کسی طرح نہیں بیٹھ سکتے—“ وہ چپ ہوگیا۔
پھر شام کا اندھیرا چھانے لگا۔ درختوں میں رنگ برنگے برقی قمقمے جھلملا اٹھے اور وہ سب سبزے کو خاموش اور سنسان چھوڑ کے بال روم کے اندر چلے گئے۔ آرکیسٹرا کی گت تبدیل ہوگئی۔ جاز اپنی پوری تیزی سے بجنے لگا۔ وہ ہال کے سرے پر شیشے کے لمبے لمبے دریچوں کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کے قریب اس کی ممانی کا چھوٹا بھائی، جو کچھ عرصے قبل امریکہ سے واپس آیا تھا، میری ووڈ سے باتیں کرنے میں مشغول تھا اور بہت سی لڑکیاںاپنی سبز بید کی کرسیاں اس کے آس پاس کھینچ کر انتہائی انہماک اور دل چسپی سے باتیں سن رہی تھیں اور میری ووڈ ہنسے جارہی تھی۔ میری ووڈ، جو سانولی رنگت کی بڑی بڑی آنکھوں والی ایک اعلیٰ خاندان عیسائی لڑکی اور انگریز کرنل کی بیوی تھی، ایک ہندوستانی فلم میں کلاسیکل رقص کرچکی تھی اور اب جاز کی موسیقی اور شیری کے گلاسوں کے سہارے اپنی شامیں گزار رہی تھی۔
اور پائپوں اور سگرٹوں کے دھویں کا ملاجُلا لرزتا ہوا عکس بال روم کی سبز روغنی دیواروں پر بنے ہوئے طیاروں، پام کے درختوں اور رقصاں اپسراو ¿ں کے دھندلے دُھندلے نقوش کو اپنی لہروں میں لپیٹتا، ناچتا، رنگین اور روشن چھت کی بلندی کی طرف اٹھتا رہا۔ خوابوں کا شبنم آلود سحر آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔
جاری۔۔۔۔