فطرت انسانی کے سوالات اور فلسفہ

ربیع م

محفلین
فطرت انسانی کے سوالات اور فلسفہ


گزشتہ بحث سے یہ بات واضح ہوئی کہ سائنس کی چمک تاریکی کے ان بادلوں کو چھانٹ ہی نہیں سکتی، اس کا چراغِ ہدایت اس بحرِ ظلمات میں داخل ہوتے ہی گل ہوجاتا ہے۔ان سوالات کے پیدا ہوتے ہی آدمی سائنس کی چار دیواری سے نکل کر مذہب اور فلسفہ یا صحیح معنیٰ میں مابعد الطبعیات (میٹافزکس) کی لا محدود فضاء میں داخل ہوجاتا ہے، یہاں علوم طبیعیہ (فزیکل سائنس) کی یقینیات و قطعیات کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
صرف فلسفہ (میٹافزیکل) مذہب سے ٹکراتا ہے اور جنگ و صلح کا جو کچھ امکان ہے وہ ’’مذہب و فلسفہ‘‘ میں ہے، نہ کہ ’’مذہب و سائنس‘‘ میں۔صرف فلسفہ ہی ایک ایسا علم ھے جس میں غیبی حقایق یا مذہبی امور کوعقل کی گرفت میں لانے کی کوشش کی جاتی ھے اور اس کوشش میں وہ اکثر مذہب سے متصادم بھی رہا ھے اور جس کی بنا پر اب بھی کہا جاتا ھے اور فلسفے سے مرغوب ذہنیتوں نےپہلے بھی کہا ھے کہ فلسفہ نے مذہب کی بنیادیں ہلا دیں،اپنی تحقیقات سے مذہبی حقایق کے سارے تانے بابے کو اڈھیر کر رکھ دیا اور اس انسان کے آٓغاز وانجام کے متعلق مذہب نے جھوٹ کے جو پلندے باندھ باندھ کر رکھے تھے فلسفے نے اپنے دست قوی سے ان سب کو کھول کر پھینک دیا۔
حالانکہ یہ بالکل غلط ھےاس لیےکہ انسان کی ہستی و عدم کے متعلق فلسفے کے سارے بیانات صرف اس کے اندازے، تخمینے اور ظنون پر مشتمل ہیں۔ہر فلسفی مخص اپنی دماغی خصوصیت،موروثی اثرات اور ماحول کے غیر شعوری رحجانات کے تحت ہر چیز سوچتا ھے جو دوسرے سوچنے والوں سے بالکل مختلف ہوتی ھے۔اس اختلاف کا صحیح اندازہ فلسفے کی تاریخ اور فلسفے کے مختلف اسکولوں کے ذخیرہ کتب کے پڑھنے سے بہ خوبی ہوتا ھےاور معلوم ہوتا ھے کہ فلسفہ کی ساری موشگافیاں صرف مہم انسانی کی پے درپے الجھنیں،فرضی احتمالات اور وساوس ہیں جن میں یقین و اذغان کو کوئی داخل نہیں بلکہ دوسرا وہ سرا سر شک رارتیاب ھے۔اگلی تحاریر سے یہ بات واضح ہوگئی۔
فلسفہ و مذہب کی منزلِ مقصود بیشک ایک کہی جاسکتی ہے، لیکن دونوں کی راہیں اس قدر مختلف اور الگ ہیں کہ اگر غلط فہمیوں اور غلط مبحث کو صاف کردیا جائے تو تصادم کا کوئی احتمال و اندیشہ ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ اصل بحث ’’فلسفہ و مذہب‘‘ کے باہمی تعلقات کی توضیح و تصحیح کی ہے، اس کو سمجھنے کے لئے فلسفہ کی ڈھائی ہزار سال کی تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے، دیکھنا یہ ہے کہ واقعیت کے لحاظ سے اس طویل مدت میں فلسفہ کس حد تک مذہب کا حریف رہا ہے؟


فلسفہ کے چار مذاہب:
تاریخ فلسفہ کا دفتر یوں بے پایاں ہے، لیکن اس کا نچوڑ چار مذاہب (اسکول) ہیں۔
(۱) ثنویت یا دوئی۔ (۲) تصوّریت یا روحیت۔ (۳) مادّیت۔ (۴) ارتیابیت۔
اِن میں سے دونوں اوّل الذکر تو براہِ راست یا بالواسطہ مذہب کے مؤید و حامی ہیں، تیسرا معاند ہے اور چوتھا نہ دوست نہ دشمن۔

(۱) ثنویت یا دوئی
ثنویت کا ماحصل یہ ہے کہ کائنات میں دو بالکل مختلف و متضاد چیزیں موجود ہیں، جسم و روح۔ ایک قطعاً بے بس و حرکت مادہ کا ڈھیر ہے، دوسری مجرد اور عقل و شعور کا مصد رہے، عہدِ قدیم کے سب سے بڑے فلسفی و حکیم ارسطوؔ کا مسلک یہی تھا، دورِ جدید کے آغاز تک دنیا کے فلسفہ کا بیشتر حصہ اسی کا پیرو رہا ہے، فلسفۂ جدیدہ کا ابولا آباء ڈیکارٹ بھی ارسطو ہی کا ہم مسلک ہے۔ دیکھا جائے تمام مذاہب کی ظاہری تعلیمات کا بھی یہی خلاصہ ہے؛ بلکہ روح ہی کا عقیدہ مذہب کی جڑ ہے، باقی جزاء و سزاء حشر و نشر وغیرہ اسی کی تعریفات ہیں۔

(۲) تصوّریت یا روحیت
تصوریہ (آئیڈیلیسٹس) کا یہ دعویٰ ہے کہ اصل الاصول ایک ہی شئے ہے اور وہ روح، عقل یا ذہن ہے، باقی تمام عالم جسمانیات، اسی کا تصور، یا کسی نہ کسی طرح سے اسی سے پیدا و مستنبط ہے، مادیات کا مستقل وجود محض ایک قسم کا فریب (الیوژن) ہے، اس مسلک کا پرانا رہبر افلاطونؔ مانا جاتا ہے، جس کی جگہ خالص فلسفہ کی بزم میں ارسطوؔ سے بھی بلند تر ہے اور بہت سے اساطین فلسفہ اسی ایک علم کے نیچے جمع ہوگئے ہیں، اسپنوز، لبنز، برکلے، مختے، شیلنگ، ہیگل، برگن سب کے سُر اسی ایک تان پر آکے ٹوٹتے ہیں۔ مذہب میں صوفیہ اور اربابِ باطن سے ان قائلین تصوریت کے ڈانڈے اس قدر مل جاتے ہیں کہ صرف حال اور قال کا پردہ رہ جاتا ہے۔

(۳) مادّیت
فلسفیانہ مکاتب خیال میں یہی ایک ایسا مسلک ھے جسے مذہب کا صیح معنوں میں حقیقی حریف و مد مقابل قرار دیا جا سکتا ھے۔طبل مادّیت کی یہ صدا ہے کہ بے شک اصل الاصول ایک ہی شئے ہے، لیکن یہ روح نہیں ہے بلکہ مادّہ ہے، عقل و شعور وغیرہ جن کو افعالِ روح خیال کیا جاتا ہے یہ ذرّات مادی ہی کے اجتماع، ترکیب اور تعامل کی نتائج ہیں، یہ مادّہ اور اس کی قوت یا انرجی دونوں ازلی اور غیر مخلوق ہیں، اور اس لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں کہ ایک کا دوسرے سے جدا ہونا ناممکن ہے۔مادّہ ہی کے بندے ہوئے مقررہ طریق عمل اور اصولِ عمل کا نام فطرت (نیچر) اور قوانینِ فطرت (لاز آف نیچر) ہے، ساری کائناتِ ارضی و سماوی اسی فطرت اور مادہ سے پیدا ہے، کسی خارج مستقل الوجود، صاحب الامر، خالق اور خدا کی احتیاج نہیں ہے، ’’فطرت خود بخود خداؤں کی مداخلت کے بغیر سب کچھ کرلیتی ہے‘‘، (لیوکریٹس کا مقولہ) ’’مادہ خالی ہیولیٰ یا محض منفعل ذات نہیں ہے، جیسا کہ فلاسفہ اس کی تصویر کھینچتے ہیں بلکہ وہ مادرِ کائنات ہے جو خود اپنے ہی رحم سے تمام نتائج بر آمد کرتی ہے‘‘۔ (برنو کا مقولہ)
الغرض فلسفہ کے اس مکتب فکر میں عالم کا سر چشمہ ایک بے حس و بے جان مردہ کو مانا جاتا ھے۔اس خیال کی بنیاد آج سے تقریبا ڈھائی تین ہزار سال پشتیر حکیم دیمقراطیس نے رکھی اور اس وقت تک یورپ کے جن لوگوں کو مسلک مادیت پر اصرار ھے وہ دیمقراطیس ہی کے خیالات کی آواز بازگشت ھے۔بلاشبہ فلسفیانہ مکاتب خیال میں یہی ایک ایسا مسلک ھے جسے مذہب کا صیح معنوں میں حقیقی حریف و مد مقابل قرار دیا جا سکتا ھے۔کیونکہ اسی میں خدا کو ہٹا کر اس کی جگہ مادہ کو تخت نشین کرنے کی کوشش(العیاذ باللہ ) کی گی ھے۔اس گروہ کا یہ اعلان ھے کہ مادہ اور قوانین مادہ نے عالم کو پیدایش کے مسلے سے بے نیاز کر دینا،یعنی اب اس کو کسی خالق کی ضرورت نہیں رہی۔
اس نظریۂ مادیت کو الحاد و انکار مذہب کا سرچشمہ بنانے میں سب سے زیادہ حصہ جس کا چیز ہے وہ پچھلی دو صدیوں میں سائنس کے عظیم الشان انکشافات و تحقیقات کے نتائج ہیں، ان میں سے چار ہماری موجودہ بحث کے لئے زیادہ اہم ہیں: (۱) استمرار مادہ و قوّت، (۲) نظریۂ ارتقاء، (۳) کیمیائی موادِ حیات کا علم (۴) افعالِ ذہنی و جسمی کا تعلق۔



4- لا ادریت(اگناسٹزم):
لا ادریت کا خلاصہ اعترافِ لا علمی ہے، یہ اسکول بھی اگرچہ فلسفہ کے دوسرے اسکولوں کی طرح زمانۂ قدیم ہی میں پیدا ہوچکا تھا اور تشکیک یا ارتبابیت (سپٹزم) کے نام سے پکارا جاتا ہے، مگر پرانے زمانہ میں اس کا مفہوم اس قدر مطلق و وسیع تھا کہ خود شک میں بھی شک کیا جاتا تھا، عصرِ جدید میں اس کو ہیومؔ نے زندہ کیا اور کینت نے اس کی بنیاد کو اس قدر مستحکم بنادیا کہ فلسفہ کیا علماء سائنس کو سرتابی کی مجال نہ رہی، لیکن اب مفہوم کی وہ پرانی وسعت اور اطلاق ٍنہیں باقی ہے، بلکہ واقعات و حوادث (فنامنا) ظواہر اشیاء ((اپیرنسز) اور مسائل طبعیہ کو عالم شک و لاعلمی سے نکال لیا گیا ہے، البتہ دوات داعیان (نامنا) حقائق اشیاء (ریلیٹیز) اور ما بعد الطبعیاتی مسائل کے دروازوں کو انسانی عقل و علم کے لئے ہمیشہ کے واسطے مقفل سمجھ لیا گیا ہے۔لا ادریت کے لقب کا موجد ہکسلے ہے،وہ روح اور خدا وغیرہ الہٰیاتی مسائل کی نسبت ایک لا ادری کی کیا پوزیشن ہے، چارلس کنگ سلےؔ کو ایک خط میں لکھتا ہے کہ:
’’میں انسان (روح) کے غیر فانی ہونے کا نہ مدعی ہوں نہ منکر، میرے پاس اس کے یقین کے لئے کوئی دلیل نہیں، لیکن ساتھ ہی دوسری طرف اس کے ابطال کا بھی میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں‘‘۔
ایک اور موقع پر ’’اصول و نتائج‘‘ (میتھڈس ایڈ رزلٹس) میں لکھتا ہے کہ:
’’وجود کی علت اولیٰ کا مسئلہ میرے حقیر قویٰ کی دسترس سے باہر ہے، جتنی لا یعنی ہرزہ سرائیوں کے پڑھنے کا موقع مجھ کو ملا ہے ان میں سب سے بدتر ان فلاسفہ کے دلائل ہوتے ہیں جو خدا کی حقیقت کے بارے میں موشگافی کرتے ہیں، مگر ان فلاسفہ کے مہملات ان سے بھی بڑھ جاتے ہیں جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی خدا نہیں‘‘۔
ایک اور جگہ کہتا ہے:
’’چاہے حوادث و واقعاتِ مادہ کو روح کی اصطلاحات میں بیان کرو اور چاہے حوادثِ روح کو مادہ کی اصطلاحات سے تعبیر کرو، یہ بجائے خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا، ہاں اتنا ہے کہ سائنس کے لئے مادیانہ اصطلاح تعبیر زیادہ موزوں اور قابلِ ترجیح ہے‘‘۔


اوپر کی تفصیل سے یہ واضح ہے کہ صرف ایک سکول مادیت اور کسی حد تک لاادریت ایسا ہے جو مذہب کے مقابلے میں آتاہے۔ ان میں سے مادیت کے دلائل پر ہم مذہب اور سائنس کی بحث میں تفصیل پیش کرچکے آگے تحاریر میں مزید تفصیل بھی آئے گی۔ یہاں بعض غلط فہمیوں سے بچنے کے لئے لاادریت کی حقیقت و مدعا کی توضیح پیش کی جاتی ہے، علمائے سائنس کے اس فلسفیانہ مسلک کا منشاء صرف اس قدر ہے کہ ہماری سائنٹیفک تحقیقات و عقلی استدلالات کا گذر واقعات و ظواہرِ اشیاء سے آگے نہیں، یعنی جس قسم کے استقرائی تجربات و عقلی دلائل و قیاسات سے ہم علوم طبعیہ کے مسائل کو قطعی طور پر ثابت کرسکتے ہیں اور طرح طرح کے انکشافات تک پہنچ سکتے ہیں، ان کے ذریعے سے حقائق اشیاء اور مابعد الطبعیات کے مسائل کو ثابت یا باطل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ان رموز کو بے نقاب کیا جاسکتا ہے۔۔
یہاں اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ جو شے انسان کی عقل و فہم سے خارج ہے وہ اس کی زندگی سے بھی خارج ہے یا انسان فقط انہیں چیزوں کو مانتا اور قبول کرتا ہے، جو سائیٹیفک دلائل سے ثابت ہوچکی ہیں، غیر معقول بات ہوگی، اس پر تفصیل سائنس کی تحاریر میں تحقیقی طریقہ کار کی بحث میں گزر چکی ۔
بہرحال سائنس اور فلسفہ کی حدود متعین کرتے ہوے ہم اس نتیجے تک خود بہ خود پہنچ جاتے ہیں کہ فطرت انسانی کے مطالبات اور یہ سوالات یعنی “ہم اور ہمارے احساسات (عالم) کی ابتدا کیا ھے” خود ہمارا،ہماری قوم ، ہماری جنس،ہماری گزشتہ اور ایندہ نسلوں کا اور اس عالم کا انجام کیا ھے؟یہاں ہم کیوں ہیں؟ ہماری فطری ارزو مثلا بقاے دوام کی خواہش، غیر محدود ہونے کی تمنا زندگی کی مجودہ کش مکش سے نجات پانے کوشش وغیرہ کا لحاظ کرتے ہوے کس دستور العمل کی پابندی ہمیں کرنی چاہیے؟ ۔۔۔ ان سوالات کو علم کے معمولی ذرایع (عقل وحواس) کی رہنمائی میں ہم کسی طرح حل نہیں کر سکتے ۔
جب انسان کی ذہنی طاقت بجاے سمٹنے کے وسیع ہو رہی ھے تو یقینا سوالات کی تڑپ اور بے چینی بھی اسی نسبت سے بڑھتی چلی جاے گی، انسان جب تک حیوان نہیں بلکہ انسان ھے اس کی ذہنی وسعت اور دماغی بلندی باقی ھے وہ مجبور ھے کہ ان سوالات کو پیدا کرے۔ان کے حل کی راہیں ڈھونڈے۔فطرت کے اس زور ہی کا اندازہ کرتے ہوئے مذہبی سوالات کے متعلق ایک فرنچ فلسفی کسکر نے لکھا تھا۔
” مذہب ابدی چیز ھے کیونکہ مذہب جس سوال کا جواب ھے وہ کسی زمانے میں کبھی کہیں معدوم نہیں ہو سکتا
(الکلام)
یہ سوالات نہ فطرت انسانی سے نکل سکتے ہیں نہ علم کے عام ذرایع یعنی عقل و حواس سے ان کو ہم حل کر سکتے ہیں۔فلسفہ اور مذہب میں یہی بنیادی فرق ھے کہ اول الذکر ان سوالات کو عقل و حواس کے زور سے حل کرنا چاہتا ھے اور مذہب بجاے ان معمولی ذرایع کے ایک جدید ذریعے کو سامنے لاتا ہے۔یہ نا ممکن ھے کہ ہم میں پیاس ہو لیکن اس کے بجھانے کے لیے پانی کا سامان نہ کیا گیا ہو۔ان سوالات کی بے چینی جب انسانی فطرت میں پیدا کی گی ھے تو ان کے حل کرنے اور جاننے کی راہ بھی فطری ہونی چاہیے وہ ہمیشہ سے ھے۔علم کے اسی جدید ذریعے کا نام مذہبی زبان میں “وحی” اور “نبوت” ھے۔جب سے دنیا قایم ھے انسانی فطرت کو ان سوالات کا جواب اسی راہ سے ملا۔گو وقتا فوقتا مختلف قرون و ممالک میں فلسفیوں کا گروہ بھی پیدا ہوتا رہا جس نے ان جوابات کے لیے حواس وعقل کی قوتوں کو استعمال کرکے پیش کیا لیکن اکثریت نا اس سے مطمئن ہوئی اور نہ انہوں نے اس طرف کبھی توجہ کی۔ فلسفیوں نے پورا زور لگا لیا کہ نبوت اور وحی کے توسط کے بغیر ان سوالات کے جوابات حاصل کر کے بنی آدم کو مطمئن کر دیا جاےلیکن بجائے سلجھانے کے انہوں نے مسئلے کو مزید الجھا دیا اور انکی اس کوشش سے غلط اور بے فائدہ بحث اور تشکیک اور وساوس ہی انسانیت کو ملے۔

ماخذ
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top