فیصلہ ۔ ۔

اظہرالحق

محفلین
دوستو ، لکھنا کافی عرصے سے چھوڑ رکھا تھا ، مگر آج دل کے مجبور کیا تو جو تحریر لکھی ہے ، آپکی نذر ہے ، امید ہے اپنی آراء سے نوازیں گے ۔ ۔
--------------------------------------------------------------------------------------------
دیکھو یہ ستلی جو ہے اسے کھنچنا ہے ، ایک دم سے ، اسے نیفے میں اڑوس لو تا کہ تمہیں یاد رہے ، اور پھر سب نے اسے باری باری گلے لگایا ، رحیم ہی بس ایسا تھا جو اس زور سے لپٹنا چاہ رہا تھا مگر احمر نے اسے روک دیا ، احتیاط سے ، کہیں ادھر ہی ۔ ۔ ۔ رحیم کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ ۔ اسے یاد آیا کہ کل بھی وہ رہ رہا تھا یہ کہتے ہوئے کہ ، تمہارے بعد میرا دل نہیں لگے گا میں بہت جلد تمہارے پاس آ جاؤں گا ۔۔۔ نہیں نہیں ابھی تنظیم کو تہماری ضرورت ہے ۔ ۔ وہ برسوں سے اس جیسے لوگوں کہ مشن پر بھیج رہا تھا ، مگر اس سے جانے کیوں اسکا دل اتنا لگ گیا ۔ ۔ ۔ اسنے اپنے طور پر بہت کوشش کی تھی اسے روکنے کی ۔ ۔ ۔ مگر شاید اسکے ارادے رحیم کی خواہشات سے زیادہ طاقت ور تھے ۔ ۔ ۔ ایک دن رحیم نے اسے کہا
دیکھو ۔ ۔ میں نے بہت سارے جوانوں کو ایسے رخصت کیا ہے ، انکے چہرے پر آنے والوں دنوں کی چمک تھی ۔ ۔ ۔ اور ہم بھی ایسا ہی سوچتے تھے ، مگر اتنے سارے لوگوں کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا ۔ ۔ ۔ میں ہائی کمان کو بار بار کہ چکا ہوں کہ وہ حکمت عملی بدلیں مگر ۔ ۔ وہ بھی کیا کریں ۔ ۔ ۔ جب تک ایندھن ملتا رہے گا یہ آگ تو جلتی رہے گی ۔ ۔ میرا پتہ نہیں کیوں دل نہیں کرتا کہ تم جیسے دوست کو اس آگ کا انندھن بناؤں ۔ ۔ ۔ وہ سر جھکا کر اسکی باتیں سنتا ، کہ رحیم سے آنکھ ملانا اسکی ہمت نہیں تھی
مگر رحیم بھائی ۔ ۔ ۔ ہم اپنی منزل اور کیسے حاصل کر سکتے ہیں ، ہمارے وسائل نہیں ہیں ، ہم نے ہر راستہ دیکھ چکے ہیں مگر ۔ ۔
نہیں دوست ہم نے ہر راستہ دیکھا ضرور ہے مگر ہر راستے پر چلے نہیں ۔ ۔ ۔
کبھی کبھی وہ اسے تنظیم سے باغی لگتا جب وہ کہتا ، نہیں یہ بھی ہم میں سے ہیں ، جنکے خلاف ہم لڑ رہے ہیں ، ہمارے ہموطن ہیں ، ہم مذہب ہیں ، اور ہم جیسے ہی ہیں ۔ ۔
تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے ۔ ۔۔ اس نے پوچھا تو رحیم نے سرد آہ بھر کر کہا
جھگڑا صرف جھگڑنے کے لئے ہے ، ہمیں خود نہیں معلوم کہ ہم کیوں لڑ رہے ہیں کب سے لڑ رہے ہیں
رحیم بھائی آپ کیسی باتیں کرتے ہو ، ہمارا مقصد واضح ہے ، جن لوگوں نے ہمارے مذہب کو ہائی جیک کیا ۔ ۔ ۔ ۔
کسی نے نہیں کیا ہمارے مذہب کو ہائی جیک ۔ ۔ ۔ وہ تڑپ اٹھا ۔ ۔ ۔ ارے جب خدا اور اسکے رسول(ص) نے اجازت دی ہے مختلف طریقے سے عبادات کی تو میں اور تم کون ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ کسی کو سبق سیکھانے والے ۔ ۔ ۔
مگر وہ بھی تو ہمیں ۔ ۔ ۔ نقصان پہنچاتے ہیں
تو کیا انتقام در انتقام اسکا علاج ہے ۔ ۔ ۔
پتہ نہیں مگر جب ۔ ۔ ۔ وہ ہماری مسجد میں نمازی شہید کرتے ہیں تو کہاں کے مسلمان۔ ۔
اور جب ہم اپنے ہی جیسے کلمہ پڑھنے والے کو مار دیتے ہیں تو ہم کہاں کے مسلمان ۔ ۔ ۔
وہ منافق ہیں ۔۔ ۔
کیا تم نے انکے دل میں جھانک کہ دیکھا ہے ؟
انکے عمل سے پتہ چلتا ہے انکی ۔ ۔ ۔ ۔ باتیں اور کتابیں سینہ چھلنی کر دیتی ہیں دل کرتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ابھی جا کہ ایسے تمام جگہ کو آگ لگا دوں ۔ ۔ ۔
وہاں قرآن بھی ہو گا کیا وہ نہ جلے گا ۔ ۔ ۔ ۔
اللہ کو ہماری نیت کا پتہ ہے ۔ ۔ ۔
اور وہ نیت ہے انسان مارنے کی ۔ ۔ ۔ جبکہ ایک انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہے ۔ ۔ ۔
یہ انسان کہاں ہیں ۔ ۔ ۔ وہ پھر بحث بڑھاتا ۔ ۔ اور رحیم جھنجھلاہٹ میں کہ اٹھتا
پھر ایسا ہی کچھ وہ بھی سمجھتے ہیں ۔ ۔ ۔ میں سوچتا ہوں میں بھی تو انکے جیسا ہوں
نہیں ۔ ۔ رحیم بھائی آپ انسے خود کو کیسے ملاتے ہو ۔ ۔ ۔آپ تو ۔ ۔
میں کچھ بھی نہیں ۔ ۔ ۔ شاید مجھے بھی ایک دن اسی فساد کا حصہ بننا ہو گا ۔ ۔ ۔
لو ، ناظم صاحب سے بات کرو ۔ ۔ ۔ فیصل نے اسے موبائیل پکڑایا ۔ ۔ وہ یادوں سے لوٹ آیا
مبارک ہو بیٹا ۔ ۔ ۔ تم بہت بڑی سعادت حاصل کرنے جا رہے ہو ۔ ۔ وہاں جا کہ ہمارا سلام کہنا ۔ ۔ ۔ ہم تہمارے لئے خصوصی دعا کر رہے ہیں ، یاد رکھو تہمارا یہ مشن ۔ ۔ ہماری منزل کی سمت ایک اور بڑی جست ہو گا ۔ ۔ ۔خدا حافظ ۔ ۔
وہ انسے کچھ کہنا چاہتا تھا ، مگر ہمیشہ کی طرح نہ کہ پایا ۔ ۔۔ ناظم صاحب کا لہجہ ہی ایسا ہوتا کہ کوئی انکے سامنے بول نہیں سکتا تھا ۔ ۔ ۔۔
فی امان اللہ ۔ ۔۔ یہ لو موٹر سائیکل کی چابی ۔ ۔ ۔
اور پھر وہ اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ جمہ تھا رش تھا ، اسنے موٹر سائیکل پارک کی اور اپنا ٹوکن لیا ، سر اٹھایا تو دیکھا لوگ مسجد کی طرف جا رہے تھے ، کسی کے سر پر ٹوپی تھی امامہ تھا ۔ ۔ ۔ اور کوئی ننگے سر ہی ۔ ۔
دیکھو آرام سے بیٹھنا ، مسجد کا احترام کرتے ہیں ۔ ۔ اسے پاس سے آواز آئی ، ایک آدمی اپنے بچے کی انگلی پکڑے مسجد کی طرف جا رہا تھا ۔ ۔ اسے یاد آیا ۔ ۔ ۔ اسکے بھائی جان اسے ایسے ہی مسجد لے جایا کرتے ، اور راستے بھر میں بتاتے کہ کیسے بیٹھنا ہے ، مگر ادھر جماعت کھڑی ہوتی ادھر اسنے صفوں کے بیچھ میں بھاگنا شروع کرنا ۔ ۔۔ اکثر دوران جماعت اگر کوئی کھانستا تو وہ اسے اپنی جیب سے رومال نکال کر دیتا ۔ ۔۔ اور کئی بار تو نمازیوں کی ہنسی چھوٹ جاتی ۔ ۔۔
پھر اسے حافظ جی یاد آئے ، لمبے اور بزرگ ، جنکی چھڑی سے وہ ہمشہ ڈرتا تھا ، اکثر تلاوت میں جب وہ غلطی کرتا تو وہ اسکی پیٹھ پر اپنی چھڑی جڑ دیتے ، اور پھر اسے کافی دنوں تک یاد رہتی ۔ ۔ ۔اور پھر ایک دن وہ مسجد سے بھاگ بھی گیا تھا ۔ ۔ ۔ اسے وہ دن یاد کر کہ نہ جانے کیوں ہنسی آ گئی ، کیونکہ اس دن اسے حافظ جی سے بھی اور بابا جی سے بھی مار پڑی تھی ۔ ۔ ۔
وہ مسجد کے دروازے پر پہنچ گیا تھا ، اسنے مڑ کر سڑک کی طرف دیکھا ۔ ۔ ۔ مگر جیسے اسے اپنے علاوہ کوئی نظر نہ آیا ۔ ۔ ۔ وہ وضو خانے کی طرف مڑ گیا ، ستلی کو چیک کیا اور وضو کیا ، اور مسجد کے صحن میں بیٹھ گیا ۔ ۔ ۔ ابھی زیادہ صحن بھرا نہیں تھا ۔۔ اسنے سوچا کہ وہ نفل ہی پڑھ لے ۔ ۔ ۔ اور جیسے ہی وہ کھڑا ہوا جیسے اسکا جسم بھاری ہو گیا ۔ ۔ ۔ ہاتھ اٹھائے تو جیسے دل بھر آیا ۔ ۔ ۔ سجدے تک جاتے جاتے وہ ہچکیاں لے کر رونے لگا ۔ ۔ ۔ سلام پھیرنے تک اسکا جسم کانپتا رہا ۔ ۔ ابھی اسنے نماز ختم ہی کی تھی کہ کسی نے اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا ، ایک نورانی چہرے والے بزرگ تھے ، اسے اپنے بابا جی یاد آ گئے ۔ ۔ ۔ بیٹا ۔ ۔ ۔ اگر یہ شرمندگی کے اور کفارے کے آنسو ہیں تو سچے موتی ہیں اور اگر یہ کسی آنے والے وقت کا خوف ہے تو اللہ بہت رحیم و کریم ہے ۔ ۔ وہ انکی طرف دیکھتا رہا ۔ ۔ ۔ انکے چہرے سے جیسے نور نکل رہا تھا ۔ ۔ ایک دم سے جانے کہاں سے ناظم صاحب کا چہرہ سامنے آ گیا ۔ ۔ یہ لوگ منافق ہیں ۔ ۔ انکی چکنی چپڑی باتوں پر نہ جانا ۔ ۔ ۔ تکبیر کی آواز اسکے کانوں تک پہنچی اسنے کھڑے ہوتے ہوئے ستلی کو ایک بار پھر ہاتھ لگایا ، اسکے سامنے ۔ ۔ ہزار چہرے جیسے ایک دم سے گھوم گئے ہوں ، ۔ ۔ ۔ اسنے اپنے آگے پیچھے دیکھا ۔ ۔ ۔ نمازی صفیں درست کر رہے تھے ۔ ۔ بچوں کو پیچھے بھیجا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔اسکے کانوں میں فیصل کی آواز گونجی ۔ ۔
کم سے کم ٤٠ یا ٥٠ کو مرنا چاہیے ، سو ایسی جگہ بیٹھنا جہاں زیادہ رش ہو ۔ ۔
کم سے کم ٢٠٠ میٹر تک کا ایریا مکمل تباہ ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ مگر تہمیں کچھ نہیں ہو گا ۔ ۔ ۔ سب ایک پل کا درد ہے ۔ ۔ رحیم نے لقمہ دیا ۔ ۔ ۔
آپ کو کیسے پتہ ۔ ۔ ۔
میں محسوس کر سکتا ہوں ۔ ۔ ۔
اللہ اکبر ۔ ۔ ۔ اسنے غیر ارادی طور پر اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھا دئیے ۔ ۔ ۔ دوسری رکعت کے آغاز میں ٹھیک رہے گا ۔ ۔ نہیں سجدے میں ۔ ۔۔ نہیں اس میں شاید کم تباہی ہو ۔ ۔ ۔ وہ تلاوت سن ہی نہیں پا رہا تھا ۔ ۔ ۔ اسے لگا اسکے چاروں طرف سناٹا ہو ۔ ۔ اور اس سناٹے کو اس نے توڑنا تھا ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر ۔ ۔ وہ رکوع میں جھکا ۔ ۔ ۔ اسکا ہاتھ جیسے خود ہی ستلی پر چلا گیا ۔ ۔ اور پھر وہ سیدھا کھٹرا ۔ ۔ دل پھر بھر آیا ۔۔۔ آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ ۔ اللہ اکبر وہ سجدے میں تھا ۔ ۔ رو رہا تھا ۔ ۔ اللہ اکبر ۔ ۔ وہ ابھی قعدے میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک ننھی سی آواز آئی انکل رومال لے لیں ۔ ۔ اسکے سامنے اسکا بچپن کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر ۔ ۔ ۔ وہ سسکتا ہوا سجدے میں گیا بچہ بھی سائیڈ پر کھڑا ہو گیا ۔ ۔ ۔ یہ کیوں کھڑا ہو گیا ۔۔ ۔ ۔ اسنے اسے دھکیلا ۔۔ مگر بچہ وہیں تھا ۔ ۔ پھر جیسے اسکا بچپن اسکے سامنے آ گیا ۔ ۔ ۔
کیا مجھے مارنے چلے ہو ۔ ۔ اسنے نظریں اٹھائیں سامنے کی صف میں وہ نورانی چہرہ نظر آیا ۔ ۔۔ حافظ جی ۔ ۔ ۔ آج پھر غلطی کی ۔ ۔ تجھے میری مار کا اثر ہوتا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ دوسروں کو مارنے چلا ہے ۔ ۔ اور پھر جیسے اسکی پیٹھ پر حافظ جی کی چھڑی چلنے لگی ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر ۔ ۔ وہ رکوع میں جھک گیا ۔ ۔ ۔ہاتھ ستلی پر تھا ۔ ۔۔ اس نے اسے زور سے پکڑ لیا ۔ ۔ اب قیام میں آتے ہی ۔۔ ۔ بیٹا ۔ ۔ ۔ بابا جی کی آواز آئی ۔ ۔ ۔ رب سب خطائیں معاف کرتا ہے ۔ ۔ مگر اسے کبھی معاف نہیں کرتا جو ظلم کرتا ہے ۔ ۔ ظلم کون کرتا ہے بابا جی ۔ ۔ اسنے پوچھا ۔ ۔ ہم تم ۔ ۔ ۔ وہ کیسے ۔ ۔ ۔ جب کسی کو یہ بھی نہ پتہ ہو کی اسکے ساتھ کیوں برا کیا جا رہا ہے تو اسے ظلم کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہم دوسروں کو انکے جانے بنا ہی سزا دیں تو وہ ظلم ہے ۔ ۔ ۔ مگر ہم کسی کو کیوں سزا دیں گے ۔ ۔ ۔ اسلئے کہ ہم خود ہی اپنے منصف بن بیٹھتے ہیں خود اپنے وکیل بھی ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔اور فیصلہ ہمیشہ ہمارے ہی حق میں ہوتا ہے ۔ ۔ یہ بھی ظلم ہے ۔ ۔ اللہ اکبر ۔ ۔ وہ سجدے میں تھا ایک بار پھر اسے آنسوؤں کی جڑی لگ گئی ۔ ۔۔ جنت خریدی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ رحیم کی آواز آئی ۔ ۔ ۔ کیسے ۔ ۔ بس اسکے لئے نفس کی دولت قربان کرنی ہوتی ہے ۔ ۔ مگر ہم تو اپنی جان قربان کرتے ہیں تو کیا ہمیں جنت نہیں ملے گی
ہو سکتا ہے نہ ملے ۔ ۔
کیوں ۔ ۔ ہم تو حق پر ہیں ۔ ۔ ۔
یہ بات دوسرے بھی کہتے ہیں ۔۔ ۔
تو پھر فیصلہ کیسے ہو ۔ ۔ ۔
نفس سے ۔ ۔ ۔
وہ کیسے ۔ ۔
تم کسی سے انتقام کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی اس سے انتقام نہ لو
کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے ۔ ۔
ہاں اگر نفس کو تسخیر کر لو تو ۔ ۔ ۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ ۔ ۔ ۔ اور اسنے اپنی گردن گھما دی
اور ساتھ ہی اپنا نفس بھی تسخیر کر لیا ۔ ۔ ۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
دوسری طرف سلام پھیرتے ہی اسکے جیسے سانس اٹک گئی ۔ ۔ ۔
اس سے ایک نمازی کے بعد رحیم بھی موجود تھا جو اسے چمکتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔ ۔
انکل چلیں میں خود آپ کے آنسو صاف کر دیتا ہوں اور بچے نے اسکی آنکھوں سے بہنے والی دھارا کو رومال میں جزب کر لیا ۔ ۔ ۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ ۔ رحیم اسکے پاس تھا ۔ ۔ اسنے اسے گلے لگا لیا ۔ ۔
مجھ میں اور ہمت نہیں تھی ۔ ۔ ۔ اس جنگ کا حصہ بننے کی ۔ ۔ ۔
اور اسے ایسا لگا جیسے کہ وہ تپتے صحرا سے ایک دم کسی ائیر کندیشنڈ روم میں آ گیا ہو ۔ ۔
اسنے اپنے آگے پیچھے دیکھا ہر نمازی کے چہرے پر نور تھا ۔ ۔ ۔ اور رحیم کسی چاند کی طرح اسکے سامنے تھا ۔ ۔
اور دوسری طرف جلتی آگ میں آج ایندھن نہیں ملا تھا ۔ ۔ ۔ اور آگ سرد ہو رہی تھی ۔ ۔۔
 
Top