فطرت سے ایک مکالمہ (فرحت زاہد)

جاسمن

لائبریرین
بہت دنوں کے بعد پھر
نکل کے آج صحن میں
جو چاندنی سے بات کی
جو سبز گھاس کو تکا
تمام زرد پھول کھِلکھِلا اُٹھے بہار سے
منڈیر والی بیل کے شگوفے ہنس دیے سبھی
خیال کی تمام تتلیوں کے پر جل گئے
بدن سے خوشبوؤں کا
اور نظر سے جگنوؤں کا رابطہ بحال ہو گیا
عجب وصال ہو گیا
میں فطرتوں کے آئینوں کے رُوبرو کھڑی
قدم میں اور خیال میں
مطابقت کی شدتوں سے بے طرح نہال تھی
کہ ایک بوڑھے پیڑ کی
صدائے پُر جمال نے
خود اپنی لازوال چھاؤں میں
شفیق دستِ مہرباں
بڑھا کے مُجھ سے یہ کہا
کچھ اپنے گِردوپیش سے بھی
رابطہ رکھا کرو
اگر کبھی اُداس ہو
تو ہم سے مِل لیا کرو
 

ماہی احمد

لائبریرین
بہت دنوں کے بعد پھر
نکل کے آج صحن میں
جو چاندنی سے بات کی
جو سبز گھاس کو تکا
تمام زرد پھول کھِلکھِلا اُٹھے بہار سے
منڈیر والی بیل کے شگوفے ہنس دیے سبھی
خیال کی تمام تتلیوں کے پر جل گئے
بدن سے خوشبوؤں کا
اور نظر سے جگنوؤں کا رابطہ بحال ہو گیا
عجب وصال ہو گیا
میں فطرتوں کے آئینوں کے رُوبرو کھڑی
قدم میں اور خیال میں
مطابقت کی شدتوں سے بے طرح نہال تھی
کہ ایک بوڑھے پیڑ کی
صدائے پُر جمال نے
خود اپنی لازوال چھاؤں میں
شفیق دستِ مہرباں
بڑھا کے مُجھ سے یہ کہا
کچھ اپنے گِردوپیش سے بھی
رابطہ رکھا کرو
اگر کبھی اُداس ہو
تو ہم سے مِل لیا کرو
مل لوں پھر آپ سے آپی؟
 

جاسمن

لائبریرین
کبهی کبهی میں سوچتی ہوں کسی دکھ سے انسان بچ ہی نہیں سکتا۔ آس دنیا میں آئے ہیں تو دکھ تو دیکھنے ہی ہیں ہر طرح کے۔ پھر ایسی دعاوں کا کیا مطلب ہوا؟
تمہارے ساتھ تو ایک طویل نششت کی ضرورت ہے۔ اللہ تمہیں آسانیاں عطا کرے۔ بات کرتی ہوں تم سے آج کسی وقت۔
 
Top