فقط تِنکا ہُوں (تخت سنگھ)

غدیر زھرا

لائبریرین
وہ بھی کیا دن تھے جب احساس کے آئینے میں
عکسِ مہ پر مہِ تاباں کا گُماں ہوتا تھا
کیسی بھینی سی مہک آتی تھی داغِ دل سے
داغِ دل پر گُلِ خنداں کا گُماں ہوتا تھا

محورِ خُوں پہ پھر اس طور سیاست گھومی
بدلا کرنوں کا چلن، رنگِ سحر بھی بدلا
پڑ گیا ماند شرر فکرِ سخن کی دُھن کا
بدلا ماحول تو اندازِ نظر بھی بدلا

پیڑ سونے کی کشاکش سے جب اُگتے دیکھے
نُقرئی فکر کا پودا مجھے بونا سا لگا
میری نظروں میں جو فن گوہر یکتا تھا کبھی
خواب کے ہاتھ میں خوشبو کا کھلونا سا لگا
میرے ہر شعر میں بھُوک ایسی غضب کی چمکی
خود کو میں آپ ہی کانٹوں کا بچھونا سا لگا

سوچ کر من میں کہ بن جاؤنگا کُندن جل کر
آتشِ کشمکشِ زیست میں جھٹ کُود گیا
حیف دو دن بھی مری عمر کے زرّیں نہ ہُوئے
جہد کی آگ میں تپنا مرا بے سُود گیا
دو بگولوں کے تصادم سے وہ آندھی اُٹھی
سر ہر ذرّہ اُڑا دینے کی ٹھانی جس نے
مُلتجی لاکھ ہوئی کُنجِ گلستان—کی نِگاہ
رنگ و نکہت کی مگر ایک نہ مانی جس نے
کر دئے جس نے گُل آثار مری جنت کے
خاک راہوں کی عبث آپ بھی چھانی جس نے
اشک و گریہ کی ندی جس کی جلو میں اُمڈی
دم لیا پھیر کے ہر آس پہ پانی جس نے

مجھ کو آشا تھی تگ و تاز کی جس ٹہنی سے
میرے سپنوں میں بکھیرے گی شگوفے زر کے
اپنے سُوکھے ہُوئے پتّوں کے جلے خاکوں میں
رنگ لائی ہے قیامت کی خزاں کا بھر کے
اب مرے پاس نہیں عشرتِ فردا کی متاع
اب مرے پاس فقط اشک ہیں چشمِ تر کے؛
آج ہر سمت اندھیروں کے سوا کُچھ بھی نہیں
چند دِن قبل مری آنکھ میں کیا منظر تھے
میرے ارمان روپہلے تھے تو افکارِ جمیل؛
میرے ہر خواب کی چِڑیا کے سُنہرے پر تھے

میں تو نکلا تھا تلاشِ رہِ رنگ و بُو میں
جانفشانی سے بگولوں کے سوا کیا پایا
گردو بادوں کے تعاقب کا صلہ خوب رہا
قلب و جاں پر جمی دُھولوں کے سوا کیا پایا
جو مری جلتی ندامت کا بنیں گی ایندھن
اُن خیالوں کی ببولوں کے سوا کیا پایا
آخر اس تلخئ احساس کی طُغیانی میں
چند بِس گھولتی بھُولوں کے سوا کیا پایا

اَن سُنی جانے رہی ہوں گی صدائیں کِتنی
کتنی سوچیں مرے دیدار کو ترسی ہوں گی
کِتنے اسرارِ نہفتہ کی نشیلی آنکھیں
رُوح کے رَوزنِ دیوار کو ترسی ہوں گی
چشمکیں کتنے دُھندلکوں کے گھنے سایوں میں
شعر کے جامۂ اَنوار کو ترسی ہوں گی؛
کِتنی رمزیں دلِ مبہوت کے سنّاٹوں میں
میرے پیرایۂ اظہار کو ترسی ہوں گی
کتنے ادہام کے ماتھوں کی اندھیری شِکنیں
فکرِ روشن کے سمن زار کو ترسی ہوں گی
گنجِ مژگاں کے محلکوں میں لجیلی پریاں
کتنے خوابوں کی، مرے پیار کو ترسی ہونگی

مری پلکوں میں شفق پھُولی ہے اشکِ خُوں کی
آفتاب ایسے میں جیسے میں ڈھلے دِن کا ہُوں
پھل مسلسل تگ و دو کا یہی احساس تو ہے
سِیلِ حالات و سیاست میں فقط تِنکا ہُوں

(تخت سنگھ)
 
Top