فعل کی دو نسبتیں اور ان کا حکم

فعل کی دو نسبتیں اور ان کا حکم
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
فعل سے ہماری مراد ہر وہ عمل ہے جو انسان سے صادر ہوتا ہے، اور دو نسبتوں سے ہماری مراد الٰہی نسبت اور عبدی نسبت ہے۔ ہم نے سوچا کہ اس پر بات کی جائے کیونکہ اس مسئلے کےحوالے سے عام طور پر اہلِ دین میں خاصا ابہام پایا جاتا ہے، اور وہ افعال پر اسی انداز میں نظر ڈالتے ہیں جس انداز میں کفار افعال کو دیکھتے ہیں، اور اس وجہ سے ان کے ایمان میں ضعف پیدا ہوتا ہے اور یہ چیز انہیں سیدھے رستے سے دور لے جاتی ہے، خصوصاّ اس صورت میں بھی جب اسلامی تحریکیں اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد عدل کے معنی و مفہوم پر رکھنے کی کوشش کررہی ہوں۔ اور ہم عدل کے اصلی اور حقیقی معنوں پر اعتتراض نہیں کرتے کہ جس عدل کی بدولت آسمان اور زمین قائم ہیں، بلکہ ہمارا اعتراض اور مخالفت تو فقط عدل کے ان معنوں پر ہے جو عام طور پر مسلمانوں میں شائع ہیں اور جن کی رُو سے وہ حق کا صرف ایک پہلو دیکھتے ہوئے حق کے دیگر پہلوؤں سے غافل رہتے ہیں۔
افعال میں سے کسی فعل کے حکم کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے ظاہری شرعی (قانونی) پہلو کو بھی دیکھیں اور اس کے باطنی (حقیقی) پہلو کو بھی نظرانداز نہ کریں۔ چنانچہ ظاہری پہلو سے وہ فعل بندے کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جبکہ باطنی پہلو سے فاعلِ حقیقی یعنی اللہ سے تمام افعال منسوب کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر جلال نامی شخص جمال نامی کسی آدمی کو ظلم کرتے ہوئے قتل کردے تو یہاں یہ قتل ایک جہت سے دیکھیں تو ایسا جرم تصور کیا جائے گا جس پر قصاص لینا واجب ہے۔ اور دوسرے پہلو سے دیکھیں تو یہ فعل اللہ الممیت (موت دینے والا) سے منسوب ہوگا، چنانچہ جمال کی موت کو اس جہت سے دیکھ کر اللہ کے اس فعل پر تسلیم و رضا واجب قرار پائے گی۔ اور ایک مؤمن کا ان دونوں نسبتوں کو مدِّ نظر رکھنا اسے کفار سے ممتاز کردیتا ہے جو افعال کو صرف ایک نسبت ہی سے منسوب کرتے ہیں۔
چنانچہ اگر ہم اس بات کو دھیان میں رکھیں تو اس کے نتیجے میں عدل کے معنی مؤمن اور کافر کے نزدیک مختلف قرار پائیں گے۔ اس ساری بات سے ہماری مراد یہ ہے کہ جو بات شرع کے نقطہ نظر سے ظلم قرار پاتی ہے، ضروری نہیں کہ دیگرتمام پہلوؤں سے وہ ظلم ہی ہو، کیونکہ اللہ کی جانب اس فعل کے انتساب کی جہت سے وہ عدلِ محض کے سوا اور کچھ بھی قرار نہ پائے گی۔ چنانچہ اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے تمام افعال عدل و انصاف پر مبنی ہیں، اگرچہ ظاہری طور پر وہ بعض اغراض سے موافقت نہ رکھتے ہوں، اور محرمات میں شامل ہوں، جیسا کہ دنیا میں جنگ و جدل اور جبر و استبداد کا ظہور پذیر ہونا جس کے نتیجے میں لوگوں کو تکالیف پہنچتی ہیں اور لوگوں کے حقوق بھی غصب ہوتے ہیں،اور اسی طرح کے دیگر امور۔ اور بعض فلاسفروں اور مفکروں نے دنیا میں شر (Evil) کے وجود کے مسئلے پر ہر دور میں کافی غوروخوض کیا ہے۔ اور اس دوران ان کی فکر انہیں ایسی حدود تک بھی لے گئی جہاں ان میں سے ایک طائفہ کفر و الحاد کا شکار ہوگیا۔ اور بے شک ان کا پہلا قدم ہی گمرہی پر پڑا جب انہوں نے یہ گمان کیا کہ محض فکر و استدلال سے یہ مسئلہ ان پر واضح ہوجائے گا، جبکہ درحقیقت یہ مسئلہ نورِ ایمان کے بغیر فہم و ادراک پر نہیں کُھلتا، اور ایمان وہ شئے ہے جس سے عقلِ مجرّد ناواقفِ محض ہے۔
اور اگر ہم اللہ کے اس قول کی طرف رجوع کریں جو اہلِ بدر کے ہاتھوں مشرکینِ مکہ کے قتل کے حوالے سے نازل ہوا {فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى} [الأنفال: 17] (پس ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا، اور جب آپ نے ان پر سنگ ریزے مارے وہ آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ اللہ نے مارے تھے)۔یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ فعل پر نسبتِ الٰہیہ کے حوالے سے قرآن کی دلالت اس حد تک ہے کہ نسبتِ عبدیت کی شبہِ تام کی حد تک نفی کی گئی ہے اگرچہ نفیِ تام نہیں ہے۔اور مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ عقل حواس کے تحت صادر ہونے والے حکم (کہ جو مشرکین میں بھی مشترکہ ہے)سے نکل کردرست اور صواب کی طرف واپس لوٹے۔ اور مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں جو سببیت والا قول بیان کیا ہے، وہ حقیقت سے بعید ہے اور قائل کے بُعد کی دلیل ہے، کیونکہ اس قول کی رُو سے فعل سے اللہ کی نسبت کا انحصار اس فعل سے بندے کی نسبت پر جا ٹھہرتا ہے ، اور ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ اور آیت میں نسبتِ الٰہی کو نسبتِ عبدی پر غلبہ حاصل ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ دونوں نسبتوں میں اصل کی حیثیت اسی نسبتِ الٰہی کو حاصل ہے اگرچہ شہود کے اعتبار سے بالعموم اس کے برعکس دکھائی دیتا ہو۔ اور آیت میں فعل کی نسبت کسی قدر بندوں کے ساتھ بھی برقرار رکھی گئی ہے، اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ہے۔ ہم ایسا اس لئے کہہ رہے ہیں کہ عوام، فعل کو بندے کی طرف سے دیکھتے ہیں اور اسے حقیقت کی جہت سے بندے سے اور ایمان کی جہت سے اللہ سے منسوب کرتے ہیں۔ جبکہ خواص (جو زیادہ عقل والے ہیں) وہ فعل کو حقیقت کی جہت سے اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اوربندے کی طرف کبھی حقیقت کی جہت سے اور کبھی ایمان کی جہت سے منسوب کرتے ہیں (اپنے اپنے حال و مقام کے اعتبار سے)۔
اور اگر ہم ان دونوں نسبتوں کی تحقیق کرنا چاہیں اور یہ جاننا چاہیں کہ ان میں سے اوّلیت کس کو حاصل ہے، تو ضروری ہے کہ ہم ایک معیار قائم کریں اور اس معیار کے مطابق ان دونوں نسبتوں کو دیکھیں۔ چنانچہ اگر وہ معیار وجود ہے تو بلا شک و شبہ، فعل کی نسبت درحقیقت اللہ کی طرف ہے، اور مجازی طور پر بندے کی طرف ہے۔ اور اگر وہ معیار علم ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس صورت میں فعل، اللہ اور بندے دونوں جہتوں سے برابری کی نسبت رکھتا ہے۔ اور یہ تحقیق ان دونوں گروہوں یعنی جبریہ اور قدریہ کے اقوال کے جواب میں ہے ، اگر کوئی سمجھنے کی لیاقت رکھتا ہو تو۔
جہاں تک اُس "عدل" کی بات ہے جس کا راگ زمانہِ حال کی اسلامی تحریکیں الاپتی ہیں، تو یہ ایسا عدل ہے کہ جو فہم و ادراک کی اس سطح سے تعلق رکھتا ہے جو کافر کوبھی حاصل ہے، اگرچہ وہ (اسلامی تحریکیں) اس عدل کو شریعت کے نقطہ نظر سے ہی پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ شریعت کا ایک ظاہری پہلو ہے اور ایک باطنی۔، اور دونوں پہلوؤں میں سے کسی ایک کو نظر انداز کرکے دوسرے پہلو کو ہی معتبر جاننا، عقل کو صحیح ادراک سے ہٹا کر سقیم کی جانب لے جاتا ہے۔ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان سیاسی اسلامی جماعتوں کی جانب سے عدل کے ایک مخصوص معنی پر اصرار کرنا، دیما غوجی (Demagogy) کی قبیل سے ہے کہ جس کی نظیر وہ باتیں ہیں جنہیں کمیونسٹ آئیڈیالوجی نے بھی اپنا نصب العین بنایا ، جو اگرچہ پسے ہوئے طبقات اور استحصال زدہ عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے خاصی کشش رکھتی ہیں، لیکن جن کا قربِ الٰہی کے حصول سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بلکہ شائد عدل کے ان مخصوص معنی پر ہی اکتفا و اصرار کرنا، اللہ سے دوری کا ایک سبب بن جاتا ہے، جب بندے افعال میں نسبتِ الٰہیہ کو بالکل فراموش کربیٹھیں۔
اور لوگوں کا ان دونوں نسبتوں کی حقیقت کا ادراک نہ کر سکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے عدل کے درست معانی نہیں سمجھے۔ لوگ عدل کو صرف عدلِ حکمی کے معنوں میں لیتے ہیں ۔ وہ عدلِ حکمی کہ جو ظلم کے مقابل ہے۔ اور اس معنی کا تعلق افعال کو صرف بندوں سے ہی منسوب کرنے اور نسبتِ الٰہیہ کو نظر انداز کرنے سے ہے۔ جبکہ عدل کا ایک اور مفہوم بھی ہے اور ان معنوں کو ہم وجودی معنی قرار دیتے ہیں حکمی نہیں۔ اور وجودی معنی ظلم کے بالمقابل نہیں ہیں، کیونکہ وہاں کوئی ایسی چیز نہیں جسے ظلم کہا جاسکے اور عدل کے بالمقابل کھڑا کیا جاسکے۔ چنانچہ یہ عدل اللہ سے منسوب ہے، عموم و شمول کے اعتبار سے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اگرچہ عدل کے حکمی معنی بھی اللہ سے منسوب ہیں دنیا و آخرت میں جزا و سزا کے حکم کے اعتبار سے۔ اور ان دونوں معانی میں فرق مدِ نظر رکھنا اس شخص کے لئے ضروری ہے جو اپنے اعمال و معاملات میں بصیرت پر قائم رہنا چاہتا ہو۔
اس تمام کلام سے ہمارا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ ہم شرعی معنوں کے اعتبار سے ظلم پر خاموش رہیں، کیونکہ یہ بذاتِ خود ایک بہت بڑی معصیت ہوگی۔اور نہ ہی ہم اسلامی سیاسی جماعتوں کی طرف سے عمومِ امت کے لئے عدل طلب کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ایسا کرنا ایک مذموم فعل ہے۔ ہم تو فقط یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری طلب عدل کے صرف اسی مفہوم تک محدود ہوکر نہ رہ جائے جو دنیوی طور پر کافر کے تصورِ عدل سے آگے نہ بڑھ سکا ہو۔ بلکہ ہمارا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم عدلِ الٰہی جو باطن سے تعلق رکھتا ہے، اس کا ادراک ان افعال کے مظاھر میں بھی کریں جو شرعی و عقلی طور پر ظلم میں شمار ہوتے ہیں۔ اور اس جہتِ باطن سے اللہ کی ان حکمتوں کو سمجھیں جو ظالموں کے تسلط و اقتدار، بلاؤں کے نزول اور انفرادی و اجتماعی طور پر لاحق ہونے والے مصائب کے پسِ پردہ ہوتی ہیں۔ اور جو شخص افعال پر نظرِ شمول ( Holistic view) نہیں رکھتا ، وہ مسلسل ایک ایسی گھٹن اور کرب میں مبتلا رہتا ہے کہ جو اکثر اوقات متشدد ردِ عمل(Violent Reaction) کی نفسیات کو جنم دیتی ہے اور جس کے بطن سے دہشت گردی کے سوتے پھوٹتے ہیں، چنانچہ وہ دنیا اور آخرت، دونوں میں خسارے میں رہتا ہے۔ اور جہاں تک اس شخص کی بات ہے جو اپنے اعمال و معاملات میں بصیرت پر قائم ہوتا ہے (جیسا کہ ہم نے ذکر کیا)، تو ایسا شخص ظلم و تعدی کا مقابلہ علم کے ساتھ کرتا ہے اور یہ بات اسے دنیا و آخرت میں نفع دے جاتی ہے۔ {قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ} [الزمر: 9]. فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔
(تحریر: الشیخ سید عبدالغنی العمری الحسنی)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
Top