فارسی شاعری فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست - غزل حافظ شیرازی مع اردو ترجمہ

محمد وارث

لائبریرین
حافظ شیرازی کی درج ذیل غزل انتہائی مشہور ہے اور اسکے کچھ اشعار فارسی تو کیا اردو میں بھی ضرب المثل کا مقام حاصل کر چکے ہیں۔ ساری غزل عشقِ حقیقی کی چاشنی سے لبریز ہے اور حافظ کے جداگانہ اسلوب کی آئینہ دار ہے۔

دل سرا پردۂ محبّتِ اُوست
دیدہ آئینہ دارِ طلعتِ اوست
ہمارا دل اسکی محبت کا خیمہ ہے اور آنکھ اسکے چہرے کی آئینہ دار یعنی اسی کو دیکھنے والی ہے۔

من کہ سر در نَیاورَم بہ دو کون
گردنَم زیرِ بارِ منّتِ اوست
میں جو کہ (اپنی بے نیازی کی وجہ سے) دونوں جہانوں کے سامنے سر نہیں جھکاتا لیکن میری گردن اس (حقیقی دوست) کے احسانوں کی زیرِ بار ہے۔

تو و طُوبیٰ و ما و قامتِ یار
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست
تُو ہے اور طُوبیٰ ہے (تجھے جنت کا خیال ہے)، میں ہوں اور دوست کا قد (مجھے اسکے دیدار کا خیال ہے)، ہر کسی کی فکر اسکی ہمت کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔

دورِ مجنوں گذشت و نوبتِ ماست
ہر کسے پنج روزہ نوبتِ اوست
مجنوں کا دور گذر گیا اور اب ہمارا وقت ہے، ہر کسی کا پانچ (کچھ) دنوں کیلیے دور ہے۔

من کہ باشَم در آں حرَم کہ صبا
پردہ دارِ حریمِ حرمتِ اوست
میں کون ہوتا ہوں اس حرم میں جانے والا کہ صبا اسکی حرمت کے حریم کی پردہ دار ہے۔

مُلکتِ عاشقی و گنجِ طرب
ہر چہ دارَم یُمنِ ہمّتِ اوست
عاشقی کا ملک اور مستی کا خزانہ، جو کچھ بھی میرے پاس ہے اسکی توجہ کی برکت کی وجہ سے ہے۔

من و دل گر فنا شویم چہ باک
غرَض اندر میاں سلامتِ اوست
میں اور میرا دل اگرچہ فنا بھی ہو جائیں تو کیا پروا کہ درمیان میں مقصد تو اسکی سلامتی ہے (نہ کہ ہماری)۔

بے خیالَش مباد منظرِ چشم
زاں کہ ایں گوشہ خاص دولتِ اوست
اسکے خیال کے بغیر نگاہ کا منظر نہ ہو (نگاہ کچھ نہ دیکھے) کہ یہ گوشۂ خاص (بینائی) اسکی دولت ہے۔

گر من آلودہ دامنَم چہ عجب
ہمہ عالم گواہِ عصمتِ اوست
اگر میں آلودہ دامن ہوں تو کیا ہوا، کہ اسکی عصمت کا گواہ تو سارا عالم ہے۔

ہر گُلِ نو کہ شُد چمن آرائے
اثرِ رنگ و بُوئے صحبتِ اوست
ہر نیا پھول جو بھی چمن میں کھلتا ہے، اس (دوست) کی صحبت کے رنگ و بُو کا اثر ہے۔

فقرِ ظاہر مَبیں کہ حافظ را
سینہ گنجینۂ محبّتِ اوست
حافظ کا ظاہری فقر (غربت) نہ دیکھ کہ اسکا سینہ اسکی (دوست کی) محبت کا خزانہ ہے۔
 

اُمِ علی

محفلین
سلام،، بہت اچھی کوشش ہے مگر ترجمے میں کچھ غلطیاں ہیں۔ بھائی اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں تصحیح کرسکتی ہوں؟؟ شکریہ!!
 

اُمِ علی

محفلین
من کہ سر در نَیاورَم بہ دو کون
گردنَم زیرِ بارِ منّتِ اوست

فارسی میں "سر در نیاوردن" مصدر ہے جس کے معنیٰ " سمجھ نہ آنے کے ہیں" سر در نیاورم یعنی میں نہیں سمجھ سکتا۔
 

اُمِ علی

محفلین
بے خیالَش مباد منظرِ چشم
یعنی جو منظر تمہاری آنکھیں دیکھیں تو اُس (خدا کے خیال سے) سے بے خیال نہ ہو جاؤ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
من کہ سر در نَیاورَم بہ دو کون
گردنَم زیرِ بارِ منّتِ اوست

فارسی میں "سر در نیاوردن" مصدر ہے جس کے معنیٰ " سمجھ نہ آنے کے ہیں" سر در نیاورم یعنی میں نہیں سمجھ سکتا۔

آپ نے درست کہا ہوگا، لیکن پھر اس صورت میں شعر کا کیا مطلب اخذ ہوگا؟

خیر، قاضی سجاد حسین کے مترجم دیوانِ حافظ میں، جو کہ کم و بیش پچھلی ایک صدی سے برصغیر میں رائج ہے اور حافظ کا مستند اردو ترجمہ ہے، اسکا ترجمہ یوں لکھا ہے:

"میں جو کہ دونوں جہاں کے سامنے سر نہیں جھکاتا، میری گردن اس کے احسان کے زیرِ بار ہے"
 

حسان خان

لائبریرین
محمد وارث صاحب نے بالکل درست ترجمہ کیا ہے، اور امِ علی صاحبہ کی بات بھی غلط نہیں ہے۔ ماجرا دراصل یہ ہے کہ 'سر درآوردن' معاصر ایرانی فارسی میں 'سمجھنا، فہم کرنا، درک کرنا' وغیرہ کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ کہنہ ادبی فارسی میں اس مصدر کا مطلب کسی کا مطیع ہونا اور سر جھکانا ہی تھا۔
 
Top