قرآن اور اسرائیلیات

کشف الدجی

محفلین
اس ضمن میں اہم واقعہ فرعون کے بحیرہِ احمر میں ڈوبنے کا ہے۔ یہ واقعہ تب پیش آیا تھا جب مصر سے خروجِ بنی اسرائیل کے وقت فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت اُن کا پیچھا کر رہا تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حکمِ الٰہی سے بحیرہ احمر کے پانیوں پر اپنا عصاء مار کر خشک راستہ حاصل کر چکے تھے۔ ایسے موقع پر جبکہ بنی اسرائیل سمندری پانی کی فصیلوں کے درمیان چلتے جا رہے تھے، تو فرعون کو خیال گزرا کہ غلاموں کا اتنا بڑا سرمایہ یُوں ہاتھوں سے نہیں جانے دیا جا سکتا، لہٰذا سمندر کے اندر بھی پیچھا جاری رکھنا چاہیے۔ پس وہ پانی میں گُھس گیا اور اپنے لشکر سمیت وہیں غرقاب ہو گیا۔ یہاں تک بائبل مقدس اور قرآنِ مجید کا بیان تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ لیکن اِس سے آگے فرعون کے ساتھ کیا معاملہ ہوا، اِس پر بائبل خاموش ہے، جبکہ یہ گرہ قرآن واضح اعلان کے ساتھ 1400 سال پہلے کھول چکا ہے۔ بائبل کا بیان ہے کہ:
”اور پانی پلٹ آیا اور اُن نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا غرق کر دیا اور ایک بھی اُن میں سے باقی نہ چھوٹا۔“ ۱
ایک وقت میں تین الگ الگ جہتوں کو بیان کر کے اعجازِ قرآن کا ایک اور ثبوت فراہم کر دیا گیا ہے۔

جٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُهٗ بَغْيًا وَّعَدْوًا ۭﱑ اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ ۙقَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْن ۲
"اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کر دیا، جبکہ فرعون اور اُس کے لشکر نے سرکشی اور تعدّی سے اُن کا تعاقب جاری رکھا، یہاں تک کہ پانیوں نے آن گھیرا۔ اِس پر وہ پُکارا کہ میں ایمان لایا اُس (خدا) پر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں۔ (کہا گیا) اب یہ (فرمانبرداری) اور پہلے سرکشی و فساد کرتا رہا؟ تو آج ہم تمہارے وجود کو تمہارے جسم میں محفوظ کر دیتے ہیں، تاکہ تو آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت رہے، اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔“
اِتنے میں جب موسیٰ بڑا ہو اتو باہر اپنے بھائیوں کے پاس گیا اور اُنکی مشقتوں پر اُسکی نظر پڑی اور اُس نے دیکھا کہ ایک مصری اُسکے ایک عبر انی بھائی کو مار رہا ہے۔
پھر اُس نے اِدھر اُدھر نگا ہ کی اور جب دیکھا کہ وہاں کو ئی دُوسرا آدمی نہیں ہے تو اُس مصری کو جان سے مار کر اُسے ریت چھپا دیا۔

۳
َدَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلٰي حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيْهَا رَجُلَيْنِ يَ۔قْتَتِلٰنِ ڭ هٰذَا مِنْ شِيْعَتِهٖ وَهٰذَا مِنْ عَدُوِّه ٖ ۚ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهٖ عَلَي الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّهٖ ۙ فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَيْهڭ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِيْنٌ ۴
اور موسیٰ ( علیہ السلام ) ایک ایسے وقت شہر میں آئے جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا ، یہ ایک تو اس کے رفیقوںمیں سے تھا اور یہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے ، اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا اس سے فریاد کی ، جس پر موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اس کے مکا مارا جس سے وہ مر گیا موسیٰ ( علیہ السلام ) کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے یقیناً شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے والا ہے ۔
قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اورمقدس ترین کلام ہےاور رسول کریم کا حیرت انگیز ابدی ودائمی معجزہ ہے، سب سے بڑا اعجاز اس کلام مبارک کا یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو اس دنیا میں ازل سے کسی اورکتاب یا صحیفہ آسمانی کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی میں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب فرمایا یہ کلام ایک بحر بیکراں ہے جس کو مختلف زبانوں میں علمائے امت نے اپنی صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایا،آج انہی علماء کرام اورمفسرین عظام کی کوششوں اورکاشوں کا ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن کی تفسیر موجود ہے۔اسرائیلی روایات محض من گھڑٹ قصے اور کہانیاں ہیں۔اسرائیلیات کو استشہادکے لیے تو روایت کیا جاسکتا ہے مگراعتقاد کے لیے نہیں۔

۱) باب خروج:۲۸
۲)یونس: ۱۰: ۹۲
۳) باب خروج:۱۱،۱۲
۴) القصص:۲۸ :۱۶



 
Top