قرۃ العین حیدر کے منتخب افسانے

الف عین

لائبریرین
مونا لیزا
مونا لیزا



پریوں کی سرزمین کو ایک راستہ جاتا ہے شاہ بلوط اور صنوبر کے جنگلوں میں سے گزرتا ہوا جہاں روپہلی ندیوں کے کنارے چیری اور بادام کے سایوں میں خوب صورت چرواہے چھوٹی چھوٹی بانسریوں پر خوابوں کے نغمے الاپتے ہیں۔ یہ سنہرے چاند کی وادی ہے۔ Never Never Land کے مغرور اور خوب صورت شہزادے۔ پیٹرپین کا ملک جہاں ہمیشہ ساری باتیں اچھی اچھی ہوا کرتی ہیں۔ آئس کریم کی برف پڑتی ہے۔ چوکلیٹ اور پلم کیک کے مکانوں میں رہا جاتا ہے۔ موٹریں پٹرول کے بجائے چائے سے چلتی ہیں۔ بغیر پڑھے ڈگریاں مل جاتی ہیں۔
اور کہانیوں کے اس ملک کو جانے والے راستے کے کنارے کنارے بہت سے سائن پوسٹ کھڑے ہیں جن پر لکھا ہے ”صرف موٹروں کے لیے“، ”یہ عام راستہ نہیں“ اور شام کے اندھیرے میں زناٹے سے آتی ہوئی کاروں کی تیز روشنی میں نرگس کے پھولوں کی چھوٹی سی پہاڑی میں سے جھانکتے ہوئے یہ الفاظ جگمگا اٹھتے ہیں: ”پلیز آہستہ چلائیے — شکریہ!“
اور بہار کی شگفتہ اور روشن دوپہروں میں سنہرے بالوں والی کرلی لوکس، سنڈریلا اور اسنووائٹ چھوٹی چھوٹی پھولوں کی ٹوکریاں لے کر اس راستے پر چیری کے شگوفے اور ستارہ ¿ سحری کی کلیاں جمع کرنے آیا کرتی تھیں۔
ایک روز کیا ہوا کہ ایک انتہائی ڈیشنگ شہ سوار راستہ بھول کر صنوبروں کی اس وادی میں آنکلا جو دوردراز کی سرزمینوں سے بڑے بڑے عظیم الشان معرکے سر کرکے چلا آرہا تھا۔ اس نے اپنے شان دار گھوڑے پر سے جھک کر کہا: ”مائی ڈیرینگ لیڈی کیسی خوش گوار صبح ہے!“
کرلی لوکس نے بے تعلقی سے جواب دیا: ”اچھا ، واقعی؟ تو پھر کیا ہوا؟“
شہ سوار کی خواب ناک آنکھوں نے خاموشی سے کہا: ”پسند کرو ہمیں۔“ کرلی لوکس کی بڑی بڑی روشن اورنیلی آنکھوں میں بے نیازی جھلملا اٹھی۔ ”جناب ِ عالی ہم بالکل نوٹس نہیں لیتے۔“ شہ سوار نے اپنی خصوصیات بتائیں۔ ایک شان دار سی امپیریل سروس کے مقابلے میں ٹاپ کیا ہے۔ اب تک ایک سو پینتیس ڈوئیل لڑ چکا ہوں۔ بہترین قسم کا Heart Breakerہو ں۔کرلی لوکس نے غصے سے اپنی سنہری لٹیں جھٹک دیں اور اپنے بادامی ناخنوں کے برگنڈی کیوٹیکس کو غور سے دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔ سنڈریلا اور اسنووائٹ پگڈنڈی کے کنارے اسٹرابری چنتی رہیں۔
اور ڈیشنگ شہ سوار نے بڑے ڈرامائی انداز سے جھک کر نرسری کا ایک پرانا گیت یاد دلایا:
کرلی لوکس کرلی لوکس
یعنی اے میری پیاری چینی کی گڑیا۔
تمھیں برتن صاف کرنے نہیں پڑیں گے۔
اور بطخوں کو لے کر چراگاہ میں جانا نہیں ہوگا۔
بلکہ تم کشنوں پر بیٹھی بیٹھی اسٹرابری کھایا کروگی۔
اے میری سنہرے گھنگھریالے بالوں والی مغرور شہزادی ایمیلیا ہنری ایٹامرایا —— دو نینا متوارے تمھارے ہم پر ظلم کریں۔
اور پھر وہ ڈیشنگ شہ سوار اپنے شان دار گھوڑے کو ایڑ لگا کر دوسری سرزمینوں کی طرف نکل گیا جہاں اور بھی زیادہ عظیم الشان اور زبردست معرکے اس کے منتظر تھے اور اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آوازِ بازگشت پہاڑی راستوں اور وادیوں میں گونجتی رہی۔
پھر ایک اور بات ہوئی جس کی وجہ سے چاند کی وادی کے باسی غمگین رہنے لگے کیوں کہ ایک خوش گوار صبح معصوم کوک روبن ستارہ ¿ سحری کے سبزے پر مقتول پایا گیا۔ مرحوم پر کسی ظالم نے تیر چلایا تھا۔ سنڈریلا رونے لگی۔ بے چارا میرا سرخ اور نیلے پروں والا گڈّو سا پرندہ۔ پرستان کی ساری چڑیوں، خرگوشوں اور گلہریوں نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد پتا چلا لیا اور بالاتفاق رائے اس کی بے وقت اور جوان مرگی پر تعزیت کی قرارداد منظور کی گئی۔ یونی ورسٹی میں کوک روبن ڈے منایا گیا لیکن عقل مند پوسی کیٹ نے، جوفل بوٹ پہن کر ملکہ سے ملنے لندن جایا کرتی تھی، سنڈریلا سے کہا: ”روو ¿ مت میری گڑیا، یہ کوک روبن تو یوں ہی مرا کرتا ہے اور پھر فرسٹ ایڈ ملتے ہی فوراً زندہ ہوجاتا ہے۔“ اور کوک روبن سچ مچ زندہ ہوگیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
اور ہمیشہ کی طرح وادی کے سبزے پر بکھرے ہوئے بھیڑوں نے گلّے کی ننھی مُنّی گھنٹیاں اور دور سمندر کے کنارے شفق میں کھوئے ہوئے پرانے عبادت خانوں کے گھنٹے آہستہ آہستہ بجتے رہے— ڈنگ ڈونگ، ڈنگ ڈونگ بل، پوسی ان وَویل۔
ڈنگ ڈونگ۔ ڈنگ ڈونگ— جیسے کرلی لوکس کہہ رہی ہو: نہیں، نہیں، نہیں، نہیں!
اور اس نے کہا۔نہیں نہیں۔ یہ تو پریوں کے ملک کی باتیں تھیں۔ میں کوک روبن نہیں ہوں، نہ آپ کرلی لوکس یا سنڈریلا ہیں۔ ناموں کی ٹوکری میں سے جو پرچی میرے ہاتھ پڑی ہے اس پر ریٹ بٹلر لکھا ہے لہٰذا آپ کو اسکارٹ اوہارا ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر آپ جو لیٹ یا کلیوپٹرا ہیں تو رومیو یا انطونی صاحب کو تلاش فرمائیے اور میں قاعدے سے مس اوہارا کی فکر کروں گا لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ جو لیٹ یا بیٹرس یا ماری انطونی نہیں ہیں اور میں قطعی ریٹ بٹلر نہیں ہوسکتا، کاش آپ محض آپ ہوتیں اور میں صرف میں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا آئیے اپنی اپنی تلاش شروع کریں۔
— ہم سب کے راستے یوں ہی ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے پھر الگ الگ چلے جاتے ہیں، لیکن پرستان کی طرف تو ان میں سے کوئی راستہ بھی نہیں جاتا۔
— چوکو بارز کی اسٹالوں اور لکی ڈپ کے خیمے کے رنگین دھاری دار پردوں کے پیچھے چاندی کی ننھی منی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ ڈنگ ڈونگ ڈنگ ڈونگ— پوسی بے چاری کنویں میں گر گئی اور ٹوم اسٹاو ¿ٹ بے فکری سے چوکو بارز کھاتا رہا۔ پھر وہ سب زندگی کی ٹریجڈی میں غور کرنے میں مصروف ہوگئے کیوں کہ وہ چاند کی وادی کے باسی نہیں تھے لیکن اتنے احمق تھے کہ پرستان کی پگڈنڈی پر موسمِ گل کے پہلے سفید شگوفے تلاش کرنے کی کوشش کر لیا کرتے تھے اور اس کوشش میں انھیں ہمیشہ کسی نہ کسی اجنبی ساحل، کسی نہ کسی ان دیکھی، اَن جانی چٹان پر فورسڈ لینڈنگ کرنی پڑتی تھی۔ وہ کئی تھے۔ ڈک ڈنگٹن جسے امید تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اسے فل بوٹ پہننے والی وہ پوسی کیٹ مل ہی جائے گی جو اسے خوابوں کے شہر کی طرف اپنے ساتھ لے جائے اور اسے یقین تھا کہ خوابوں کے شہر میں ایک نیلی آنکھوں والی ایلس اپنے ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھی اس کی راہ دیکھ رہی ہے اور وہ افسانہ نگار جو سوچتا تھا کہ کسی رو پہلے راج ہنس کے پروں پر بیٹھ کر اگر وہ زندگی کے اس پار کہانیوں کی سرزمین میں پہنچ جائے جہاں چاند کے قلعے میں خیالوں کی شہزادی رہتی ہے تو وہ اس سے کہے: ”میری مغرور شہزادی! میں نے تمھارے لیے اتنی کہانیاں، اتنے اوپیرا اور اتنی نظمیں لکھی ہیں۔ میرے ساتھ دنیا کو چلو تو دنیا کتنی خوب صورت، زندہ رہنے اور محبت کرنے کے قابل جگہ بن جائے۔“ لیکن روپہلا راج ہنس اسے کہیں نہ ملتا تھا اور وہ اپنے باغ میں بیٹھا بیٹھا کہانیاں اور نظمیں لکھاکرتا تھا اور جو خوب صورت اور عقل مند لڑکی اس سے ملتی اسے ایک لمحے کے لیے یقین ہو جاتا کہ خیالوں کی شہزادی چاند کے ایوانوں میں سے نکل آئی ہے لیکن دوسرے لمحے یہ عقل مند لڑکی ہنس کر کہتی کہ افوہ بھئی فن کار صاحب! کیا cynicism بھی اس قدر الٹرافیشن ایبل چیز بن گئی ہے اور آپ کو یہ مغالطہ کب سے ہوگیا ہے کہ آپ جینیس بھی ہیں اور اس کے نقرئی قہقہے کے ساتھ چاند کی کرنوں کی وہ ساری سیڑھیاں ٹوٹ کر گر پڑتیں جن کے ذریعے وہ اپنی نظموں میں خیالستان کے محلوں تک پہنچنے کی کوشش کیا کرتا تھا اور دنیا ویسی کی ویسی ہی رہتی— اندھیری، ٹھنڈی اور بدصورت— اور سنڈریلا جو ہمیشہ اپنا ایک بلوریں سینڈل رات کے اختتام پر خوابوں کی جھلملاتی رقص گاہ میں بھول آتی تھی، اور وہ ڈیشنگ شہ سوار جو پرستان کی خاموش، شفق کے رنگوں میں کھوئی ہوئی پگڈنڈیوں پر اکیلے اکیلے ہی ٹہلا کرتا تھا اور برف جیسے رنگ اور سرخ انگارہ جیسے ہونٹوں والی اسنووائٹ جو رقص کرتی تھی تو بوڑھے بادشاہ کول کے دربار کے تینوں پری زاد مغنی اپنے وائلن بجانا بھول جاتے تھے۔
”اور“، ریٹ بٹلر نے اس سے کہا، ”مس اوہارا آپ کو کون سا رقص زیادہ پسند ہے۔ ٹینگو— فوکس ٹروٹ— رومیا— آئیے لیمبتھ واک کریں۔“
اور افروز اپنے پارٹنر کے ساتھ رقص میں مصروف ہوگئی حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسکارلٹ اور ہارا نہیں ہے کیوں کہ وہ چاند کی دنیاکی باسی نہیں تھی۔سبزے پر رقص ہورہا تھا۔ روش کی دوسری طرف ایک درخت کے نیچے، لکڑی کے عارضی پلیٹ فارم پر چارلس جوڈا کا آرکیسٹرا اپنی پوری سوئنگ میں تیزی سے بج رہا تھا— اور پھر ایک دم سے قطعے کے دوسرے کنارے پر ایستادہ لاو ¿ڈ اسپیکر میں کارمن میرانڈا کا ریکارڈ چیخنے لگا: ”تم آج کی رات کسی کے بازوو ¿ں میں ہونا چاہتی ہو؟“ لکی ڈپ اور ”عارضی کافی ہاو ¿س“ کے رنگین خیموں پر بندھی ہوئی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بجتی رہیں اور کسی نے اس کے دل میں آہستہ آہستہ کہا: موسیقی— دیوانگی— زندگی— دیوانگی— شوپاں کے نغمے— ”جپسی مون۔“ اور خدا!! اس نے اپنے ہم رقص کے مضبوط، پراعتماد، مغرور بازوو ¿ں پر اپنا بوجھ ڈال کر ناچ کے ایک کوئیک اسٹیپ کاٹرن لیتے ہوئے اس کے شانوں پر دیکھا۔ سبزے پر اس جیسے کتنے انسان اس کی طرح دو دو کے رقص کی ٹکڑیوں میں منتشر تھے۔ ”جولیٹ“ اور ”رومیو“، ”وکٹوریہ“ اور ”البرٹ“، ”بیٹرس“ اور ”دانتے“ ایک دوسرے کو خوب صورت دھوکے دینے کی کوشش کرتے ہوئے، ایک دوسرے کو غلط سمجھتے ہوئے اپنی اس مصنوعی، عارضی، چاند کی وادی میں کتنے خوش تھے وہ سب کے سب—! بہار کے پہلے شگوفوں کی متلاشی اور کاغذی کلیوں پر قانع اور مطمئن— زندگی کے تعاقب میں پریشان و سرگرداں زندگی— ہُنہ— شوپاں کی موسیقی، سفید گلاب کے پھول، اور اچھی کتابیں۔ کاش! زندگی میں صرف یہی ہوتا، چاند کی وادی کے اس افسانہ نگار اویناش نے ایک مرتبہ اس سے کہا تھا۔ ہُنہ— کتنا بنتے ہو اویناش! ابھی سامنے سے ایک خوب صورت لڑکی گزر جائے اور تم اپنی ساری تخیل پرستیاں بھول کر سوچنے لگوگے کہ اس کے بغیر تمھاری زندگی میں کتنی بڑی کمی ہے— اور اویناش نے کہا تھا :کاش جو ہم سوچتے وہی ہوا کرتا، جو ہم چاہتے وہی ملتا— ہائے یہ زندگی کالکی ڈپ—! زندگی، جس کا جواب مونا لیزا کا تبسم ہے جس میں نرسری کے خوب صورت گیت اور چاند ستارے ترشتی ہوئی کہانیاں تمھارا مذاق اُڑاتی، تمھارا منہ چڑاتی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں جہاں کوک روبن پھر سے زندہ ہونے کے لیے روز نئے نئے تیروں سے مرتا رہتا ہے— اور کرلی لوکس ریشمیں کشنون کے انبار پر کبھی نہیں چڑھ پاتی۔ کاش افروز تم— اور پھر وہ خاموش ہوگیا تھا کیوں کہ اسے یاد آگیا تھا کہ افروز کو ”کاش“— اس سستے اور جذباتی لفظ سے سخت چڑ ہے۔ اس لفظ سے ظاہر ہوتا ہے جیسے تمھیں خود پر اعتماد، بھروسہ، یقین نہیں۔
اور افروز لیبتھ واک کی اچھل کود سے تھک گئی۔ کیسا بے ہودہ سا ناچ ہے۔ کس قدر بے معنی اور فضول سے Steps ہیں۔ بس اچھلتے اور گھومتے پھر رہے ہیں، بے وقوفوں کی طرح۔
”مس اوہارا—“ اس کے ہم رقص نے کچھ کہنا شروع کیا۔
”— افروز سلطانہ کہیے۔“
”اوہ— مس افروز حمید علی— آئیے کہیں بیٹھ جائیں۔“
”بیٹھ کر کیا کریں؟“
”ار— باتیں!“
”باتیں آپ کر ہی کیا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ مس حمید علی آپ یہ ہیں، آپ وہ ہیں، آپ بے حد عمدہ رقص کرتی ہیں، آپ نے کل کے سنگلز میں پرکاش کو خوب ہرایا—“
”ار— غالباً آپ کو سیاسیات سے—“
”شکریہ اویناش اس کے لیے ضرورت سے زیادہ ہے۔“
”اچھا تو پھر موسیقی یا پال مُنی کی نئی فلم—“
”مختصر یہ کہ آپ خاموش کسی طرح نہیں بیٹھ سکتے—“ وہ چپ ہوگیا۔
پھر شام کا اندھیرا چھانے لگا۔ درختوں میں رنگ برنگے برقی قمقمے جھلملا اٹھے اور وہ سب سبزے کو خاموش اور سنسان چھوڑ کے بال روم کے اندر چلے گئے۔ آرکیسٹرا کی گت تبدیل ہوگئی۔ جاز اپنی پوری تیزی سے بجنے لگا۔ وہ ہال کے سرے پر شیشے کے لمبے لمبے دریچوں کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کے قریب اس کی ممانی کا چھوٹا بھائی، جو کچھ عرصے قبل امریکہ سے واپس آیا تھا، میری ووڈ سے باتیں کرنے میں مشغول تھا اور بہت سی لڑکیاںاپنی سبز بید کی کرسیاں اس کے آس پاس کھینچ کر انتہائی انہماک اور دل چسپی سے باتیں سن رہی تھیں اور میری ووڈ ہنسے جارہی تھی۔ میری ووڈ، جو سانولی رنگت کی بڑی بڑی آنکھوں والی ایک اعلیٰ خاندان عیسائی لڑکی اور انگریز کرنل کی بیوی تھی، ایک ہندوستانی فلم میں کلاسیکل رقص کرچکی تھی اور اب جاز کی موسیقی اور شیری کے گلاسوں کے سہارے اپنی شامیں گزار رہی تھی۔
اور پائپوں اور سگرٹوں کے دھویں کا ملاجُلا لرزتا ہوا عکس بال روم کی سبز روغنی دیواروں پر بنے ہوئے طیاروں، پام کے درختوں اور رقصاں اپسراو ¿ں کے دھندلے دُھندلے نقوش کو اپنی لہروں میں لپیٹتا، ناچتا، رنگین اور روشن چھت کی بلندی کی طرف اٹھتا رہا۔ خوابوں کا شبنم آلود سحر آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔

جاری۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
او ریک لخت، میری ووڈ نے زور سے ہنسنا اور چلّانا شروع کردیا۔ افروز کی ممانی کے ہالی ووڈ پلٹ بھائی نے ذرا گھبرا کر اپنی کرسی پیچھے کو سرکا لی۔ سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ آرکیسٹرا کے سُر آہستہ آہستہ ڈوبتے گئے اور دبی دبی اور مدھم قہقہوں کی آوازیں ابھرنے لگیں۔ وہ سبز آنکھوں والی زرد رولڑکی، جو بہت دیر سے ایک ہندوستانی پرنس کے ساتھ ناچ رہی تھی، تھک کر افروز کے قریب آکر بیٹھ گئی اور اس کا باپ، جو ایک ہندوستانی ریاست کی فوج کا افسر اعلیٰ تھا، فرن کے پتوں کے پیچھے گیلری میں بیٹھا اطمینان سے سگارکا دھواں اڑاتا رہا۔
پھر کھیل شروع ہوئے اور ایک بے حد اوٹ پٹانگ سے کھیل میں حصہ لینے کے لیے سب دوبارہ ہال کی فلور پر آگئے اور افروز کا ہم رقص ریٹ بٹلر اپنے خواب ناک آنکھوں والے دوست کے ساتھ اس کے قریب آیا: ”مس حمید علی آپ میری پارٹنر ہیں نا؟“
”جی ہاں۔ آئیے۔“
اور اس خواب ناک آنکھوں والے دوست نے کہا: ”بارہ بجنے والے ہیں۔ نیا سال مبارک ہو۔ لیکن آج اتنی خاموش کیوں ہیں آپ؟“
”آپ کو بھی مبارک ہو لیکن ضرورت ہے کہ اس زبردست خوشی میں خواہ مخواہ کی بے کار باتوں کا سلسلہ رات بھر ختم ہی نہ کیا جائے۔“
”لیکن میں تو چاہتا ہوں کہ آپ اس طرح خاموش نہ رہیں۔ اس سے خواہ مخواہ یہ ظاہر ہوگا کہ آپ کو اس مجمعے میں ایک مخصوص شخص کی موجودگی ناگوار گزر رہی ہے۔“
”پر جو آپ چاہیں لازم تو نہیں کہ دوسروں کی بھی وہی مرضی ہو۔ کیوں کہ جب آپ کچھ کہتے ہوتے ہیں اُس وقت آپ کو یقین ہوتا ہے کہ ساری دنیا بے حد دل چسپی سے آپ کی طرف متوجہ ہے اور بعد میں لڑکیاں کہتی ہیں: افوہ! کس قدر مزے کی باتیں کرتے ہیں انور صاحب۔
اتنے میں پرکاش کاغذ اور پنسلیں تقسیم کرتی ہوئی ان کی طر ف آئی اور ان کو ان کے فرضی نام بتاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر کے لیے سب چپ ہوگئے۔ پھر قہقہوں کے شور کے ساتھ کھیل شروع ہوا کھیل کے دوران میں اس نے اپنی خواب ناک آنکھیں اٹھا کر یوں ہی کچھ نہ کچھ بولنے کی غرض سے پوچھا: ”جی، تو ہم کیا باتیں کررہے تھے؟“
”میرا خیال ہے کہ ہم باتیں قطعی کر ہی نہیںرہے تھے۔ کیوں نہ آپ قاعدے سے اپنی پارٹنر کے ساتھ جاکر کھیلیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں اسکارلٹ اوہارا ہوں۔ جو لیٹ ابھی آپ کو تلاش کررہی تھی۔ پھر ڈاکٹر مہرہ اور اویناش اس کی طرف آگئے اور وہ ان کے ساتھ کھیل میں مصروف ہوگئی۔
اور جب رات کے اختتام پر وہ رفعت کے ساتھ اپنا اوورکوٹ لینے کے لیے کلوک روم کی طرف جارہی تھی تو گیلری کے سامنے کی طرف سے گزرتے ہوئے اس نے اس سبز آنکھوں والی زرد رو جولیٹ کے باپ کو اپنے دوستوں سے کہتے سنا۔: ”آپ میرے داماد میجر بھنڈاری سے ملے؟ مجھے تو فخر ہے کہ میری بڑی لڑکی نے اپنے فرقے سے باہر شادی کرنے میں ذات اور مذہب کی دقیانوسی قیود کی پروا نہیں کی۔ میری لڑکی کا انتخاب پسند آیا آپ کو؟ ہی ہی ہی۔ دراصل میں نے اپنی چاروں لڑکیوں کا ٹیسٹ کچھ اس طرح Cultivate کیا ہے کہ پچھلی مرتبہ جب میں ان کو اپنے ساتھ یورپ لے گیا تو—“ اور افروز جلدی سے بال روم کے باہر نکل آئی۔ یہ زندگی— یہ زندگی کا گھٹیاپن!
واقعی—! یہ زندگی—!!
اور جشن نو روز کے دوسرے دن اس بے چارے ریٹ بٹلر نے اپنے دوست، اس خواب ناک آنکھوں والے ڈیشنگ شہ سوار سے کہا، جو پرستان کے راستوں پر سب سے الگ الگ ٹہلا کرتا تھا— ”عجب لڑکی ہے بھئی۔“
”ہوا کرے۔“ اور وہ خواب ناک آنکھوں والا دوست بے نیازی سے سگریٹ کے دھویں کے حلقے بنا بنا کر چھت کی طرف بھیجتا رہا۔
اور اس عجیب لڑکی کی دوست کہہ رہی تھی: ”ہُنہ، اس قدر مغرور، مغالطہ فائیڈ قسم کا انسان۔“
”ہوا کرے بھئی۔ ہم سے کیا۔“ اور افروز بے تعلقی کے ساتھ نٹنگ میں مصروف ہوگئی۔
”اتنی اونچی بننے کی کوشش کیوں کررہی ہو؟“ رفعت نے چڑ کر پوچھا۔
”کیا ہرج ہے۔“
”کوئی ہرج ہی نہیں؟ قسم خدا کی افروز اس اویناش کے فلسفے نے تمھارا دماغ خراب کردیا ہے۔“
”تو گویا تمھارے لیے زنجیر ہلائی جائے۔“
”فوہ۔ جیسے آپ یوں ہی نولفٹ جاری رکھیں گی۔“
”قطعی—! زندگی تمھارے لیے ایک مسلسل جذباتی اضطراب ہے لیکن مجھے اصولوں میں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے— جانتی ہو زندگی کے یہ ایئرکنڈیشنڈ اصول بڑے کارآمد اور محفوظ ثابت ہوتے ہیں۔“
”فیہہ— کیا بلند پروازی ہے۔“
”میں؟“
”تم اور وہ— خدا کی قسم ایسی بے پرواہی سے بیٹھا رہتا ہے جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ جی چاہتا ہے پکڑ کر کھا جاو ¿ں اسے۔ جھکنا جانتا ہی نہیں جیسے۔“
”ارے چپ رہو بھائی۔“
”سچ مچ اس کی آنکھوں کی گہرائیاں اتنی خاموش، اس کا انداز اتنا پروقار، اتنا بے تعلق ہے کہ بعض مرتبہ جی میں آتا ہے کہ بس خودکشی کرلو۔ یعنی ذرا سوچو تو، تم جانتی ہو کہ تمھارے کشن کے نیچے یا مسہری کے سرہانے میز پر بہترین قسم کی کیڈ بری چاکلیٹ کا بڑا سا خوب صورت پیکٹ رکھا ہوا ہے لیکن تم اسے کھا نہیں سکتیں— الّو!“
”کون بھئی—؟“ پرکاش نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
”کوئی نہیں— ہے— ایک— ایک—“ رفعت نے اپنے غصے کے مطابقت میں کوئی موزوں نام سوچنا چاہا۔
”—بلّا—“ افروز نے اطمینان سے کہا۔
”بّلا!“ پرکاش کافی پریشان ہوگئی۔
”ہاں بھئی— ایک بلّا ہے بہت ہی Typical قسم کا ایرانی بلّا۔“ افروز بولی۔
”تو کیا ہوا اس کا؟“ پرکاش نے پوچھا۔
”کچھ نہیں۔ ہوتا کیا؟ سب ٹھیک ہے بالکل۔ بس ذرا اسے اپنی آنکھوں پر بہت ناز ہے اور ان مسعود اصغر صاحب کا کیا ہوگا؟ جو مسوری سے مارخط پہ خط نہایت اسٹائیلش انگریزی میںتمھارے ٹینس کی تعریف میں بھیجا کرتے ہیں۔“
”ان کو تار دے دیا جائے— Nose upturned-Nose upturned-Riffat:
”ہاں۔ یعنی لفٹ نہیں دیتے۔ جس کی ناک ذرا اوپر کو اٹھی ہوتی ہے وہ آدمی ہمیشہ بے حد مغرور اور خود پسند طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔“
”تو تمھاری ناک اتنی اٹھی ہوئی کہاں ہے۔“
”قطعی اٹھی ہوئی ہے۔ بہترین پروفائل آتا ہے۔“
”واقعی ہم لوگ بھی کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔“
”جناب، بے حد مفید اور عقل مندی کی باتیں ہیں۔“
”اور صلاح الدین بے چارہ!“
”وہ تو پیدا ہی نہیں ہوا اب تک۔“ رفعت نے بڑے رنجیدہ انداز سے کہا۔
کیوں کہ یہ ان کا تخیلی کردار تھا اور خیالستان کے کردار چاند کی وادی میں سے کبھی نہیں نکلتے۔ جب کبھی وہ سب کسی پارٹی میں ملیں تو سب سے پہلے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ایک دوسرے سے اس فرضی ہستی کی خیریت پوچھی جاتی، اس کے متعلق اوٹ پٹانگ باتیں کی جاتیں اور اکثر انھیں محسوس ہوتا جیسے انھیں یقین سا ہوگیا ہے کہ ان کا خیالی کردار اگلے لمحے ان کی دنیا اور ان کی زندگی میں داخل ہوجائے گا۔
اور فرصت اور بے فکری کی ایک خوش گوار شام انھوں نے یوں ہی باتیں کرتے کرتے صلاح الدین کی اس خیالی تصویر کو مکمل کیا تھا۔ وہ سب شاپنگ سے واپس آکر منظر احمد پر زور شور سے تبصرہ کررہی تھیں جو ان سے دیر تک آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے ایک کاو ¿نٹر پر باتیں کرتا رہا تھا اور پرکاش نے قطعی فیصلہ کردیا تھا کہ وہ بے حد بنتا ہے اور افروز بے حد پریشان تھی کہ کس طرح اس کا یہ مغالطہ دور کرے کہ وہ اسے پسند کرتی ہے۔
”لیکن اسے لفٹ دینے کی کوئی معقول وجہ پیش کرو۔“
”کیوں کہ بھئی ہمارا معیار اس قدر بلند ہے کہ کوئی مارک تک پہنچ نہیں سکتا۔“
”لہٰذا اب کی بار اس کو بتا دیا جائے گا کہ بھئی افروز کی تو منگنی ہونے والی ہے۔“
”لیکن کس سے؟“
”یہی تو طے کرنا باقی ہے۔ مثلاً— مثلاً ایک آدمی سے۔ کوئی نام بتاو ¿۔“
”پرویز۔“
”بڑا عام افسانوی سا نام ہے۔ کچھ اور سوچو!“
”سلامت اللہ!“
”ہش۔ بھئی واہ، کیا شان دار نام دماغ میں آیا— صلاح الدین!“
”یہ ٹھیک ہے۔ اچھا، اور بھائی صلاح الدین کا تعارف کس طرح کرایا جائے؟“
”بھئی صلاح الدین صاحب جو تھے وہ ایک روز پرستان کے راستے پر شفق کے گل رنگ سائے تلے مل گئے۔“
”پرستان کے راستے پر؟“
”چپکی سنتی جاو ¿۔ جانتی ہو میں اس قدر بہترین افسانے لکھتی ہوں جن میں سب پرستان کی باتیں ہوتی ہیں۔ بس پھر یہ ہوا کہ—“
”جناب ہم تو اس دنیا کے باسی ہیں۔ پرستان اور کہانیوں کی پگڈنڈیوں پر تو صرف اویناش ہی بھٹکتا اچھا لگتا ہے۔
”چچ چچ چچ۔ بے چارہ اویناش— گڈو۔“
”بھئی ذکر تو صلاح الدین کا تھا۔“
”خیر تو جناب صلاح الدین صاحب پرستان کے راستے پر ہرگز نہیں ملے۔ وہ بھی ہماری دنیا کے باسی ہیں اور ان کا دماغ قطعی خراب نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ سب ہی میٹر آف فیکٹ طریقے سے۔“
”یہ ہوا کہ افروز دل کشا جارہی تھی تو ریلوے کراسنگ کے پاس بے حد رومینٹک انداز سے اس کی کار خراب ہوگئی۔“
”نہیں بھئی واقعہ یہ تھا کہ افروز آفیسرز شاپ جوگئی ایک روز تو پتا چلا کہ وہ غلط تاریخ پر پہنچ گئی ہے، اور وہ اپنا کارڈ بھی گھر بھول گئی تھی۔ بس بھائی صلاح الدین جو تھے انھوں نے جب دیکھا کہ ایک خوب صورت لڑکی برگنڈی رنگ کا کیوٹکس نہ ملنے کے غم میں روپڑنے والی ہے تو انھوں نے بے حد Gallantly آگے بڑھ کر کہا کہ ”خاتون میرا آج کی تاریخ کا کارڈ بے کار جارہا ہے، اگر آپ چاہیں۔“
”بہت ٹھیک۔ آگے چلو۔ پھر کیا ہونا چاہیے؟“ ”بس وہ پیش ہوگئے۔“ نہ پیش نہ زیر نہ زبر— افروز نے فوراً نولفٹ کردیا اور بے چارے دل شکستہ ہوگئے۔“
”اچھا ان کا کیریکٹر—“
”بہت ہی بیش فُل۔“
”ہرگز نہیں۔ کافی تیز— لیکن بھئی ڈینڈی قطعی نہیں برداشت کیے جائیں گے۔“
”قطعی نہیں صاحب— اور اور فلرٹ ہوں تھوڑے سے—“
”تو کوئی مضائقہ نہیں— اچھا وہ کرتے کیا ہیں؟“
”بھئی ظاہر ہے کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی کرتے ہوں گے!“
”آرمی میں رکھ لو—“
”اووق— حد ہوگئی تمھارے اسسٹنٹ کی۔ کچھ سوال سروس وغیرہ کا لاو ¿۔“
”سب بور ہوتے ہیں۔“
”ارے ہم بتائیں، کچھ کرتے کراتے نہیں۔ منظراحمد کی طرح تعلقہ دار ہیں۔ پچیس گاو ¿ں اور ایک یہی رومینٹک سی جھیل جہاں پر وہ کرسمس کے زمانے میں اپنے دوستوں کو مدعو کیا کرتے ہیں۔ ہاں اور ایک شان دار سی اسپورٹس کار—“
”لیکن بھئی اس کے باوجود بے انتہا قومی خدمت کرتا ہے۔ کمیونسٹ قسم کی کوئی مخلوق۔“
”کمیونسٹ ہے تو اسے اپنے پچیسوں گاو ¿ں علاحدہ کردینے چاہئیں کیوں کہ پرائیویٹ پراپرٹی—“
”واہ، اچھے بھائی بھی تو اتنے بڑے کمیونسٹ ہیں۔ انھوں نے کہاں اپنا تعلقہ چھوڑا ہے؟“
”آپ تو چغد ہیں نشاط زریں— اچھے بھیا تو سچ مچ کے آدمی ہیں۔ ہیرو کو بے حد آئیڈیل قسم کا ہونا چاہیے۔ یعنی غور کرو صلاح الدین محمود کس قدر بلند پایہ انسان ہے کہ جنتا کی خاطر—“
”افوہ— کیا بوریت ہے بھئی۔ تم سب مل کر ابھی یہی طے نہیں کرپائیں کہ وہ کرتا کیا ہے۔“
”کیا بات ہوئی ہے واللہ!“
”جلدی بتاو ¿۔“
”اصفہانی چائے میں—“
اور سب پرٹھنڈا پانی پڑگیا۔
”کیوں جناب اصفہانی چائے میں بڑے بڑے اسمارٹ لوگ دیکھنے میں آتے ہیں۔“
”اچھا بھئی قصہ مختصر یہ کہ پڑھتا ہے۔ فزکس میں ریسرچ کررہا ہے گویا۔“
”پڑھتا ہے تو آفیسرز شاپ میں کہاں سے پہنچ گیا!“
”بھئی ہم نے فیصلہ کردیا ہے آخر۔ ہوائی جہاز میں سول ایوی ایشن آفیسر ہے۔“
”یہ آئیڈیا کچھ—“
”تمھیں کوئی آئیڈیا ہی پسند نہیں آیا۔ اب تمھارے لیے کوئی آسمان سے تو خاص طور پر بن کر آئے گا نہیں آدمی۔
”اچھا تو پھر یہی مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور جو غرور کے مارے اب تک ڈیڈی پر کال کرنے نہیں آئے۔“
—اور اس طرح انھوں نے ایک تخیلی کردار کی تخلیق کی تھی۔ سب ہی اپنے دلوں میں چپکے چپکے ایسے کرداروں کی تخلیق کرلیتے ہیں جو ان کی دنیا میں آکر بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ یہ بے چارے بے وقوف لوگ!!
لیکن پرکاش کا خیال تھا کہ ان کیMad-hatter's پارٹی میں سب کے سب حد سے زیادہ عقل مند ہیں۔ مغرور اور خودپسند نشاط زریں جو ایسے Fantastic افسانے لکھتی ہے جن کا سر پیر کسی کی سمجھ میں نہیں آتا لیکن جن کی تعریف ایٹی کیٹ کے اصولوں کے مطابق سب کردیتے ہیں جو اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ کر بچوں کی طرح رو پڑتی ہے یا خوش ہوجاتی ہے اور پھر اپنے آپ کو سپرانٹلکچوئل سمجھتی ہے۔ رفعت، جس کے لیے زندگی ہمیشہ ہنستی ناچتی رہتی ہے اور افروز جو نہایت سنجیدگی سے نولفٹ کے فلسفے پر تھیسس لکھنے والی ہے کیوں کہ ان کی پارٹی کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انسان کو خود پسند، خودغرض اورمغرور ہونا چاہیے کیوں کہ خود پسندی دماغی صحت مندی کی سب سے پہلی علامت ہے۔
جاری۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک سہ پہر وہ سب اپنے امریکن کالج کے طویل دریچوں والے فرانسیسی وضع کے میوزک روم میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ پیانو کے گرد جمع ہوکر سالانہ کونسرٹ کے اوپیرا کے لیے ریہرسل کررہی تھیں۔ موسیقی کی ایک کتاب کے ورق الٹتے ہوئے کسی جرمن نغمہ نواز کی تصویر دیکھ کر پرکاش نے بے حد ہمدردی سے کہا: ”ہمارے اویناش بھائی بھی تو اسکارف، لمبے لمبے بالوں، خواب ناک آنکھوں اور پائپ کے دھوئیں سے ایسا بوہیمین انداز بناتے ہیں کہ سب ان کو خواہ مخواہ جینیس سمجھنے پر مجبور ہوجائیں۔“ ”آدمی کبھی جینیس ہو ہی نہیں سکتا۔“ نشاط اپنے فیصلہ کن انداز میں بولی۔ ”اب تک جتنے جینیس پیدا ہوئے ہیں سارے کے سارے بالکل Girlish تھے اور ان میں عورت کا عنصر قطعی طور پر زیادہ موجود تھا۔ بائرن، شیلے، کیٹس، شوپاں— خود آپ کا نپولین اعظم لڑکیوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا تھا۔“ رفعت آئرش دریچے کے قریب زور زور سے الاپنے لگی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں، گانے کی مشق کررہی تھی۔ باہر برآمدے کے یونانی ستونوں اور باغ پر دھوپ ڈھلنا شروع ہوگئی۔”سُپرب، میری بچیو! ہماری ریہرسلیں بہت اچھی طرح پروگرس کررہی ہیں۔“ اور موسیقی کی فرانسیسی پروفیسر اپنی مطمئن اور شیریں مسکراہٹ کے ساتھ میوزک روم سے باہر جاکر برآمدے کے ستونوں کے طویل سایوں میں کھوگئیں۔ نشاط نے اسی سکون اور اطمینان کے ساتھ پیانو بند کردیا۔ زندگی کتنی دل چسپ ہے، کتنی شیریں۔ دریچے کے باہر سائے بڑھ رہے تھے۔ فضا میں ”لابوہیم“ کے نغموں کی گونج اب تک رقصاں تھی۔ چاروں طرف کالج کی شان دار اور وسیع عمارتوں کی قطاریں شام کے دھندلکے میں چھپتی جارہی تھیں۔ میرا پیارا کالج، ایشیا کا بہترین کالج، ایشیا میں امریکہ! لیکن اس کا اسے اس وقت خیال نہیں آیا۔ اس وقت اسے ہر بات عجیب معلوم نہیں ہوئی۔ وہ سوچ رہی تھی ہم کتنے اچھے ہیں۔ ہماری دنیا کس قدر مکمل اور خوش گوار ہے۔ اپنی معصوم مسرتیں اورتفریحیں، اپنے رفیق اور ساتھی، اپنے آئیڈیل اور نظریے اور اسی خوب صورت دنیا کا عکس وہ اپنے افسانوں میں دکھانا چاہتی ہے تو اس کی تحریروں کو Fantastic اور مصنوعی کہاجاتا ہے— بے چاری میں!! موسیقی کے اوراق سمیٹتے ہوئے اسے اپنے آپ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس نے ایک بار اویناش کو سمجھایا تھا کہ ہماری شریعت کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیشہ اپنی تعریف آپ کرو۔ تعریف کے معاملے میں کبھی دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ محفوظ ترین بات یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً خود کو یاد دلاتے رہا جائے کہ ہم کس قدر بہترین ہیں۔ ہم کو اپنے علاوہ دنیا کی کوئی اور چیز بھی پسند نہیں آسکی کیونکہ خود بادلوں کے محلوں میں محفوظ ہوکر دوسروں پر ہنستے رہنا بے حد دل چسپ مشغلہ ہے۔ زندگی ہم پر ہنستی ہے، ہم زندگی پر ہنستے ہیں۔ ”اور پھر زندگی اپنے آپ پر ہنستی ہے۔“ بے چارے اویناش نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تھا اور اگر افروز کا خیال تھا کہ وہ اس دنیا سے بالکل مطمئن نہیں تو پرکاش اور نشاط زریں کو، جو دونوں بے حد عقل مند تھیں، قطعی طور پر یقین تھا کہ یہ بھی ان کی Mad-hatter's پارٹی کی cynicism کا ایک خوب صورت اور فائدہ مند پوز ہے۔
—اور سچ مچ افروز کو اس صبح محسوس ہوا کہ وہ بھی اپنی اس دنیا، اپنی اس زندگی سے انتہائی مطمئن اور خوش ہے۔ اس نے اپنی چاروں طرف دیکھا۔ اس کے کمرے کے مشرقی دریچے میں سے صبح کے روشن اور جھلملاتے ہوئے آفتاب کی کرنیں چھن چھن کر اندر آرہی تھیں اور کمرے کی ہلکی گلابی دیواریں اس نارنجی روشنی میں جگمگا اٹھی تھیں۔ باہر دریچے پر چھائی ہوئی بیل کے سرخ پھولوں کی بوجھ سے جھکی ہوئی لمبی لمبی ڈالیاں ہوا کے جھونکوں سے ہل ہل کر دریچے کے شیشوں پر اپنے سائے کی آڑی ترچھی لکیریں بنا رہی تھیں۔ اس نے کتاب بند کرکے قریب کے صوفے پر پھینک دی اور ایک طویل انگڑائی لے کر مسہری سے کود کر نیچے اتر آئی۔ اس نے وقت دیکھا۔ صبح جاگنے کے بعد وہ بہت دیر تک پڑھتی رہی تھی۔ اس نے غسل خانے میں گھس کر کالج میں اسٹیج ہونے والے اوپیرا کا ایک گیت گاتے ہوئے منہ دھویا اور تیار ہوکر میز پر سے کتابیں اٹھاتی ہوئی باہر نکل آئی۔ کلاس کا وقت بہت قریب تھا۔ اس نے برساتی سے نکل کر ذرا تیزی سے لائن کو پار کیا اور پھاٹک کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے دیکھا کہ باغ کے راستے پر، سبزے کے کنارے، اس کا فیڈو روز کی طرح دنیا جہاں سے قطعی بے نیاز اورصلح کل انداز میں آنکھیں نیم وا کیے دھوپ سینک رہا تھا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ اس کے لمبے لمبے سفید ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے محسوس کیا، اس نے دیکھا کہ دنیا کتنی روشن، کتنی خوب صورت ہے۔ باغ کے پھول، درخت، پتیاں، شاخیں اسی سنہری دھوپ میں نہا رہی تھیں۔ ہر چیز تازہ دم اور بشاش تھی۔ کھلی نیلگوں فضاو ¿ں میں سکون اور مسرت کے خاموش راگ چھڑے ہوئے تھے۔ کائنات کس قدر پرسکون اور اپنے وجود سے کتنی مطمئن تھی۔ دور کوٹھی کے احاطے کے پچھلے حصے میں دھوبی نے باغ کے حوض پر کپڑے پٹخنے شروع کردیے تھے اور نوکروں کے بچے اور بیویاں اپنے کوارٹروں کے سامنے گھاس پر دھوپ میں اپنے کاموں میں مصروف ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے شور مچا رہی تھیں۔ روزمرہ کی یہ مانوس آوازیں، یہ محبوب اور عزیز فضائیں— یہ اس کی دنیا تھی، اس کی خوب صورت اور مختصر سی دنیا اور اس نے سوچا کہ واقعی یہ اس کی حماقت ہے اگر وہ اپنی اس آرام دہ اور پرسکون کائنات سے آگے نکلنا اور سایوں کی اندھیری وادی میں جھانکنا چاہتی ہے۔ ایسے Adventure ہمیشہ بے کار ثابت ہوتے ہیں۔ اس نے فیڈو کو پیار کرکے اس کی جگہ پر بٹھا دیا اور آگے بڑھ گئی۔ باغ کے احاطے کی دوسری طرف انگریز ہمسائے کا بچہ گلِ داو ¿دی کی کیاریوں کے کنارے کنارے اپنے لکڑی کے گھوڑے پر سوار دھوپ میں جھلملاتے پروں والی تیتریوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے خوب زور زور سے گا رہا تھا۔ "Ah! this bootiful, bootiful world!" اس نے سوچا: لٹل مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور، خوب گاو ¿! اوراپنے لکڑی کے گھوڑے پر خیالی مہمیں سر کرتے رہو۔ ایک وقت آئے گا جب تمھیں پتا چلے گا کہ دنیا کتنی بوٹی فل نہیں ہے۔
اور امرودوں کے جھنڈ کے اس پار کالج کے میوزک روم میں تیزی سے ریکارڈ بجنے شروع ہوگئے اور اسے یاد آگیا کہ کالج سے واپسی پر اسے اوپیرا کے علاوہ بنگال ریلیف کے ورائٹی شوکی ریہرسل کے لیے بھی جانا ہے اور وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔ شام کو پروگرام تھا اور چاروں طرف زور شور سے اس کے انتظامات کیے جارہے تھے۔ بنگال کا قحط ان دنوں اپنی انتہا پر پہنچا ہوا تھا اور ہر لڑکی اور لڑکے کے دل میں کچھ نہ کچھ کرنے کا سچّا جوش موجزن تھا۔
ٹکٹ فروخت کرنے کے لیے سائیکلوں پر سول لائنز کی کوٹھیوں کے چکر لگائے جارہے تھے۔ مشاعرے کے انتظام کے سلسلے میں بار بار ریڈیو اسٹیشن پر فون کیا جارہا تھا کیوں کہ اسی ہفتے ریڈیو پر مشاعرہ ہوا تھا جس کی شرکت کے لیے بہت سے مشہور ترنّم سے پڑھنے والے شعرائے کرام تشریف لے آئے تھے۔ میوزک روم کے پیچھے کے اور چرڈ میں بہت سی لڑکیاں ایک درخت کے نیچے انتہائی انہماک سے مختلف کاموں میں مصروف تھیں۔ کچھ پروگرام کے خوب صورت کاغذوں پر پینٹنگ کررہی تھیں، کچھ قہقہے لگا لگا کر اس افتتاحیہ نظم کی تُک بندی کررہی تھیں جو پروگرام شروع ہونے پر قوالوں کے انداز اور انھی کے بھیس میں گائی جانی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی ان میں شامل ہوگئی۔ ”اور ہمارے سپرجینیس گروپ کے باقی افراد کہاں رہ گئے؟“ سعیدہ نے پوچھا۔
”پرکاش تو آج کل مہرہ اور اویناش کے ساتھ ہندوستان آزاد کرانے میں سخت مصروف ہے اور رفعت دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنے کے بعد محبت میں مبتلا ہوگئی ہے۔“
”ہا بے چاری— اور ہمارا زبردست ادیب، مصور اور افسانہ نگار ابھی تک نہیں پہنچا۔“
”آگئے ہم—“ نشاط نے درخت کے نیچے پہنچ کر اپنی جاپانی چھتری بند کرتے ہوئے کہا۔
”خدا کا شکرادا کربھائی، جس نے ایسا ادیب بنائی۔“ جلیس ایک قلابازی کھاکر بولی، ”چلو اب قوّالی مکمل کریں۔“ اور ہنس ہنس کر لوٹتے ہوئے قوالی تیار کی جانے لگی۔ کیسے بے تکے اور دل چسپ شعر تھے: ”وہ خود ہی نشانہ بنتے ہیں، ہم تیر چلانا کیا جانیں—
انورسٹی کے پڑھنے والے ہم گانا بجانا کیا جانیں۔“ اور جانے کیا کیا۔
کتنی خوش تھیں وہ سب— زندگی کی یہ معصوم، شریر، چھوٹی چھوٹی مسرّتیں!!
اور اس وقت بھی دنیا اتنی ہی خوب صورت اور روشن تھی جب کہ غروب ہوتے ہوئے سورج کی ترچھی ترچھی نارنجی کرنیں اس کے دریچے میں سے گزرتی ہوئی گلابی دیواروں پر ناچ رہی تھیں اور کتابوں کی الماریوں اور سنگھار میز کی صفائی کرنے کے بعد صوفے کو دریچے کے قریب کھینچ کر شال میں لپٹی ہوئی کلاس کے نوٹس پڑھنے میں مصروف تھی۔ باہر فضا پر ایک آرام دہ، لطیف اور پرسکون خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دور مال پر سے گزرتی ہوئی کاروں کے طویل ہارن سنائی دے جاتے تھے۔ دوسرے کمرے میں رفعت آہستہ آہستہ کچھ گا رہی تھی اور مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور کے برآمدے میں مدھم سروں میں گتار بج رہا تھا۔
اس نے کُشن پر سر رکھ دیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ فرصت، اطمینان اور سکون کے یہ لمحات۔ کیا آپ کو ان لمحوں کی قدر نہیں جو ایک دفعہ افق کی پہاڑیوں کے اس پار اڑ کر چلے جائیں تو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ وہ لمحے جب جاڑوں کی راتوں میں ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھ کر کشمش اور چلغوزے کھاتے ہوئے گپ شپ اور scandal mongering کی جاتی ہے۔ وہ لمحے جب دھوپ میں کاہلی کے احساس کے ساتھ سبزے پر بلّیوں کی طرح لوٹ لگا کر ریکارڈ بجائے جاتے ہیں اور لڑا جاتا ہے اور پھر ایسے میں اسی طرح کے بیتے ہوئے وقتوں کی یاد اور یہ احساس کہ اپنی حماقت کی وجہ سے وہ وقت اب واپس نہیں آسکتا، کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔
دریچے کے نیچے روش پر موٹر بائیک رکنے کی آواز آئی۔ اس نے کشن پر سے سر اٹھا کر دیکھا۔ شاید مہرہ آیا تھا۔ رفعت دوڑتی ہوئی برآمدے کی سیڑھیوں پر سے اتر کے باغ میں چلی گئی۔ اس نے پھر آنکھیں بند کرلیں اور اس کے دریچے کے سامنے روش پر سے وہ سب گزرنے لگے۔ وہ بے چارے فریب خوردہ انسان جنھیں زندگی نے رنجیدہ کیا، زندگی جن کی وجہ سے غمگین ہوئی لیکن پھر بھی وہ سب وہاں موجود تھے۔ اس کے خیالوں میں آنے پر مصر تھے۔ اسے شاید یاد آیا— اور اس کے سارے بھائی۔ دوردراز کی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں پڑھنے والے یہ شریر، خوب صورت اور ضدی، افسانوی سے رشتے کے بھائی، جو چھٹیوں میں گھر آتے ہیں اور ان کے رشتے کی بہن یا ان کی بہنوں کی سہیلیاں ان کی محبت میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ وہ ان سے لڑتے ہیں، راتوں کو باغ میں چاند کو دیکھا جاتا ہے، پھر وہ ان سب کو دل شکستہ چھوڑ کر یا محاذ جنگ پر چلے جاتے ہیں یا ان میں سے کسی ایک سے شادی ہوجاتی ہے— اُف یہ حماقتیں—!!
اور اسے وہ باتیں یاد کرکے ان سب پر بے اختیار ترس سا آگیا۔ یہ فریب کاریاں، یہ بے وقوفیاں!!
اور اسے یاد آیا— فرصت اور بے فکری کے ایسے ہی لمحوں میں ایک مرتبہ اپنے اپنے مستقبل کی تصویریں کھینچی گئی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ سارے بہن بھائی ایک جگہ جمع ہوگئے تھے۔ دن بھر تصویریں اتاری جاتی تھیں۔ بزرگوں سے نظربچا کر پینٹری میں سے حلوہ اور آئس کریم اڑائی جاتی تھی۔ بے تکی شاعری ہوتی تھی۔ اس نے کہا تھا: ”اب بھئی اسلم کا حشر سنیے۔ جب آپ پاس کرکے نکلیں گے تو ہوجائیں گے ایک دم سے لفٹیننٹ، پھر کیپٹن، پھر میجر۔ ڈاکٹروں کو بڑی جلدی جلدی ترقی دی جاتی ہے۔ بس— اور جناب اس قدر خوش کہ دنیا کی ساری لڑکیاں آپ پر پیش ہیں۔ ہال میں جارہے ہیں، پکچرز میں لڑکیاں اچک اچک کر آپ کی زیارت کررہی ہیں، چاروں طرف برف کی سفید سفید گڑیوں جیسی، انگارہ سے سرخ ہونٹوں والی نرسیں بھاگی پھر رہی ہیں۔ چھٹی پر گھر آتے ہیں تو سب کا انتقال ہوا جارہا ہے اور آپ مارے شان کے کسی کو لفٹ ہی نہیںدیتے۔سٹیس یا مل کے ہاں بہترین پوز کی بہت سی تصویریں کھنچوا لی ہیں اور وہ اپنی ایڈمائرزکو عنایت کی جارہی ہیں۔ پھر بھائی لڑائی کے بعد جو آپ کو کان پکڑ کر نکال کے باہر کھڑا کردیا جائے گا کہ بھیا گھر کا راستہ لو تو جناب آپ امین آباد کے پیچھے ایک پھٹیچرسا میڈیکل ہال کھول کر بیٹھیں گے۔ اب بھائی اسلم بھائی ہیں کہ ایک بدرنگ سی کرسی پر بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں۔ کوئی مریض آکے ہی نہیں دیتا۔ پھر بھئی ایک روز کرنا خدا کا کیا ہوگا کہ ایک شان دار بیوک رکے گی آپ کی دکان کے آگے اور اس میں سے ایک بے حد عظیم الشان خاتون ناک پر رومال رکھے اتر کر پوچھیں گی کہ بھئی ہمارے فیڈو کو زکام ہوگیا ہے۔ یہاں کوئی گھوڑا ہسپتال کا ڈاکٹر—“
اور اسلم نے کہا تھا: ”ہش، چپ رہو جی— بیگم صاحبہ ہو کس خیال میں۔ بندہ تو ہوجائے گا لفٹننٹ کرنل تین سال بعد۔ اور لڑائی کے بعد ہوتا ہے سول سرجن۔ اور بھئی کیا ہوگا کہ ایک روز بی افروز اپنے پندرہ بچوں کی پلٹن لیے بیل گاڑی میں چلی آرہی ہیں اور سامنے گاڑی بان کے پاس یہ بڑا سا زرد پگڑ باندھے اور ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا لیے بی افروز کے راجہ بہادر بیٹھے ہیں اور بھئی ہم چپراسی سے کہلوادیں گے کہ سول سرجن صاحب معائنہ کرنے تشریف لے گئے ہیں، شام کو آئیے گا۔ اب جناب افروز بیگم برآمدے میں بینچ پر بیٹھی ہیں برقعہ پہنے—“
”ہائے چپ رہو بھئی— خدا نہ کرے جو زرد پگڑ اور بیل گاڑی—!“
”اور کیا، منظر احمد سے جو تم شادی کروگی تو کیا رولز رائس چلا کرے گی تمھارے یہاں؟ بیل گاڑیوں پر ہی پڑی جایا کرنا اپنے گاو ¿ں۔“
”بیل گاڑی پر جانا تم اور زرد پگڑ بھی خدا کرے تم ہی باندھو۔ آئے وہاں سے بڑے بے چارے۔“
”اور بھئی حضرتِ داغ کا یہ ہوگا— شاہد نے اپنے مخصوص انداز سے کہنا شروع کیا، ”کہ یہ خاکسار جب کئی سال تک ایمایسسی میں لڑھک چکے گا تو وار ٹیکنیشنز میں بھرتی ہوجائے گا اور پھر بھی رفعت کی کوٹھی پر پہنچے گا کہ بھئی بڑے دن کے سلام کے لیے آئے ہیں۔ صاحب کہلوا دیں گے کہ پھر آنا، صاحب کلب گئے ہیں۔ بس بھئی ہم وہاں برساتی کی سیڑھیوں پر، گملوں کی آڑ میں، اس امید پر بیٹھ جائیں گے کہ شاید بی رفعت نکل آئیں اندر سے لیکن جب چپراسی کی ڈانٹ پڑے گی تو چلے آئیں گے واپس اور کوٹھی کے پھاٹک کے باہر پہنچ کر کان میں سے چونی نکال سگریٹ اور دو پیسوں والی سینما کے گانے کی کتاب خرید کر گاتے ہوئے گھر کا راستہ لیں گے— اکھیاں ملا کے— جیا برما کے— چلے نہیں جانا۔“
”نہیں بھئی، خدا نہ کرے، ایسا کیوں ہو! تم تو پروگرام کے مطابق اعلیٰ درجے کے فلرٹ بنوگے اور ریلوے کے اعلیٰ انجینئر۔ اپنے ٹھاٹ سے سیلون میں سیر کرتے پھرا کروگے۔“ رفعت نے کہا تھا۔
باغ میں سے رفعت کے مدھم قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ جو کچھ انھوں نے مذاق مذاق میں سوچا تھا وہ نہیں ہوا۔ وہ کبھی بھی نہیں ہوتا اور اسلم اور اس کی کھینچی ہوئی راجہ بہادر کی تصویر اس کی آنکھوں میں ناچنے لگی۔
اسلم، جو میدان جنگ میں جاکر عرصہ ہوا لاپتہ ہوچکا تھا اور منظراحمد، جو اس شام آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے بڑے بڑے شیشوں والی جھلملاتی ہوئی گیلری میں سے نکل کر اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا لیکن جیسے اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ہمیں اپنے خیالوں سے بھی یوں ہی نکال دو تو جانیں۔
اور باغ میں اندھیرا چھانے لگا۔ گتار بجتا رہا اور افروز سوچتی رہی: زندگی کے یہ مذاق! اس روز ”یوم ٹیگور“ کے لیے ریڈیو اسٹیشن کے آرکیسٹرا کے ساتھ رقص کی ری ہرسل کرنے کے بعد وہ پرکاش اور اجلا کے ساتھ وہاں واپس آرہی تھی اور لیلا رام کے سامنے سے وہ اپنی اسپورٹس کار پر آتا نظر آیا تھا— پرکاش کو دیکھ کر اس نے کار روک لی تھی: ”کہیے مس شیرالے کیا ہورہا ہے؟“ ”گھر جارہی ہیں۔“ ”چلیے میں آپ کو پہنچا دوں۔“
اور افروز نے کہنا چاہا تھا کہ ہماری کار آتی ہوگی، آپ تکلیف نہ کیجیے۔ لیکن پرکاش نے اپنی مثالی خوش خلقی کی وجہ سے فوراً اس کی درخواست قبول کرلی تھی اور پھر اس کے گھر تک وہ کار پندرہ میل کی رفتار سے اس قدر آہستہ ڈرائیو کرکے لایا تھا جیسے کسی بارات کے ساتھ جارہا ہو، محض اس لیے کہ اسے افروز کو اپنی کار میں زیادہ سے زیادہ دیر تک بٹھانے اور اس سے باتیں کرنے کا موقع مل سکے اور اس نے سوچا تھا کہ اگر وہ اس منظر احمد کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتی تو بہرحال مائنڈ بھی نہیں کرے گی، حالاں کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اعلیٰ قسم کا فلرٹ ہے، کبھی کبھی ڈرنک بھی کرلیتا ہے اور نشاط نے تو یہ تک کہا تھا کہ اپنی ریاست میں اس کی کیپ بھی موجود ہے۔ ”لیکن بھئی کیا تعجب ہے؟“ نشاط کہہ رہی تھی، ”سب ہی جانتے ہیں کہ تعلقہ داروں کے لڑکے کیسے ہوتے ہیں۔“
اور پھر ایک روز وہ اور پرکاش خریداری کے بعد کافی ہاو ¿س چلے گئے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ برسات کی دوپہر! بارش ہوکر رکی تھی۔ فضا پر ایک لطیف سی خنکی چھائی ہوئی تھی۔ کافی ہاو ¿س میں بھی قریب قریب بالکل سناٹا تھا۔ وہ ایک ستون کی آڑ میں بیٹھ گئے اور سامنے کے مرمریں ستون پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں انھوں نے دیکھا کہ دوسری طرف منظراحمد بیٹھا ہے۔ خوب! یہ حضرت دوپہر کو بھی کافی ہاو ¿س کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس نے ذرا نفرت محسوس کرنے کی کوشش کی اور پرکاش کو دیکھ کر وہ سگریٹ کی راکھ جھاڑتا ہوا ان کی میز پر آبیٹھا۔ ”ہلو—افروز سلطانہ— ہلو—“ اس نے اپنے لہجے میں بقدرِ ضرورت خنکی اور خشکی پیدا کرتے ہوئے مختصر سا جواب دے دیا اور کافی بنانے میں مشغول ہوگئی۔ وہ اپنی تخیلی سی آنکھوں سے باہر کی طرف دیکھتا رہا۔ اس وقت وہ غیر معمولی طور پر خاموش تھا۔ کتنا بنتا ہے۔ یہ شخص بھی کبھی سنجیدہ ہوسکتا ہے جس کی زندگی کا واحد مقصد کھیلنا اور صرف کھیلتے رہنا ہے؟
پرکاش خریداری کی فہرست بنانے میں منہمک تھا۔ پھر وہ یک لخت کہنے لگا: ”افروز سلطانہ! آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتیں؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے دل میں میری طرف سے بڑی خوف ناک قسم کی بدگمانیاں پیدا کردی گئی ہیں۔“
”جی مجھے بدگمانی وغیرہ کی قطعی ضرورت نہیں۔ بدگمانیاں تو اسے ہوسکتی ہیں جسے پہلے سے آپ کی طرف سے حسنِ ظن ہو۔ یہاں آپ سے دل چسپی ہی کس کو ہے؟“
”ہنہ— ذرا بننا تو دیکھو۔“ وہ کہتا رہا: میں نے سنا ہے کہ آپ کو بتایا گیا ہے میں— میں ڈرنک کرتا ہوں—اور — اور اسی قسم کی بہت سی حرکتیں— مختصر یہ کہ میں انتہائی برا آدمی ہوں— کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ باتیں صحیح ہوسکتی ہیں؟ کیا آپ مجھے واقعی ایسا ہی سمجھتی ہیں؟“ اور اس نے آہستہ آہستہ بڑی رومینٹک نقرئی آواز میں بات ختم کرکے سگریٹ کی راکھ جھٹکی اور پام کے پتوں کے پرے دیکھنے لگا— اور وہ سچ مچ بہت پریشان ہوگئی کہ کیا کہے کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ منظراحمد اس وقت بقول شخصے قطعی نون سیریس نہیں ہے اور اس نے کہا: ”بھئی میں نے قطعی کوئی ضرورت نہیں سمجھی کہ اس کے متعلق—“ ”اچھا، یہ بات ہے۔“اس نے بات ختم کرنے کا انتظار کیے بغیر اسی نقرئی آواز میں آہستہ سے کہا، ”اجازت دیجیے، خدا حافظ مس شیرالے—“ اور وہ ایک دم سے اس کی میز پر سے اٹھ کر چلا گیا اور کرلی لوکس کشنوں کے انبار پر سے گر پڑی۔ ”جناب تشریف لے گئے۔“ پرکاش نے فہرست کے کاغذ پر سے سر اٹھا کر پوچھا۔باہر اگست کی ہوائیں ہال کے بڑے بڑے دریچوں کے شیشوں سے ٹکراتی رہیں۔

جاری۔۔
 

الف عین

لائبریرین
رات کی تاریکی باغ پر پھیل گئی۔ مہرہ کی گڑگڑاتی ہوئی موٹر بائیک روش پر سے گزر کر باہر ہال کے طویل اندھیرے میں کھو چکی تھی۔ نشاط اور رفعت باتیں کرتی اور گنگناتی ہوئی کمرے میں آگئیں۔
”جناب! بہترین اوپیرا رہے گا۔“ رفعت کہہ رہی تھی۔
”اور ہمارا تازہ افسانہ جو اس قدر سپرب تھا۔ اب ہماری کتاب کا ریڈیو پر بقول شخصے بڑا شان دار ریویو کیا جائے گا۔“ نشاط صوفے پر کودتے ہوئے بولی۔
”من تراسپرجینیس بگویم— تم مہرہ کے انگریزی رسالے میں اپنے اوپیرا کی بہت سی تعریف کردینا۔“ رفعت نے کہا۔
”ہاں یہ تو کریں گے ہی۔“ نشاط جیسے یہ پہلے طے کرچکی تھی۔
”بھئی ریڈیو اسٹیشن پر آج کل سب ایک سے ایک واش آو ¿ٹ نظر آتے ہیں، کیا کیا جائے۔“ رفعت اکتا کر بولی۔
”اور شاہد بے چارہ زخمی ہوگیا۔“ نشاط نے اور بھی زیادہ اکتا کر کہا۔
”ممی کہہ رہی تھیں کہ محاذ پر گیس سے اس کی آنکھیں خراب ہوگئیں۔“
”ہا— چچ چچ— کافی خوب صورت آنکھیں تھیں اس بے چارے کی۔“
اور تھوڑی دیر بعد اوپیرا کے اطالوی رقص کی مشق کے لیے پرکاش اور اس کے ساتھ بہت سی لڑکیاں آگئیں اور وہ سب ڈرائنگ روم میں چلی گئیں۔
افروز کے کمرے میں اندھیرا ہوگیا۔ دور، زندگی کی Fantasy پر، دھندلی دھندلی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔
پھر شوپاں کی موسیقی فضا میں لہرا اٹھی۔ اس رات اوپیرا شروع ہوچکا تھا اور تاریکی کے پروں پر تیزی سے اڑتی ہوئی ساعتوں کے ساتھ ساتھ ختم ہورہا تھا۔ رقص گاہ کے جگمگاتے دریچوں پر پردے گرائے جارہے تھے۔ یوکلپٹس کی اونچی اونچی شاخوں سے بھیگتی رات کا تنہا اور خنک چاند ہال کے پچھلے دریچے میں سے اندر جھانک کر اوپیرا کا آخری نغمہ سننے کی کوشش کررہا تھا، پیانو کے گہرے بھاری سروں کا نغمہ، جس کی لہریں جھلملاتے ہوئے عنابی مخملیں پردوں کے پیچھے ڈوبتی جارہی تھیں۔
اور فٹ لائٹ کی تیز سفید کرنوں سے جگمگاتی اسٹیج پر نقرئی شیفون میں ملبوس سیاہ آنکھوں والی لڑکیوں کی ایک قطار ہاتھوں میں سنہری اور سیاہ پنکھیاں لیے ہوئے آئی اور دوسری طرف سے اطالوی نوجوانوں کا ایک پّرا داخل ہوا جن کی ٹوپیوں میں لمبے لمبے خوب صورت پر شاہانہ انداز سے سجے ہوئے تھے اور جن کی روپہلی تلواریں اسٹیج کی روشنی میں جھلملا رہی تھیں۔ انھوں نے دوزانو جھک کر سینوریتاو ¿ں سے رقص کی درخواست کی۔ سرخ گلابوں کے گچھے پھینکے گئے اور آرکیسٹرا کی ایک گونج دار دھمک کے ساتھ آخری رقص شروع ہوگیا۔ پھر تیزی سے گھومتے ہوئے رنگین سایوں، چکر کاٹتے ہوئے پروں اور تیز گرم موسیقی کے اس پر شور بھنور کی لہریں آہستہ آہستہ پھیلتی گئیں اور رقص کی رفتار دھیمی ہوکر پردے کے پیچھے سے بلند ہونے والے آخری سروں کی گونج میں ڈوب گئی۔
ہال روشنیوں سے جاگ اٹھا اور سرخ کشنوں پر بیٹھے، دبی دبی جمائیاں لیتے ہوئے تماشائی جیسے ایک طویل خواب سے چونک کر ایک بار پھر اپنی دنیا میں واپس آگئے اور بھاری بھاری قدموں خمار آلود آنکھوں کے ساتھ ہال سے نکل کر کلوک روم، گیلریوں اور پورچ کی سیڑھیوں پر اپنے اپنے دوستوں کے گروہوں میں شامل ہوکر موسیقی کی تنقید اور ادھر ادھر کی بے معنی، بے کار باتوں میں مصروف ہوگئے۔
”سیزن کا بہتر امیچیرپرفورمینس رہا۔“
”جینٹ سسٹرز بالکل فلاپ ہوگئیں اس مرتبہ۔“ آج پتا چلا کہ نشاط اور رفعت کتنی Talented لڑکیاں ہیں۔“
”مسوری میں پچھلے سال میں نے مارگیریٹ جورڈن کو یہی پارٹ کرتے دیکھا، کیا سپرب چیز تھی۔“ پھر دوستوں کے گروپ منتشر ہونے شروع ہوئے۔ خواتین کلوک روم سے اوور کوٹ لیے، میک اپ ٹھیک کرتی ہوئی نکلیں اور شب بخیر اور خدا حافظ کی مدھم آوازوں کے ساتھ کاریں اسٹارٹ کی جانے لگیں۔
اور اس وقت انور نے افروز کو دیکھا جو رفعت، نشاط اور پرکاش کے ساتھ گرین روم سے نکل کر بے حد تکلف سے اپنا اوور کوٹ سنبھالے اپنے بھائیوں کے ساتھ مشغولیت سے باتیں کرتی پورچ کی مرمریں سیڑھیوں سے اتر کر لمبی لمبی چمکیلی کاروں کی طویل فلیٹ کی طرف اپنی مورس میں بیٹھنے کے لیے جارہی تھی۔ ”افوہ! رفی دیکھنا، چاند کتنا اسمارٹ لگ رہا ہے ۔“ لڑکیوں میں سے ایک نے چلتے چلتے کہا اور سب آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ چاند یوکلپٹس کی ٹہنیوں میں سے نکل کر آسمان کی شفاف سطح پر تیر رہا تھا۔ ”خدا تم لڑکیوں سے ہرذی ہوش جاندار کو محفوظ رکھے۔“ یہ نشاط کے بھائیوں میں سے ایک کی آواز تھی اور پھر نشاط اسے پورچ کے ایک اونچے یونانی ستون کے پیچھے کھڑا دیکھ کر چپکے سے بولی: ”جناب بھی تشریف لائے تھے۔“
”جی ہاں اور شاہد صاحب بھی۔“ رفعت نے کہا اور پھر ان کی کار زناٹے کے ساتھ سامنے سے نکل گئی اور لامارٹیز کے لڑکوں کی ایک ٹولی نے رقص گاہ سے نکل کر سڑک پر جاتے ہوئے ”جپسی مون“ اونچے سروں میں شروع کردیا تھا۔
پھر وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتا ہوا اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی کار کی طرف بڑھا جو موٹروں کی شان دار فلیٹ کے آخری سرے پر درختوں کے اندھیرے میں کھڑی تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا: ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ تم سوچتے ہو گیتوں کی سرزمین میں رہنے والی وہ لڑکی جس کے بالوں میں سرخ گلاب سجے ہوئے ہیں کبھی نہ کبھی تو تمھارے خوابوں کے دریچے کے نیچے سے گزرے گی اور تم اسے اپنا گتار کا نغمہ سنا سکوگے اور سرخ گلابوں میں رہنے والی لڑکی کہتی ہے کہ ایک روز وہ موسم گل کا شہزادہ اس کے خوابوں کے ایوانوں میں سے نکل کر آئے گا اور بس پھر سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن ٹریجڈی دیکھیے وہ دونوں اس پگڈنڈی پر مل جاتے ہیں جو پریوں کی سرزمین کو جاتی ہے لیکن ایک دوسرے کو دیکھے بغیر بے پرواہی اور بے نیازی سے گزر جاتے ہیں اور اوپیرا ختم ہوجاتا ہے اور تماشائی اپنے اپنے صوفوں پر بیٹھے بیٹھے پہلو بدل کر رومالوں اور دستی پنکھیوں کی اوٹ میں سے اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں: ”کیوں— کیسی رہی؟“
اور شاہد نے آگے بڑھ کر کہنا چاہا— کتنے جھوٹے ہو بھائی۔ تم سب شروع سے آخر تک ایک طویل مغالطے ایک خوب صورت، دل چسپ فریب میں مبتلا رہنے کے اس قدر شوقین کیوں ہو؟ تمھارا ”لابوہیم“ کااوپیرا، ”جپسی مون“ کے نغمے اور شوپان کی موسیقی۔ تمھارے تلوتما کے تصورات، رفائیل اور لینارڈو کی تصویریں اور براو ¿ننگ کی نظمیں۔ تمھاری بددماغ افروز سلطانہ اور تمھاری سپرانٹلکچوئل اور مغرور افسانہ نگار نشاط، منظر احمد اور اس کی اسپورٹس کار، پرکاش اور اس کی Mad-hatter's اویناش اور اس کی فیشن ایبل Cynicism تم سب ان سب چیزوں، ان ساری باتوں سمیت آج کی رات میرے بھوکے رہنے کی وجہ ثابت نہیں کرسکتے۔ تم تو اس کا خیال بھی نہیں کرسکتے کہ تم جیسا انسان، جو تمھارے ساتھ اوپیرا میں آسکتا ہے اور جس کے شہر کے سارے کافی ہاو ¿س اور سارے فرانسیسی اور اطالوی ریسٹوران کھلے ہوئے ہیں، بغیر کچھ کھائے پئے بھی زندہ رہنے کی کوشش کررہا ہے۔ سلمنگ کے لیے نہیں، بلکہ اس لیے کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں تمھارے مسٹر شوپاں سے کہنا چاہتا ہوں: قبلہ! آپ کو اچھی طرح ڈنر اڑانے کے بعد ہی یہ آسمانی نغمے کمپوز کرنے کی سوجھتی ہوگی۔ آپ میری جگہ تشریف لے آئیے اور میں آپ کے پیانو پر پہنچ کر ایسے ایسے نغمے بنا سکتا ہوں جن کو سن کر دنیا آپ کے اور آپ کے سارے قبیلے والوں کے شاہکار، جو لوگوں کو اب تک احمق بناتے رہے ہیں، ہمیشہ کے لیے بھول جائے۔ تمھارا جپسی مون کم از کم میری آنکھیں تو ٹھیک نہیں کرسکتا۔ تمھاری عطر بیز ہوائیں انڈین ریڈکراس کی اس خوب صورت ویلفیئر آفیسر تک میرا کوئی پیغام نہیں پہنچا سکتیں جو اس وقت قاہرہ میں زخمیوں کے ساتھ ایسی ہی فریب آلود خوش گوار باتیں کرکے انھیں اسی حماقت میں مبتلا کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگی۔ وہ ویلفیئر آفیسر جو بچوں کی طرح لکڑی کے رنگیں ٹکڑوں اور چمکیلی تصویروں کے ذریعے بہلا کر یہ بھلانے کی کوشش کرتی تھی کہ میری آنکھیں، جو خوب صورت کہلاتی تھیں، جرمنوں کی گیس نے خراب کردی ہیں اور مجھے ڈسچارج کردیا جائے اور مجھے کہیں نوکری نہ مل سکے گی۔ یقینا تمھاری مونالیزا اور تمھارا روپہلا چاند—“
اور چاند چرڈ پر تیرتا ہوا اس کی بالکونی کے بالکل اوپر پہنچ گیا۔ وہ باہر نکل آئی اور ریلنگ پر جھک گئی۔ مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور کا ڈرائنگ روم خاموش پڑا تھا اور کہیں مدھم سروں میں گتار بجایا جارہا تھا اور اس نے کہنا چاہا— مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور— تم اتنے خاموش کیوں ہو؟ تم اور تمھارا سیاہ آنکھوں والا دوست— آدھی رات کے چاند کی طرح زرد اور غمگین— کیا تمھیں ہمسایوں کے اس چھوٹے بچے نے نہیں بتایا کہ دنیا کتنی بیوٹی فل ہے اور ایسی خوب صورت، شاداب اور بشاش دنیا میں غمگین رہنا جرم ہے اور مسرت کی صحت مندی کی توہین۔ کیا تم نے بھی تخیلی کردار بنائے ہیں؟ کیا تم کو بھی خواب دیکھنے آتے ہیں؟ جب روپہلا چاند سیب کے اور چرڈ پر جھلملاتا ہے اور فضاو ¿ں میں موزارٹ کے نغمے رقصاں ہوتے ہیں اس وقت میں تم سے چپکے سے پوچھنا چاہتی ہوں— کیا تم مجھے جانتے ہو؟ کیوں کہ میں تم کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں— جیسے ہم جنم جنم کے ایک دوسرے کے خاموش ساتھی ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں لیکن کہہ نہیں سکتے۔ کیا تم بھی تنہا ہو۔ اتنی بڑی دنیا اور دنیا والوں میں گھرے ہوئے— لیکن بالکل تنہا!

جاری۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
—اور نیچے پہلو کے باغ میں دو سائے آہستہ آہستہ ٹہل رہے تھے۔ اور ان میں سے ایک سایہ چاند کے مقابل میں کھڑا ہوکر کہنے لگا: خدا کی قسم، میرے دوست، تم جانتے ہو کہ یہ سب غلط ہے۔ یہاں سب جھوٹے ہیں لیکن پھر بھی تم بے وقوف بنتے ہو۔ مجھ سے پوچھو، میں تمھیں بتاو ¿ں گاکہ زندگی کیا چیز ہے۔ وہ سبز آنکھوں والی زرد رو جولیٹ، جو نواب کے ساتھ والز کرتی تھی اور جس نے ایک دفعہ میرے ساتھ بھی رقص کیا تھا اور مجھے یقین ہوچلا تھا کہ میں ہزہائنس کا اےڈیسی بنا دیا جاو ¿ں گا، وہ اب بھی کوک ٹیل پارٹیوں کے بعد ڈھولک کے ساتھ اسی طرح گاتی ہے: ”میں نہ بولی چرّیا کوکاگ لیے جائے۔“ سب سنتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ تم نے اس لغویت، پر غور کیا ہے؟ چرّیاں اور کوّے— چرّیاں اور کوّے یا تتلیاں اور بھنورے— زندگی کا تعاقب— یہ دیوانگی— یہ جنون— مجھ سے میری بنتِ عم، خوب صورت اور شریر رفعت، نے کہا تھا: ”ہائے شاہد بھائی، تم کتنے گڈّو ہو۔ تم جنگ سے واپس آجاو ¿ پھر بہت سارے پروگرام بنائیں گے۔“ اور میں نے، کتنا احمق تھا میں، ان الفاظ کے سہارے پر کتنے خواب دیکھے۔ رفعت میرے ساتھ ہوگی اور زندگی کا خوش گوار اور پھولوں سے گھرا ہوا راستہ میرے سامنے لیکن اس وقت میں یہاں، اس اندھیرے میں، اکیلا ٹہل رہا ہوں اور میرے ساتھ صرف رفعت کا ایک خط ہے جس میں اس نے لکھا ہے: ”ہائے شاہد بھائی، کتنا افسوس ہے تمھاری آنکھیں خراب ہوگئیں۔ خدا کرے جلد بالکل اچھے ہوجاو ¿۔ شام کو ہمارے اوپیرا میں ضرور آنا۔“ اور بے وقوف مہرہ رومان کی انھی پٹی ہوئی پگڈنڈیوں پر خوش خوش چل رہا ہے جن پر زرد چاند جھلملاتا ہے۔
اور زرد چاند درختوں کے پیچھے چھپ گیا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے بھائی، لیکن اس حماقت میں مبتلا ہوجانے کا احساس ہی کتنا پر لطف اور دل چسپ ہوتا ہے۔ میں نے اس سے کہنا چاہا، سائمن اسٹائلاٹیز کی طرح جو اونچا ستون تم نے اپنے لیے منتخب کیا ہے اس کی بلندی پر سے ایک لمحے کے لیے نیچے اتر آو ¿ اور ان خود رو خوشبودار پھولوں کی جھاڑیوں کے پاس میرے پاس گھاس پر بیٹھو اور ہم محبت کے وہ گزرتے ہوئے گیت سنیں جو وقت کی سنہری ریت کے اس پار پہنچ کر پھر کبھی واپس نہیں آتے۔ محبت کے وہ آسمانی، الوہی نغمے جو شاپاں، مزارٹ اور ہینڈل نے ایسے ہی وقت میں، ان ہی لمحوں کے لیے، تخلیق کیے تھے۔
اس روز سعیدہ کہہ رہی تھی: انور بھائی کتنا اچھا لگتا ہے کوئی ہم کو پسند کرے، ہم کسی کو پسند کریں۔ کوئی ہمیں چاہے۔ زندگی کے خالی، بے معنی اور بے رنگ نقوش میں اپنی چھوٹی چھوٹی شکستوں کے رنج، فتح مندیوں کے غرور اور ننھی منی مسرتوں کے اطمینان بخش احساسات سے دل کشی اور خوب صورتی پیدا ہوتی ہے۔ یہ احمقانہ، طفلانہ خواہشیں— کوئی ہمیں چاہے!
—تم یہ کہتے ہو—تم جو سوسائٹی کی ساری ”ہائی لائٹس“ کے پسندیدہ اور محبوب ہیروہو۔ نشاط جیسی مغرور لڑکی تمھارے ساتھ ناچتی ہے۔ جلیس تم کو روزانہ فون کرتی ہے۔ اُجلا، جو کبھی کسی کو گانا نہیں سناتی، ریڈیو پر محض اس لیے گاتی ہے کہ تم سنواور چونکہ صرف ایک خود پسند لڑکی نے تمھارے سامنے جھکنے سے خاموشی سے انکار کردیا ہے تو مرے جارہے ہو، احمق!
ہم سب احمق ہیں! اس نے کہا اور گتار کی آواز مدھم ہوتی گئی اور کنواری رات کا اندھیرا باغ پر جھک گیا۔
اور وہ بالکونی پر سے ہٹ کر اندر آگئی۔ وہ اپنے بلند ستون پر سے نہیں اترسکتی تھی۔ نہیں اترنا چاہتی تھی۔وہ اپنی شکست کے اعتراف کا خیال بھی نہیں کرسکتی۔ اس نے سوچا اور وہ پریوں کی سرزمین کو جانے والی دو متوازی پگڈنڈیوں پر تھوڑی دور تک اسی طرح چلتے رہے اور پھر یہ پگڈنڈیاں ایک دوسرے کو پار کرتی ہوئی علاحدہ ہوگئیں۔
اور رفعت نے ایک روز خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا: افروز پیاری ایک ٹریجیڈی ہوگئی۔ تم نے تو نو لفٹ کردیا اور اس بے چارے نے اپنی شکستہ دلی سے اکتا کر آخر شادی کی درخواست کرہی دی اور اب میں تمھارے اور ممّی کے ساتھ مسوری نہیں جاسکوں گی— ہم کشمیر جارہے ہیں!
اور افروز کے خوابوں نے جس تخیلی کردار کو جنم دیا تھا وہ اسی کی حیثیت سے اس کی زندگی میں تھوڑے سے وقفے کے لیے آیا اور اسی طرح نکل گیا۔ افروز کے لیے وہ صرف Mr Boy Next-door تھا، چاند کی وادی کا باسی۔ لیکن اب وہ مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور نہیں رہا۔ رفعت کے نزدیک وہ محض انور تھا۔ سول سروس کا ایک اعلیٰ عہدیدار جو اگلے ماہ اس سے شادی کرنے والا تھا۔ کیونکہ رفعت، جس کے لیے زندگی ایک مسلسل جذباتی اضطراب تھی، اس کے تعاقب میں کامیاب ہوچکی تھی۔
رفعت ماہ غسل منانے کے لیے گلمرگ چلی گئی۔ افروز اپنے گھر والوں کے ساتھ حسب معمول مسوری جارہی تھی۔
زرد چاند بہت دیر تک اس کے ساتھ ساتھ چلنے کے بعد شوالک کی پہاڑیوں کی لکیر کے پیچھے جا چھپا اور دہرہ ایکسپریس کے اندھیرے کمپارٹمنٹ میں وہ اس ادھیڑ اور باتونی کرنل کی مسلسل آواز سے جاگ اٹھی جس نے اپنا تعارف اپنے ہم سفروں سے کرنل بھروچہ یا چڈہ یا ہانڈویا اسی قسم کے کسی خوب صورت سے نام سے کرایا تھا۔ وہ بے حد عمدہ اردو بول رہا تھا اور اپنے خیال میں کوئی بہت ہی ضروری نکتہ بیان کرکے جومنشی سے اور اچھے لہجے میں فارسی کا کوئی شعر پڑھ ڈالتا تھا۔ اس نے کھڑکیوں میں سے آتی ہوئی رات کی خنک ہواو ¿ں سے بچنے کے لیے ساری کا آنچل چہرے پر ڈال لیا۔ وہ کہہ رہا تھا: ”استغفراللہ! میں نے کہا، کیا قیامت ہے، مسلمان عورت کو شراب پلا رہے ہو۔ قائدِ اعظم کے پان اسلامک نظام کے اخلاقی اور مذہبی ستونوں کا کیا حشر ہوگا۔ جواب ملا، بندہ نواز! ایں ہندوستان نباشد۔ یہ جنگ کا زمانہ ہے اور یہ قاہرہ کی راتیں ہیں جہاں کی مسلمان عورتیں اپنی زندگی اور اخلاقی قدروں کو الزبتھ آرڈن اور میکس فیکٹر کے ڈبّوں میں ایئرٹائٹ کروا کے پیرس اور نیویارک سے منگواتی ہیں اور پھر ہمارے لڑکے— میں کہتا ہوں عیش کرلینے دو۔ ساقِ سیمیں اور لب ہائے لعلیں کے شعر پڑھتے پڑھتے ختم ہوگئے— خوب پیتے ہیں— خوب ٹھاٹھ کرتے ہیں—بڑے بڑے شوہروں کی بیویاں اور اونچے اونچے باپوں کی بیٹیاں ان کے ساتھ قونصل خانے کے بال روم کی مرمریں ستونوں والی رقص گاہوں اور نیل کے روپہلے ساحلوں پر ان کے ساتھ ناچتی ہیں اور ہمارے لڑکے سب کچھ بھول کر ان وقتی لہروں کے ریلے میں بہتے جارہے ہیں۔ میں کہتا ہوں ارے بیٹا، آج کل تمھارے تجربوں کے لیے اچھا زمانہ ہے۔ جنگ جاری ہے۔ لڑائی کے میدان سے اپنی میڈیسن اور سرجری کے ایسے ایسے نئے تجربے حاصل کرسکتے ہو جو پہلے کبھی نہ ملے تھے اور نہ اب آئندہ مل سکیں گے— پر انھیں کچھ پروا نہیں۔ میں سوچتا ہوں: چلنے دو۔ سب ٹھیک ہے۔ زندگی اسی کا نام ہے اور پھر یہ لڑکیاں— جو آپ کے چپراسیوں کے پٹکوں کی طرح کمر کے گرد دوپٹوں کے کراس بنائے اڑی پھرتی ہیں۔ یہ آندھی تو بھائی جان سب کو بہائے لیے جارہی ہے۔ کہاں تک اس سے بچ پاو ¿گے؟“ اور اس کے ایک ساتھی نے کہنا چاہا: ”لیکن کرنل—“ اور کرنل نے فوراً اس کی بات کاٹ دی۔
”سیکس Sex be damned my dear Sir۔ یہاں جو بات ہے وہ ہے، اسے گلاس کیس میں چھپا کر رکھ دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟“
اُف— کیا لغویت ہے— اس نے سوجانا چاہا۔ کرنل اسی طرح باتیں کرتا رہا۔ رات کے خاموش اندھیرے میں پہیوں کے شور کی متوازن یکسانیت کرنل کی کرخت آواز سے مل جل کر بڑا ناگوار سا اثر پیدا کررہی تھی۔ یا اللہ! زندگی کتنی ذلیل چیز ہے! اور کرنل کی باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔
”مشرقِ وسطیٰ میں مقیم ہندوستانی فوجوں کو محفوظ کرنے کے لیے ہندوستان سے جوڈانسنگ پارٹی گئی تھی اس میں لاہور کی ایک ہندوستانی عیسائی لڑکی ریحانہ بھی تھی۔
”مجھ سے پوچھا گیا، کرنل صاحب، آپ خاص قسم کا پرائیویٹ پرفورمینس بھی پسند کریں گے؟ میں نے کہا، بندہ نواز مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے؟
”ایں— کیوں؟ ہی ہی ہی۔ ریحانہ مجھ سے ملی تو کہنے لگی: کرنل صاحب، آپ کے ہم نام ایک ڈاکٹر لاہور چھاو ¿نی میں بھی ہوا کرتے تھے۔ بہت اچھے آدمی تھے بے چارے۔ سنا ہے مر گئے۔ میری ماما ان کے ہسپتال میں نرس تھیں۔ بہت تعریف کیا کرتی تھیں ان کی۔ پر میں تو بہت چھوٹی تھی جب۔ میں نے ہنس کر کہا: مکرمہ! وہ تمھارے بڑے ہونے کا انتظار کرنے سے پہلے ہی کیسے مرسکتے تھے؟ ہی ہی ہی— کیوں؟ کیا خیال ہے تمھارا؟“
افروز نے پھر سونے کی کوشش کی۔ کرنل کہتا رہا: ”روسی چیف آف دی اسٹاف کے ساتھ کئی سائے والیاں بھی تھیں۔ امریکن قونصل کی لڑکی کہنے لگی: ”کرنل تم بہت فضول آدمی ہو، باتیں بہت کرتے ہو۔ پہلے ہمارے زکام کا علاج کرو۔“
”میں نے کہا، فضول سہی، لیکن مکرمہ، جب سر میں درد ہوتا ہے تو ہم ہی یاد آتے ہیں۔ وہ کہتی تھی کلکتے اور شملے میں میں تم ہندوستانیوں سے ملتے ہوئے ذرا ہچکچاتی تھی۔ لیکن یہ قاہرہ ہے اور یہاں کی راتیں بہت گرم ہوتی ہیں اور ”شرارت“ کی خوشبو میں بہت تیز۔“
ہوا افروز کا آنچل اڑا رہی تھی۔ ٹرین چلتی رہی۔ کرنل کہہ رہا تھا: ”ابھی بیگماتِ اودھ نینی تال اور مسوری سے واپس نہیں آئی ہیں۔ ذرا بارشوں کے بعد لکھنو ¿ میں رونق آجانے دو۔ خاکسار ایک کوک ٹیل پارٹی اور ایک ٹی ڈانس نہ چھوڑے گا۔ بھائی جان، خوب جانتا ہوں زندگی کا تعاقب کہاں تک کرنا چاہیے۔ میرا بڑا لڑکا بھی لفٹننٹ کرنل ہے اور اسے بھی معلوم ہے اور مجھے بھی کہ جہاں تک اصولوں کا تعلق ہے، ہم دونوں اپنے اپنے راستوں پر اطمینان سے چل رہے ہیں اور ہمارے راستے کبھی بھی ایک دوسرے کو نہیں کاٹ سکتے۔“
اور ٹرین کی رفتار ایک اسٹیشن کے کہرآلود دھندلکے میں داخل ہوتے ہوئے دھیمی ہوگئی اور وہ اپنے ہم سفروں کو خداحافظ کہتا ہوا پلیٹ فارم پر اُتر گیا— زندگی کے تعاقب میں، افروز نے سوچا اور کرنل کے جانے کے بعد اس کا ایک دوست دوسرے دوست سے کہہ رہا تھا: ”کرنل کی باتیں سن کر تم نے خیال کیا ہوگا کہ یہ اعلیٰ درجے کا لفنگا شخص ہے، لیکن واقعہ یہ ہے بھائی جان کہ اس سے زیادہ شریف اور پرخلوص آدمی دنیا میں ہی نہیں مل سکتا۔ اگر تم رات کے دو بجے اسے بلاو ¿ تو اپنا بیگ سنبھالے ننگے پاو ¿ں بھاگتا ہوا پہنچ جائے گا۔ یہ جو کچھ کہتا یا ظاہر کرتا ہے محض اپنا اور دوسروں کا جی خوش کرنے کے لیے۔ بیوی مرچکی ہے، بڑا لڑکا بھی لفٹننٹ کرنل ہے اور ایک داماد آئیسیایس تین لڑکیاں انگلینڈ میں ہندوستانی فوجوں کے لیے کینٹین چلا رہی ہیں۔“
اور ٹرین چلنے لگی۔ کمپارٹمنٹ میں پھر اندھیرا ہوگیا۔ افروز نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور اسے منظر احمد یاد آگیا جو جلیس سے شادی کرکے اپنی نئی کار پر کشمیر جاکر ماہ عسل منانے کے پروگرام بنانے میں مصروف تھا اور اس وقت اس کو ایک بڑا پرمسرت، پرسکون سا احساس ہوا اس کا ستون اب بھی سب سے علاحدہ اور سب سے بلند ہے۔ زندگی کی اس تگ و دو، اس کشاکش سے بے نیاز اور بے تعلق زندگی کی یہ مسلسل چلو پکڑو، جانے نہ پائے، چرّیاں اور کوّے، ”تتلیاں اور بھونرے، ڈھولک پر ”جیسے پتنگ پیچھے ڈور“ گاتی ہوئی سبز آنکھوں والی جولیٹ اور اس کے پیچھے نواب، نشاط اوراس کے افسانے، رفعت اور اس کے پیچھے دوڑتی ہوئی منظراحمد کی تیز رفتار اسپورٹس کار، روسی چیف آف دی اسٹاف کی سائے والیاں اور ان کے پیچھے ان کے زکام اور درد سر کا علاج کرتا ہوا دل شکستہ کرنل چڈّہ یا بھڑوچہ یا ہانڈو جس کی بیوی مر چکی ہے اور جس کا بیٹا بھی لفٹننٹ کرنل ہے اور داماد آئیسی ایس اور جو ناعاقبت اندیش، ناتجربہ کار نوجوان ڈاکٹروں کو مشورہ دیتا ہے کہ بہترین موقع ہے میڈیسن اور نرسری کے تجربوں کا، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھالو، نیل کے ساحلوں پر خوب ناچ لو، پھر کہاں یہ جنگ ہوگی، کہاں تم اور کہاں قاہرہ کی راتیں۔ دراصل وہ بہت اچھا آدمی ہے۔ یہاں سب بہت اچھے آدمی ہیں، ایک دوسرے کا خیال کرنے والے، ایک دوسرے کے تعاقب میں سرگرداں۔ سب اپنے اپنے محور پر تیزی سے گھوم رہے ہیں اور جوان کی لپیٹ میں آجاتا ہے وہ بھی اسی تیزی سے گھومنے لگتا ہے اور اس بھاگتی ہوئی دنیا میں صلاح الدین محمود اور مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور کے تخیلی کرداروں کی قطعی کوئی جگہ نہیں۔
اور پھر یک لخت اسے ایک بے حد عجیب خیال آیا: نہایت شدت سے اس کا جی چاہا کہ وہ کھڑکی میں سے پکار کر کہے: کرنل چڈہ، ادھر آو ¿، میری بات سنو، تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ میری بات سنتے جاو ¿۔ خوب زور زور سے چلّائے: کرنل چڈّہ، کرنل بھڑوچہ، کرنل ہانڈو!
لیکن کرنل کب کا پلیٹ فارم کے دھندلکے میں کھو چکا تھا۔
اور مونالیزا کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم بکھر گیا جیسے وہ یہ سب بہت پہلے سمجھ چکی ہے۔


آ”آئینہ جہاں (جلد اول)“ (کلیات قرة العین حیدر) سے ماخوذ، مرتب: ڈاکٹر جمیل اختر
 

الف عین

لائبریرین
پرواز کے بعد


جیسے کہیں خواب میں جنجررا جرزیا ڈائنا ڈربن کی آواز میں ’’سان فرینڈ وویلی‘‘ کا نغمہ گایا جارہا ہو اور پھر ایک دم سے آنکھ کھل جائے۔ یعنی وہ کچھ ایسا سا تھا جیسے مائیکل اینجلو نے ایک تصویر کو مکمل کرتے کرتے اُکتا کر یوں ہی چھوڑ دیا ہو اور خود کسی زیادہ دلچسپ موڈل کی طرف متوجہ ہوگیا ہو، لیکن پھر بھی اس کی سنجیدہ سی ہنسی کہہ رہی تھی کہ بھئی میں ایسا ہوں کہ دنیا کے سارے مصور اور سارے سنگ تراش اپنی پوری کوشش کے باوجود مجھ جیسا شاہکار نہیں بنا سکتے۔ چپکے چپکے مسکرائے جاؤ بے وقوفو! شاید تمھیں بعد میں افسوس کرنا پڑے۔
گرمی زیادہ ہوتی جارہی تھی۔ پام کے پتوں پر جو مالی نے اوپر سے پانی گرایا تھا تو گرد کہیں کہیں سے دھل گئی تھی اور کہیں کہیں اسی طرح باقی تھی۔ اور بھیگتی ہوئی رات کوشش کر رہی تھی کہ کچھ رومینٹک سی بن جائے۔ وہ برفیلی لڑکی، جو ہمیشہ سفید غرارے اور سفید دوپٹے میں اپنے آپ کو سب سے بلند اور الگ سا محسوس کروانے پر مجبور کرتی تھی، بہت خاموشی سے ہکسلے کی ایک کتاب ’’پوائنٹ کاؤنٹر پوائنٹ‘‘ پڑھے جارہی تھی جس کے ایک لفظ کا مطلب بھی اس کی سمجھ میں نہ ٹھنس سکا تھا۔
وہ لیمپ کی سفید روشنی میں اتنی زرد اور غمگین نظر آرہی تھی جیسے اس کے برگنڈی کیوٹکس کی ساری شیشیاں فرش پر گر کے ٹوٹ گئی ہوں یا اس کے فیڈو کو سخت زکام ہوگیا ہو--اور لگ رہا تھا جیسے ایک چھوٹے سے گلیشیر پر آفتاب کی کرنیں بکھر رہی ہیں۔
چنانچہ اس دوسری آتشیں لڑکی نے، جو سینئر بی.ایس.سی کی طالب علم ہونے کی وجہ سے زیادہ پریکٹیکل تھی اور جو اس وقت برآمدے کے سبز جنگلے پر بیٹھی گملے میں سے ایک شاخ توڑ کر اس کی کمپاؤنڈ اور ڈبل کمپاؤنڈ پتیوں کے مطالعے میں مصروف تھی، اس برفیلی لڑکی کو یہ رائے دی تھی کہ اگر گرمی زیادہ ہے تو ’’پوائنٹ کاؤنٹر پوائنٹ‘‘ پڑھنے کے بجائے سو جاؤ یا پھر نئے ریفریجریٹر میں ٹھنس کر بیٹھ جاؤ، اس کا اثر دماغ کے لیے مفید ہوگا لیکن چونکہ یہ تجویز قطعی ناقابلِ عمل تھی اور کوئی دوسرا مشورہ اس سائنس کے طالب علم کے ذہن میں اس وقت نہیں آرہا تھا اس لیے وہ برفیلی لڑکی رخشندہ سلطانہ اسی طرح ہکسلے سے دماغ لڑاتی رہی اور وہ آتشیں لڑکی شاہندہ بانو پیر ہلا ہلا کر ایک گیت گانے لگی جو اس نے فرسٹ اسٹینڈرڈ میں سیکھا تھا اور جس کا مطلب تھا کہ جب شاہ جارج کے سرخ لباس والے سپاہیوں کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز بازگشت ہماری پرانی اسکاٹسز پہاڑیوں کے سنّاٹے میں ڈوب جائے گی اور اپریل کے مہتاب کا طلائی بجرا موسم بہار کے آسمانوں کی نیلی لہروں میں تیرتا ہوا تمھارے باورچی خانے کی چمنی کے اوپر پہنچ جائے گا اس وقت تم وادی کے نشیب میں میرے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنوگی۔ اے سرائے کے مالک کی سیاہ آنکھوں اور سرخ لبوں والی بیٹی!
لیکن رات خاصی گرم ہوتی جارہی تھی اور ماہم کا ایک کونہ، جو سمندر میں دور تک نکلا چلا گیا تھا، اس پر ناریل کے جھنڈ کے پیچھے سے چاند طلوع ہورہا تھا اور دور ایک جزیرے پر ایستادہ پرانے کیتھیڈرل میں گھنٹے کی گونج اور دعائے نیم شبی کی لہریں لرزاں تھیںاور اس وقت مائیکل اینجلو کے ادھورے سے شاہکار جم کو ایک بڑی عجیب سی ناقابلِ تشریح کوفت اور الجھن سی محسوس ہورہی تھی جس کا تجزیہ وہ کسی طرح بھی نہ کرسکتا تھا-- حالانکہ وہ مطمئن تھا کہ ایسے حادثے وہاں تقریباً روز شام کو ہوجاتے ہیں-- پھر بھی وہ یک لخت بہت پریشان سا ہوگیا تھا۔
کیونکہ آج دوپہر اس کو بہت تلخی سے یہ احساس ہوا تھا کہ وہ مغرور، پھولے پھولے بالوں والی برفیلی سی لڑکی، جوہر وقت اپنے مجسموں پر جھکی رہتی ہے، اوروں سے کس قدر زیادہ مختلف ہے۔ جب اس نے اس چھوٹے سے قد والی لڑکی سے، جس کی چھوٹی سی ناک پر بے اختیار پیار آجاتا تھا اور جسے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد احتیاط سے پاؤڈر کر لیتی تھی اور جس کی بڑے سے گھیر کی زرد ٹوپی پر گہرے سبز شنائل کی ٹہنیوں سپندھے ہوئے چیری کے مصنوعی شگوفے سج رہے تھے، بے حد اخلاق کے لہجے میں پوچھا تھا کہ میرے ساتھ شام کو کھانا کھانے چلوگی تو اس نے جواب دیا تھا: ’’ہاں چلو۔‘‘ اور پھر وہ اس کے ساتھ ہلکے پھلکے قدموں سے زینہ طے کر نیچے سڑک پر آگئی تھی اور بس اسٹینڈ کی طرف بڑھتے ہوئے اس چھوٹی سی لڑکی نے جس کی طرح کی لڑکیاں اپالو بندر یا کناٹ پلیس میں تیزی سے ادھر ادھر جاتی نظر آتی ہیں، اس سے پوچھا تھا: ’’تم نے اسکول کب سے جوائن کیا ہے؟‘‘
’’ابھی ایک ٹرم بھی پوری نہیں ہوئی۔‘‘ اور نام کیا ہے تمھارا؟‘‘
’’مگ-- میگڈیلین ڈی کوڈرا۔‘‘ ’’اور تمھارا؟‘‘
’’جم-- جمال-- جمال انور -- جو تم پسند کرو۔‘‘
اور پھر وہ دونوں بس اسٹیشن کے مجمع میں رل مل گئے تھے اور ان کے جانے کے بعد برفیلی لڑکی اپنے بال پیچھے کو سمیٹ کر اپنے دن بھر کے کام کو غور سے دیکھتی ہوئی اپنی کار کے انتظار میں کلاس روم کی کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔
اور وہ پیاری سی ناک والی مگ روز، شام کی طرح، خداوند خدا کی کنواری ماں کی تصویر کے آگے شمع روشن کرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ مجسموں میں اگر احساس زندگی پیدا ہوجائے تو بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ اور پھر بھلا نتائج پر کون غور کرتا پھرے۔ طوفانی لہروں کا ایک ریلا جو ساحلوں سے ٹکراتا پھر رہا تھا سیاہ آنکھوں والا فن کار کی گرم سانسوں نے اس سرد اور بے روح مجسمے میں جان ڈال دی تھی۔ گلیشیا کی طرح -- لیکن یہ بہت پرانی بات تھی۔ کاش کارل مسل ٹوکے نیچے اس سے کبھی نہ ملتا۔ بیگ، جس نے اپنی عمران سرد مجسموں کی معیت میں گزار دی تھی جو اس کے چھوٹے سے قصبے کی خانقاہ کے بھورے پتھروں والے اندھیرے ہال اور دوسرے کمروں میں پھیلے پڑے تھے۔ برسوں سے ایک ہی طرح سینٹ اگنس، سینٹ فرانس اور سینٹ جارج--زندگی منجمد پتھروں کا ایک ڈھیر تھی اور پیدا ہونے کے جرم کی پاداش، Ave Maria کی خوابیدہ موسیقی کی کتاب کا نیلا ربن--پر بہت پرانی بات تھی یہ۔
پھر اس کی آنکھیں نیوریلجیا کے شدید درد سے بند ہونے لگیں اور وہ اپنے ننھے سے سفید پلنگ پر گر گئی۔ کارل اور اس کا گتار، کارل کی رابرٹ ٹیلر جیسی ناک جس پر ایک شام روشن ایرانی نے غصے میں آکر ایک مکہ رسید کیا تھا۔ روشن ایرانی اور اعظم مسعود اور آفتاب، جم کے وہ تین بوہیمین قسم کے دوست جو دن بھر برٹش نیوز ایجنسی میں کام کرنے کے بعد شام کو پیانو بجا بجا کر شور مچایا کرتے تھے۔ پھر گیٹ وے آف انڈیا کی محرابوں کے وہ اندھیرے سائے، وہ ہسپانوی سرینیڈ۔
کلاس میں وہ برفیلی لڑکی ایک آدھ بار بے پرواہی سے نظر اٹھا کر اسے دیکھتی اور پھر بڑی مصروفیت سے مجسمے پر جھک کر اس کے پیر تراشنے لگتی اور مائیکل ایبخلو کے شاہکار کے اودے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر کے رہ جاتی۔
اور مئی کی بہت سی راتیں اسی طرح گزر گئیں۔
بولیوار کے درختوں کے سائے میں، کھلے آسمان اور چمکتے ستاروں کے نیچے، موسم گرما کا جشن منانے والے رخشندہ کو وہ سارے پرانے گیت یاددلائے دے رہے تھے جن کی دھنیں سنتے ہی اس کا دل ڈوب سا جاتا تھا۔ ٹارا لارا-- ٹارا لارا جون پیل-- روز ماری-- گڈ نائٹ مائی لو-- مرایا ایلینی-- چاندنی میں ڈوبے ہوئے سمندری ریت کے ٹھنڈے ٹیلوں پر سے دوسرے ساتھیوں کے گیتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ریت پر ٹہلتے ٹہلتے تھک کر رخشندہ کہنے لگی: ’’برج ماتا کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم سب ایک دوسرے کو غمگین بنائے بغیر زندگی گزار سکیں اور سارے کام ہمیشہ ٹھیک ٹھیک ہوا کریں۔ دنیا کے یہ عقل مند لوگ--‘‘
رات خاموش ہوتی جارہی تھی۔ برج کو اس سمے خیال آیا کہ اس نے ایک فلم میں، شاید ’’بلڈ اینڈ سینڈ‘‘ میں، ایک بے حد پیارا جملہ سنا تھا جو اس کو اب تک یاد تھا: "Madam, walking along in life with you has been a gracious time"
رخشندہ اس کے ساتھ آہستہ آہستہ چل رہی تھی اور ان کے قدموں کے نشان ریت پر ان کے پیچھے پیچھے بنتے جارہے تھے اور بحیرۂ عرب کی نیلی نیلی ٹھنڈی موجیں ان کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ رخشندہ رانی، چاند ہنس رہا ہے، تم بھی مسکرا دو--
اوہ انکل ٹوبی-- تم اتنے اچھے سے ہو۔ میں سچ مچ بے انتہا بے وقوف ہوگئی ہوں۔ کیونکہ اس نے سنا تھا کہ اس کا ہونے والا منگیتر ممبئی اسکول آف اکنومکس سے ڈگری لینے کے بعد گھر واپس جانے کے بجائے یہاں صرف اس لیے رہتا ہے کیونکہ یہاں اس کی ایک کیپ موجود ہے اور وہ ڈرنک بھی کرتا ہے اور موسم گرما کی چاندنی راتوں میں اپنے بوہیمین دوستوں کے ساتھ اپنی سرخ گرجتی ہوئی کار میں ورسووا اور جو ہو کی سڑکوں پر مارا مارا پھر تا ہے-- اور آتشیں لڑکی نے چلا کر کہا تھا: اوہ تم کیسی پاگل ہو۔ اوہ خد--
اوہ خد-- وہ کیسے دن تھے-- وہ کیا زمانہ تھا۔ انیس بیس سے لے کر چوبیس پچیس سال تک کی وہ عمریں-- ذرا ذرا سی بات، معمولی سے واقعات، جذبات کی لہریں، بڑی زبردست ٹریجڈی یا کامیڈی یا میلوڈراما معلوم ہوتی تھیں۔ وہ چاروں دوست ایک دوسرے کے خیالات و افکار، دکھ سکھ اور محبتوں کے شریک۔ مہینے کے آخر میں رومن رولاں یا شاکی کتابیں خریدنے کے لیے اپنا فاؤنٹین پن بیچنے کو تیار۔مگ کی حفاظت اور عزت کی خاطر کارل کی دل کش ناک پر مکہ رسید کرنے کو مستعد۔ شام کو مادرِ مقدس کی تصویر کے سامنے شمع جلانے کے بعد مگ ان کے لیے چائے تیار کرتی۔ ان کے اور بہت سے دوست آتے اور وہ سب دیوان پر، صوفے پر، قالینوں پر بیٹھ کر مصری تمباکو کا دھواں اڑاتے ہوئے جانے کیا کیا باتیں کرتے رہتے-- لمبی لمبی بحثیں اور تنقیدیں جن کو وہ بالکل نہ سمجھ سکتی۔
آسکروائلڈ کی زندگی، ڈی.ایچ. لارنس، لیگی وزارتوں کی چپقلش، ریڈاسٹار اور رشیا، بنگال، خدا اور مذہب-- اور اکثر وہ جوش میں آکر ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے کہ وہ خوف سے لرز اٹھتی اور مریم کی طرف عفو طلب نگاہیں اٹھا دیتی۔ پھر کوئی چیز ان کی مرضی کے خلاف ہوجاتی تو وہ اسے ڈانٹ دیتے تھے۔ مہینہ ختم ہونے سے بہت پہلے اگر پٹرول کے کوپن تمام ہوجائے یا بار بار ری ٹیچنگ کرنے پر بھی کوئی تصویر درست نہ ہوسکتی یا فلیٹ کا کرایہ ادا کرنے سے قبل ہی پکنکوں اور سینما کے ٹکٹوں پر سارا روپیہ ختم ہوجاتا تو وہ چاروں فوراً اپنے آپ کو wrecks of life سمجھنے پر مستعد ہوجاتے اور یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتے کہ وہ فن کار ہیں اس لیے زندگی کے ان زبردست مصائب میں گرفتار ہیں-- اورمگ کو ان کے بچپن پر پیار آجاتا۔
--اومیگڈلین-- او موسم گل کے نیلے پرندو--
بحیرۂ عرب سے اٹھنے والے بھاری بھاری بادل 23 کالج روڈ، ماٹنگا کے اس فلیٹ کی جانب اڑتے چلے آرہے تھے جس کے نیچے ایک سیاہ بیوک آکر رکی۔ اور زینے طے کرنے کے بعد دروازے پر پہنچ کر کسی نے زور سے گھنٹی بجائی اور چمکیلے پتھروں سے سجی ہوئی دو شان دار خواتین اندر آکر صوفے پر اس طرح بیٹھ گئیں گویا ایسا کرنے کا انھیں پورا پورا حق حاصل تھا۔ تین دوست گھبرا کر تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور پھر کمرے میں ایک عجیب حساس سی خاموشی طاری ہوگئی۔ کھڑکیوں کے باہر بادل آہستہ آہستہ گرج رہے تھے۔
’’آپ جمال انور احمد کے دوست ہیں نا؟‘‘ اس خاتون نے، جس کے اونچے اونچے ہالی ووڈ اسٹائل کے بال تھے، ساری کے آنچل کو بازو پر لپیٹتے ہوئے گہری آواز میں پوچھا۔ وہی ڈرامہ شروع ہونے والا تھا جو ایسے موقعوں پر آج تک ہزاروں مرتبہ کھیلا جاچکا ہے۔
’’وہ عورت کون ہے جس کے ساتھ وہ یہاں رہتا ہے؟‘‘ دوسری، زیادہ فربہ خاتون نے سوال کیا۔ عورت-- انھوں نے مگ کو ایک پیاری سی، معصوم سی، رنگین تصویر کے سوائے اور کسی زاویۂ نظر سے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔
عورت-- اس کے لیے بڑا بھونڈا لفظ تھ-- وہ تو یاسمین کی کلیوں کا خواب تھی۔ بس وہ سوچنے لگے کہ ان شہزادیوں جیسی عالی شان خواتین سے کن الفاظ میں اور کس طریقے سے بات کریں۔ پہلی کم عمر خاتون نے یہ خیال کرکے کہ شاید یہ جرنلسٹ اور فن کار ضرورت سے زیادہ حساس ہوتے ہیں ذرا نرمی سے پوچھا:
’’میرا مطلب ہے کہ وہ خاتون کون ہیں اور یہاں کب سے......‘‘ مگ کے لیے ’’خاتون‘’ کا لفظ بھی بڑا عجیب سا معلوم ہوا۔ مگ تو بس مگ تھی۔ یاسمین کی ایک بڑی سی کلی۔
 

الف عین

لائبریرین
’’آپ انھیں جانتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں، بہت اچھی طرح سے۔‘‘
’’معلوم ہوا ہے کہ ایک مس میگڈلین ڈی کورڈ--‘‘
’’جی-- جی ہاں درست بالکل-- جی--‘‘
وہ تینوں ایک دم پھر پریشان ہوگئے۔ معاف فرمائیے گا یہ-- یہ ہم کو نہیں معلوم۔‘‘
’’خوب-- اور انھیں آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔‘‘
’’کیا یہ لڑکی کسی باعزت طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘ دوسری خاتون نے بزرگانہ بلندی سے کہا۔
باعزت طبقہ-- مگ کے متعلق یہ ایک نیا انکشاف تھا جو پہلے ان کے دماغ میں کبھی نہ آیا تھا۔ ان تینوں میں سے ایک چپکے سے دیوان پر سے اٹھ کر پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔
’’باعزت-- ار-- دیکھیے اس لفظ کو مختلف معنوں میں لیا جاسکتا ہے-- خصوصاً اس شہر کی سوسائٹی میں-- یعنی کہ-- ار--‘‘
اعظم مسعود سینٹ زیویر میں لاجک کا بہت اچھا طالب علم رہ چکا تھا۔ دل میں اس نے کہا کہ کم بخت جم کا بچہ خود تو غائب ہوگیا اور ہم اس مصیبت میںپھنس گئے۔ آنے دو گدھے کو۔
زینے کی طرف کا دروازہ آہستہ سے کھلا اور وہ اندر آئی۔ اور اس نے ان معزز مہمانوں کو ایک لحظے کے لیے غور سے دیکھا اور ذرا پیچھے کو ہٹ گئی۔
’’آپ مس کورڈا ہیں؟میرا مطلب ہے-- معاف کیجیے گا ہم آپ کے گھر میں اس طرح بلا اجازت اور بغیر اطلاع آگئے لیکن--‘‘
’’ماؤ موزیل آپ غلطی پر ہیں۔ یہ میرا گھر نہیں ہے۔ میرے پاس فرسٹ فلور پر صرف ایک کمرہ ہے۔ میں ان لوگوں کے لیے چائے اور کھانا تیار کرنے یہاں آئی ہوں۔‘‘
اور ان دونوں اونچی خواتین نے اپنی بلندی پر سے جھک کر دیکھا کہ وہ محض ایک سفید فام باورچن ہے-- یعنی یہ بڑی بڑی آنکھوں والی بھولی سی لڑکی-- اسی کی طرح کی دوسری سفید فام یہودی اور اینگلو انڈین لڑکیوں میں سے ایک-- اُف۔ نفرت کی پوٹ۔گفتگو بہت طول کھینچ رہی تھی۔ بڑی خاتون نے صوفے پر سے اٹھتے ہوئے کہا:
’’دیکھو لڑکی-- کیا تم میرے لڑکے کو پسند کرتی ہو؟‘‘ کیسا بے وقوفی کا سوال تھا۔ اس نے سوچا، بھلا جم کو کون پسند نہیں کرے گا۔ اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں بے ساختگی سے اوپر اٹھا کر پوچھا: ’’کیا جم خود آپ کو پسند نہیں؟‘‘
’’--اوہ-- لیکن میری بچی جم تو خود میرا اپنا لڑکا ہے۔‘‘ کمرے میں پھر وہی عجیب سا سکوت چھا گیا۔
’’اور مجھے پتا چلا ہے کہ میرا لڑکا تم سے شادی کرنے کو بھی تیار ہے-- جانتی ہو اس کے کیا معنی ہیں-- او راس کا نتیجہ کیا ہوگا؟‘‘
اوہ -- او خد-- اب تو یہ سب کچھ برداشت سے قطعی باہر تھ-- روشن ایرانی بلّی کی طرح کشن ایک طرف پھینک کر دیوان پر سے کھڑا ہوگیا اور مگ کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتا ہوا دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ جیسے قیمتی چمکیلے پتھروں میں سجی ہوئی ساڑھے تین سو اونچی اونچی باعزت خواتین چاروں طرف سے مگ پر حملہ کرنے والی تھیں۔ ہوا کے زور سے دروازوں کے پٹ بند ہوگئے۔ باہر بارش کے پہلے قطرے کھڑکی کے شیشیوں سے ٹکرا رہے تھے۔
-- تم خوب صورت تصویریں بنا کر ان میں رنگ بھر دو اور وہ ہمیشہ ان تصویروں کی اصلیت کا یقین کرتی رہے گی۔ تمھارا کام صرف یہی ہے کہ اس سے خوش نما، خوش گوار ستاروں کی باتیں کرتے رہو۔ اس کی ماں نے اسے بچپن میں بتایا تھا کہ شیطان کی اتنی لمبی دم ہے، اتنے بڑے سرخ کان ہیں، ایسے نوکیلے سینگ ہیں۔ وہ بہت ہی برا ہے اور دنیا جب بہت ہی بری جگہ بن گئی تو ایک طوفان آیا اور نوح، جو ایک بہت عمدہ انسان تھا، اپنے باعزت خاندان سمیت بچ رہ-- اور پھر ابراہیم اور سلیمان اور داؤد اور موسیٰ-- جو سب ایک سے ایک اچھے لوگ تھے -- دنیا کو ٹھیک کرنے کے لیے آئے۔ خود خدا کو زمین پر آکر جھیل کی سطح پر چلنا پڑ-- وہ ان سب باتوں پر یقین رکھتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چھوٹے بچے اپنے نرسری کے قصوں اور پیٹرپین اور اسنووائٹ کی کہانیوں کو سچ سمجھتے ہیں۔ لیکن بچے بڑے ہوجاتے ہیں اور ان کے ہاتھ سے زیتون کی ڈالیاں اور للّی کے پھول چھین کر انھیں چپکے سے کانٹوں کا تاج پہنا دیا جاتا ہے اور پھر ساری حقیقت معلوم ہوجاتی ہے۔
تم اس سے وعدہ کرتے ہو کہ آج رات کو سارے چاند ستارے توڑ کر اس کے آگے ڈال دو گے۔ لیکن اسی رات کو اولمپس پر رہنے والے خداؤں کی بیویاں اس سے یہ وعدہ بھی چھین لیتی ہیں۔ اور تم ان ٹوٹے ہوئے چاند ستاروں کا سامنا نہیں کرسکتے-- روشن بیٹے ذرا اپنے بلند و مقدس یزداں کو آواز دینا۔
اعظم مسعود نے تھک کر پائپ جلا لیا اور وہ سب خاموش ہوگئے۔ وہ مصور تھے، انگریزی کے عمدہ جرنلسٹ تھے، معاشیات اور ادبیات میں ایم.اے. کر چکے تھے، پولکا اور والز خوب کرتے تھے، اور سی.سی.آئی. کے سوئمنگ ٹینک کے کنارے گھنٹوں پڑے رہا کرتے تھے لیکن میگڈلین اپنا گتار سنبھال کر کارل کے ساتھ اپنی قسمت آزمائی کرنے کہیں اور، کسی دوسرے دیس کو چلی گئی اور وہ اسی طرح دیوار پر پڑے رومن رولاں اور شاکا مطالعہ کرتے رہے۔
ان دونوں نے میٹرو میں نیچے اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر مرحوم لیزلی ہاورڈ پر افسوس کرنا شروع ہی کیا تھا کہ برابر کی نشست پر سے کسی نے پوچھا: ’’مادام! یہ سیٹ ریزرو تو نہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ رخشندہ نے ادھر دیکھے بغیر جواب دیا اور پھر برج کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی۔ نو وارد نے کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ جلاتے ہوئے پھر پوچھا: مادام! دھواں آپ کو ناگوار تو نہیں گزرے گا۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
اب کے سگریٹ لائٹر کی روشنی میں رخشندہ نے اس کی طر ف نظر کی اور اسے لگا جیسے سارا میٹرو ڈائنامیٹ سے اڑ کر دور فضاؤں میں لڑھکتا جارہا ہے اور برج لال کھڑے ہوکر ڈریس سرکل میں جانے کے لیے شاہندہ اور شیاملا کا انتظار کرنے لگ-- ’’رشی رانی جلدی اٹھو۔‘‘ مجمع زیادہ ہوتا جارہا تھا۔ وہ تیزی سے گینگ وے کو پار کرکے زینے پر چڑھنے لگے۔ وہ شخص اپنی نشست پر بیٹھا دوسری طرف دیکھتا رہا۔ فلم شروع ہوچکی تھی۔ پردے پر برٹش مووی ٹون نیوز کی تصویریں کوندنے لگیں۔
’’اوہ برج ماما جلدی اوپر چڑھیے۔‘‘ رخشندہ کی برفیلی پیشانی پر پانی کے ننھے منے قطرے نہ جانے کہاں سے آگئے۔ برج نے اس کا سفید ہاتھ پکڑ کر اسے سب سے اوپر سیڑھی پر کھینچ لیا اور وہ مجمعے کے ریلے کے ساتھ ایک جھونک سے اس کے اوپر گرسی گئی۔ وہ اندھیرے میں شیاملا اور شاہندہ کے پاس جاکر بیٹھ گئے۔ اس نے اپنا ہاتھ آہستہ سے چھڑایا۔
وہ دیر تک اتنی سی بات کو سوچتی رہی۔ پھر اس کا جی چاہا کہ ایک زبردست زلزلے میں یہ سارا میٹروٹوٹ کر گرجائے اور برج اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کرکہیں دور بھاگ جائے-- گرتے پہاڑوں اور ٹوٹتی چٹانوں اور شور مچاتے ہوئے انسانوں سے بچا کر بہت دور-- اور پھر وہ -- وہ دوسرا شخص-- وہ مائیکل اینجلو کا شاہکار-- نیچے بیٹھا تھ-- چند منٹ قبل اس کے بہت نزدیک--
اور پھر دوسری رات کو آتشیں لڑکی نے اسے تاج میں دیکھا اور اس کا جی چاہا کہ ایک تیز آگ میں اسے جلا کر راکھ کر ڈالے، اس کی بکھری ہوئی مسکراہٹ کو، اس کے الجھے الجھے بالوں کو-- وہ اس صوفے پر بیٹھ آئی تھی، اس گیلری میں سے گزری تھی، ان کشنوں کو چھو چکی تھی جن پر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی شامیں گزار چکا تھا جب کہ وہ دوسری برفیلی رخشندہ خاموشی اور سکون سے ہکسلے اور بیورلی نکلسن پڑھتی رہی تھی۔ ’’مس ڈی کورڈا کیسی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ وہ جاچکی ہے۔
’’اچھی ہیں۔ شکریہ!‘‘ اس نے اسی سکون سے جواب دیا۔ ’’آپ میرے ساتھ ایک راؤنڈ لیں گی؟‘‘
’’آئیے--‘‘ اس نے کہا۔ کیونکہ وہ ہمیشہ بہت پریکٹیکل رہتی تھی-- اورجمال کو تعجب ہوا کہ وہ آسانی سے اس کے ساتھ فلور پر کیسے آگئی۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ رمبا کی موومنٹ کے ساتھ ساتھ آگ کے شعلوں میں گھوم رہا ہے۔ اسے سرد چھینٹوں کی ضرورت تھی لیکن شعلے بہت اونچے اٹھتے جارہے تھے۔ رقص ہوتا رہا۔ کلارنٹ پر ایک نغمہ پوری تیزی سے بج رہا تھا۔ اس کی تھکی ہوئی نظریں خود بخود پلائی ووڈ کی ان دیواروں کی طرف اٹھ گئیں جن کے دروازوں پر گہرے سبز پردے پڑے تھے اور جن کے سامنے فرن کی ڈالیاں برقی پنکھوں کی ہوا میں آہستہ آہستہ ہل رہی تھیں۔
سارے ریڈیو اسٹیشن آدھی رات کا گجر بجا چکے تھے۔ باغ کی پتیاں اور سمندر کی لہریں خوابستان کے جادو میں ڈوبتی جارہی تھیں۔ کسی نے بڑی پیاری آواز میں کہا: ’’میں آسکتا ہوں؟‘‘ وہ جواب تک برآمدے میں آرام کرسی پر لیٹی ’’پوائنٹ کاؤنٹر پوائنٹ‘‘ ختم کرنے کی کوشش کررہی تھی، اپنا برف جیسا لباس سمیٹ کر جنگلے پر جھک گئی۔ ’’کون ہے؟‘‘ اس نے ذرا گھبرا کر برساتی کی طرف دیکھا۔

جاری۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
’’اگر آپ کہیں گی تو میں ابھی ابھی فوراً واپس چلا جاؤں۔‘‘ اس کا بات کرنے کا انداز بے حد دل کش تھا۔ وہ اور زیادہ پریشان ہوگئی--
’’ماہم سے باندرہ کا قریب ترین راستہ--‘‘
’’جی نہیں۔ میں راستے کی تلاش میں آپ سے مدد کی درخواست نہیں کررہ--‘‘
’’--تو کی-- کیا پٹرول ختم ہوگیا ہے؟‘‘
’’جی نہیں میرے پاس ڈھیروں گیلنوں پٹرول موجود ہے۔‘‘
’’پھر -- پھر-- آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’میں! کچھ بھی نہیں-- میں سامنے سے گزر رہا تھا، آپ کو بادام کی شاخوں میں سے برآمدے میں بیٹھا دیکھا توبس چلا آیا اندر-- جاؤں واپس؟‘‘
’’اوہ گوش-- آپ نے اتنی دور سے مجھے کیسے دیکھ لیا۔ مشاہدہ بہت تیز ہے۔‘‘
’’جی ہاں، مشاہدے کا میں ماہر ہوں۔ بہت عمدہ عادت ہے۔ یہ زندگی بہت دلچسپ ہوجاتی ہے اس سے ایسی ایسی چیزیں نظر آجاتی ہیں۔ اور اجازت دیجیے انگریزی میں کہوں کہ ہم ایسی چیزوں کی روح میں گھس سکتے ہیں جن کو دیکھنے کی بظاہر کوئی خاص ضرورت نہیں-- سگریٹ پی لوں؟ شکریہ--‘‘
’’نہ جانے آپ کیا باتیں کررہے ہیں۔ خصوصاً جب کہ آپ مجھے قطعی جانتے بھی نہیں۔ بہت دلچسپ اور عقل مند معلوم ہوتے ہیں آپ--‘‘
’’ جی ہاں شکر ہے۔ غالباً آپ پہلی خوب صورت لڑکی ہیں جس نے ایک عقل مند لڑکے کے سامنے یہ اقرار کیا ہے ورنہ عموماً مجھے آپ جیسی لڑکیوں سے یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ اپنی عقل کے مقابلے میں کسی کو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔
’’بیٹھ جائیے، اس آرام کرسی پر-- مگر کیسی عجیب بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہیں اور اس وقت، اس گرم رات میں، بادام کی شاخوں کی سرسراہٹ کے نیچے اس طرح باتیں کررہے ہیں جیسے ہمیشہ سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں-- نا؟‘‘
’’جی ہاں-- بہت عجیب-- دنیا میں بہت سی باتیں حد سے زیادہ عجیب ہوتی ہیں جن کا بالکل آپ کو احساس نہیں ہوت-- ار -- دیکھیے لڑکیوں میں ہیرو ورشپ کا مادہ ایک بڑی سخت کمزوری ہے--‘‘
’’ہیرو ورشپ؟‘‘
’’جی-- اس وقت آپ مجھے بس چپکے چپکے ایڈمائر کیے جارہی ہیں حالانکہ ابھی چند لمحے قبل جب آپ تصور میں جم کے ساتھ مسوری میں سیب کے درختوں کے نیچے بیٹھتی تھیں تو میرے دخل در معقولات پر آپ کو زوروں کا غصہ آگیا تھا۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’سیب کے درخت؟‘‘
’’جی ہاں۔ سیب کے درخت!‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ--‘‘
’’جی-- کہ رات گرم ہے اور چاند کے جادو کا اثر شاید مجھ پر بھی ہوگیا ہے۔ اسی لیے میں اپنے بستر پر آرام کرنے کے بجائے ماہیم کی خاموش سڑکوں پر مارے مارے پھر کر خوب صورت لڑکیوں کے بنگلوں میں گھس کے ان سے الٹی الٹی باتیں کرنے کا عادی ہوگیا ہوں--‘‘
’’اوہ گوش--!‘‘
’’دیکھیے شاید آپ نے شمال کے برفانی کوہستانوں میں خوابیدہ کسی کانونٹ میں اب تک اپنی عمر گزاری ہے۔ کم از کم آپ نے سینٹ زیویرز میں تو کبھی نہیں پڑھا۔‘‘
’’آپ نے یہ کیسے اندازہ لگایا؟‘‘
’’کیوں کہ آپ بات بات پر اوہ گوش کہہ کر خدا کی مدد چاہتی ہیں حالانکہ میں آپ کو--یقین دلاتا ہوں کہ ایسی خوش گوار رات میں خدا کو ہماری باتوں پر غور کرنے یا ان میں مداخلت کرنے کی قطعی ضروری یا فرصت نہیں اور یہ بھی کہ سینٹ زیویرز کی لڑکیاں زیادہ تیز اور صاف گو ہوتی ہیں-- آپ جے.جے. اسکول میں ہیں نا؟‘‘
وہ اسی طرح سگریٹ کے حلقے بنا کر کہتا رہا: ’’دلچسپ خیال ہے۔ سیب کے درختوں کے جھنڈ میں ملکہ پکھراج کے ریکارڈ بج رہے ہوں یا کوئی درگا میں گا رہا ہو، سکھی موری روم جھم، سکھی موری روم جھم بدرو-- پسند ہے درگا کا خیال-- دیوی بھجودرگا بھوانی --‘‘
’’لیکن کم از کم مجھے اپنا نام تو بتا دیجیے--‘‘
’’میرا نام-- برج راج بہادر وارشنے-- جمال انور -- روشن ایرانی-- جو چاہو سمجھ لو-- ادھر دیکھو-- میں تمھارا خواب ہوں اور تم چاندنی اور پھولوں کا گیت-- پر مجھ میں اور ان لہروں میں، جو تمھارے برآمدے سے ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہیں، ایک چھوٹا سا فرق ہے۔ یہ دنیا سے بغاوت کرنا چاہتی ہیں اور کچھ نہیں کر پاتیں۔ میں دنیا سے بغاوت نہیں کرتا لیکن چاندنی رات میں تمھارے جنگلے پر آکر بیٹھ جاتا ہوں اور پھر یہ لہریں ساحل کو چھوڑ کر دور سمندر کی گہرائیوں میں جاکر کھو جاتی ہیں۔ سیب کے باغ میں چپکے سے خزاں گھس آتی ہے۔ بادام کی کلیاں اور سبز پتے خشک ہوکر پریشان ہوجاتے ہیں۔ اور ملکہ پکھراج کے ریکارڈ اور تان پورے کے تار ٹوٹ جاتے ہیں ایک دن-- اور آخر میں نیلے پروں والی چڑیاں خزاں زدہ شاخوں پر سے اپنے پر پھیلا کر بہار کے تعاقب میں دور جنوب کے ہرے مرغزاروں کی جانب اڑ جاتی ہیں-- جب خواب پچھلی رات کی چاندنی کی طرح پھیکے پڑنے لگتے ہیں اس وقت کی بے کیفی اور الجھن کا خیال کرو۔ سچ مچ کی مسرت تم کہیں بھی نہیں پاسکتیں رخشندہ بانو۔ شاید تم سوچ رہی ہو کہ اگر میگڈیلن تمھیں مل جائے تو تم اپنی برفانی بلندی پر سے اس سے کہو: کارل ریوبن کے ساتھ کہیں بہت دور چلی جا اے بے حقیقت لڑکی-- اس کا گتار اور تیری آواز-- یہی تیرا بہترین راستہ ہے۔ برج راج بہادر سے تم کہو: انکل ٹوبی آپ میری دوست شیاملا کے ایک خوب صورت اور ڈیشنگ سے ماموں ہیں جو اپنی سیاہ ڈی.کے.ڈبلو. خوب تیز چلاتے ہیں اور بس-- آپ بھی تشریف لے جائیے۔ کیونکہ مسوری میں ہنی مون کے لیے سوائے میں ایک پورا سوٹ رزرو کرا لیا گیا ہے جس کے پیچھے سیب کے درختوں کا جھنڈ--‘‘
’’اوہ!‘‘
’’اب تمھیں نیند آرہی ہے۔ اگر تم مجھے یاد کروگی تو میں پھر کسی ایسی ہی چاندنی رات میں الہٰ دین کے دیو کی طرح تمھارے خواب میں آجاؤں گا۔ شب بخیر رخشندہ سلطانہ۔‘‘
وہ اطمینان سے جنگلے پر سے کود کر باغ کے اندھیرے میں اتر گیا اور پھر اس کے قدموں کی چاپ سنسان سڑک کی خاموشی میں کھو گئی۔
’’مہربانی سے ادھر ہی رہیے آپ--‘‘
--اور جم کو جواب تک یہ سوچ رہا تھ-- جانے کیا سوچ رہا تھا
--جانے کیا سوچ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوا برف کے سارے پہاڑ اور ساری چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گر پڑی ہیں اور ان کے بوجھ میں دب کر وہ بے تحاشا خوب صورتی اور نفاست اور سجا ہوا کمرہ نیچے گرتا چلا جارہا ہے۔
وہ سنگھار میز کے اسٹول پر بیٹھی ایک کتاب کی ورق گردانی کرتی رہی اور وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گی-- وہ جو -- وہ جو-- او خد-- ’’یہ مت سمجھو کہ میں fusses کر رہی ہوں۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔ شدید نفرت!‘’ یا اللہ -- اسے تعجب ہورہا تھا کہ اسے اب تک رونا کیوں نہ آیا۔ نہ معلوم اسے کیا ہوگیا تھا۔ میرا بے چاری بچی۔ ہنی مون ختم ہوتے ہی سائیکلوانالسٹ سے اس کا علاج کرواؤں گا۔ لیکن وہ خاموش رہا۔
’’اچھا کم از کم تم تو سوجاؤ۔ بہت تھک گئی ہوگی۔‘‘
تھوڑی دیر بعداس نے کہا اور وہ مخالفت کے بغیر ضدی بچے کی طرح مسہری پر گر گئی۔ وہ ٹہلتا رہا۔ اس رات اس نے سگریٹوں کا سارا ڈبہ ختم کردیا۔

جاری۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
تکیوں میں منہ چھپا کر اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے سنا جیسے کہیں بہت دور سے آواز آرہی تھی۔ جم دریچے میں کھڑا کہہ رہا تھا:
’’اس کا انجام تم نے کیا سوچا ہے؟‘‘
قانونی علاحدگی-- ا س نے اپنے آپ کو کہتے پایا۔ پھر وہ سوگئی۔ جیسے اس نے دن بھر روتے روتے گزار-- اور بمباری یا زلزلے سے گری ہوئی عمارت کے ملبے سے نکلے ہوئے کسی زخم خوردہ انسان کی طرح وہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگ-- بالوں کی ایک لٹ اس کی برف جیسی پیشانی پر آگری تھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ جھک کر اس لٹ کو وہاں سے ہٹادے لیکن وہ ایسا نہ کرسک-- یہ اس کی بیوی تھی، رخشندہ-- خدای-- اور وہ خود جم تھ-- جمال انور-- مائیکل اینجلو کا شاہکار-- او بلند و برتر خدا، کیا ہم سب پاگل ہیں۔ خواب گاہ کا تیز لیمپ رخشندہ پر اپنی کرنیں پھینکتا رہ-- اس نے سبز روشنی جلائے بغیر اپنے آپ کو صوفے پر ڈال دیا۔
پھر وہ چار دوست خاموشی سے زینے پر سے اتر کے اس کار کی سمت بڑھے جو گیٹ وے کے اندھیرے سائے میں کھڑی تھی۔ اس پاگل کر دینے والی موسیقی کی گونج گیلریوں، اسٹالوں اور سمندری ہواؤں میں اب تک لرزاں تھی۔
مادام میگڈلین ریوبن جوفٹ لائٹ کی تیز کرنوں میں نہاتی ہوئی گارہی تھی۔ اور کارل ریوبن جو پیانو پر بیٹھا تھا اور ہال جو الٹرافیشن ایبل لوگوں سے پٹا پڑا تھ-- اور -- انھوں نے سنا کہ کارل ریوبن اور مادام ریوبن اپنے آرکیسٹرا کے ساتھ جہاں جاتے ہیں شہرت اور عزت ان کے قدموں پر جھک جاتی ہے۔ شمال کے سارے بڑے بڑے فیشن ایبل شہروں میں ان کے کونسرٹ ہوچکے ہیں۔ ریڈیو میں ان کے پروگرام رکھے جاتے ہیں۔ اتحادی فوجوں کو محظوظ کرنے کے لیے ان کو خاص طور سے مدعو کیا جاتا ہے۔ مادام ریوبن، جو سیاہ یا نقرائی شام کے لباس میں چمکیلے پتھروں سے سجی ہوئی، خاموشی سے اپنے جیون ساتھی کے ہاتھ کا سہارا لے کر اسٹیج پر آتی ہے اور پھر ساری دنیا پاگل ہوجاتی ہے اس کے نغموں سے -- اور انھیں تیزاب کی سی تلخی اور تیزی کے ساتھ یاد آیا۔ کارل کہا کرتا تھا: میرے ساتھ چلومگ تمھیں بلبلوں اور کوئلوں کی ملکہ بنا دوں گا۔ میگڈلین-- میگڈلین-- میری سینوریتا۔ گوا کی کالی راتیں تمھیں پکار کر واپس بلا رہی ہیں۔ راتوں کو تمھارے بالوں میں ستارے سجا کریں گے اور مہتاب کے مغنی کا گتار بجتا رہے گ-- تم-- مگ-- سرخ ہونٹوں والی چوہی-- تمھاری نیوریلجیا کی شکایت ہمیشہ کے لیے دور ہوجائے گی۔ تم میری آنکھوں سے دیکھوگی، میرے کانوں سے سنوگی، میرے جادو سے رقص کروگی اور ساری کائنات مدہوش ہوکر ہمارے ساتھ ناچنے لگے گی۔ بے وقوف لڑکی جوان چار سر پھرے ہندوستانی لڑکوں کے لیے کرافر مارکیٹ سے مچھلی کے ڈبے خرید کر لاتی ہو اور ان کی چائے کی پیالیاں صاف کرتی ہو۔ رب یہودہ کی قسم اس بھورے بالوں والی گلہری میں ذرا بھی عقل نہیں!
پھر انھوں نے سنا اتحادی فوجوں کو محظوظ کرنے والی ایک پارٹی کے ہم راہ مشرقِ وسطیٰ جاتے ہوئے جہاز پر ایک حادثے کی وجہ سے مسٹر کارل ریوبن کا انتقال ہوگیا اور خوب صورت اور غمگین مادام ریوبن پارٹی سے علاحدہ ہوکر اپنے وطن واپس چلی گئیں۔
اور ایک نیلگوں صبح گوا کے ایک چھوٹے سے ہرے بھرے قصبے کے پرانے اور بھورے پتھروںوالے کیتھیڈرل میں جب ماس ختم ہونے کے بعد فادر فرانسیکو نے قربان گاہ کے دریچے کے سامنے کا پردہ برابر کیا تو ان کی پیشانی پر اور بڑی بڑی نیلی آنکھوں میں ایک ملکوتی مسرت اور اطمینان کی روشنی چمک رہی تھی۔ کیونکہ ایک بھٹکی ہوئی روح آخر اپنے چرواہے کے پاس پہنچ چکی تھی-- ’’خداوندِ خدا کی رحمت ہو اس پر، وہ یسوع کی دلہن بن گئی--‘‘ دعا کے آخری الفاظ بھورے پتھروں والے ہال کے منجمد سناٹے میں ڈوب گئے اور فادر ڈائیگو آرگن بند کرکے سیڑھیوں سے نیچے اتر آئے۔ باہر آسمان کے نیچے بہت سے ٹوٹے ہوئے نیلے پر ہوا میں تیرتے پھر رہے تھے۔
اور ایسی ہی ایک نیلگوں شام کے اندھیرے میں، جب کہ تاج کی ایک گالانائٹ کے اختتام پر گیٹ وے، برساتی اور گیلریوں میں مجمع کم ہوتا جارہا تھا، موٹریں اسٹارٹ ہوچکی تھیں اور اکّا دکّا لوگ سیڑھیوں اور سڑک کے کنارے سگریٹ جلانے اور اپنے دوستوں کو شب بخیر کہنے کے لیے رکے ہوئے تھے ان چار دوستوں نے اپنے پائپوں کی راکھ جھٹکی اور ان کی سرخ کارڈھلوان پر بہنے لگی۔ رات گرم تھی اور ورسوا اور جوہو کی خاموش سڑکیں ان کا انتظار کررہی تھیں۔
*****
 
Top