قتیل شفائی قتل ہو جاتے ہیں زنجیر ہلانے والے

فاتح

لائبریرین
نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے
اب نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی جانے والے

کیا ملے گا تجھے بکھرے ہوئے خوابوں کے سوا
ریت پر چاند کی تصویر بنانے والے

مے کدے بند ہوئے، ڈھونڈ رہا ہوں تجھ کو
تو کہاں ہے مجھے آنکھوں سے پلانے والے

کاش لے جاتے کبھی مانگ کے آنکھیں میری
یہ مصوّر تری تصویر بنانے والے

تو اس انداز میں کچھ اور حسیں لگتا ہے
مجھ سے منہ پھیر کے غزلیں مری گانے والے

سب نے پہنا تھا بڑے شوق سے کاغذ کا لباس
جس قدر لوگ تھے بارش میں نہانے والے

چھت بنا دیتے ہیں اب ریت کی دیواروں پر
کتنے غافل ہیں نئے شہر بسانے والے

عدل کی تم نہ ہمیں آس دلاؤ کہ یہاں
قتل ہو جاتے ہیں زنجیر ہلانے والے


کس کو ہو گی یہاں توفیقِ انا میرے بعد
کچھ تو سوچیں مجھے سولی پہ چڑھانے والے

مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے

در و دیوار پہ حسرت سی برستی ہے قتیل
جانے کس دیس گئے پیار نبھانے والے
قتیل شفائی​
 
Top