فیض احمد فیض

رضوان

محفلین
فیض کی ایک غزل جو انہوں نے مخدوم کے نام کی تھی


“آپ کی یاد آتی رہی رات بھر“
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر

گاہ جلتی ہوئی، گاہ بجھتی ہوئی
شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر

کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر

پھر صباسایۃ شاخِ گل کے تلے
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر

جو نہ آیا اُسے کوئی زنجیرِ در
ہر صدا پر بلاتی رھی رات بھر

ایک اُمید سے دل بہلتا رہا
اِک تمنّا ستاتی رہی رات بھر​
 

رضوان

محفلین
گلوں ميں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھي آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے يارو صبا سے کچھ تو کہو
کہيں تو بہر خدا آج ذکر يار چلے

کبھي تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز
کبھي تو شب سر کا کل سے مشکبار چلے

بڑا ہے درد کا رشتہ ،يہ دل غريب سہي
تمہارے نام پہ آئيں گے غمگسار چلے

جو ہم پہ گزري سو گزري مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تري عاقبت سنوار چلے

حضور يار ہوئي دفتر جنوں کي طلب
گرہ ميں لے کر گريبان کا تار تار چلے
 

رضوان

محفلین
چشم مگيوں ذرا ادھر کر دے
دست قدرت کو بے اثر کر دے

تيز ہے آج درد دل ساقي
تلخي مے کو تيز تر کر دے

جوش وحشت ہے تشنہ کام ابھي
چاک دامن کو تا جگر کر دے

ميري قسمت سے کھيلنے والے
مجھ کوقسمت سے بے خبر کر دے

لٹ رہي ہے مري متاع نياز
کاش وہ اس طرف نظر کر دے

تکميل آرزو معلوم
ہوسکے تو يونہي بسر کر دے
 

رضوان

محفلین
دونوں جہاں تيري محبت ميں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئي شب غم گزار کر

ويراں ہے ميکدہ، گم و ساغر اداس ہيں
تم کيا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

اک فرصت گناہ ملئ، وہ بھي چار دن
ديکھے ہيں ہم نے حوصلے پروردگار کے

دنيا نے تيري ياد سے بيگانہ کرديا
تجھ سے بھي دلفريب ہيں غم روزگار کے

بھولے سے مسکرا تو ديے تھے وہ آج فيض
مت پوچھ ولولے دل کا ناکردہ کار کے
 

رضوان

محفلین
ہيں لبريز آہوں سے ٹھنڈي ہوائيں
اداسي ميں ڈوبي ہوئي ہيں گھٹائيں

محبت کي دنيا پر شام آکچي ہے
سيہ پوش ہيں زندگي کي فضائيں

مچلتي ہيں سينے ميں لاکھ آرزوئيں
تڑپتي ہيں آنکھوں ميں لاکھ التجائيں

تغافل کے آغوش ميں سو رہے ہيں
تمہارے ستم اور ميري وفائيں

مگر پھر بھي اے ميرے معصوم قاتل
تمہيں پيار کرتي ہيں ميري دعائيں
 

رضوان

محفلین
کب ياد ميں تيرا ساتھ نہيں، کب بات ميں تري بات نہيں
صد شکر کہ اپني راتوں ميں اب ہجر کي کوئي رات نہيں

مشکل ہيں اگر حالات وہاں، دل بيچ آئيں جان دے آئيں
دل والوں کوچہ جاناں ميں کيا سيسے بھي حالات نہيں

جس دھج سيکوئي مقتل ميں گيا، وہ شان سلامت رہتي ہے
يہ جان تو آني جاني ہے، اس کي تو کوئي بات نہيں

ميدان وفا دربار نہیں، ياں نام و نسب کي پوچھ کہاں
عاشق تو کسي کا نام، کچھ عشق کسي کي ذات نہيں

گربازي عشق کي بازي ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کيسا
گر جيت گئےتو کيا کہنا، ہارے بھي بازي مات نہيں​
 

رضوان

محفلین
مجھ سے پہلي سي محبت مري محبوب نہ مانگ

ميں نہ سمجھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حيات
تيرا غم ہےتو غم دہر کا جھگڑا کي ہے

تيري صورت سے ہے عالم ميں بہارون کو ثبات
تيري آنکھوں کے سوا دنيا ميں رکھا کيا ہے

تو جو مل جائے تو تقدير نگوں ہو جائے
يوں نہ تھا ميں نے فقط چاہا تھا يوں ہو جائے

اور بھي دکھ ہيں زمانے ميں محبت کے سوا
راحتيں اور ابھي ہيں وصل کي راحت کے سوا

ان گنت صديوں کے تاريخ بيہمانہ طلسم
ريشم و اطلس و کمخواب ميں بنوائے ہوئے

لوٹ جاتي ہے ادھر کو بھي نظر کيا کيجئے
اب بھي دلکش ہے ترا حسن مگر کيا کيجئے

مجھ سے پہلي سي محبت مري محبوب نہ مانگ​
 

رضوان

محفلین
رنگ پيراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

دوستوں اس چشم و لب کي کچھ جس کے بغير
گلستاں کي بات رنگيں ہے، نہ ميخانے کا نام

پھر نظر ميں پھول مہکے، دل ميں پھر شمعيں جليں
پھر تصور نے ليا اس بزم ميں جانے کا نام

دلبري ٹہرا زبان خلق کھلوانے کا نام
اب نہیں پري رو زلف بکھرانے کا نام

محتسب کي خير، اونچا ہے اس کے فيض سے
رند کا، ساقي، مے کا، خم کا، پيمانے کانام

ہم سے کہتے ہيں چمن والے، غريبان چمن
تم کوئي اچھا سا رکھ لو اپنے ويرانے کا نام

فيض ان کو ہے تقا ضائے وفا ہم، سے جنہيں
آشنا کے نام سے پيارا ہے بيگانے کا نام
 

رضوان

محفلین
تيرگي ہے کہ امنڈتي ہي چلي آتي ہے
شب کي رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جيسے

چل رہي ہے کچھ اس انداز سے نبض ہستي
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جيسے

رات کا گرم لہو اور بھي بہ جانے دو
يہي تاريکي تو ہے غازہ رخسار سحر

صبح ہونے ہي کو ہے ار دل بيتاب ٹہر
ابھي زنجير چھٹکتي ہے پس پردہ ساز

مطلق الحکم ہے شيرازہ اسباب ابھي
ساغر ناب ميں آنسو بھي ڈھلک جاتے ہيں

لغزش پا ميں ہے پابندي آداز ابھي
اپنے ديوانوں کو ديوانہ تو بن لينے دو

اپنے ميخانوں کو ميخانہ تو بن لينے دو
جلد يہ سطوت اسباب بھي اٹھ جائے گي

يہ گرانباري آداب بھي اٹھ جائے گي
خواہ زنجير چھٹکتي ہي، چھٹکتي ہي رہے
 

رضوان

محفلین
تم آئے ہو، نہ شب انتظار گزاري ہے
تلاش ميں ہے سحر بار بار گزري ہے

جنوں ميں جتني بھي گزري بکار گزري ہے
اگر چہ دل پہ خرابي ہزاري گزري ہے

ہوئي ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرے کوئے يار گزري ہے

وہ بات سارے فسانے ميں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزري ہے

نہ گل کھلے ہيں، نہ ان سے ملے نہ مے پي ہے
عجيب رنگ ميں اب کے بہار گزري ہے

چمن پہ غارت گلچيں سے جانے کيا گزري
قفس سے آج صبا بے قرار گزري ہے​
 

رضوان

محفلین
وہ عہد غم کي خواہشِ بے حاصل کو کيا سمجھے
جو ان کي مختصر روداد بھي صبر آزما سمجھے

يہاں وابستگي، واں براہمي، کيا جانتے کيوں ہيں
نہ ہم اپني نظر سمجھے نہ ہم ان کي ادا سمجھے

فريب آرزو کي سہل انگاري نہيں جاتي
ہم اپنے دل کي دھڑکن کو تري آواز پا سمجھے

تمہاري ہر نظر سے منسلک ہے رشتہ ہستي
مگر يہ دور کي باتيں کوئي نادان کيا سمجھے

نہ پوچھو عہد الفت کي، بس اک خواب پريشاں تھا
نہ دل کو راہ پر لائے نہ دل مدعا سمجھے​
 
Top