فلسطین پر میرے خیالات

ابن جمال

محفلین
فلسطین پر میرے خیالات
۱۹۴۸ءمیں اسرائیل کا وجود ہوا، برطانیہ ایک جانب شریف مکہ سے معاہدہ کررہاتھاکہ وہ اسے پورے عرب کا بادشاہ بنادے گا اوربعینہ اسی وقت یہودیوں سے سازباز کررہاتھاکہ وہ اسرائیل کے نام سے فلسطین میں ایک نئی مملکت کے قیام کو یقینی بنائے گا،اورپھر اعلان بالفور کے ذریعہ اسرائیل کاقیام برطانیہ نے عمل میں لایا،دنیا میں برطانیہ کا اثرورسوخ جلد ہی کم ہوگیااورامریکہ منظر عام پر آیااور امریکہ نے اسرائیل کو گود لے لیا،اس کے بعد عرب واسرائیل جنگ میں چھ ملکوں کی عرب فوج کو اسرائیل نے امریکہ اوربرطانیہ کی خفیہ امداد کے بل بوتے پر شکست دی اور شام ومصر واردن کے بڑے رقبہ پر قابض ہوگیا،شام کے گولان کی پہاڑیوں پر اب تک اس کا قبضہ برقرارہے۔

حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کے حق میں اوراسرائیل کے خلاف ہمارے پاس نہ کوئی تحقیق ہے،نہ کوئی پلاننگ ہے اورنہ کوئی راہِ عمل ہے، جب کبھی اسرائیل فلسطینیوں پر مشق ستم کرتاہے، ہم مذمت کے کچھ اخباری بیان جاری کردیتے ہیں، اس سے بڑھ کر کچھ جلسے جلوس اورریلیاں نکال لیتے ہیں، اس سے آگے بڑھے تو اپنے ملک میں کچھ توڑپھوڑ کرلیتے ہیں،لیکن کوئی موثر منصوبہ بندی اب تک ہم سے نہیں ہوسکی ۔

اسرائیل کے قیام کے وقت ایک دو ممالک کے سوا اس کا کوئی یارومددگارنہیں تھا، آج پوری دنیا اسرائیل کے ساتھ ہے اور فلسطین عالمی تنہائی کا شکا رہے، وہ ممالک جو ماضی میں فلسطینی کاز کے حامی تھے، آج اسرائیل کے کٹر حمایتی ہیں، سوال ہے کہ یہ انقلاب کیسے برپاہوا، یہ کایاپلٹ کیسے ہوئی،جواب ہے کہ محنت اوربیان بازی کا یہی فرق ہوتاہے،یہودیوں نے اپنی عالمی تنہائی کو دور کرنے کیلئے انتھک محنت کی اورہمارے لیڈران محض بیان بازی کرتے رہے۔

اس میں کوئی شک اورشبہ نہیں ہے کہ فلسطینی بھائیوں نے جان ومال کی بڑی سے بڑی قربانی پیش کی ہے ،اور یہ کہیں توبجاہے کہ انہوں نے عہد زریں کی یاد تازہ کردی ؛لیکن ہم اس پر غورکیوں نہیں کرتے کہ ہمارے جان ومال کی قربانی کا کوئی مثبت اثرکیوں نہیں ہورہاہے،جب کبھی جان ومال کی قربانی کے باوجود کوئی مثبت اثر نہ ہوتو سمجھ جاناچاہئے کہ یاتو مقصد غلط ہے، یاپھر اس مقصد کیلئے اختیار کیاگیاطریقہ ٔ کار غلط ہے، فلسطین کی آزادی کا مقصد غلط نہیں ہے توپھر لازمی ہے کہ ہم نے اس کیلئے جو طریقہ ٔ کار اختیار کیاہے،وہی غلط ہے۔

احتساب اچھی چیز ہے،اپنی کارکردگی کی جانچ کرتے رہنے سے خامیاں دور ہوتی ہیں اورمزید بہتری کی راہ ہموار ہوتی ہے،اگراپنی کارکردگی کی جانچ نہ کی جائے توخامیاں بنی رہتی ہیں اور کبھی کبھی مسافر منزل سے بھی بھٹک جاتاہے،لہذا اب جب کہ ٹرمپ کابیت المقدس کے تعلق سے اعلان سامنے آچکاہے ،مزید ضرور ی ہوجاتاہے کہ اس پر غورکیاجائے کہ ہمارے طریقہ ٔ کار میں غلطی کیاہے ؟اورکہاں پر ہے؟ کہ ساٹھ پینسٹھ سال سے جان ومال کی بے پناہ قربانی کے باوجود ہم دن بدن مزید کمزور اور دشمن طاقتور ہوتے جارہے ہیں؟

بسااوقات احتساب میں ’’سخت راہ‘‘بھی آتے ہیں،جہاں ہمیں اپنے ماضی کے کارناموں کو بالکل بھول جاناپڑتاہے اورکبھی کبھی اسے اپنی غلطی تسلیم کرنا پڑتاہے ،لیکن زندہ قوموں کا یہی وطیرہ ہوتاہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتی ہیں اور اسے درست کرتی ہیں، غلطی پراصراراوراسے درست قراردینے کی نہ ہی کوشش کرتی ہیں اورنہ ہی ماضی کی غلطی سے چمٹےرہنے کی ضد کرتی ہیں۔

1: پہلا سوال یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی کیلئے پرتشدد احتجاج کہاں تک درست تھا؟

فلسطینی کاز کیلئے جتنی قربانیاں دی گئی ہیں، وہ بلامبالغہ دور حاضر میں کسی ایک ملک کیلئے دی گئی سب سے زیادہ قربانی ہے،لیکن ہم ناکام کیوں رہے؟اس سوال کا جواب ہمیں اغیار کی سازش کی تھیوری سے ہٹ کر بھی سوچنے کی ضرورت ہے،کیاپرتشدد احتجاج ہماری غلطی تھی ؟یاپھر ہم پرامن احتجاج کرکے اپنا مقصد حاصل کرسکتے تھے؟

دورحاضر میں ہندوستان جیسابڑا اوروسیع ملک پرامن احتجاج سے آزاد ہواہے، ساؤتھ افریقہ والوں نے نیلسن منڈیلا کی قیادت میں پرامن احتجاج کیا اوراپنامقصد حاصل کیا،اس طرح کی مزید مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ؛پرتشدد احتجاج سے بھی بسااوقات مقصد حاصل ہوتاہے ،لیکن اسی وقت جب عالمی رائے عامہ آپ کے حق میں ہو،یاکوئی بڑی طاقت آپ کی حمایت کررہی ہو، انڈونیشیا کا تیمورنامی جزیرہ اورسوڈان کا دارفور اسی کی مثال ہے۔

فلسطین کے پیچھے کون سی عالمی طاقت ہے؟نہ انہیں ماسکو کی حمایت حاصل ہے اورنہ امریکہ کی ،نہ یوروپ کی اورنہ ایشیاکی، اورکھل کر بات کہی جائے تواب عربوں کی بھی حمایت حاصل نہیں رہی ، پھر وہ کس برتے پرپرتشدد تحریک چلاکر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں؟

عالمی میڈیا ان کے دشمنوں کے ہاتھ میں ہے جس کے خلاف آپ لڑرہے ہین، اس نے دھیرے دھیرے آپ کی امیج ایک دہشت گرد کی بنادی ہے، وہ میزائل چلاکر بھی معصوم ہیں اور آپ غلیل سے کنکر پھینک کر بھی دہشت گرد ہیں، وہ دو کے بدلے دوسو کو قتل کریں تو عین انصاف ہے اور یہاں دو یہودی مارے جائیں تو پورے فلسطینی قاتل اور دہشت گردہیں،اسی امیج کا اثر ہے کہ اب پوری دنیا میں فلسطینی کاز کی حمایت بتدریج کم بلکہ ختم ہوتی جارہی ہے،اس منفی امیج کو ختم کرنے کیلئے ہماری کوششیں صفر ہیں۔

موجودہ دور میں جس طرح دہشت گردی کے خلاف ہوا کھڑا کیاگیاہے،اورجس طرح کسی بھی پرتشدد کارروائی کے خلاف عوامی غیض وغضب کی فضابنائی جاتی ہے اور رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے، ایسے میں مزید ضروری ہے کہ ہم اپنی پرتشدد کارروائیوں پر نظرثانی کریں ۔

اسرائیل پر ایران کے تیار کردہ اور حزب اللہ کے ذریعہ اسمگل کردہ راکٹ پھینکے جاتے ہیں، یہ راکٹ اوسط درجہ کے ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر راستے میں ہی تباہ کردیئے جاتے ہیں، سینکڑوں راکٹ پھینک کر بمشکل ایک دو یہودیوں کو ماراجاسکتاہے ،اس کے بالمقابل فلسطینی بھائیوں کے پاس اسرائیلی بمباری اورمیزائل کی ہلاکت خیزی سے بچنے کا ذریعہ کیاہے؟اگرکچھ نہیں ہے تو پھر خود کو اورپوری عوام کو اورعورتوں وبچوں کو کیوں اس ہلاکت میں ڈالاجائے۔پہلے آپ بچنے کی تدبیر کرلیں، پھر کچھ کریں تو یہ ایک معقول بات ہوگی ،لیکن اس کے بغیر اسرائیل پر بے نتیجہ راکٹ پھینکنا اوربدلے میں خاک میں لوٹنا عقل سے پرے ہے،رسول اللہ ﷺ کا ایک ارشاد اس موقع پر صادق آتاہے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا:کوئی شخص اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیاکہ کوئی خود کو ذلیل کیسے کرسکتاہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:ایسےمصیبت میں خود کو گرفتارکرناجس کو سہنے کی طاقت اس میں نہ ہو۔( المعجم الكبير للطبراني 12/ 408)اس حدیث کا مفہوم جس طرح فرد کیلئے اسی طرح قوم کیلئے بھی ہے،یہ سمجھنا غلط ہوگاکہ اس حدیث کا پیغام انفرادی ہے، اجتماعی نہیں ہے۔

زندگی میں بہت مرتبہ عمومی طورپر اور قوموں کی زندگی میں خاص طورپرایسے لمحات آتے ہیں، جب انہیں آگے بڑھنے کیلئے پیچھے ہٹناپڑتاہے، جب انہیں اونچی چھلانگ لگانے کیلئے زمین پر جھکنا پڑتاہے، جب انہیں دوڑنے کیلئے رکنا پڑتاہے، جب انہیں بولنے کیلئے چپ ہوناپڑتاہے،
فلسطین کے حالات کا تقاضایہ ہے کہ وہ پرتشدد احتجاج کو ترک کرکے تعلیم اور دیگر سرگرمیوں میں پوری طرح لگ جائیں اور ان کی جومنفی امیج بنی ہے،اس کو ختم کریں، اپنے عمل سے، اپنے کردار سے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ فلسطن کو بھول جائیں اور اسرائیل کوتسلیم کرلیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹکرا ئو پہلے پرتشدد تھا، اب پرامن ہوگا، اب ہم ان پر میزائل نہیں پھینکیں گے ،لیکن میزائل کی ٹکنالوجی حاصل کریں، اب ہم ان پر غلیل نہیں چلائیں گے لیکن بمبارطیاروں کی بمباری سے بچنے کا ہنر حاصل کریں گے،پہلے جوکام ہم متفرق اورمنشتر اورآدھے ادھورے طورپر کرتے تھے، اب ہم اس کو پیش بینی،پلاننگ اورمنصوبہ بندی کے ساتھ کریں گے،حالات ووواقعات کی رعایت کے ساتھ کریں گے، اپنامقصد بھی حاصل کریں گے اوراپنی امیج کوبھی بہتر بنائیں اور پوری دنیا کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم سے واقف کرانے کیلئے ہرممکن تدبیر کریں گے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ٹرمپ کے اعلان سے مسلمانوں کو دھچکہ لگاہے، لیکن ٹرمپ نے توایک قانون جوبن چکاتھا،اس کا علمی نفاذ کیاہے، یہ قانون کہ یروشلم (بیت المقدس) کوامریکہ نے اسرائیل کا دارالحکومت 1995ء میں ہی تسلیم کرلیاتھا،جب بل کلنٹن کی حکومت تھی اور رواں سال کے اپریل میں ہی ماسکو نے بھی عندیہ دیاتھاکہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتاہے۔

2: فلسطینی بھائیوں کو یہ بات بہت اچھے طریقے سے سمجھ لینی چاہئے کہ ’’ساراجہاں ہمارا‘‘کی ورد کرنے والی امت رنگ ونسل ،اختلاف مشرب ومسلک اورزبان وعقائد کے ٹکروں میں بٹ چکی ہے،مسلم ملکوں میں وہ حکمراں برسراقتدار ہیں، جوذہنی طورپر امریکہ اوریوروپ کے غلام ہیں،ان سے فلسطین کے حق میں کسی سنجیدہ اورمثبت کارروائی کی توقع رکھنا ببول کے درخت پر گلاب کھلنے کی تمناکرناہے،جہاں تک عوام کی بات ہے توان کی ۹۰فیصد تعداد تو افلاس اورجہالت کی وجہ سے فلسطین کے قضیہ سے ہی لاعلم ہے ،جولوگ اس قضیہ سے واقف بھی ہیں، وہ محض خبر کی حد تک اوراس سے آگے بڑھے تو تبصرہ کی حد تک،لیڈران اور رہنمایان قوم محض بیان بازی کی حد تک،کہنایہ ہے کہ فلسطینی بھائی جوبھی اقدام کریں، اپنے دم اورخم پر کریں، مسلم امہ کے بھروسہ پر نہ کریں،مسلم امہ محض ہمدردی کرسکتی ہے، کسی حد تک کچھ مالی امداد کرسکتی ہے،لیکن اس سے آگے کچھ نہیں کرسکتی اوردنیا میں وہی لوگ کامیاب رہتے ہیں جو کسی کارروائی کی بنیاد اپنے دم خم پر رکھتے ہیں نہ کہ دوسروں کے زوربازو پر بھروسہ کرتے ہیں،شروع سے اب تک فلسطینی بھائیوں نے ہی جان ومال کی بے پناہ قربانی پیش کی ہے،لیکن اب ذہنی طورپر اس کیلئے تیار ہوجائیں کہ جوکچھ کرناہے ہمیں کرناہے اوراپنے بل بوتے پر کرناہے۔

3: کسی کارروائی کیلئے ضروری ہے کہ اپنے وسائل کا جائزہ لیاجائے ،اپنامضبوط پہلو اوردشمن کا کمزور پہلو تلاش کیاجائے،اسرائیل کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کی لامحدود حمایت ہے،اوریہ لامحدود حمایت اسے ملتی ہے امریکہ کے یہودی لابیوں کی وجہ سے،جس میں نمایاں لابی امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی ہے،دنیا میں جینے کے دوہی طریقے ہیں ،یاتو خود طاقتور بنئے اوراگر طاقتورنہیں بن سکتے تو کسی طاقتور کی حمایت حاصل کیجئے، یہودیوں نے انتھک محنت کے ساتھ امریکہ میں اپنی موثر لابی بنائی، فلسطینی بھی محنت کرکے یہ مقام حاصل کرسکتے ہیں،لیکن شرط محنت ہے،بیان بازی،فخر وتعلی اورپدرم سلطان بودوالی نفسیات نہیں۔

ابھی تک دنیا ایک قطبی تھی ،لیکن چین کی صورت میں ایک نیاسوپر پاور سامنے آرہاہے،ایسے میں ضروری ہے کہ وہاں اپنی لابی تیار کی جائے اور اپنی حمایت بڑھائی جائے،وہ ممالک جو چین سے قریب ہیں، ان سے مدد لی جائے اور فلسطین کے کاز کیلئے چین میں عوامی حمایت بڑھائی جائے،چینی عہدہ داروں تک پہنچاجائے اور ان میں اپنا اثرورسوخ پیداکیاجائے۔

میڈیا کی حمایت دوہی طریقے سے حاصل ہوسکتی ہے،یاتو آپ اپنامیڈیا تیار کیجئے یاپھر میڈیا کو خریدیے،فلسطین کاز کیلئے رقم کی فراہمی زیادہ بڑامسئلہ نہیں ہوگی،لیکن اس رقم کی مناسب حفاظت اور صحیح مقاصد پر خرچ کرنادشوار امرہوگا، وہ میڈیا جو یہودیوں کے زیر تسلط نہیں ہے، وہاں سرمایہ کاری کیجئے،اوران میں فلسطین کاز کیلئے ہمدردی پیداکی جائے۔

4: کسی بھی اقدام سے پہلے یہ دیکھناضروری ہے کہ عملی طورپر کیاممکن ہے؟آئیڈیل حل کی تلاش میں زندگی گزرجاتی ہے اورآئیڈیل نہیں ملتا، مسلمانوں کی ایک بڑی کمی یہ ہے کہ وہ نجی زندگی میں تو عملی حل تلاشتے ہیں اوراجتماعی امور میں آئیڈیلزم کھوجتے ہیں،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نجی زندگی میں انسان آئیڈیل کو اپنائے اور اجتماعی زندگی میں عملی طورپر ممکن حل تلاش کرے، فلسطین کے کاز کیلئے بھی ضروری ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غورکیاجائے کہ عملی طورپر ممکن اقدام کیاہے؟اورپھر اس سے شروعات کی جائے،نہ کہ آئیڈیلزم کی تلاش میں ،وقت صلاحیت اور وسائل برباد کئے جائیں،رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کہ آپ عملی طورپر ممکن حل کی تلاش میں رہتے تھے،آئیڈیلزم نصب العین ضرور رہتاتھا،لیکن اس سے ابتدانہیں کرتے تھے، خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے،آپ نے شروعات میں بتوں کو گرانے کی تحریک نہیں چلائی ،بلکہ پہلے پرامن طورپر دعوت دی،اسی بتوں سے بھرے خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے رہے،طواف کرتے رہے ،ہاں جب آپ کو اقتدار حاصل ہوگیا، مکہ پر قبضہ بھی ہوگیا توآپ نے خانہ کعبہ سے بتوں کو دور کردیا۔

5: فلسطینی بھائیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک مرتبہ پورے سیاق وسباق میں حالات کا معروضی انداز میں جائزہ لیں، جذبات کو تھوڑے کنارے کریں،دیکھیں کہ اسرائیل کی طاقت کیاہے؟کمزوری کیاہے؟اسرائیل کی حامی تنظیمیں کون سی ہیں، ان کی طاقت کیاہے، اسرائیل کے حامی ممالک کون سے ہیں، زبانی ہمدردکون ہیں اورعملی طورپر ہمدردی کرنے والے کون ہیں؟اسرائیل کیلئے ہمدردی کیسے ختم کی جاسکتی ہے؟جب تک ان موضوعات پر غیرجانبداری سے غوروفکر نہیں ہوگا،کوئی راہ عمل یاروڈ میپ تیار کرناممکن نہیں، دشمن کے خلاف کارروائی کرنا جتنااہم ہے،اس سے زیادہ اہم دشمن کو جانناہے،اوراسرائیل کو جاننے کیلئے ضروری ہے کہ عبرانی زبان میں مہارت پیداکی جائے،عربی زبان جاننے والوں ہزاروں یہودی ہوں گے ؛لیکن عبرانی جاننے بمشکل چند ملیں گے،دشمن کو جاننے کا سب سے بہتر ذریعہ اس کی زبان جانناہے، رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے خط وکتابت کیلئے حضرت زید بن ثابت کو عبرانی زبان سیکھنے کا حکم دیاتھا(بخاری )اورمتعدد صحابہ کرام دیگر زبانوں سے واقف تھے،فلطین کی یونیورسٹی میں اور دیگر اسلامی ممالک کی یونیورسٹیوں میں ایک چیئر بطور خاص اسرائیل کو سمجھنے جاننے کیلئے قائم کی جانی چاہئے۔
 
Top